Tag: پیپلزپارٹی

  • سینئر سیاستدان کی وزارت عظمیٰ سے متعلق بڑی پیشگوئی

    سینئر سیاستدان کی وزارت عظمیٰ سے متعلق بڑی پیشگوئی

    کراچی: سینئر سیاستدان اور پیپلزپارٹی کے رہنما منظور وسان نے وزارت عظمیٰ پیش گوئی کی ہے کہ وزیراعظم 3 سال بعد کوئی اور ہوسکتاہے۔

    تفصیلات کے مطابق اپنے سیاسی پیش گوئی کے لیے مشہور پیپلزپارٹی کے سینئررہنما منظور وسان نے کوٹ ڈیجی میں میڈیاسے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم 3 سال بعد کوئی اور ہوسکتاہے اسمبلیوں کی مدت پوری ہوگی۔

    منظور وسان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی خود کو مصیبت میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، آگے چل کر بانی پی ٹی آئی پریشان ہوگا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کریگا جبکہ آنے والے دنوں میں لوگ تحریک انصاف چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

    سینئر سیاستدان نے کہا کہ جی ڈی اے کی تحریک ختم ہوجائے گی یہ پرانی تنخواہ پر کام کریں گے، عوامی مفاد میں جو کام ہوگا اس پر ن لیگ کا ساتھ دیں گے۔

  • فیصل کریم کنڈی کا مولانا فضل الرحمان کے بیان پر رد عمل

    فیصل کریم کنڈی کا مولانا فضل الرحمان کے بیان پر رد عمل

    کراچی: پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی کا مولانا فضل الرحمان کے بیان پررد عمل سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے مولانا فضل الرحمان کے بیان پررد عمل میں کہا کہ پیپلز پارٹی اتحادیوں کو درست راستہ بتاتی ہے بلیک میل نہیں کرتی۔

    فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ مولانا اپنے انداز سیاست کا پیمانہ دوسری سیاسی جماعتوں سے نہ کریں، بلاول بھٹو زرداری کو آئین اور جمہوریت سب سے زیادہ عزیز ہے۔

    پی پی رہنما نے کہا کہ کے پی کے عوام مولاناسے پوچھتے ہیں ہمارا سودا کتنی قیمت کے عیوض کیا، کے پی میں گورنر اور وزیر اعلیٰ مولانا کے منظور نظر تھے، دھاندلی کیسے ہوئی۔

    فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت خود فیصلے کرتی ہے اور عوام کو ساتھ لیکر چلتی ہے، مولانا کسی اور کے اشارے پر دھرنا دیتے اور حکم پر ختم کرتے ہیں۔

  • پیپلزپارٹی کو بلوچستان میں حکومت سازی میں مشکلات کا سامنا

    پیپلزپارٹی کو بلوچستان میں حکومت سازی میں مشکلات کا سامنا

    اسلام آباد: پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں حکومت سازی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پی پی سمیت اتحادی جماعت ن لیگ کے بعض اراکین ثنا اللہ زہری اور سرفراز بگٹی کی ممکنہ نامزدگی کے مخالف نکلے۔

    پیپلزپارٹی کے ذرائع کے مطابق وزیراعلی بلوچستان کے امیدوار نواب ثنا اللہ زہری، سرفراز بگٹی کے نام پر تحفظات اٹھنے لگے، پی پی اور ن لیگ کے ارکان نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ پی پی اور ن لیگ کے بعض ارکان ثنا اللہ زہری اور سرفراز بگٹی کی نامزدگی کے مخالف نکلے ہیں، پی پی ذرائع نے کہا پی پی کارکنان کی جگہ نئے شامل ہونے والوں کی نامزدگی افسوسناک ہوگی۔

