Tag: پیپلز پارٹی

  • مریم نواز پر تنقید، پی پی نے ہاتھ ہلکا رکھنے، ن لیگ نے مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کر لیا

    مریم نواز پر تنقید، پی پی نے ہاتھ ہلکا رکھنے، ن لیگ نے مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کر لیا

    اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی کمیٹیوں کی پنجاب سے متعلق ہونے والی ملاقات کا احوال سامنے آ گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے مطالبات پر عمل درآمد کا وعدہ کر لیا ہے، تاہم ن لیگ کی جانب سے شکوہ کیا گیا کہ پی پی کو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز پر زیادہ تنقید نہیں کرنی چاہیے۔

    ذرائع کے مطابق کمیٹیوں کی ملاقات میں ن لیگ نے پی پی کے صرف منتخب رہنماؤں کے کاموں کو ترجیح دینے پر زور دیا، تاہم پی پی کی جانب سے چند غیر منتخب رہنماؤں کے حلقوں کے لیے بھی فنڈز و دیگر کاموں پر اصرار ہوتا رہا۔


    چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلیے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر میں مشاورت شروع نہ ہو سکی


    ن لیگ نے گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ مریم نواز پر تنقید پر اعتراض کیا، ایک لیگی رہنما نے کہا گورنر صاحب کو وزیر اعلیٰ پنجاب پر زیادہ تنقید نہیں کرنی چاہیے، اس پر پی پی رہنما نے جواب دیا کہ ’’ہم ہاتھ ہلکا کر لیتے ہیں لیکن پنجاب حکومت بھی پیپلز پارٹی کا خیال رکھے۔‘‘

    ذرائع کے مطابق پی پی نے چند روز قبل صدر مملکت کی لاہور آمد پر وزیر اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے استقبال نہ کیے جانے پر بھی اعتراض کیا۔

  • پیپلز پارٹی نے نئی متبادل توانائی پالیسی مسترد کر دی

    پیپلز پارٹی نے نئی متبادل توانائی پالیسی مسترد کر دی

    اسلام آباد: مرکزی ترجمان پی پی شازیہ مری نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کی متبادل انرجی کی نئی پالیسی مسترد کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی نے وفاق کی نئی متبادل انرجی پالیسی مسترد کر دی، ترجمان شازیہ مری نے کہا وفاقی حکومت کی جانب سے نیٹ میٹرنگ کے قوانین میں ظالمانہ تبدیلیاں قابل مذمت ہیں، شمسی توانائی صارفین کو 27 روپے فی یونٹ کی بجائے صرف 10 روپے فی یونٹ پر بجلی فروخت کرنے پر مجبورکیا جا رہا ہے۔

    شازیہ مری نے کہا یہ عمل متبادل انرجی صارفین پر براہ راست حملہ اور پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے مستقبل سے غداری ہے، صارفین کو قومی گرڈ سے 65 روپے یا اس سے زائد فی یونٹ کے نرخوں پر بجلی خریدنے کے لیے پابند کیا جاتا ہے، وفاقی حکومت گرین انرجی پر جانے والے صارفین کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ان سے کھلی جنگ کر رہی ہے۔

    پی پی ترجمان نے کہا قیمتوں میں یہ 550 فی صد کا فرق ظالمانہ اور عوام کا معاشی استحصال ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے پاور سیکٹر میں موجود مافیاز، کرپشن اور نااہل افراد کی سرپرستی جاری ہے۔

    انھوں نے کہا، یہ کہا گیا ہے کہ ’’نیٹ میٹرنگ سے عام صارفین پر 90 پیسے فی یونٹ کا بوجھ پڑتا ہے‘‘ یہ ایک کھلا دھوکا ہے، حقیقت یہ ہے کہ 18 روپے فی یونٹ ’’آئیڈل کپیسٹی پیمنٹس‘‘ اور 600 ارب روپے سالانہ بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی میں ضائع ہو رہے ہیں۔

    شازیہ مری کا کہنا تھا کہ ان سنگین مسائل کو حل کرنے کی بجائے، وفاقی حکومت ملک کو توانائی میں خود کفیل بنانے والوں کو سزا دے رہی ہے، یہ پالیسی پاکستان کی شمسی توانائی کی صنعت کو تباہ کر دے گی، جس سے گھریلو اور تجارتی صارفین کے لیے شمسی توانائی ناقابل عمل ہو جائے گی۔

