Tag: پی ٹی آئی انتخابی نشان

  • سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ چیف جسٹس کا وکیل علی ظفر سے سوال

    سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ چیف جسٹس کا وکیل علی ظفر سے سوال

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انتخابی نشان کیس کی سماعت وکیل علی ظفر سے سوال کیا سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا میڈیا پر اعلان کیا تھا، کوئی خط نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ علی ظفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے،عمران خان سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی، جس پر وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے سابق سربراہ نے نہیں.

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کے وقت پارٹی چیئرمین کون تھا؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین عمران خان تھے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کسی کوانٹراپارٹی الیکشن پراعتراض ہےتووہ سول کورٹ جاسکتاہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوادیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا، بلا مقابلہ ہے تو قانونی ہی لیکن عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے، یعنی پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ کھیلے بغیر سرٹیفکیٹ آگیا کہ پاکستان جیت گیا، ہم پوری جمہوریت پر چلیں گے بہت ہو گیالولی لنگڑی والا کام۔

    وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ اکبر ایس بابرپارٹی ممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا گیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں دکھائیں ریکارڈ سے وہ ممبر نہیں، وکیل نے کہا میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں، میرا بیان یہ ہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں،مجھے ہدایات یہی ملی ہیں کہ اکبرایس بابر ممبر نہیں۔

    جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ علی ظفر نے بتایا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جنہوں نے خود 2 سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہدایات دے رہے ہیں؟

    دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ آپ کامطلب ہےالیکشن کمیشن کو حق نہیں کہ دیکھےالیکشن مروجہ طریقہ کارسےہوئے یا نہیں؟ تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ یہ تشریح نہیں نکلتی کہ 2لاکھ دیکرکبھی انٹراپارٹی الیکشن نہیں کرائیں۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کئے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذات نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانے ہیں؟

    دوران سماعت چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر کاغذات نامزدگی چیک کرنے کا کہہ دیا اور کہا جس کے پاس لیپ ٹاپ ہے وہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کھولیں، علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ اور رابطہ ایپ پر تمام ممبرز کی تفصیل موجود ہے تو چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ جب الیکشن ہو گیا تو کاغذات نامزدگی ہٹا دئیے گئے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں ہمارے تو انتخابات نہیں ہوتے، ہماری ویب سائٹ پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں تو موجود ہو گا۔

    چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس یا کاغذات نامزدگی کا، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا فیس کیش میں وصول کی گئی تو چیف جسٹس نے سوال کیا کونسی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟

    جسٹس مسرت ہلال نے ریمارکس دیئے 50ہزار کی رسید دیں،آپ دوسروں سے بھی رسیدیں مانگنے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے بڑےعہدوں پرسب پارٹی سربراہ ہوتےہیں،ان کےخلاف الیکشن کی کوئی ہمت نہیں کرتا، پارٹی کے چھوٹے عہدوں پرتوکم سےکم جنگ ہوتی ہے، صرف کہنے سے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوجاتی، آمریت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے، کسی بڑے کی ناجائز بات سنی جائے تو باہر سے جمہوریت اندر آمریت ہونے لگتی ہے، انگلینڈ میں اگر انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر وزیراعظم تبدیل ہوتا تو کوئی نہ مانتا۔

    چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کے کاغذات نامزدگی دکھا دیں، سب کچھ چھوڑیں صرف یہ بتا دیں کہ الیکشن ہوا یا نہیں،پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر کوئی کاغذات نامزدگی نہیں ہے، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ انٹراپارٹی انتخابات کے بعد ویب سائٹ سے کاغذات نامزدگی ہٹا دیے گئے، کاغذات نامزدگی چاروں صوبائی دفاتر میں دستیاب تھے۔

