Tag: پینٹنگ

  • کافی کے کپ میں وین گوف کا شاہکار

    کافی کے کپ میں وین گوف کا شاہکار

    آپ نے کافی آرٹ کی بے شمار اقسام دیکھی ہوں گی جو پاکستان سمیت مختلف ممالک میں کی جاتی ہیں، تاہم جنوبی کوریا کے اس فنکار کا کافی آرٹ دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے جو بے حد انوکھا ہے۔

    جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کا رہائشی فنکار لی کنگ بن کافی کے کپ میں معروف مصوروں کے منی ایچر شاہکاروں کی نقل تخلیق کر رہا ہے جو دیکھنے والوں کو دنگ کردیتا ہے۔

    نیدر لینڈز کے معروف مصور وین گوف کی شہرہ آفاق پینٹنگ ’ستاروں بھری رات‘ اور ناروے کے مصور ایڈورڈ منچ کی پینٹنگ ’چیخ‘ کو کافی کے کپ میں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ دیکھنا ایک نہایت ہی شاندار اور منفرد تجربہ ہوسکتا ہے۔

    مصوری کے ان شاہکاروں کو تخلیق کرنے کے لیے لی کنگ برش اور چمچوں سے فوڈ کلرز کے مختلف اسٹروکس استعمال کرتا ہے۔

    صرف 15 منٹ میں تیار کیے جانے والے ایک کافی کے کپ کی قیمت 10 ہزار ون (کورین سکہ) ہے جسے خریدنے کے لیے شائقین کی ایک لمبی قطار موجود ہے۔

    لی کنگ کا کہنا ہے کہ ابتدا میں وہ شوقیہ طور پر اپنی کافی میں کریم اور جھاگ کو مختلف انداز سے ترتیب دیا کرتا تھا۔ بعد ازاں اسے یہ کام اتنا پسند آیا کہ وہ ایک کافی مشین خرید کر گھر لے آیا اور تجارتی بنیادوں پر یہ کام شروع کردیا۔

    مزید پڑھیں: آپ کی پسندیدہ کافی آپ کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

    آرٹ کا شاہکار یہ کافی خریدنے والے افراد لی سے اپنی پسند کے مصوروں کی پینٹنگ بنانے کی بھی فرمائش کرتے ہیں۔

    پینٹنگ کے ساتھ ساتھ لی مختلف کارٹون کرداروں اور مناظر کو بھی کافی پر تخلیق کرتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    جامشورو: مہران یونیورسٹی برائے انجینیئرنگ و ٹیکنالوجی میں شعبہ فنون کے طلبا نے آرٹ کی خوبصورت نمائش کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    مہران یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کے طلبا نے فن پاروں کی سالانہ نمائش میں آرٹ سے اپنی محبت اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    طلبا نے آرٹ کی مختلف جہتوں پر مبنی خوبصورت پوسٹرز اور خطاطی پر مشتمل فن پارے پیش کیے۔

    تخلیقی ذہنیت کے حامل طلبا نے ڈی وی ڈی کورز، لیٹر ہیڈز، مگ، وزیٹنگ کارڈز اور لفافوں پر بھی خوبصورت نقش و نگار تخلیق کر کے انہیں فن پاروں میں بدل دیا۔

    طلبا نے بیسویں صدی کے اوائل میں چلنے والی آرٹ کی دو بڑی تحریکوں ڈاڈا ازم اور سریئل ازم کو اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔

    یہ دنوں تحریکیں سنہ 1920 میں سامنے آئی تھیں جب مصوروں نے حقیقی زندگی کی ناانصافیوں، جنگوں اور تصادم کو نظر انداز کر کے تصوراتی فن تخلیق کرنا شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: سریئل ازم کے زیر اثر آرٹ

    ان تحریکوں کے زیر اثر وجود پانے والے آرٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بالکل ماورائی اور عقل سے بالاتر فنی اظہار تھا جس میں تخیل اور لاشعور میں جنم لینے والے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

    طلبا اور اساتذہ کا گروپ

    مہران یونیورسٹی کی اس نمائش کا سرکاری حکام نے بھی دورہ کیا اور طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا کا سب سے بڑا میورل

    دنیا کا سب سے بڑا میورل

    برازیل: جنوبی امریکی ملک برازیل میں ایک فنکار نے سڑک پر دنیا کا سب سے بڑا میورل (قد آدم تصویر) تخلیق کر ڈالا۔

    ایڈارڈو کوبرا نامی یہ فنکار تاحال اپنے شاہکار پر کام کرہا ہے، تاہم تکمیل سے قبل ہی اس کا بنایا ہوا میورل دنیا کے سب سے بڑے میورل کا اعزاز اپنے نام کر چکا ہے۔