    ذرائع نے بتایا کہ ثنا اللہ زہری، سرفراز بگٹی کی نامزدگی پر ووٹوں کی تقسیم کا خدشہ ہے، مسلم لیگ ن بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری سے شدید نالاں ہے، بلوچستان میں ن لیگ کے بیشتر ایم پی ایز کے ثنا اللہ زہری پر تحفظات ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ثنا اللہ زہری بلوچستان میں اپنی جگہ بنانے میں تاحال ناکام ہیں، ان کا بطور وزیر اعلیٰ بلوچستان پیپلز پارٹی سے رویہ امتیازی تھا۔ ذرائع نے کہا کہ پی پی کے سنیئر اراکین کی موجودگی میں سرفراز بگٹی کی نامزدگی افسوسناک ہوگی، سرفراز بگٹی کا جارحانہ طرز سیاست پیپلز پارٹی سے یکسر مختلف ہے اور بلوچستان جارحانہ طرز سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

     پیپلزپارٹی ذرائع نے مزید کہا کہ بلوچستان کو مفاہمت پسند وزیراعلیٰ کی ضرورت ہے، بلوچستان کے مسائل گھمبیر ہے احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہے، آئندہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کو حالات کے مطابق فیصلے کرنا ہوں گے۔

  • پیپلزپارٹی نے بلوچستان میں حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا!

    پیپلزپارٹی نے بلوچستان میں حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا!

    پاکستان پیپلزپارٹی نے بلوچستان میں حکومت بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے، پارٹی صوبے میں اتحادی حکومت بنانےکی خواہشمند ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے پیپلزپارٹی آگے آگئی ہے۔ پی پی بلوچستان میں ن لیگ اور جے یو آئی سے مل کر حکومت بنائے گی۔ پیپلزپارٹی نے بلوچستان میں حکومت بنانے کیلئے ن لیگ سے تعاون مانگ لیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے بلوچستان میں حکومت سازی پر مشاورت کیلئے مہلت مانگ لی ہے۔ پی پی بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے جے یو آئی سے جلد رابطہ کرے گی۔

    صوبہ بلوچستان کی حکومت پر جے یو آئی اور ن لیگ سے پی پی کے معاملات طے پانے کا امکان ہے۔ دونوں پارٹیوں کی شمولیت سے بلوچستان میں مستحکم حکومت بنے گی۔

    ذرائع نے کہا کہ بلوچستان کے بیشتر نومنتخب آزاد ایم پی ایز پی پی میں شامل ہونگے۔ بلوچ قوم پرست پارٹیز کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان پی پی، کابینہ میں اتحادی جماعتوں کے وزرا ہونگے۔

    پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نواب ثنااللہ زہری وزیراعلیٰ بلوچستان کیلئے مضبوط امیدوار ہیں۔ ثنااللہ زہری وزیراعلیٰ کیلئے پارٹی کی پہلی ترجیح ہیں۔

    ذرائع نے کہا کہ ثنا اللہ زہری بلوچستان کی پشتون اور بلوچ بیلٹ کیلئے قابل قبول ہیں۔ انکے جے یو آئی، ن لیگ اور قوم پرست پارٹیز سے ورکنگ ریلیشن ہیں۔ وہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔

  • پیپلزپارٹی  اقتدار کے مزے لیں گی اور سارا ملبہ ن لیگ پر گرے گا،  فیصل واوڈا

    پیپلزپارٹی اقتدار کے مزے لیں گی اور سارا ملبہ ن لیگ پر گرے گا، فیصل واوڈا

    اسلام آباد : سابق وزیر فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں ، وہ اقتدار کے مزے لیں گی اور ساراملبہ ن لیگ پر گرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر فیصل واوڈا نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئینی پوزیشن کھوکھلی رہ جائے گی، دبوچ لیں گے ، کھالیں گے۔

    فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں،اقتدار کے مزےلیں گے، اتحادی حکومت بن رہی ہے، آئینی پوزیشن ساری لے لی جائیں گی۔

