Tag: پیوند کاری

  • ایس آئی یو ٹی میں ٹرانسپلانٹیشن دوبارہ شروع ہونے کے قریب

    ایس آئی یو ٹی میں ٹرانسپلانٹیشن دوبارہ شروع ہونے کے قریب

    کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے مرکز برائے پیوند کاری سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانس پلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) میں جلد ٹرانس پلانٹیشن کی سرگرمیاں شروع کردی جائیں گی، اعضا کی پیوند کاری کے منتظر مریضوں کی تعداد 90 کے قریب ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانس پلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) میں ٹرانس پلانٹیشن کی سرگرمیاں جلد شروع کی جا رہی ہیں جو کرونا وائرس کے باعث روک دی گئی تھیں۔

    وائرس سے ٹرانسپلانٹ مریضوں کی زندگی کو خطرہ تھا کیونکہ ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے اور ان کو زندگی بچانے والی دواوؤں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، اس حوالے سے عالمی سطح کی طرح ایس آئی یو ٹی میں بھی اسی پالیسی پر عمل کیا گیا تھا۔

    ادارے کے چیف ٹیکنیکل آفیسر اینڈ کوآرڈینیٹر سندھ ڈاکٹر سکندر علی میمن کے مطابق صوبہ سندھ کے 27 طبی مراکز، آئی سی یو کے 403 اور ایچ ڈی یو کے 1 ہزار سے زائد بستروں سے لیس ہیں جہاں 24 گھنٹے کرونا وائرس سے متعلق طبی امداد فراہم کی جاتی رہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں نئے کیسز کی تشخیص کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ شرح اموات میں بھی کمی ہوئی ہے۔

    ڈاکٹر سکندر کے مطابق مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے اب طبی عملے کی زیادہ تعداد اور مناسب سہولیات موجود ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران ایس آئی یو ٹی بھی مریضوں کے علاج میں سرگرم عمل تھا، اس دوران ادارے نے مارچ سے اب تک 11 ہزار 600 افراد کی تشخیص کی اور ساڑھے 3 ہزار مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کیں۔

    ترجمان ایس آئی یو ٹی کا کہنا ہے کہ مریض پچھلے چند ماہ سے آرگن ٹرانسپلانٹ کے منتظر ہیں اور ایسے مریضوں کی تعداد 90 کے قریب ہے۔

    خیال رہے کہ ایس آئی یو ٹی ملک کا سب سے بڑا ٹرانسپلانٹ سینٹر ہے جہاں خاندان کا فرد ہی اپنا گردہ عطیہ کرتا ہے، ادارے میں اب تک 6 ہزار 200 سے زائد گردوں کی کامیاب پیوند کاری کی جا چکی ہے۔

  • کینسر سے متاثرہ چہرے کو کیسے بحال کیا گیا؟

    کینسر سے متاثرہ چہرے کو کیسے بحال کیا گیا؟

    مصنوعی اعضا کی پیوند کاری کوئی نئی بات نہیں تاہم یہ ایک نہایت مہنگا عمل ہے جس کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی اشیا کا بیش قیمت ہونا ہے۔

    تاہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس میدان میں بھی نئے نئے تجربات کیے جارہے ہیں اور اس عمل کی لاگت اور اس کی تیاری کا وقت کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    ایسی ہی ایک کوشش برازیل میں کی گئی جہاں تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے ایک خاتون کے نصف چہرے پر پیوند کاری کی گئی۔

    53 سالہ ڈینس وسنٹن نامی یہ خاتون کینسر کے باعث اپنی ایک آنکھ کھو چکی تھیں جبکہ ان کے چہرے کا کچھ حصہ بھی بگڑ چکا تھا، تاہم ڈیجیٹلی طور پر تیار کیے گئے مصنوعی اعضا کی بدولت انہیں نئی زندگی مل گئی۔

    برازیل کی پولیسٹا یونیورسٹی کے محققین نے تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے سیلیکون کے اعضا بنائے جن پر ڈیجیٹلی طور پر چہرے کے تاثرات بھی شامل کیے گئے۔