    کوبرا نے اس سے قبل بھی دنیا کی سب سے بڑی اسپرے کے ذریعے تخلیق کی گئی پینٹنگ بنائی تھی جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا جاچکا ہے۔

    اسپرے پینٹ سے بنایا گیا یہ فن پارہ ریو ڈی جنیرو میں 61 ہزار 354 اسکوائر فٹ پر پھیلا ہوا ہے۔

    اپنے موجودہ میورل میں کوبرا نے مزدوروں اور دریا کو دکھایا ہے جس میں مزدور کافی کے کوکوا بیج کشتیوں پر منتقل کر رہے ہیں۔

    اس میورل کا مقصد ان مزدوروں اور محنت کشوں کی عظمت کو اجاگر کرنا ہے۔

    دنیا کے سب سے بڑے اس میورل کو بنانے میں 4 ہزار اسپرے کی بوتلیں، اور 300 گیلن کا پینٹ استعمال ہوا ہے۔

    فن اور فنکاروں سے متعلق مزید دلچسپ مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    آج کل کی مصروف زندگی میں، جب ہر شخص خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہے، اور اپنے ساتھ موجود افراد سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہے، مختلف ذہنی ونفسیاتی مسائل عام ہوگئے ہیں جن میں ڈپریشن اور اینگزائٹی سرفہرست ہیں۔

    اینگزائٹی یا بے چینی دراصل ایک کیفیت کا نام ہے جو گھبراہٹ، بہت زیادہ خوف اور ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے۔ ان تمام مسائل کو اینگزائٹی ڈس آرڈر کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک عام ذہنی مرض ہے اور دنیا بھر میں ہر 100 میں سے 4 افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔

    صرف امریکا میں 4 کروڑ بالغ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

    اینگزائٹی کے مرض میں مبتلا افراد کام کی طرف توجہ نہیں دے پاتے اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔

    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اینگزائٹی کو کم کرنے کا حل یہ ہے کہ آپ ایسے کام کریں جس سے آپ کو خوشی اور طمانیت کا احساس ہو۔

    اس سلسلے میں یہ عادات اینگزائٹی کو ختم یا کم کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

    سوشل میڈیا کو ختم کریں

    social-media

    زیادہ تر ذہنی و نفسیاتی مسائل کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم سوشل میڈیا کا استعمال کم کرنا ہے۔

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹا گرام کا حد سے زیادہ استعمال آپ کو تنہا اور غیر مطمئن بنا دیتا ہے۔

    بے چینی یا ڈپریشن کا شکار ہونے کی صورت میں سب سے پہلے سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کو کم سے کم کریں۔ یہ عادت دراصل آپ کی لاعلمی میں آپ میں مختلف نفسیاتی و دماغی پیچیدگیوں کو جنم دیتی ہے۔

    تخلیقی کام کریں

    colours

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے چینی سے چھٹکارہ پانے کے لیے کسی تخلیقی کام سے مدد لیں اور اس کے لیے سب سے بہترین اور آسان حل تصویر کشی کرنا یا لکھنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق رنگوں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف تصاویر بنانا آپ کے ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے اور آپ پرسکون ہوجاتے ہیں۔ رنگ دراصل ہمارے اندر منفی جذبات کے بہاؤ کو کم کرتے ہیں اور ہمارے اندر خوش کن احساسات جگاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: رنگوں کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی

    اسی طرح اگر آپ اپنے ذہن میں آنے والے ہر قسم کے خیالات کو لکھ لیں گے تب بھی آپ کا ذہن ہلکا پھلکا ہوجائے گا اور آپ خود کو خاصی حد تک مطمئن محسوس کریں گے۔

    گھر سے باہر وقت گزاریں

    nature

    گھر سے باہر وقت گزارنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پرہجوم سڑکوں پر چہل قدمی کریں۔ یہ عمل آپ کی بے چینی اور ذہنی دباؤ میں اضافہ کردے گا۔

    اس کے برعکس کسی پرسکون جگہ، کھلی ہوا میں یا فطرت کے قریب وقت گزاریں۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    کھلی ہوا میں، سمندر کے قریب، ہلکی دھوپ میں، اور جنگل یا درختوں کے درمیان گزارا گیا وقت فوری طور پر آپ کے اندر موجود مایوسانہ اور منفی جذبات کو ختم کردے گا اور آپ خود میں ایک نئی توانائی محسوس کریں گے۔

    دلچسپ ٹی وی پروگرام یا کتاب

    tv

    بے چینی کو کم کرنے کے لیے کوئی دلچسپ ٹی وی شو یا دلچسپ کتاب بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ ٹی وی پروگرام یا کتاب بوجھل اور دقیق نہ ہو بلکہ ہلکا پھلکا یا ترجیحاً مزاحیہ ہو۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ ہنسنے کے فوائد جانتے ہیں؟