    سابق وزیر نے کہا کہ دوبارہ کہتا ہوں نوازشریف وزیراعظم بنتےہیں تو6ماہ حکومت رہے گی، شہبازشریف وزیراعظم بنتےہیں توایک ڈیڑھ سال حکومت چلے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کوجون میں24ارب ڈالر قرضے واپس کرنے ہیں، کہاں سے دیں گے ، آئی ایم ایف کے معاملات بھی ہیں، بجٹ بھی پیش کرنا ہے۔

    خیبر پختونخواہ کے حوالے سے فیصل واوڈا نے مزید کہا کہ علی امین گنڈا پور کا وزیراعلیٰ کے پی کیلئے نام چلنے دیں آگے کچھ نہیں ہوگا۔

    سابق وزیر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کا آخری اقتدار ہے، مزے لیں پھر انہیں کون پوچھے گا، آئندہ ن لیگ اور ایم کیوایم اقتدار میں نہیں آئیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ کراچی کے لوگوں نے اتنے ووٹ ڈال دئیے کہنا پڑا بس کردو کراچی والو۔

  • ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو بڑے عہدوں کی آفر کردی

    ن لیگ نے پیپلز پارٹی کو بڑے عہدوں کی آفر کردی

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں حکومت سازی کے لیے رابطوں کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔

    ذرائع کے مطابق ن لیگ کی جانب سے پیپلز پارٹی کو 3 آئینی عہدوں کی پیشکش کی گئی، پیپلز پارٹی کو صدر، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ کی پیشکش کی گئی۔

    ذرائع نے بتایا کہ ن لیگ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کیلئے پیپلز پارٹی کی خواہش پر راضی ہے جبکہ پیپلزپارٹی نے پنجاب میں بڑے عہدے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے پنجاب میں پی پی کو ڈپٹی وزیر اعلیٰ یا سینئر وزیر دینے کی پیشکش کی ہے لیکن پیپلز پارٹی پنجاب میں ن لیگ کی دی گئی پیشکش پر ابھی تک راضی نہیں ہوئی۔

     ذرائع نے مزید بتایا کہ دونوں جماعتیں اپنی سی ای سی سے مشاورت کے بعد حتمی بات چیت کریں گی۔

  • 2013 میں پیپلزپارٹی چھوڑنا سیاسی غلطی تھی: سابق وزیر صمصام بخاری کا تہلکہ خیز انٹرویو

    2013 میں پیپلزپارٹی چھوڑنا سیاسی غلطی تھی: سابق وزیر صمصام بخاری کا تہلکہ خیز انٹرویو

    سابق وزیر اور استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما سید صمصام بخاری نے کہا ہے کہ 2013 میں پیپلز پارٹی چھوڑنا سیاسی غلطی تھی۔

    استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے رہنما صمصام بخاری نے اے آر وائی نیوز سے انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پیپلز پارٹی نہیں چھوڑنی چاہی تھی اختلاف رکھتا اور الیکشن بھی نہ لڑتا لیکن پیپلزپارٹی نہ چھوڑتا۔

     صمصام بخاری نے کہا کہ 2013 میں ن لیگ میں شمولیت کی آفر تھی میں  نے نہیں مانی، دوسری غلطی یہ تھی پیپلزپارٹی چھوڑنی تھی تو ن لیگ کی آفرمان لیتا، پی ٹی آئی چھوڑنے کے فیصلے میں جتنی تاخیر کرسکتا تھا کرتا رہا۔

    انہوں نے کہا کہ اللہ کرے یہ الیکشن لوگوں کو قابل قبول ہوں، ایک کے سوا تمام جماعتوں کا جھگڑا 9 فروری کو ختم ہوجائے گا، یہ جماعتیں 10 فروری کو حکومت سازی کا عمل شروع کردیں گے، الیکشن کے بعد ملک کے وسیع تر مفاد میں سب اکٹھے ہوجائیں گے۔