    انھوں نے کہا نئی پالیسی قابل تجدید توانائی میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکے گی، اور فرسودہ اور ناکام گرڈ پر انحصار بڑھا دے گی، حکومتی عمل عوام کو ناقابل برداشت نرخوں پر بجلی خریدنے پر مجبور کریں گے، اور گرین انرجی کے مواقع ختم ہوں گے، بند کمروں میں بیٹھ کر بغیر مشاورت کیے گئے فیصلےعوام کی بجائے طاقت ور لابیوں اور فوسل فیول انڈسٹری کے مفادات کے تحفظ کا عندیہ دیتے ہیں۔

    پی پی ترجمان کے مطابق وفاقی حکومت کا یہ اقدام پاکستان کی توانائی کی خودمختاری اور معاشی آزادی پر براہ راست حملہ ہے، انھوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت اس ظالمانہ پالیسی کو فوری طور پر واپس لے اور ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ اگر وفاقی حکومت نے عوام دشمن پالیسی واپس نہ لی، تو ہم اس کے خلاف عدالتی، سیاسی اور عوامی سطح پر سخت مزاحمت کریں گے۔

  • پیپلز پارٹی نے پیکا ایکٹ کی حمایت کا فیصلہ کر لیا، ذرائع

    پیپلز پارٹی نے پیکا ایکٹ کی حمایت کا فیصلہ کر لیا، ذرائع

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی نے پارٹی مخالفت کے باوجود پیکا ایکٹ کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    پارٹی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی ایوان بالا میں پیکا ایکٹ کی حمایت کرے گی، حالاں کہ پی پی کی سی ای سی نے ایکٹ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

    ذرائع نے بتایا کہ سی ای سی کے تحفظات پر پیکا ایکٹ کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا گیا تھا، جس پر پارلیمانی کمیٹی نے ایکٹ پر تحفظات سے حکومت کو آگاہ کر دیا۔

    اب پی پی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے پیکا ایکٹ پر تحفظات دور کر دیے ہیں، اور سی ای سی نے ایکٹ پر واضح مؤقف اپنانے کا مطالبہ بھی کیا تھا، ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے اب ایکٹ کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    ’حکومت نے پیکا آرڈیننس پر میڈیا سے دھوکا کیا‘

    یاد رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ایکٹ میں متنازع ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے، سیکریٹری داخلہ نے بتایا قانون لوگوں کے تحفظ کے لیے لایا گیا، سینیٹر عرفان صدیقی نے طنزاً کہا کہ اس ملک میں کسی کو ہتھکڑیاں لگانے کے لیے ضروری نہیں کہ کسی قانون کی ضرورت ہو۔

    پی ایف یو جے کی پیکا ایکٹ متنازع ترمیم کیخلاف کل ملک گیر احتجاج کی کال

    سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس بل میں بہت سی کمزوریاں ہیں، فیک نیوز کی تشریح نہیں ہے، کیسے فیصلہ ہوگا کہ فیک نیوز کیا ہے؟ انھوں نے تنبیہہ کی جو متنازع قوانین کی بنیاد رکھتا ہے وہی اس کی زد میں آ جاتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ میں خود بھی فیک نیوز کا متاثر رہا ہوں، فیک نیوز کے خلاف مقدمات کریں گے تو صرف وکیلوں کو ہی ادائیگیاں کرتے رہیں گے۔

    گزشتہ روز پاکستان فیڈرل یونین آف جرنسلٹس (پی ایف یو جے) نے پیکا ایکٹ متنازع ترمیم کے خلاف کل ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے۔

  • سی ای سی میں پیپلز پارٹی کی پالیسی پر شدید اختلاف رائے سامنے آیا

    سی ای سی میں پیپلز پارٹی کی پالیسی پر شدید اختلاف رائے سامنے آیا

    اسلام آباد: پیپلز پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے، کمیٹی اجلاس میں پیپلز پارٹی کی پالیسی پر شدید اختلاف رائے سامنے آیا۔

    پی پی ذرائع کے مطابق سی ای سی نے پارٹی کی موجودہ پالیسی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا، اور اکثریتی اراکین نے پارٹی پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ سی ای سی میں حکومت سے اتحاد ختم کرنے کا مطالبہ باضابطہ طور پر سامنے آیا، کے پی اور پنجاب کے بعض سی ای سی ارکان نے اتحاد ختم کرنے کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ ن لیگ کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھے جائیں۔

