Tag: پینے کا پانی

  • ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہونے کا انکشاف، ویڈیو رپورٹ

    ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہونے کا انکشاف، ویڈیو رپورٹ

    یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 53 ہزار چھوٹے بچے پانی کی بیماریوں سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ پینے کے صاف پانی میں آلودگی کی وجہ سے کئی طرح کی بیماریاں شامل ہیں جن میں معدے، جگر، گردے کی بیماریاں سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں 80 فی صد عوام مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں۔

    بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کے مطابق ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہے، جب کہ 70 سے 80 فی صد پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے، پانی میں مضر صحت اجزا میں سرفہرست سیوریج کا پانی اور کارخانوں سے کیمیکل کا اخراج اور کھیتوں سے کیمیائی کھاد شدہ پانی کا اخراج ہے، جو پینے کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ پانی کو مضر صحت بنانے میں دیگر عوامل میں گرین ہاؤس گیسیں، پانی میں شامل مختلف بیماریاں اور حفظان صحت کی کمی کا شمار کیا جاتا ہے۔

    آلودہ پانی سے بیماریاں


    ملک بھر کے 24 اضلاع میں موجود 2 ہزار 807 دیہات سے جمع کیے جانے والے پانی کے نمونوں میں سے 69 سے 82 فی صد نمونے آلودہ اور مضر صحت پائے گئے۔ ملک بھر میں گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ 112 ارب روپے علاج معالجہ پر خرچ کیا جاتا ہے، پاکستان کے صرف 15 فی صد شہری اور 18 فی صد دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔

    پی سی آر ڈبلیو کے مطابق پانی میں موجود آلودگی اور مضر صحت دھاتیں پیچش، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ وغیرہ جیسی بیماریوں کی اہم ترین وجہ ہیں۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ پاکستان میں تا حال کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی مہیا کرنے کی اتھارٹی رکھتا ہو۔

    نمونوں کی جانچ


    ’’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘‘ کی نگرانی میں ملک بھر کے 24 اضلاع اور 2807 دیہات سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونوں میں انکشاف ہوا ہے کہ 62 سے 82 فیصد پینے کا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ پانی کے اکثر نمونے بیکٹیریا، آرسینک (سنکھیا)، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں سے آلودہ تھے۔

    پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فی صد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فی صد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ یہی پانی ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے جو انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے لوگ ہیضہ، دست اور کئی دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر لوگوں کو ایسی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

    پانی سے متعلق ورلڈ بینک کیا کہتا ہے؟


    ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ پانی کی کمی والے ممالک میں شامل ہے، جہاں صرف 6 دیگر ممالک اس سے بھی زیادہ شدید پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ اپنی بڑی آبادی کی وجہ سے – جو کہ دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے – پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی نسبتاً کم ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1951 میں 5,260 مکعب میٹر تھی جو حالیہ برسوں میں کم ہو کر تقریباً 1,000 مکعب میٹر رہ گئی ہے، جو کہ صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔


    کرایوں میں اضافہ اور پولیس کو رشوت، بس اڈوں پر سب ہی پریشان، ویڈیو رپورٹ


    یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ ملک تیزی سے ’’پانی کی کمی کی لائن‘‘ کے قریب پہنچ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے تخمینے کے مطابق 2025 تک پاکستان شدید پانی کی قلت کے مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے، جہاں بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہوگا۔

    پاکستان میں ہر سال 55,000 بچے مر جاتے ہیں


    پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 60 فی صد آبادی کو محفوظ پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے، اور 30 فی صد بیماریوں اور 40 فی صد اموات ناقص پانی کے معیار کی وجہ سے ہیں۔ خواتین اور بچے خاص طور پر کمزور ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی ناکافی ہے اور زیادہ تر پانی کی فراہمی آلودہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے اندازے کے مطابق، پاکستان میں ہر سال 55,000 بچے، جن کی عمر 5 سال سے کم ہوتی ہے، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے اسہال، ہیضہ اور ٹائیفائیڈ کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

    پانی اتنا آلودہ کیوں ہے؟


    ملک میں پانی کی آلودگی کی بلند سطح کے کئی عوامل ہیں، جن میں شہروں میں جامع سیوریج سسٹم کی کمی اور ناقص صفائی ستھرائی کے انفراسٹرکچر سے لے کر کچرا ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات، کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کا زیادہ استعمال، اور صنعتی فضلے کے غیر علاج شدہ اخراج شامل ہیں۔