    یہ اس نوعیت کا پہلا تجربہ تھا اور اس میں روایتی پیوند کاری کے برعکس نصف لاگت اور وقت خرچ ہوا۔ محققین کے مطابق مصنوعی اعضا تیار کرنے میں بہت وقت لگتا ہے کیونکہ اب تک ہاتھ سے مصنوعی اعضا تیار کیے جاتے رہے ہیں، اس میں بہت محنت اور وقت لگتا ہے جبکہ اس کی لاگت بھی کئی گنا زائد ہے۔

    اب مذکورہ پیوند کاری سہ جہتی تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے عمل میں لائی گئی اور اس کے لیے صرف اسمارٹ فون سے کھینچی گئی تصاویر کی مدد لی گئی۔

    یہ تکنیک دندان سازی میں بھی استعمال کی جاتی رہی ہے اور اسے پہلی بار سر اور گردن کی سرجری کے لیے استعمال کیا گیا۔ سنہ 2015 سے اب تک اس نوعیت کی پیوند کاری سے 50 افراد فیضیاب ہوچکے ہیں۔

    پیوند کاری کیسے کی گئی؟

    وسنٹن کی سرجری کا عمل سنہ 2018 سے شروع ہوا۔ سب سے پہلے ان کی آنکھوں کے حلقوں میں ٹائٹینیم کی سلاخیں ڈالی گئی جو مصنوعی پیوند کو سہارا دے سکیں۔

    اس کے بعد ایک سال کے اندر ان کی متعدد سرجریاں کی گئیں جس میں ان کے چہرے کے ٹشوز پر کام کیا گیا۔ محققین نے خاتون کے چہرے کی مختلف تصاویر لیں جس کی مدد سے سہ جہتی ماڈل بنایا جا سکا۔

    ایک گرافک ڈیزائنر کی مدد سے ان کے نصف صحت مند چہرے کی تصویر تخلیق کی گئی۔ اس کے بعد اسی تصویر کو سلیکون اور سنتھٹک فائبر پر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔

    اس پیوند کو اصل کی طرح دکھانے لیے اس کا رنگ وسنٹن کی جلد کی طرح رکھا گیا جبکہ آنکھ کو بھی سبز رنگ کا بنایا گیا۔

    پیوند کی تیاری کے حتمی مرحلے میں 12 گھنٹے لگے، اور یہ دیگر طریقوں سے تیار کیے جانے والے اعضا کی تیاری کا نصف وقت ہے، البتہ پیوند کاری کا عمل مکمل ہونے میں ایک سال کا عرصہ لگا۔

    یہ چھوٹا سا پیوند وسنٹن کے چہرے پر فٹ بیٹھ گیا، اس پر لگے ننھے مقناطیسی ٹکڑے آنکھ کے حلقوں میں موجود ٹائٹینیم کی سلاخوں سے چپک گئے اور یوں یہ پیوند مکمل طور پر چہرے کا حصہ بن گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر مصنوعی اعضا کی تبدیلی میں 5 لاکھ ڈالرز خرچ ہوسکتے ہیں، تاہم یہ عمل لاگت میں بے حد کم ہے اور اس کے لیے صرف کمپیوٹر اور اسمارٹ فون درکار ہے۔

  • سینیٹ اجلاس : انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا ترمیمی بل2018متفقہ طور پر منظور

    سینیٹ اجلاس : انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا ترمیمی بل2018متفقہ طور پر منظور

    اسلام آباد : سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے انسانی اعضا کی پیوند کاری کا ترمیمی بل2018متفقہ طور پر منظور کرلیا، عطیہ کرنے والے شخص کے شناختی کارڈ پر آرگن ڈونر تحریر ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قومی صحت کا اجلاس عتیق شیخ کی زیرصدارت منعقد ہوا، اجلاس میں متفقہ طور پر انسانی اعضا کی پیوند کاری کا ترمیمی بل2018متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