    اراکین کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے، اس لیے قیادت حکومت کو بچانے کے معاملے پر اراکین کو قائل کرے،پارٹی قیادت نے کیا سوچ کر حکومت کو کاندھا دیا ہے، اور پی پی کس مجبوری کے تحت ن لیگ کی بیساکھی بنی ہوئی ہے۔

    امریکا میں چین کے خلاف کسی تقریب میں شرکت نہیں کی، محسن نقوی

    ایک رکن نے کہا عوام پی پی کو حکومت اور ن لیگ اپوزیشن سمجھتی ہے، قیادت بتائے کارکنان کو کیسے مطمئن کیا جائے؟ بلاول بھٹو نے سی ای سی اراکین کو مطمن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، تاہم آصف زرداری کی آمد پر بلاول بھٹو کی اراکین سے جان خلاصی ہوئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ای سی کے بعض ارکان نے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا مطالبہ کیا، اور کہا حکومت مذاکرات کے نام مذاق کر رہی ہے، وزیر اعظم اور وزرا پیپلز پارٹی کو سنجیدہ نہیں لیتے، پارٹی کی ایسی تذلیل کسی دور میں نہیں ہوئی۔ ایک رکن نے کہا ایک سال میں ن لیگ کا پی پی پر اعتماد نہیں بن سکا، ن لیگ قانون سازی پر بھی اعتماد میں نہیں لیتی۔

    سی ای سی رکن کا کہنا تھا کہ قانون سازی کے بارے میں اسمبلی کے آغاز پر بتایا جاتا ہے، ان حالات میں قیادت چاہے تو ن لیگ کو زمین پر لانا ممکن ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری سی ای سی اراکین کو مطمن کرنے میں کامیاب ہوئے، اور انھوں نے سی ای سی کو معاملات نتیجہ خیز بنانے کی یقین دہانی کرائی۔

  • پیپلز پارٹی کا نواز شریف سے براہ راست رابطے کا فیصلہ

    پیپلز پارٹی کا نواز شریف سے براہ راست رابطے کا فیصلہ

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین مذاکرات ڈیڈ لاک کے شکار ہیں، جس کی وجہ سے پی پی نے میاں نواز شریف سے براہ راست رابطے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    پیپلز پارٹی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نواز شریف سے رابطہ کریں گے، ان کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو کی بھی نواز شریف سے ملاقات کا امکان ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے نواز شریف سے رابطہ کر رہی ہے، انھیں وفاقی حکومت سے متعلق پی پی کے تحفظات سے آگاہ کیا جائے گا۔

    ذرائع پی پی کے مطابق پیپلز پارٹی نواز شریف سے مطالبات پورا کرنے کا مطالبہ کرے گی، اور ان سے مذاکرات میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا، کیوں کہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی پی وزیر اعظم شہباز شریف سے مکمل طور مایوس ہو چکی ہے۔

    پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کر دی

    پی پی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم تحریری معاہدے پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے ہیں، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا سے متعلق تحفظات بدستور موجود ہیں، پیپلز پارٹی کو وفاقی حکومت سے متعلق بھی سنگین تحفظات ہیں۔

    واضح رہے کہ پی پی کو وفاق میں تعیناتیوں اور قانون سازی سے متعلق تحفظات ہیں۔

  • پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کا کورم کیوں توڑا؟ وجہ سامنے آ گئی

    پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کا کورم کیوں توڑا؟ وجہ سامنے آ گئی

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی حکمران جماعت ن لیگ سے ایک بار پھر ناراض ہو گئی ہے۔

    پی پی ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے یکسر نظر انداز کیے جانے پر پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن سے ناراض ہے، چند دن قبل قومی اسمبلی میں کورم توڑنے کا مقصد بھی اظہار ناراضی تھا، پیپلز پارٹی نے قومی اسملی کا کورم توڑ کر حکومت کو واضح پیغام دیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ پی پی رہنماؤں کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دینا بھی دراصل اظہار ناراضی ہے، کیوں کہ پیپلز پارٹی اہم معاملات پر مشاورت نہ ہونے پر شدید برہم ہے، حکومت اہم معاملات پر پی پی کو اعتماد میں نہیں لے رہی۔

    اس سلسلے میں پی پی ذرائع نے کہا دریائے سندھ سے لنک کینال کے معاملے پر پارٹی سے مشاورت نہیں ہوئی، یہ فیصلہ دراصل پی پی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا تھا، پی پی قیادت کو دریائے سندھ سے لنک کینال نکالنے پر شدید تحفظات ہیں، اور کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف پی پی آخر حد تک جائے گی۔

    ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی سے مذاکرات پر بھی پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، نہ ہی مذاکرات شروع کرنے پر مشاورت کی گئی، پی پی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ن لیگ سے زیادہ مذاکرات کا تجربہ رکھنے والی جماعت پیپلز پارٹی ہے، اگر مذاکرات پر اعتماد میں لیا جاتا تو معاملات زیادہ بہتر ہوتے۔

    پی پی قیادت پر موجودہ صورت حال میں پارٹی کا شدید دباؤ ہے، پیپلز پارٹی کے سینیٹرز، ایم این ایز شدید بد دلی کا شکار ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی قیادت وزیر اعظم سے ملاقات کی خواہش مند ہے، اور بلاول بھٹو اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کی خواہش لے کر اسلام آباد پہنچے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کی رواں ہفتے اسلام آباد میں اہم ملاقاتوں کا امکان ہے۔

  • پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو مذاکرات پر مشاورت کے لیے مہلت دے دی

    پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو مذاکرات پر مشاورت کے لیے مہلت دے دی

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں معاملات تاحال طے نہیں ہو سکے، پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو مذاکرات پر مشاورت کے لیے مہلت دے دی۔

    پی پی ذرائع کے مطابق ن لیگ نے پیپلز پارٹی سے مذاکرات پر وسط جنوری تک مہلت مانگ لی ہے، ن لیگ پارٹی سطح پر مشاورت کرنا چاہتی ہے، پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو مشاورت کے لیے مہلت دے دی۔

    ذرائع نے بتایا کہ ن لیگ پی پی کے مطالبات پر مشاورت کر کے جواب دے گی، ن لیگ نے تحریری معاہدے پر عمل درآمد پر مشاورت کرنی ہے، دونوں پارٹیوں کے مذاکرات میں پنجاب پاور شیئرنگ فارمولا اہم رکاوٹ ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ کو پنجاب کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں، وہ کسی صورت پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اسپیس نہیں دینا چاہتی، اس لیے مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے، پیپلز پارٹی ن لیگ سے مذاکرات بارے زیادہ پرامید نہیں ہے۔

    پیپلز پارٹی قیادت نے رہنماؤں کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دے دی

    پی پی ذرائع نے بتایا کہ ن لیگ پنجاب کے علاوہ مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ ہے، اس لیے پنجاب سے متعلق تمام مطالبات پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے، البتہ سندھ، کے پی اور بلوچستان بارے بیش تر مطالبات مان لیے جائیں گے۔

  • پیپلز پارٹی قیادت نے رہنماؤں کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دے دی

    پیپلز پارٹی قیادت نے رہنماؤں کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دے دی

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے صوبائی و مرکزی رہنماؤں کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دے دی ہے۔

    پی پی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کا فیصلہ کر لیا ہے، اور اس سلسلے میں قیادت نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اجازت دے دی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی آئندہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرے گی، قیادت نے اس کے لیے پارٹی رہنماؤں کو گائیڈ لائنز دے دی ہیں، جس کے تحت وفاق اور پنجاب میں حکومت کی غلط پالیسیوں پر کھل کر تنقید ہوگی۔

    یاد رہے کہ پارٹی نے قیادت کو حکومتی پالیسیوں پر تحفظات سے آگاہ کیا تھا، اور قیادت کو حکومتی پالیسیوں پر خاموشی ترک کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا، یہ کہا گیا تھا کہ حکومتی کی غلط پالیسیوں پر خاموشی حمایت کے مترادف ہے، غلط حکومتی پالیسیوں پر خاموشی سیاسی طور نقصان دہ ہے۔

    پارٹی تنظیم نو، پی پی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ شروع کر دی

    پی پی ذرائع نے بتایا کہ حکومت کے غلط کاموں اور ناقص پالیسیوں کا نزلہ پی پی پر گرنا تھا، اور پیپلز پارٹی غلط حکومتی فیصلوں کا نزلہ خود پر نہیں گرنے دے سکتی، اس لیے پیپلز پارٹی کے مرکزی و صوبائی رہنماؤں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر سکتے ہیں۔

  • پارٹی تنظیم نو، پی پی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ  شروع کر دی

    پارٹی تنظیم نو، پی پی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ شروع کر دی

