Tag: پیپلز پارٹی جلسہ

  • ہم نے بانی ایم کیو ایم  کا مقابلہ کیا،عمران خان کیا چیز ہے، بلاول بھٹو

    ہم نے بانی ایم کیو ایم کا مقابلہ کیا،عمران خان کیا چیز ہے، بلاول بھٹو

    کراچی: چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ہم نے ہر قسم کے سیلکٹڈ کا مقابلہ کیا، عمران خان کیا چیز ہے؟۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹاور پر ‘شکریہ کراچی’ کے نام سے منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کراچی سمیت سندھ بھر میں بلدیاتی انتخابات جتوانے پر عوام کا شکریہ ادا کیا۔

    بلاول بھٹو نے کہا کہ عوام نے کشمور سے کراچی تک پی پی پر اعتماد کیا،ماضی میں سندھ میں تقسیم کی سیاست چلتی تھی، آج عوام نے تقسیم کی سیاست دفن کردی، سندھ ایک ہے، ایک تھا اور ہمیشہ رہے گا۔

    انہوں نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن میں کراچی میں صرف ٹریلردکھایاہے،کراچی نے پی ٹی آئی کو خداحافظ کہہ دیاہے اب پورےملک سے بھی ان سیاسی دہشت گردوں کو فارغ کریں گے۔

    چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم نے سندھ سےآمریت کی باقیات کو ختم کردیا، پی پی نےثابت کردیا کہ وہ الیکشن لڑنااورجیتناجانتی ہے،ہم الیکشن سےنہیں بھاگتے،پی پی ہروقت الیکشن کے لئے تیارہے،جب بھی الیکشن ہونگے ہم اپنےمخالفین کو ووٹ کی طاقت سے ہرائیں گے۔

    چیئرمین پی ٹی آئی کو مخاطب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہرقسم کے سلیکٹڈ کامقابلہ کیا ہے، ہم نے اصل دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، کراچی میں بانی ایم کیو ایم کی سیاست کومنہ دیا یہ عمران کیا چیز ہے؟

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ آج تک لاڈلے ہیں،انہوں نےاصل اپوزیشن بھی نہیں دیکھی،ابھی تک ہرکونے میں ان کےسہولت کارموجودہیں، پوری قوم نے دیکھا کہ یہ خود کو بہادرلیڈرکہلواتاہےمگربالٹی سرپررکھےبغیرگھرسےنہیں نکلتا۔

    انہوں نے کہا کہ کپتان ایک رات بھی پولیس گیسٹ ہاؤس میں برداشت نہیں کرسکا عدالت میں جاکر کہتا ہے مجھے ضمانت دو، اس نے ایک ہفتہ جیل میں گزارنے کے خوف سے ملکی ادارے پر حملہ کرایا، پورے پاکستان کو جلادیا، ہماری پیپلز بس سروس کا کیا قصور تھا؟ کراچی میں آگ لگائے گئے کے ایم سی کے واٹر ٹینکر کا کیا قصور تھا؟

    اپنے خطاب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمیں کامیابی ملی،ہمارا وقت اس چیز میں ضائع نہیں ہوگاکہ مخالفین کوپکڑناہے،بلدیاتی الیکشن میں جیت کےبعد اس نظام کو نچلی سطح تک پہنچائیں گے،بلدیاتی اور صوبائی حکومت ساتھ مل کر صحت کیلئےپروگرام لیکر آئیں گے۔

    انہوں نے خبردار کیا کہ الیکشن کمیشن ہمارے میئر،چیئرمین منتخب کرائے ورنہ پی پی احتجاج کرنا بھی جانتی ہے۔

  • 10 اپریل: ملکی سیاست کی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور یادگار دن

    10 اپریل: ملکی سیاست کی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور یادگار دن

    مارشل لاء 31 دسمبر 1985 کو اٹھا لیا گیا تھا اور اس کے اگلے ہی سال اپریل میں بے نظیر بھٹو بھی وطن واپس آگئیں جسے ملکی سیاست کی تاریخ میں نہایت اہم اور یادگار دن قرار دیا جاتا ہے۔

    لاہور میں سیاسی کارکنوں اور عوام نے بے نظیر بھٹو کا فقیدُ المثال استقبال کیا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں، طلبہ اور مختلف شہری تنظیموں کی قیادت اور کارکنوں کے ساتھ ملک بھر میں صحافیوں اور دانشوروں کے لیے ضیاءُ‌ الحق کا دورِ آمریت پھانسی کے پھندوں، کوڑوں کی سزاؤں، احتجاجی مظاہروں‌ کے دوران بدترین تشدد سہتے ہوئے اور جیل یا پھر عدالتوں میں‌ اپنے خلاف مختلف جھوٹے مقدمات لڑتے ہوئے گزرا تھا اور 1986ء میں انھیں نوجوان سیاسی لیڈر نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ 10 اپریل کو پیپلز پارٹی کی شریک چیئر پرسن بے نظیر بھٹو تین سالہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آ رہی ہیں۔

    بے نظیر بھٹو اس جلاوطنی سے قبل کئی سال اپنے وطن میں نظر بند رہی تھیں۔ اس روز صبح کے وقت وہ بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچیں جہاں سیاسی جماعت کی اس قائد اور عوامی راہ نما کو مینارِ پاکستان پر جلسۂ عام سے خطاب کرنا تھا۔ بے نظیر بھٹو کی آمد پر ان کا استقبال ملک کی تاریخ کا ایک اہم اور نہایت منفرد و شان دار واقعہ ثابت ہوا۔ اس روز لاکھوں لوگ لاہور کی سڑکوں پر موجود تھے۔ محترمہ مینارِ پاکستان پہنچیں، لیکن عوام کے جلوس کی وجہ سے صرف 9 میل کا فاصلہ لگ بھگ دس گھنٹے میں طے ہوا۔ اس موقع پر کئی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے اور جیالے اپنی قائد کی آمد کی خوشی کے ساتھ بھٹو خاندان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ لاہور کے بعد بے نظیر بھٹو نے گوجرانوالہ، فیصل آباد، سرگودھا، جہلم اور راولپنڈی کے بھی دورے کیے اور ہر جگہ عوام کا سمندر تھا اور لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔

    محترمہ بے نظیر بھٹو 3 مئی 1986ء کو کراچی پہنچیں جہاں شاہراہِ قائدین پر پارٹی کی جانب سے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ خطاب کے لیے جلسہ گاہ پہنچنے کے لیے بھی انھیں کئی گھنٹے سفر کرنا پڑا تھا۔