     صمصام بخاری نے کہا کہ جب سے سیاست شروع کی پہلی بار ہے الیکشن نہیں لڑرہا، موجودہ حالات میں الیکشن نہ لڑنا بہتر سمجھا لیکن سیاست نہیں چھوڑی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ زندگی میں اتنی پولرائزیشن اور تقسیم کبھی نہیں دیکھی، اس وقت ہمیں اتحاد اور عزت کی سیاست کی ضرورت ہے، وزیر اطلاعات تھا تو کہا جاتا تھا ن لیگ کے خلاف جارحانہ بات کروں میں نے پہلے بھی زبان قابو میں رکھی اور اب بھی رکھوں گا۔

  • تاریخی اہمیت کا حامل جامشورو: حلقہ NA-226 کے عوامی مسائل!

    تاریخی اہمیت کا حامل جامشورو: حلقہ NA-226 کے عوامی مسائل!

    ضلع جامشورو پچیس سو سال پرانی تاریخ کا حامل ہے جس کی قومی اسمبلی (نیشنل اسمبلی) کی ایک نشست ہے لیکن ملک بھر کی طرح حلقہ  NA-226 جو پہلے NA-233 کہلاتا تھا، بھی عوامی مسائل سے گھرا ہوا ہے، اس حلقے میں ووٹرز کا جھکاؤ ہمیشہ سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (PPPP) کی طرف زیادہ دیکھا گیا ہے لیکن  عوامی مسائل پہلے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔

    این اے 226 میں کل ووٹرز کی تعداد

    این اے 226 ضلع جامشورو کی کل آبادی 11 لاکھ  17 ہزار 308 ہے جس میں سے صرف 4 لاکھ 77 ہزار 60 افراد ہی الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ ہیں، اس حلقے میں مرد ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 88 ہزار 34 ہے جبکہ خواتین ووٹرز 2 لاکھ 18 ہزار 228 ہیں۔

    ضلع جامشورو انتظامی لحاظ سے چار تحصیلوں (تعلقوں) میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں تحصیل کوٹری ، تحصیل مانجھنڈ، تحیصل سیہون، تحصیل تھانہ بولا خان شامل ہیں۔

    2018 میں کامیاب ہونے والے امیدوار

    این اے 233، جو کہ آج کا حلقہ 226 ہے،  2018 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سکندر علی راھپوٹو منتخب ہوئے تھے  جنہو ں نے 1,33,492 ووٹ لیکر جی ایم سید کے پوتے سید جلال شاہ جن کا تعلق سندھ یونائٹیڈ پارٹی سے ہے شکست دی تھی۔

    سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے جی ایم سید کے پوتے سید جلال شاہ صرف 4,198 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔

    2013 میں بھی اس حلقے سے پی پی نے میدان مارا

    2013 کے الیکشن میں بھی اس حلقے سے پیپلز پارٹی نے ہی میدان مارا تھا، اور پی پی کے عمران ظفر لغاری نے 1,08,110 ووٹ حاصل کیے تھے۔

    حلقے کے عوام کے مسائل

    این اے 226 کے عوام بھی کئی مسائل کا شکار ہیں، اس حلقے کے زیادہ تر مکین غربت و افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو کہ پینے کا صاف پانی، بجلی، گیس اور دیگر بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔

    سندھ بھر کی طرح اس حلقے میں بھی ’بے نظیر انکم سپورٹ‘ پروگرام (BISP) کا سلسلہ جاری ہے لیکن برسوں سے اس حلقے میں حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں نے آج تک کوئی ایسا نظام قائم نہیں کیا جس سے لوگوں کو مستقل مزاجی کے ساتھ روزگار مل سکے۔

    حلقہ 226 کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ صحت کا بھی ہے، جہاں لاکھوں ووٹرز کی آبادی کے حامل اس ضلع میں دور دور تک جدید الات سے لیس سرکاری اسپتال موجود نہیں، یہاں کی عوام ایمرجنسی کی صورت میں تقریباً آدھے آدھے گھنٹے کا سفر طے کرکے اسپتال پہنچتی ہے دوسری جانب سڑکوں کا بھی کوئی اتنا اچھا حال نہیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ جس کے ساتھ ساتھ سیوریج کا نظام  بھی درہم برہم ہے۔