    اسلام آباد: پارٹی تنظیم نو کے دوران پیپلز پارٹی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ شروع کر دی۔

    پارٹی ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی بلوچستان میں اختلافات شدت اختیار کرنے کے باعث پارٹی قیادت نے صوبے میں تنظیم نو رواں ماہ کرنے کا حکم دے دیا ہے، پیپلز پارٹی بلوچستان کی تنظیم نو آئندہ 2 ہفتوں میں ہوگی۔

    ذرائع کے مطابق پی پی بلوچستان کے رہنماؤں نے عہدوں کے لیے لابنگ شروع کر دی ہے، اور پارٹی قیادت سے رابطوں میں تیزی آ گئی ہے، صدر پی پی بلوچستان کے لیے 5، جب کہ جنرل سیکرٹری کے لیے 2 امیدوار مدمقابل ہیں۔

    صدر پی پی بلوچستان کے لیے صادق عمرانی اور ثنا اللہ زہری میں مقابلہ ہے، صدارت کے لیے صابر بلوچ، علی حسن زہری، اور عمر گوریج کی جانب سے بھی لابنگ جاری ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ میر علی حسن زہری صدر پیپلز پارٹی بلوچستان کے لیے مضبوط امیدوار ہیں، وہ آصف زرداری کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔

    پارٹی ذرائع کے مطابق جنرل سیکریٹری پیپلز پارٹی بلوچستان کے لیے سربلند جوگیزئی اور نورالدین کاکڑ مدمقابل ہیں، تاہم سربلند جوگیزئی فیورٹ ہیں۔

    یاد رہے کہ پارٹی قیادت کے حکم پر 28 ستمبر کو بلوچستان تنظیم تحلیل کی گئی تھی، اور صدر پی پی بلوچستان چنگیز جمالی اور جنرل سیکریٹری روزی خان کو ہٹایا گیا تھا، پی پی بلوچستان ڈویژنل، ضلعی عہدیدار صوبائی تنظیم کے مخالف تھے۔

    صوبے میں پارٹی کی تنظیم نو کے لیے ری آرگنائزنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے، بلوچستان ری آرگنائزنگ کمیٹی تنظیم نو پر سفارشات قیادت کو دے گی، یہ کمیٹی صادق عمرانی، عمر گورگیج، اقبال شاہ پر مشتمل ہے، اور ثنا اللہ زہری، میرباز کھیتران، صابر بلوچ ری آرگنائزنگ کمیٹی کا حصہ ہیں۔

  • ’اہم فیصلوں پر اعتماد میں نہیں لیا جارہا‘ پیپلز پارٹی کی پھر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی

    ’اہم فیصلوں پر اعتماد میں نہیں لیا جارہا‘ پیپلز پارٹی کی پھر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی

    پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ جس دن پیپلز پارٹی حکومت کی حمایت ختم کردی گی، وفاقی حکومت بھی ختم ہوجائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے اپنے ایک بیان میں میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی  کے حوالے سے سخت ردعمل  دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت متواتر ایسے فیصلے کر رہی ہے جن کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا جارہا، پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے اور پی پی جس دن حمایت ختم کردے گی وفاقی حکومت بھی ختم ہوجائے گی، شائد مسلم لیگ ن کو اس بات کا ادراک نہیں ہے۔

    ترجمان پی پی شازیہ مری نے کہا کہ وفاقی حکومت ایسے فیصلے کر رہی ہے جن پر اعتماد میں نہیں لیا جارہا، اتھارٹی کے فیصلے پر سندھ حکومت، پیپلز پارٹی دونوں کو بے خبر رکھا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کئی بار یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ قومی مفاداتی کونسل کا اجلاس بلائیں، 11 ماہ گزر گئے تاحال مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا گیا، آئین کی مستقل اور کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

    پی پی ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم 3 ماہ میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں، میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں لایا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ کیا اہم امور پر اتحادیوں، صوبوں کو اعتماد میں لئے بغیر فیصلہ کرنا دانشمندی ہے؟ وفاقی حکومت کی روش سمجھ سے بالاتر ہے اس طرز خلیج اور بڑھے گی، ملک کو آئینی وقانونی طرز عمل پر چلایا جائے تو وہ سب کیلئے بہتر ہوگا، میری ٹائم سیکٹر پر اتحادیوں اورصوبوں کی رائے سب سے پہلے لی جائے۔

    https://urdu.arynews.tv/sharmila-farooqui-lashed-the-government/