    مزاحیہ پروگرام دیکھنے یا پڑھنے کے دوران قہقہہ لگانے اور ہنسنے سے آپ کا ذہنی دباؤ خاصا کم ہوجائے گا اور آپ خود کو پرسکون محسوس کریں گے۔

    ورزش کریں

    exercise

    ورزش نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی طور پر بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ دماغ کو پرسکون بنانے والی ورزشیں جیسے مراقبہ یا یوگا تو اینگزائٹی کے خاتمے کے لیے فائدہ مند ہیں ہی، ساتھ ساتھ جسمانی ورزشیں بھی آپ کے دماغ کو پرسکون بنانے میں مدد دیں گی۔

    مزید پڑھیں: ورزش کرنے کے چند دلچسپ طریقے

    جسمانی ورزش آپ کو جسمانی طور پر تھکا دے گی جس کے بعد آپ کو نیند کی ضرورت ہوگی اور یوں آپ کا دماغ بھی پرسکون ہوگا۔

  • کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    کافی سے بنی خوبصورت تصاویر

    ایک مصور و فنکار کو ہر شے میں کچھ تخلیقی نظر آتا ہے۔ یہ وہ نظر ہوتی ہے جو کسی عام انسان کو میسر نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ فنکار اپنے فن کی انوکھی اور منفرد جہتوں کی بدولت دنیا سے جانے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔

    امریکا سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ ڈیانا بھی ایسی ہی فنکار ہے جس نے کافی سے منفرد آرٹ تخلیق کیا ہے۔

    ڈیانا کے دو ہی شوق ہیں، کافی اور موسیقی، اور اپنے ان دونوں مشغلوں کی تکمیل نے اسے ایک منفرد فنکار بھی بنادیا۔ وہ کافی سے اپنے پسندیدہ موسیقاروں کی تصویر کشی کرتی ہے۔

    اس منفرد آرٹ کے لیے ڈیانا عموماً بچی ہوئی کافی استعمال کرتی ہے۔ بعض اوقات وہ ان کے ساتھ واٹر کلرز کی آمیزش بھی کرتی ہے۔

    ڈیانا نے آرٹ کی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی، تاہم اس کے شوق، مسلسل محنت اور لگن نے اسے اپنی نوعیت کا منفرد مصور بنا دیا ہے۔

    آپ بھی ڈیانا کی بنائی ہوئی تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔

  • مونا لیزا کا ثقافتی ارتقا

    مونا لیزا کا ثقافتی ارتقا

    کراچی: تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیاں جیسے مختلف کھیلوں، تقاریر، مباحثوں اور سائنس و فنون کی نمائشوں کا انعقاد طلبا کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے اظہار اور ان کو مہمیز کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    یہی وہ وقت اور مقام ہوتا ہے جہاں سے طلبا، ان کے والدین اور اساتذہ بچوں میں چھپی صلاحیتوں سے واقف ہوتے ہیں اور انہیں آئندہ زندگی کے لیے شعبہ کا انتخاب کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

    کراچی کے خاتون پاکستان گورنمنٹ اسکول میں بھی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبا نے مختلف فنی و سائنسی فن پاروں کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    1

    نمائش میں شہرہ آفاق مونا لیزا کی تصویر کشی نے سب کی توجہ سمیٹ لی جس میں مونا لیزا کو مختلف ثقافتوں کے لباس میں ملبوس دکھایا گیا۔

    5

    9

    طلبا نے قدیم مصر میں پہنے جانے والے زیورات کی طرز پر خود زیورات بنائے اور انہیں نمائش میں پیش کیا۔

    2

    نمائش میں مختلف ماحولیاتی مسائل جیسے آلودگی اور پانی کی کمی وغیرہ کو بھی مختلف پروجیکٹس کے ذریعہ پیش کیا گیا۔

    7

    نمائش میں طلبا کے والدین، دیگر اسکولوں کے طلبا اور معززین شہر نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    8

    3

    شرکا نے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے طبعی رجحان کو دیکھتے ہوئے اسی شعبے میں ان کی مزید تعلیم و تربیت انہیں زندگی میں کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

  • مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

    آپ نے مغل بادشاہوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا۔ ان کے مزاج، ان کی عادات، ان کے طرز حکمرانی اور طرز زندگی کے بارے میں ہزاروں کی تعداد میں دستاویز موجود ہیں جو ان کی زندگی کے ایک پہلو پہلو کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔

    لیکن آج ہم جن مغل بادشاہوں کا آپ سے تعارف کروانے جارہے ہیں، وہ آپ کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے۔ یا یوں کہہ لیجیئے، بادشاہ تو وہی ہوں گے جن کے بارے میں ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں، لیکن جس انداز میں آپ انہیں دیکھیں گے وہ بہت انوکھا اور اچھنبے میں ڈال دینے والا ہوگا۔