    پانی کے انتظام کے غیر مؤثر نظام بھی اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ دریائے سندھ سسٹم اتھارٹی (IRSA) کے مطابق، پاکستان کو ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی ملتا ہے لیکن وہ صرف 13.7 MAF ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح، ملک میں بارش کے زیادہ ہونے والے ادوار کے دوران پانی کو ذخیرہ کرنے کی خاطر مناسب ذخیرہ گاہوں کی بھی کمی ہے، جس کی وجہ سے مون سون کے موسموں میں کافی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ، قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلے پانی کی فراہمی کے نظام کو درہم برہم کر سکتے ہیں، جس سے آلودگی ہوتی ہے اور مسئلہ مزید شدت اختیار کرتا ہے۔ خاص طور پر ٹھہرا ہوا پانی مچھروں کی افزائش کے لیے بہترین جگہ فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھتا ہے۔

    2022 کے سیلاب کے بعد ملک ایک ’’موت کی دوسری لہر اور تباہی‘‘ کی حالت میں داخل ہوا، کیونکہ ٹھہرے ہوئے پانی نے مچھروں کو افزائش اور متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کا وسیع موقع فراہم کیا۔ رپورٹ کیا گیا کہ سیلاب کے بعد ملک میں ملیریا کے کیسز کی تعداد چار گنا بڑھ گئی، جو 2021 میں 4 لاکھ کیسز سے بڑھ کر 2022 میں 16 لاکھ سے زیادہ کیسز تک پہنچ گئی۔

    دریائے سندھ


    پاکستان کا دریائے راوی دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ دریا ہے، جو دواسازی کی آلودگی سے متاثر ہے۔ تیزی سے بدلتا ہوا موسم اور گلیشیئرز کا پگھلنا بھی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں، اور دریائے سندھ – جو کہ زراعت، صنعت اور گھریلو استعمال کے لیے ملک کا بنیادی پانی کا ذریعہ ہے – خاص طور پر خطرے میں ہے۔

    یہ دریا زیادہ تر ہمالیائی گلیشیئرز سے پگھلے ہوئے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ ’’نیچر‘‘ جریدے میں شائع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق 1990 کی دہائی سے سندھ بیسن کے گلیشیئرز اوسطاً سالانہ تقریباً 20 سینٹی میٹر کے حساب سے اپنی کمیت کھو رہے ہیں۔ گلیشیئرز کی برف کے پگھلنے سے دریا کے نظام میں بہنے والے پانی کی مقدار گھٹ رہی ہے، جس سے نیچے کی جانب پانی کی دستیابی متاثر ہو رہی ہے۔

    ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (WWF) کی ایک رپورٹ میں ذکر ہے کہ گلیشیئرز کی پسپائی کے باعث آئندہ دہائیوں میں دریائے سندھ کے بہاؤ میں 40 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ یہ کمی زراعت کے لیے آبپاشی اور دیگر شعبوں میں پانی کی دستیابی کو متاثر کرتی ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    انسانی صحت کے لیے پینے کے پانی کا صرف صاف نظر آنا ہی کافی نہیں، بلکہ پانی میں شامل تمام قدرتی کیمیکلز کا مناسب مقدار ہونا لازمی ہے۔ کوئٹہ کے 52 فی صد پینے کے پانی میں تشویش ناک طور پر ’’ہیڈن پوائزن‘‘ کہلانے والے فلورائیڈ کی غیر متناسب مقدار کا انکشاف ہوا ہے، جو ہڈیوں کی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ 25 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر کے بیش تر لوگ یہی پانی پی رہے ہیں۔

    بیوٹمز یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل سائنس میں ہائیڈرو جیو کیمسٹری کے پی ایچ ڈی اسکالر اور استاد تیمور شاہ درّانی نے اس پر 2022 سے 2024 تک تحقیق کی ہے، جس میں گنجان آباد علاقوں کے 100 ٹیوب ویلز سے پانی کے نمونے لیے گئے، جس کا کیمیائی جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ کوئٹہ کے شمال مشرقی بالائی علاقوں سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں 25 فی صد میں فلورائیڈ ضروری مقدار سے کم جب کہ شمال مغربی اور وادی کی وسطی پٹی کے 27 فی صد علاقوں کے پانی میں فلورائیڈ 3.4 ملی گرام فی لیٹر تک زیادہ ہے۔