    وکیل پی ٹی آئی نے مزید بتایا کہ تمام پارٹی ارکان کو معلوم تھا کہ فارم کہاں سے ملے گا اور جمع کہاں ہوگا،کاغذات نامزدگی جمع کرانے کیلئے 3 دن کا وقت دیا گیا تھا، کاغذات نامزدگی کیساتھ 50 ہزار روپے فیس بھی تھی،جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا 50ہزار کس بینک میں گئے وہ دکھا دیں، علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی فیس کیش کی صورت میں لی گئی تھی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سیاسی جماعت کیش کیسے لے سکتی ہے؟ پیسے کہاں گئے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اگرکسی عام انتخابات میں 326ارکان قومی اسمبلی بلامقابلہ منتخب ہوجائیں تومیں تونہیں مانوں گا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن میں چھوٹی سی چھوٹی نشست پربھی بلامقابلہ انتخاب ہوا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن قابل اعتبارنظرنہیں آرہے ، آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے، لیکن نظر نہیں آ رہا،جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کیا آپ نے اپنے لوگوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی، بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کیلئے 20 دن کا وقت دیا گیا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکیل پی ٹی آئی سے کہنا تھا کہ ساڑھے 3 سال پہلے کی بات ہے الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ الیکشن کرائیں ، آپ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ کورونا ہے ایک سال کا ٹائم دیا گیا، الیکشن کمیشن نے تو بہادری دیکھائی کہ حکومت میں ہی نوٹس دیا،تو بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صرف ہمیں نہیں الیکشن کمیشن نے سب کو نوٹس بھیجا۔

    دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جو شیڈول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا،اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے،الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کسی اور پارٹی کے انتخابات پر اعتراض نہیں آیا۔

    وکیل پی ٹی آئی علی ظفر کا کہنا تھا کہ پارٹی الیکشن شیڈول پر اعتراض کا جواب دوں گا، چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے تو علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کی پارٹی کا نعرہ ہی لوگوں کو جرأت اور اختیار دینا ہے، پی ٹی آئی کے اپنے انتخابات میں ہی اتنی بے ضابطگی ہوئی ہے۔

    چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کب پارٹی میں آئے، علی ظفر نے بتایا کہ میں نےتقریباً2سال قبل ہی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی ہے، چیف جسٹس نے مزید پوچھا مسٹرگوہرنےکب پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی،پہلےکس جماعت میں تھے؟ تو وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہبیرسٹرگوہرایک زمانےمیں پیپلزپارٹی میں تھے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید پوچھا تواکبرایس بابرنےکوئی اورجماعت میں شمولیت اختیارکی توبتادیں؟ تو وکیل نے بتایا کہ 2018 میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر اکبرایس بابرکونکال دیاگیاتھا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اکبرایس بابرکوپارٹی سےنکالاہےتووہ ٹرمینیشن لیٹر دکھا دیں،آپ کاکیس مضبوط ہوجائےگا،اگرواضح جواب نہیں دیں گےتومیں سمجھوں گااکبرایس بابراوردیگر13افرادپارٹی ممبران ہیں، ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ مطلوبہ دستاویز نہ دے سکوں توآپ فرض کرلیں کہ وہ افراد ممبران ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات کالعدم قرارنہیں دے سکتا، علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات میں ٹریبونل کا کردار ادا نہیں کر سکتا،پارلیمان نے انٹراپارٹی انتخابات کا جائزہ لینے کا اختیار دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتی، قانون کے مطابق انٹرپارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دینا لازمی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں، سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے،پی ٹی آئی پارٹی انتخابات سے گھبرا کیوں رہی ہے؟ ہمیں کوئی دستاویزات دکھا دیں کہ انتخابات ہوئے ہیں، سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آ سکتا ہے، 50ہزار کے حساب سے فیس کہاں جمع ہوئی یہ بھی دکھا دیں، اگر پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا کہ فیصلہ معطل کرنا پڑے گا،عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں،پھر گلہ نہ کیجئے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا۔

    دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اکبرایس بابر کہتے ہیں وہ فارم اور معلومات لینے گئے، علی ظفر نے بتایا کہ اکبرایس بابر اگر فارم لینا چاہتے تو ضرور لیکر جاتے، کبرایس بابر نہ انتخابات کیلئے اہل ہیں نہ ہی انہوں نے فیس ادا کی، کبر بابر اگر ممبر ہیں تو رکنیت کارڈ دکھا دیں، 20نومبر کو انٹراپارٹی انتخابات کا اعلان ہوا جو میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا، سابق چیئرمین نے کس کو چیئرمین نامزد کیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ تو وکیل نے بتایا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے میڈیا پر اعلان کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟ کل عمران خان کہ دیں میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا۔

    چیف جسٹس نے مکالمے میں مزید کہا کہ وہ خط دکھائیں جس کے تحت سابق چیئرمین نے گوہر علی خان کو چیئرمین نامزد کیا، تو بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ وہ خط میڈیا میں آیا تھا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا اس طرح تو ہم نہیں مان سکتے،کاغذ پر تو کچھ تو دکھا دیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا نیاز اللہ نیازی کب پی ٹی آئی کا حصہ بنے؟ علی ظفر نے بتایا کہ نیاز اللہ نیازی 2009 سے پی ٹی آئی کے رکن ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اچانک نئے نئے چہرے سامنے آنے سے ایلیٹ کیپچر کا تاثر مل رہا ہے تو وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق کوئی اکیلا شخص الیکشن نہیں لڑسکتا پینل بنانا ضروری ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ جمہوریت کیخلاف نہیں ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہونا تو ایسے ہی چاہیے لیکن پارٹی آئین میں یہی لکھا ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی تو کاغذ دکھا دیں، جسٹس مسرت ہلالی نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمے میں کہا لگتاہےآپ کی پارٹی دستاویزات کےمعاملےمیں تھوڑی کمزورہے۔

  • آپ کہتے ہیں اسٹیبشلمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، چیف جسٹس کا وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ

    آپ کہتے ہیں اسٹیبشلمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، چیف جسٹس کا وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتےہیں اسٹیبشلمنٹ کاالیکشن کمیشن پردباؤہےتواسکوثابت کریں، جب بدنیتی کاالزام لگاتے ہیں توبتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتےہیں اسٹیبشلمنٹ کاالیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اصل نام فوج ہے، اسٹیبشلمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالے گی؟

    چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت آئینی اداروں کوکنٹرول تو نہیں کرسکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں توبتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے، یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی اورجماعت میں کوئی ایک کاغذا کا ٹکڑا پیش کر دے اور دوسرا کوئی اور تو فیصلہ کون کرے گا؟ تو وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ اس کافیصلہ سول کورٹ کرےگی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سول کورٹ اس کا فیصلہ کیوں کرے گی۔

    وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کیوں کہ پارٹی ممبران کاآپس میں تنازع ہوگا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سول کورٹ کہےیہ میرا نہیں الیکشن کمیشن کا کام ہے، علی ظفر نے کہا کہ اِس معاملے میں الیکشن کمیشن کادائرہ کار نہیں ہوگا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہاں سے یہ بات کررہے ہیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا میں آپ کوقانون پڑھ کرسناتاہوں، الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے تو جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔

    چیف جسٹس کے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ یا آپ تسلیم کر لیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟یا تو کہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، آپ کو سیاست چاہئے جمہوریت نہیں چاہئے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے، ہمارےسامنےانتخابی نشان کیس نہیں پشاورہائیکورٹ فیصلہ دیکھ رہےہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےانتخابی نشان واپس نہیں لیا، الیکشن کمیشن کاپہلےخط پڑھیں،انہوں نے کہا انٹراپارٹی الیکشن کرائیں، الیکشن کمیشن نے دھمکی بھی دی انٹرپارٹی الیکشن نہیں کرائیں گےتونشان لے لیں گے۔

    جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سوال یہ ہےکیا الیکشن نہ کر انےپرکیاالیکشن کمیشن پارٹی نشان واپس لےسکتاہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ لوگوں نےالیکشن کمیشن کےخط کوقبول کیاہے، انٹراپارٹی الیکشن ہوگئے توانتخابی نشان خودبخودمل جائےگا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آپ کی حکومت تھی جب الیکشن کمیشن نےخط لکھاتھا، پی ٹی آئی نےاس وقت انٹرپارٹی الیکشن نہیں کرائے، پی ٹی آئی نےکوروناکی وجہ سےایک سال کی مہلت مانگی ،یہ نہیں کہاالیکشن کمیشن کون ہےنشان واپس لینے والا، الیکشن کمیشن نے بتایا 13جماعتوں کوانٹراپارٹی الیکشن نہ کرانےپرڈی لسٹ کرچکےہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے یا تو کہہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے مانے نہیں۔

    چیف جسٹس نےوکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ 14درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا ، وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو سیاست چاہئے جمہوریت نہیں چاہئے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوادیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا، بلا مقابلہ ہے تو قانونی ہی لیکن عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے، یعنی پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ کھیلے بغیر سرٹیفکیٹ آگیا کہ پاکستان جیت گیا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہونگے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں اور استفسار کیا کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دیدے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟

    وکیل علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ،انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتاہے،جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی اسٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔

  • پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق  فیصلہ ، الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس آج ہوگا

    پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلہ ، الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس آج ہوگا

    اسلام آباد : پی ٹی آئی کو انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پرمشاورت کے لئے الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس آج ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس آج ہوگا، جلاس چیف الیکشن کمشنرسکندرسلطان راجہ کی سربراہی میں الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ میں ہوگا۔

    اجلاس میں کمیشن کےچاروں ممبران اوراسپیشل سیکرٹریز شرکت کریں گے، کمیشن پشاورہائی کورٹ کےفیصلے پرآج مشاورت کرے گا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کالاونگ کمیشن کوپشاورہائیکورٹ فیصلےسےمتعلق قانونی نکات پربریفنگ دے گا۔

    یاد رہے گزشتہ روز پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرکے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا بحال کرنے کا حکم دیا تھا، عدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹیفکیشن ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پارٹی سرٹیفکیٹ الیکشن ایکٹ 2017 کے شق 209 کے تحت شائع کرے اور آرٹیکل 215 کے تحت الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کوانتخابی نشان’’بلا‘‘الاٹ کرے۔

    تاہم پی ٹی آئی کےانتخابی نشان سےمتعلق پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ آئےاٹھارہ گھنٹےگزرگئے، الیکشن کمیشن نےتاحال پی ٹی آئی کےانتخابی نشان ’’بلے‘‘کانوٹیفکیشن جاری نہ کیا۔

    واضح رہے الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیا تھا۔

  • پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت ، آج فیصلہ متوقع

    پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت ، آج فیصلہ متوقع

    پشاور : پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت جاری ہے، جسٹس اعجازانور نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن شیڈول کے بعد کیسے انتخابی نشان کا فیصلہ کرسکتے ہیں؟

    تفصیلات کے مطابق پشاورہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر سماعت ہوئی، جسٹس اعجاز انور ، جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کرنے والے فریقین کے وکیل قاضی جواد ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ میرے موکل پی ٹی آئی کے سابق ضلعی جنرل سیکریٹری رہے ہیں ، میرے موکل کو میڈیا سے پتہ چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں، میرےموکل الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔

    جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں ، انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قراردیےگئے،آپ کو چاہیےتھا دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا، آپ نےپارٹی نشان واپس لیےجانےپراعتراض نہیں کیا۔

    جس پر وکیل نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا جس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے، انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہیں تو
    جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا ہائیکورٹ صرف صوبے کو دیکھ سکتی ہے، کیا ہر صوبے میں الگ الگ کیس کرنا چاہیے تھا ان کو؟ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا تو یہاں پر کیسے کیس نہیں کرسکتے۔