    کیا آپ نے کبھی کسی مغل بادشاہ کو شاہی لباس میں، تمام سازو سامان اور زیورات سے آراستہ سائیکل چلاتے سنا ہے؟ یا آپ نے سنا ہے کہ مغل بادشاہ پتنگ بازی کر رہے ہوں، لیکن ان کے ہاتھ میں موجود ڈور کے دوسرے سرے پر پتنگ کے بجائے کوئی زندہ جیتی جاگتی مچھلی موجود ہو جو ہوا میں اڑ رہی ہو؟

    یہ سب سننے میں تخیلاتی اور تصوراتی لگے گا، اور اگر یہ سب کسی تصویر کی صورت آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو آپ کو بھی اسی تصوراتی دنیا میں کھینچ کر لے جائے گا۔

    لیکن ذرا رکیے، اس تصوراتی دنیا میں جانے سے پہلے اسے تخلیق کرنے والے سے ملیے۔

    اپنی رنگ برنگی تصوراتی دنیا، اس میں موجود بادشاہوں، ملکاؤں، پھلوں سے لدے درخت اور سبزے کو کینوس پر پیش کرنے والے یہ فنکار محمد عاطف خان ہیں۔

    ماضی کا قصہ بن جانے والے مغل دور کی، عصر حاضر کی ایجادات و خیالات کے ساتھ آمیزش کرنے والے عاطف خان کا خیال ہے کہ ان کے یہ فن پارے اس نظریے کی نفی کرتی ہیں کہ نئے دور سے مطابقت کرنے کے لیے پرانی اشیا کو ختم کر دیا جائے۔

    یہی نہیں بلکہ یہ اس بات کا بھی واضح ثبوت ہیں کہ دونوں وقت نہ صرف ایک ساتھ پا بہ سفر ہو سکتے ہیں، بلکہ اگر انہیں خوبصورتی سے برتا جائے تو یہ بے ڈھب بھی معلوم نہیں ہوں گے۔

    تخیلاتی دنیا میں رہنے والا مصور

    صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیدا ہونے والے عاطف خان نے پاکستان کے مشہور زمانہ نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی۔ وہ اب تک پاکستان کے مختلف شہروں اور برطانیہ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، اردن، متحدہ عرب امارات اور بھارت میں اپنی مصوری کی کامیاب نمائشیں منعقد کر چکے ہیں۔

    عاطف خان اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ایش برگ برسری ایکسچینج پروگرام میں بھی منتخب کیے گئے جبکہ اردن، ویلز، لندن اور گلاسکو میں آرٹ کے مختلف پروگرامز میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔

    سنہ 2007 میں انہیں کامن ویلتھ آرٹس اینڈ کرافٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فی الحال وہ اپنی مادر علمی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

    فن و مصوری کے میدان میں عاطف خان چینی فنکار آئی وی وی اور برطانوی فنکار انیش کپور سے بے حد متاثر ہیں۔ پاکستانی فنکاروں میں انہیں عمران قریشی کا کام پسند ہے۔

    مغل دور اور تصاویر کی ری سائیکلنگ

    عاطف خان کہتے ہیں، ’مغل دور (یا یوں کہہ لیجیئے کہ کسی بھی قدیم دور) کو اپنی مصوری میں پیش کرنے سے میرا کینوس وقت کی قید سے ماورا ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھنے والوں کو بھی زمان و مکان کی قید سے آزاد کر کے ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے‘۔

    وہ مانتے ہیں کہ ان فن پاروں کو دیکھنے والوں کا ایک تصوراتی دنیا میں قدم رکھنا لازمی ہے، ’کیونکہ اگر وہ کسی ٹائم مشین کے ذریعے مغل دور میں پہنچ بھی گئے، تب بھی وہ مغلوں کو یہ سب کرتے نہیں دیکھ سکتے جو ان تصاویر میں دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ درحقیقت اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں‘۔

    خان کہتے ہیں کہ یہ مناظر تصوراتی ہونے کے ساتھ ان میں موجود کردار بھی فرضی ہیں۔ ’گو یہ پرانے دور کے حقیقی بادشاہوں سے ماخوذ تو ضرور ہیں، مگر فرضی ہیں‘۔

    ان کی تخلیق کردہ تصاویر میں صرف مغل بادشاہ ہی نہیں، بلکہ ملکہ برطانیہ الزبتھ کا عکس بھی ملتا ہے جبکہ ایک اور جگہ ایک ملکہ میں آپ ملکہ نور جہاں سے مشابہت دیکھ سکتے ہیں۔

    عاطف خان اپنے تخلیق کردہ فن پاروں کو مختلف تصاویر کی ’ری سائیکلنگ‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ ہر فن پارے میں وہ مختلف تصاویر کے مختلف پہلوؤں کو شامل کر لیتے ہیں۔