    محقق تیمور شاہ درّانی کے مطابق سریاب، ڈبل روڈ میاں غنڈی، نو حصار سمیت وادی کی وسطی پٹی کے علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے۔

    فلورائیڈ کی مقدار کتنی؟

    فلورائیڈ کی مقدار پانی میں 0.5 سے 1.5 ملی گرام فی لیٹر ہونا ضروری ہے۔ فلورائیڈ اس مقدار سے زیادہ ہو تو یہ طبعی لحاظ سے زہر تصور کیا جاتا ہے۔ محقق بتا رہے ہیں کہ فلورائیڈ کوئٹہ میں اپنا کام دکھا رہا ہے، اور بچے اور بزرگ نشانے پر ہیں۔

    تیمور شاہ نے بتایا کہ فلورائیڈ کی زیادہ مقدار سلو پوائزن کی طرح اثر دکھاتا ہے، کیوں کہ یہ پانی میں بے ذائقہ ہے، ہمیں پانی فلورائیڈ کی مقدار چیک کر کے پینے کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق کے دوران ہم نے دیکھا کہ جن علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے وہاں بچوں کے دانت زنگ آلود رنگ جیسے ہیں، جب کہ 50 سال کی عمر سے زائد افراد میں ہڈیوں کی بیماریاں بالخصوص گھٹنوں کی تکالیف عام ہیں۔

    جدید سہولیات سے مکمل محروم علاقہ، آٹے کی چکی چلانے کے لیے گدھوں کا استعمال

    اس تحقیق میں سفارش کی گئی ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی فلورائیڈ کی کم سے کم مقدار کو طے کرے، اور بلوچستان حکومت شہر میں پانی کے فلٹریشن اور ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کرے۔ تیمور شاہ درانی کے مطابق اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ہماری آنے والی نسل بھی انہی بیماریوں کے ساتھ بڑی ہوگی اور صحت کے مسائل معاشرے میں عام ہوں گے۔ ہر فرد کے لیے گھر پر فلٹریشن کا نظام لگانا یا فلورائیڈ کو متناسب کرنا ممکن نہیں، حکومت کو اس پر کام کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں حکومتیں پینے کے پانی میں ضروری قدرتی کیمیکلز کا جائزہ لے کر انھیں گھروں تک پہنچاتی ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے پانی کے نمونے ٹیوب ویلز سے 2022 میں بارشوں کے بعد لیے گئے تھے۔ محقق کے مطابق جب بارشیں کم ہوتی ہیں تو کوئٹہ میں فلورائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے، 2016 میں بارشوں سے قبل یعنی طویل خشک موسم کے دوران کی تحقیق میں کوئٹہ کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار 20 ملی گرام فی لیٹر تک پائی گئی تھی۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔

  • مفت بجلی اور صاف پانی فراہم کریں گے، ناصر شاہ

    مفت بجلی اور صاف پانی فراہم کریں گے، ناصر شاہ

    کراچی : سندھ کے وزیر توانائی ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ عوام کو پینے کا صاف پانی اور بجلی کے مفت یونٹ دیے جائیں گے۔

    یہ بات انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہی ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوشش کی کہ بجٹ میں عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیں، جہاں پہلے پینے کا صاف پانی ہوتا تھا وہاں بھی ایشوز آرہے ہیں۔

    ناصرحسین شاہ نے کہا کہ 20لاکھ سے زائد گھر ایسے ہیں جن کے پاس لائٹ ہی نہیں ہے، پہلے سال میں 5لاکھ گھروں کو سولر پلانٹ لگا کر دے رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں غریب ترین گھرانوں کو سولر پینلز لگا کردیں گے، ہر ڈسٹرکٹ میں سولر کے منی گیٹ بنائے جائیں گے، بجلی کے بل بہت زیادہ آرہے مڈل کلاس لوگ اپنے گھر کا خرچہ چلائیں یا بلز ادا کریں؟

    صوبائی وزیر نے کہا کہ بڑے گھروں کیلئے قرضوں کی اسکیم بنارہے ہیں، قرضوں کا انٹرسٹ سندھ حکومت اپنے ذمہ لے گی، پیپلزپارٹی کا مؤقف ہے لوگ بےروزگار نہ ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ اگر بڑےادارے معیشت پربوجھ ہیں تو اس پر بات ہوسکتی ہے، ہم نہیں چاہتے ادارے پرائیویٹائز ہوں لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو اُن ملازمین کا خیال رکھا جائے۔