    مذکورہ ترمیمی بل سینیٹر عتیق شیخ کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ بعد از مرگ اپنے اعضاء عطیہ کرنے والے کے شناختی کارڈ پر آرگن ڈونر تحریر ہوگا اور عطیہ کنندہ کے شناختی کارڈ پر آرگن ڈونر کی تحریر سرخ حروف میں ہوگی۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال جنوری میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں انسانی اعضاء ترمیمی بل 2016کی متفقہ رائے سے منظور کیا گیا تھا،رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کی جانب سے پیش کیا گیا، خاتون رکن ایم کیو ایم (پاکستان ) سمیت سیکرٹری صحت اور وزرات صحت کے حکام نے بھی بعد از مرگ اپنے اعضاء عطیات کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    یاد رہے کہ وہ افراد جو کسی بھی حادثے کے پیش نظر اپنی زندگی گنوا دیتے ہیں‌، ان کے جسمانی اعضاء کو ٹرانسپلانٹ کے ذریعے محفوظ کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ کسی زندہ انسان کی ضرورت پر کارآمد ثابت ہوسکیں۔

    مزید پڑھیں: پنجاب میں گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری میں مختلف گروہ سرگرم

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک گردے کی قیمت ایک لاکھ تیس ہزار روپے تک ہے، جبکہ غربت کے باعث سیکٹروں افراد اپنے اعٍضاء غیر قانونی طور پر فروخت کرچکے ہیں‌۔

    اس سلسلے میں پنجاب کے بیشتر پسماندہ علاقوں میں گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری میں ملوث مختلف گروہ سرگرم ہیں، گردہ دینے والے خود کو جعلی رشتے دار ظاہر کرتے ہیں۔

  • چین میں خنزیر کی آنکھ کی انسانوں میں پیوند کاری

    چین میں خنزیر کی آنکھ کی انسانوں میں پیوند کاری

    بیجنگ: چین میں ایک 18 سالہ لڑکی میں سور کی آنکھ کی کامیاب پیوند کاری کردی گئی۔ یہ مشرقی چین کے انہوئی صوبے میں کی جانے والی اس قسم کی پہلی پیوند کاری ہے۔

    چین میں گزشتہ برس سور کی آنکھ کی انسانوں میں پیوند کاری کی منظوری دے دی گئی تھی۔ جس لڑکی میں یہ پیوند کاری کی گئی ہے وہ بچپن سے آنکھ میں ایک قسم کے ٹیومر کا شکار تھی۔

    یہ سرجری مشرقی چین کے انہوئی صوبے کے سرکاری اسپتال میں انجام پائی اور یہ صوبے کی اس قسم کی پہلی پیوند کاری ہے۔

    china-33

    اسپتال میں شعبہ امراض چشم کے سربراہ ڈاکٹر لیؤ رونفینگ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سور کی آنکھ کی ساخت، شکل اور قطر انسانی آنکھ سے بے حد مشابہ ہے۔

    ان کے مطابق اس کا کورنیا انسانی آنکھ کے اندرونی خلیات سے فوری طور پر مطابقت پیدا کرتے ہوئے اپنے افعال سر انجام دینا شروع کردیتا ہے۔ پیوند کاری کے تھوڑے ہی عرصے بعد یہ متاثرہ شخص کو بینائی فراہم کردیتا ہے۔

    چین میں گزشتہ برس نیشنل فوڈ اور ڈرگ انتظامیہ نے ایک عشرے کی طویل تحقیق کے بعد سور کی آنکھ کی انسانوں میں پیوند کاری کی منظوری دی تھی۔ منظوری کے فوراً بعد پہلی پیوند کاری ایک 14 سالہ لڑکے میں کی گئی۔

    china-3

    اس پیوند کاری کی کامیابی کے بعد چین کے کئی اسپتال اب اس طریقے کو اپنا رہے ہیں جس سے بینائی سے محروم لاکھوں افراد کی زندگی روشن ہونے کا امکان ہے۔

    واضح رہے کہ چین میں اندازاً 80 لاکھ افراد بینائی سے محروم ہیں۔ پیدائشی بینائی سے محروم افراد کا واحد علاج کورنیا کی تبدیلی ہی ہے تاہم اس حوالے سے چین کو آنکھیں عطیہ کرنے والے افراد کی کمی کا سامنا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سور کی آنکھ کی پیوند کاری انسانی آنکھ کا بہترین نعم البدل ثابت ہوگی۔