    اس حلقے میں نوجوان نسل کے مستقبل کی بات کی جائے تو گورنمنٹ اسکولوں کی حالت بدتر ہے کئی اسکول بند جبکہ دیگر میں اساتذہ موجود ہی نہیں ہوتے، جامشورو میں تین جامعہ (Universities) ہیں جن میں، یونیورسٹی آف سندھ ، مہران یونیورسٹی اور لیاقت یونیورسٹی جامشورو شامل ہیں جبکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جامشورو کا دفتر اور انسٹی ٹیوٹ آف سندھولوجی بھی یہیں موجود ہے۔

     یونیورسٹی اف سندھ، سندھ کی سرکاری یونیورسٹی ہے اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے نکلنے والے کئی  طلباء و طالبات آج ملک بھر میں بڑی پوسٹ پر موجود ہیں لیکن اس یونیورسٹی کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں، طالب علم کو پڑھانے کے لیے اساتذہ تو موجود ہیں لیکن اس جدید دور کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے کوئی بہترین سہولیات موجود نہیں۔

    مزید یہ کہ یہاں کئی علاقوں میں کوئی ڈیجیٹل یا عام کوچنگ سینٹرز بھی موجود نہیں، حلقے کے نوجوان اور بچے کوچنگ کے لیے ہزاروں روپے فیس دے کر دوسرے شہر میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

    حلقہ 226 میں برسوں سے انٹر سٹی ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں ہے جبکہ ملک بھر کی طرح اس حلقے میں بھی ڈکیتی کے کئی واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں لیکن آج تک قانونی ادارے مکمل طور پر قابو پانے میں  ناکام رہی ہے۔

    یوں تو اس حلقے میں منچھر جھیل،کوٹری بیراج، کیرسر پہاڑی علاقہ، قلعہ رنی کوٹ، سندھ میوزیم، دراوڑ کا قلعہ، لال شہباز قلندرؒ کا مزار (سیہون شریف) جیسے کئی تاریخی جگہ موجود ہیں لیکن آج کی نسل کے لیے پارک اور بہترین میدان موجود ہی نہیں، جو ہے وہ بھی گندے پانی کے تالاب کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

    این اے 226 سے کس جماعت نے کس امیدوار کو میدان میں اتارا ہے؟

    پیپلزپارٹی نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنے جانے مانے نمائندے ملک اسد سکندر کو چنا ہے، دوسری جانب گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سید منیر حیدر شاہ اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے اور تحریک لبیک پاکستان سے عبداللہ جامرو جبکہ آزاد امیداور میں عبدالحکیم چانڈیو شامل ہیں۔

     

    سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کے پاس جاتے وقت ان مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا کیونکہ عوام اپنے مسائل حل کرنے والے امیدواروں کو ہی الیکشن میں کامیاب کروائیں گے۔

    عوام بھی 8 فروری 2024 ء کو ہونے والے عام انتخابات کے دن اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح استعمال کریں، جھوٹے اور کھوکھلے نعروں کے فریب کا شکار نہ ہوں، صرف اہل اور حقیقی خیر خواہ امیدوار کے حق میں ووٹ دیں۔

    علاقے میں ووٹ مانگنے کے لیے آنے والے امیدواروں کے ساتھ تصاویر لینے کے بجائے ان سے سوال کریں انہوں نے ان کئی سال سے آپ کے لیے کیا کیا؟ انہوں نے آپ کے مستقبل کے لیے کونسا پلان تیار کیا، اگلے 5 سال تک وہ آپ کے لیے کیا کریں گے؟ 5 سال تک آپ کے علاقے کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں گے؟