    ناصرشاہ کا کہنا تھا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہمیں اس فیصلے میں شامل ہونا پڑے گا، بجٹ پر تحفظات ہیں وزیراعلیٰ سندھ نے بھی کچھ چیزیں شیئر کی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں سندھ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی گئی، دوسرے صوبوں میں کھربوں کے کام کیے گئے اور سندھ میں صرف اعلانات ہیں، سندھ کو2فیصد سے زیادہ پی ایس ڈی پی میں حصہ نہیں دیا گیا۔

  • عمان : پینے کے پانی کے معیار پر کمپنی کی وضاحت

    عمان : پینے کے پانی کے معیار پر کمپنی کی وضاحت

    مسقط: عمان کی واٹر اینڈ ویسٹ واٹر سروس کمپنی نے پانی کے معیار کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز پر وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔

    ٹائمز آف عمان کے مطابق کمپنی کا کہنا ہے کہ کمپنی کی جانب سے صارفین کو فراہم کیا گیا پانی عمان میں طے کردہ ان معیارات کے عین مطابق ہے، جو کھلے پانی کے لیے طے کیے گئے ہیں۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کی ماہرین کی ٹیم ایک بار پھر پانی کے معیار کو چیک کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات بروئے کار لارہی ہے۔

    علاوہ ازیں کمپنی نے واٹر کنکشن کی فیسیلیٹیز اور گھروں میں پانی چیک کروانے کا بھی یقین دلایا ہے۔

    کمپنی کی جانب سے صارفین کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ گھروں میں موجود واٹر ٹینک کی بھی وقتاً فوقتاً صفائی کرواتے رہیں۔

  • دنیا بھر میں 1 ارب سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم

    دنیا بھر میں 1 ارب سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم

    دنیا بھر میں آج عالمی یوم آب منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 1 ارب 10 کروڑ افراد پینے کے لیے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    اس دن کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔

    رواں برس یہ دن ویلیونگ واٹر کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 7 ارب افراد کو روزانہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد سنہ 2050 تک بڑھ کر 9 ارب ہونے کی توقع ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں 1 ارب 10 کروڑ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم اور 2 ارب 70 کروڑ افراد پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    پاکستان بھی دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔

    اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی بنانے، زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔

  • صاف پانی کی فراہمی کے لیے ہڈرزفیلڈ یونی ورسٹی سے معاہدہ

    صاف پانی کی فراہمی کے لیے ہڈرزفیلڈ یونی ورسٹی سے معاہدہ

    مانچسٹر: پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے ہڈرزفیلڈ یونی ورسٹی کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی پنجاب میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے حکومت پاکستان اور ہڈرز فیلڈ یونی ورسٹی مانچسٹر کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔

    ذرایع کے مطابق ہڈرزفیلڈ یونی ورسٹی کے سینئر ماہر سائنس دان ڈاکٹر محمد عثمان غوری پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر جنوبی پنجاب میں پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔

    ڈاکٹر محمد عثمان غوری

    ڈاکٹر عثمان غوری آلودہ پانی کو سستے داموں پینے کے قابل بنانے کے لیے اپنی خدمات سر انجام دیں گے، اس منصوبے کے لیے خطے کے کوہ سلیمان پہاڑی سلسلے میں موجود ذخائر کو بھی قابل استعمال بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

    ڈاکٹر عثمان غوری نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے اُن کے دورہ برطانیہ کے دوران ملاقاتیں بھی کی تھیں، انھوں نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری سے بھی اس سلسلے میں ملاقاتیں کی تھیں۔

    خیال رہے کہ جنوبی پنجاب میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے حکومت پاکستان نے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شراکت داری کی ہے اور اس کی معاونت کے لیے ہڈرز فیلڈ یونی ورسٹی اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا جس کے تحت یونی ورسٹی کے سینئر ریسرچر ڈاکٹر محمد عثمان غوری پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر جنوبی پنجاب میں پینے کے صاف پانی کی سستے داموں فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔

    پاکستان میں پانی کا ایک بڑا حصہ آلودہ ہونے کے باعث پینے کے قابل نہیں ہے اور اسے پینے سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن کے علاج کے لیے حکومت کو بجٹ کا ایک بڑا حصہ صرف کرنا پڑتا ہے، اس آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے ڈاکٹر محمد عثمان غوری پاکستانی اور غیر ملکی اداروں کی معاونت کریں گے۔