    انہوں نے مغل دور کی وہ تصاویر جو کسی اور نے بنائی تھیں، پاکستانی ٹرک آرٹ، یہاں تک کہ کتابوں، پوسٹرز اور کرنسی نوٹوں تک پر چھپے نقوش کی اپنی تصاویر میں آمیزش کردی۔ اب خان کے مطابق یہ فن پارے نئے سرے سے تخلیق ہو کر نئے مطالب وا کرتے ہیں۔

    امریکا کی ایک آرٹ کی نقاد لیزا پول مین نے اپنے ایک مضمون میں عاطف خان کے فن کے بارے میں لکھا، ’برصغیر کے مغل بادشاہوں کی رنگ برنگی تصویر کشی فنکار کے دل کی رنگین دنیا کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کا فن ماضی کے کرداروں سے ابھرا ہے‘۔

    لاشعور کی رنگین دنیا

    خان کی تخلیق کردہ دنیا انوکھی، غیر معمولی یا کسی حد تک عجیب و غریب اور منفرد تو ضرور ہے مگر جمالیاتی اعتبار سے نہایت خوبصورت ہے۔

    وہ ایک تخیلاتی شہر میں رہتے ہیں جو مغلوں کے دور جیسا ہے اور نہایت سر سبز ہے۔ ان کے فن پاروں میں گھنے جنگلات، سر سبز باغات، رنگ برنگی بھول بھلیاں، خوشنما پرندے، رنگین مچھلیاں اور خوبصورت بادل نظر آتے ہیں۔

    دراصل خان کا یہ شہر اس تحریک سے ابھرا ہے جو ان کے لاشعور نے ان کی قوت تخیل کو دی۔ بعض غیر ملکی ناقدین فن نے ان کے آرٹ کو سریئل ازم آرٹ قرار دیا۔ آرٹ کی یہ قسم 1920 کی اوائل میں اس وقت سامنے آئی جب فن و ادب میں لاشعور کو شعور میں لا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تحریک چلی۔

    اس تحریک کے تحت جو آرٹ سامنے آیا اس میں زیادہ تر تحیر العقل (عموماً لاشعور کی پیدا کردہ) دو متضاد چیزوں کو ملا کر پیش کیا گیا۔

    لاشعور پر کام کرنے والی ایک امریکی پروفیسر ڈاکٹر میگی این بوورز کہتی ہیں، ’سریئل ازم اور جادو یا جادوئی حقیقت دو مختلف چیزیں ہیں۔ سریئل ازم کا مادی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق لاشعور، تصور اور تخیل سے ہے اور یہ انسانی نفسیات اور کسی انسان کے ’لاشعور کی زندگی‘ کو بیان کرتی ہے۔

    گویا عاطف خان کے لاشعور میں بسا شہر، ماضی اور حال کے تضاد کے ساتھ ایک دنگ کردینے والی صورت میں سامنے آتا ہے۔

    آئیے ہم بھی ان کے ساتھ ان کے لاشعور کے شہر میں قدم رکھتے ہیں۔

    لینڈ اسکیپ آف دا ہارٹ نامی پینٹنگ سیریز میں ایک بادشاہ اپنے شاہی لباس میں ملبوس دل پر سوار ہو کر کسی شے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جس تالاب میں اس بادشاہ کی کشتی (دل) تیر رہی ہے وہ دراصل خون ہے۔

    ایک اورفن پارے ڈیپ ڈریم میں شیش محل کی طرز پر ایک باغ دکھایا گیا ہے جس میں بادشاہ تیر اندازی کر رہا ہے۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ شیش محل کی مخصوص آئینہ کاری کے سبب باشاہ کے تیر کی زد میں خود اس کا اپنا ہی عکس ہے۔

    منفرد فنکار کی ایک اور پینٹنگ میں ایک پل پر ایک رقاصہ محو رقص ہے اور ذرا سے فاصلے پر بادشاہ ایک جدید کیمرہ ہاتھ میں لیے اس کی تصویر کھینچ رہا ہے۔ حال اور ماضی کے تضاد کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی۔۔

    ایک اور تصویر میں مغل بادشاہ پا بہ سفر ہے۔ اس تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ بادشاہ کا پورا سفر اسی ایک فن پارے میں بیان ہوجاتا ہے۔

    اس کا پیدل، سائیکل پر یا دل نما کشتی پر سفر کرنا، جبکہ اسی فن پارے میں آس پاس جنگلات، پہاڑ، ان میں موجود جانور، پانی اور آبی حیات، حتیٰ کہ آسمان پر اڑتے پرندے بھی نہایت ترتیب اور خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔

    ایک اور خوبصورت فن پارے میں مغل بادشاہ شکار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی فن پارے میں آپ کو جدید لاہور کا پورا نقشہ نظر آتا ہے جہاں پر مغل بادشاہ اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر محو سفر ہے۔