    عوام ذرا سوچیں کے ہم کہاں کھڑے ہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف ہاتھ ملانے خیریت پوچھنے پر ضمیر فروخت مت کریں ووٹ امانت ہے اور امانت کے بارے میں یقینا پوچھا جائے گا اس لیے سوچ سمجھ کر اپنے بچوں کی خاطر، اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر ووٹ دیں۔

  • پیپلزپارٹی نے انتخابی نتائج کے نظام پر تحفظات سے باضابطہ آگاہ کردیا

    پیپلزپارٹی نے انتخابی نتائج کے نظام پر تحفظات سے باضابطہ آگاہ کردیا

    اسلام آباد : پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن کو انتخابی نتائج کے نظام پر تحفظات سے باضابطہ آگاہ کردیا، نئی ایپ کے بجائے واٹس ایپ کو ہی انتخابی نتائج بھیجنے کا ذریعہ بنایا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کے انتخابی نتائج کے نظام پر تحفظات تحریری طور پر الیکشن کمیشن میں جمع کرادی ہے۔

    پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے الیکشن کمیشن کو خط کی کاپی اےآروائی نیوز نےحاصل کرلی ہے، خط میں کہا گیا کہ الیکشن نتائج کے نئے نظام ای ایم ایس پر سنجیدہ اعتراضات آپکے نوٹس میں لارہے ہیں۔

    پیپلزپارٹی کے خط کا متن میں کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں الیکشن کمیشن نے واٹس ایپ کا استعمال کو رد کیا کہ انٹرنیٹ کا مسئلہ ہوگا۔

    خط کا کہنا تھا کہ جب واٹس ایپ کیلئے مسئلہ ہوگا تو پھر نئی ایپ کےلیےتوزیادہ مسائل ہوں گے، ای ایم ایس کا استعمال الیکشن کی شفافیت پر سمجھوتا ہوگا۔

    پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا کہ نئی ایپ کے بجائے واٹس ایپ کو ہی انتخابی نتائج بھیجنے کا ذریعہ بنایاجائے، جو رزلٹ پریذائیڈنگ افسران آراوز کو واٹس ایپ کریں وہی امیدوار،ایجنٹس کو بھیجیں۔

    خط کے مطابق واٹس ایپ گروپس بنائےجائیں جہاں پر پولنگ کےدوران شکایات بھی بتائی جاسکیں، خدشہ ہےنئے انتخابی نتیجے کے نظام سے 2018 کے آر ٹی ایس والا معاملہ ہوگا۔

  • پیپلزپارٹی کا چیف الیکشن کمشنر کو خط

    پیپلزپارٹی کا چیف الیکشن کمشنر کو خط

    لاہور: پیپلز پارٹی کے انچارج سینٹرل الیکشن سیل اور سینیٹر تاج حیدر نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر این اے 73 ڈسکہ میں زیرِ حراست 3 کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق انچارج سینٹرل الیکشن سیل پیپلزپارٹی تاج حیدر نے چیف الیکشن کمشنر کو خط میں لکھا کہ این اے 73 میں 3 کارکنوں کو غیر قانونی زیر حراست رکھا گیا ہے، ان کارکنان کو سیراں والی کے الیکشن آفس سے گرفتار کیا گیا ہے۔

    تاج حیدر نے الیکشن کمشنر کو خط میں بتایا کہ پولیس وردی میں ملبوس اہلکاروں نے الیکشن آفس میں توڑ پھوڑ کی، پولیس نے الیکشن آفس میں فرنیچر اور دیگر سامان کو نقصان پہنچایا۔

    انہوں نے خط میں لکھا کہ ڈی پی او، ڈی ایس پی ڈسکہ گرفتار کارکنان کی رہائی سے انکاری ہیں، پولیس کھلے عام ن لیگی امیدوار کی حمایت کر رہی ہے۔

    تاج حیدر نے کہا کہ پولیس کے ہراساں کرنے سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے، چیف الیکشن کمشنر پی پی کارکنان کی رہائی کے احکامات جاری کریں۔