    کئی فن پاروں میں بادشاہ مچھلی پر سواری کرتا ہوا، یا اسے پتنگ بنا کر ہوا میں اڑاتا ہوا دکھائی دے گا۔

    جن پینٹنگز میں عاطف خان نے تاریخی عمارتوں کو پیش کیا ہے یا علامتی طور پر مغلوں سے تعلق رکھنے والے باغات اور محل دکھائے ہیں، ان فن پاروں میں انہوں نے مغل دور کے فن تعمیر اور روایتی بصری آرٹ کو یکجا کردیا ہے۔

    ان کے فن پاروں کی یہ خاصیت بھی ہے کہ وہ اپنے اندر بہت وسعت رکھتے ہیں اور ایک فن پارہ ایک خیال کے مختلف مراحل، اور کئی جہتوں کو بیان کرتا ہے۔

    شہر در شہر

    صرف ایک یہ مغل تصویر کشی ہی نہیں، عاطف خان کی انفرادیت کا ایک اور ثبوت ان کا وہ شہر ہے جو لاہور کے بیچوں بیچ کبوتروں کے لیے قائم ہے۔

    لاہور کے استنبول چوک پر نصب یہ چھوٹا سا شہر بلاشبہ کبوتروں کا شہر کہلایا جاسکتا ہے، اگر کبوتر اسے اپنا گھر سمجھ کر قبول کریں۔

    سنہ 2015 میں کمشنر لاہور، لاہور بنالے فاؤنڈیشن، اور پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی لاہور کی جانب سے اس چوک کی آرائش کے لیے تخلیقی آئیڈیاز طلب کیے گئے تھے۔ عاطف خان نے اس میں اپنا آئیڈیا ’شہر کے اندر شہر‘ بھجوایا جسے پسندیدگی کا درجہ دیتے ہوئے قبول کرلیا گیا، اور عاطف خان نے اس پر کام شروع کردیا۔

    لاہور کا یہ استنبول چوک قدیم ثقافت و تاریخ کا مظہر ہے۔ اس چوک کے اطراف میں لاہور میوزیم، نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنگٹن مارکیٹ، ٹاؤن ہال، جبکہ پاکستانی فن و ادب پر اہم اثرات مرتب کرنے والے شاعروں، مفکروں اور مصنفوں کی مادر علمی گورنمنٹ کالج واقع ہے۔

    اس چوک پر جنگوں کی 3 یادگاریں بھی نصب ہیں۔

    اس چوک کی ایک اور خاص بات یہاں کبوتروں کے وہ غول ہیں جو روزانہ دانہ پانی چگنے کے لیے یہاں اترتے ہیں۔ بقول عاطف خان، یہ لاہوریوں کا اظہار محبت ہے جو وہ کبوتروں کے لیے دانہ اور پانی رکھ کر کرتے ہیں۔

    عاطف خان کا کہنا ہے کہ جب انہیں اس چوک کی سجاوٹ کے بارے میں علم ہوا تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ تضاد آئے، جنگوں کی یادگاریں اور امن کی علامت کبوتر، تاریخی اور جدید عمارتیں۔ گویا یہ چوک حال اور ماضی، اور جنگ اور امن کا دوراہا ہے۔

    چنانچہ ان کبوتروں کے لیے ہی انہوں نے ایک علامتی شہر بنانا شروع کردیا۔

    جب ان سے کمشنر لاہور نے پوچھا، ’کیا آپ کو لگتا ہے کبوتر ان گھروں کو پسند کر کے یہاں رہیں گے؟‘ تو عاطف خان کا جواب تھا، ’ہرگز نہیں! اگر میں ان کبوتروں کی جگہ ہوتا تو شہر سے دور اپنے پرسکون گھونسلوں کو چھوڑ کر کبھی شہر کے بیچوں بیچ، دھویں، آلودگی اور ٹریفک کے شور میں رہنا پسند نہ کرتا‘۔

    نیشنل کالج آف آرٹ میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے عاطف خان کہتے ہیں کہ وہ اپنے طالب علموں سے بھی سیکھتے رہتے ہیں۔ خان فن مصوری میں نئی آنے والی تکنیکوں اور آلات کے استعمال کو برا نہیں سمجھتے۔ بقول ان کے، ان جدید تکنیکوں کے ذریعہ اپنے فن میں نئی جہت پیدا کی جاسکتی ہے۔

    نئے مصوروں کے لیے ان کا پیغام ہے، ’نئے مصوروں کو صبر اور محنت سے کام لینا ہوگا۔ کامیابی کا راستہ کبھی مختصر نہیں ہوتا۔ کامیابی کی منزل پر پہنچنے کے لیے سخت محنت کا طویل راستہ اختیار کرنا ہی پڑتا ہے‘۔

  • زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    زندگی کی نئی معنویت کو پیش کرتے 11 فنکار

    کراچی: روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک منفرد نمائش مصوری منعقد کی جارہی ہے جس میں 11 فنکاروں نے اپنے فن پارے پیش کیے ہیں۔

    زندگی اور اس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی اس نمائش میں اپنے فن پارے پیش کرنے والے تخلیق کار نو آموز بھی ہیں، اور تجربہ کار بھی، جو اپنے اندر کے احساسات و خیالات کو پیش کر رہے ہیں۔

    ان فنکاروں نے ایسی ہی ایک نمائش سنہ 2012 میں بھی پیش کی تھی۔ اب یہ فنکار اپنی سوچ کے ارتقا کو پیش کرنے کے لیے ایک بار پھر سے اکٹھے ہوئے ہیں۔

    ان فنکاروں میں عبداللہ قمر، اسد حسین، فہیم راؤ، فراز متین، نبیل مجید، محمد اسمعٰیل، نعمان صدیقی، رابعہ شعیب، راحیلہ ابڑو، سعدیہ جمال اور ایس ایم رضا شامل ہیں۔

    آرٹسٹ ۔ نعمان صدیقی
    آرٹسٹ ۔ محمد اسمعٰیل
    آرٹسٹ ۔ ایس ایم رضا

    ایس ایم رضا اپنی تخلیقات کے بارے میں بتاتے ہیں،  ’ہم جو دیکھتے ہیں وہ ایک فریب نظر ہوتا ہے۔ اس شے کے بارے میں جو سوچتے ہیں وہ دھوکہ ہوتا ہے۔ دراصل اس شے کی حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے اور یہی میں نے اپنے فن میں پیش کیا ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ فہیم راؤ
    آرٹسٹ ۔ سعدیہ جمال

    سعدیہ جمال اپنے فن پارے کے بارے میں کہتی ہیں، ’ہمارے ارد گرد بہت سی اشیا موجود ہیں جنہیں ہم سرسری سی نظر سے دیکھ کر گزر جاتے ہیں۔ کبھی ان کی معنویت پر غور نہیں کرتے۔ ہر خوبصورت شے کے اندر بدصورتی اور ہر بدصورت شے کے اندر کچھ خوبصورتی چھپی ہوتی ہے جو نظر انداز ہوجاتی ہے۔ میں نے اسی معنویت و گہرائی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے‘۔

    آرٹسٹ ۔ عبداللہ قمر
    آرٹسٹ ۔ راحیلہ ابڑو

    راحیلہ ابڑو کا فن پارہ دراصل پانی ہے جو فرش پر پینٹ کیا گیا ہے۔ وہ اپنے اس فن پارے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرتی ہیں، کہ پانی زندگی کے لیے ایک لازمی جزو ہے اور پانی کے بغیر زندگی کا وجود نہیں۔

    آرٹسٹ ۔ اسد حسین
    آرٹسٹ ۔ نبیل مجید

    نبیل مجید کہتے ہیں، ’ہم نے یہ تو سنا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن کبھی ہم نے اس جملے کی معنویت پر غور نہیں کیا۔ کبھی ہم نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ وہ ’ہاتھ‘ کس شکل میں اور کس کس طرح مرد کو آگے بڑھنے کی طاقت فراہم کرتا ہے‘۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں یہ نمائش 7 فروری تک جاری رہے گی۔

  • لوگوں کے خود ساختہ اصول کس کے لیے؟

    لوگوں کے خود ساختہ اصول کس کے لیے؟

    لاہور: خواتین کے لیے گھر سے باہر نکلنا ان گھروں میں اب بھی ایک معیوب بات سمجھی جاتی ہے جو خود کو جدید دور سے ہم آہنگ نہیں کر پائے۔ وہاں خواتین کے لیے خود ساختہ قسم کے اصول تشکیل دیے گئے ہیں جو ان کو باہر نکلتے ہوئے اپنانے ضروری ہیں۔

    اسی کشمکش کا اظہار لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک آرٹسٹ شہزل ملک اپنی پینٹنگز میں کرتی ہیں۔

    وہ بتاتی ہیں، ’بعض لوگوں نے خواتین کے لباس اور حلیے کے لیے اپنے ہی اصول طے کر رکھے ہیں اور وہ چاہتے ہیں ہر عورت ان کے بنائے گئے اصولوں کی پاسداری کرے‘۔

    وہ کہتی ہیں، ’ایسے لوگوں کو خواتین کے حلیے سے بہت پریشانی ہوتی ہے۔ وہ اس حلیے اور کپڑوں پر، جو ان کے ’معیار‘ پر پورا نہ اتریں، آوازیں کستے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خواتین کے ہنسنے، باتیں کرنے پر بھی اعتراض ہوتا ہے اور وہ انہیں گھور کر دیکھتے ہیں‘۔

    شہزل کے مطابق اکثر خواتین کا واسطہ اس قسم کے لوگوں سے پڑتا ہے جن میں وہ خود بھی شامل ہیں۔

    اس صورتحال نے شہزل کو مہمیز کیا کہ وہ اس سب کو آرٹ کی صورت پیش کریں۔

    انہوں نے پہلے تو ایسی پینٹنگز بنائیں جن میں انہوں نے طنزیہ طور پر خواتین کی اس شخصیت کو پیش کیا جو خود ساختہ طور پر معاشرے میں آئیڈیل سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے باغیانہ خیالات سے معاشرے کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ عورت کو گھر میں رکھی ہوئی کوئی شے سمجھنے کے بجائے انسان سمجھا جائے۔

    lahore-2

    اس تصویر میں وہ ان ’اصولوں‘ پر روشنی ڈالتی ہیں جن پر باہر نکلنے سے پہلے ایک عورت کو عمل کرنا ضروری ہے۔

    یہاں وہ اس خوف سے آگاہی دیتی نظر آتی ہیں جو خواتین کو باہر نکلنے سے پہلے لاحق ہوجاتا ہے۔

    وادی ہنزہ میں اپنے سفر کے دوران وہ کہتی ہیں کہ ہنزہ کی خواتین کو جو تحفظ اور خود مختاری حاصل ہے وہ پورے پاکستان میں کہیں بھی نہیں۔

    Spending a month in the unreal Hunza Valley changed what I drew- my imagery became much more about nature and sunsets, beauty and abundance. And no wonder- I later realised that village life in Hunza gave me the opportunity to see a kind of equality between genders I hadn’t experienced before in Pakistan. The Hunzai women have to be seen to be believed! They are an integral part of the areas’s community service, they work as masons and woodworkers, they farm the land and care for the livestock, they cook and run restaurants, raise wonderfully courteous children and keep the crafts of the area alive. These women are magic. (The men, for their part, largely realise who runs their world: Girls) #pakistan #illustration #feminism #feministart

    A photo posted by shehzil malik (@shehzilm) on

    شہزل ملک اپنے آرٹ کے ذریعے تاریخ کے در بھی وا کرتی نظر آتی ہیں۔

    اس تصویر میں وہ بتاتی ہیں کہ لاہور آج سے کئی عشروں قبل کے مغل بادشاہوں اور شہزادوں کی تاریخ اور ان کے اقتدار کا گواہ ہے۔ اگر اس تاریخ اور موجودہ دور کے منظر کو یکجا کردیا جائے تو کچھ ایسا منظر نظر آئے گا۔

    ایک اور تصویر میں وہ مغل بادشاہوں کو جدید دور کے آلات موسیقی سے لیس دکھاتی ہیں۔

    lahore-1

    شہزل ملک نے لاہور کی دیواروں پر بھی اپنے آرٹ کو پیش کیا ہے جس میں وہ شدت پسندی کے خلاف ایک مضبوط آواز کے طور پر نظر آتی ہیں۔

    lahore-4

  • وین گوف کے چوری شدہ فن پارے برآمد

    وین گوف کے چوری شدہ فن پارے برآمد

    روم: اطالوی پولیس نے مشہور مصور وین گوف کے 2 چوری شدہ مشہور فن پارے برآمد کرلیے ہیں۔ یہ فن پارے 2002 میں ایمسٹر ڈیم کے ایک میوزیم سے چرائے گئے تھے۔

    اطالوی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ دو پینٹنگز ’نیپلز مافیا‘ نامی گروہ سے برآمد کی گئی ہیں۔ اس گروہ کے علاوہ ایک اور گروہ سے بھی لاکھوں یوروز مالیت کے کئی نوادرات برآمد کیے گئے۔

    van-1
    برآمد شدہ فن پارہ ۔ سمندر کا نظارہ

    ان کا کہنا ہے کہ یہ برآمدگی اٹلی کے منظم مجرمانہ گروہوں سے طویل تفتیش کے بعد عمل میں لائی گئی۔

    واضح رہے کہ ان فن پاروں کی چوری نے ایمسٹر ڈیم کے مشہور میوزیم کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان اٹھادیے تھے۔

    میوزیم کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں علم نہیں کہ ان کی ملکیت یہ فن پارے انہیں کب واپس ملیں گے تاہم انہیں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ برآمد شدہ فن پارے اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

    van-2
    برآمد شدہ فن پارہ ۔ چرچ ان اویرس

    ونسنٹ وین گوف نیدر لینڈز سے تعلق رکھنے والا انیسویں صدی کا مشہور مصور تھا جس کے فن مصوری نے اس دور کی مصوری پر اہم اثرات مرتب کیے۔ وہ مشہور مصور پکاسو سے متاثر تھا۔