    جسٹس اعجاز انور نے بھی استفسار کیا انٹراپارٹی الیکشن میں تمام ممبران الیکٹ ہوئےیاصرف صوبےکی حد تک؟ وکیل نے بتایا کہ انٹرپارٹی الیکشن میں پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔

    جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس میں کہا کہ یہاں پر الیکشن ہوا اور الیکشن کمیشن نے اس کو کالعدم قرار دیا ،انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا ہے تو اس کو یہاں کیوں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ یہ تو لاہور ہائیکورٹ بھی گئےتھےوہاں پر ان کی درخواست خارج ہوئی۔

    جسٹس اعجاز انورنے مزید کہا کہ لاہورہائیکورٹ نےآرڈرمیں لکھا کیس پشاورہائیکورٹ ،سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے،لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔

    دوران سماعت اکبرایس بابر نے اپنے بیان میں کہا کہ بہترہوتاپشاور ہائیکورٹ ہمیں بھی سنتی، ہم پشاورہائیکورٹ کو ثبوت دیتے، فیصلہ صادر کرنےسے پہلے ہمیں بھی سناجاتا، پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن کے نام پرفراڈ کیا،انٹراپارٹی الیکشن کا مقام تک خفیہ رکھا گیا۔

    اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن کےنام پر ہونیوالےفراڈکےتمام ثبوت ہیں، ہمیں ہائیکورٹ نے نوٹس نہیں دیے، فارن فنڈنگ کیس میں 200 سے زائد پیشیاں ہوئیں، تحریک انصاف نے متعدد رٹ پٹیشن دائر کیں، پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے، اس سے پہلے یہ روایت نہیں تھی۔

    سابق رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن کےبازو مضبوط کرنے کےبجائےباندھےجا رہے ہیں، پڑوسی ملک میں الیکشن کمیشن کےمعاملات میں مداخلت نہیں ہوتی۔

    جج نے ریمارکس دیئے الیکشن شیڈول جاری ہو جائےتوکیسے آپ کسی کےانتخابی نشان کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی پارٹی بغیر انتخابی نشان کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے؟ وکیل شکایت کنندہ نے بتایا کہ 1985 میں بھی غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ وہ تو مارشل لاء کا دور تھا۔

    جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ایک پارٹی کو نشان مل جائے تو آپ کو کیا نقصان ہوگا؟ شکایت کنندہ کے وکیل نے دلائل دیے کہ جو پارٹی قانون کےمطابق پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی توکیوں سپورٹ کریں، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں ہر الیکشن کیلئے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے۔

    جسٹس اعجاز انوار نے کہا کہ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ، نشان واپس لینا ٹھیک ہے، سوال کیا کہ کیا آپکی درخواست پرالیکشن کمیشن نےانٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیا ۔ کیا سپریم کورٹ میں درخواست واپس لی گئی ہے، جس پر وکلا نے عدالت کو بتایا کہ جی سپریم کورٹ سے درخواست واپس لے لی گئی ہے۔

    جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ الیکشن کاعمل ٹھیک نہیں تھا تو شوکاز جاری کیا گیا وہ کہاں ہے؟ وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ 7 دسمبر کو ان کو نوٹس جاری کیا گیاتھا، جس پر جسٹس اعجاز انور استفسار کیا نوٹس میں کہاں لکھاہےالیکشن ایکٹ 208 ، 209 کی خلاف ورزی ہوئی، شوکاز تو 2021 میں دیا گیا،اس کے بعد تو کوئی جاری نہیں کیا گیا۔

    شکایت کنندہ کی طرف سے طارق آفریدی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دائرہ اختیارپربات کروں گاکہ درخواست عدالت سن سکتی ہے یا نہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ سے پہلے وکیل صاحب نے بھی دائرہ اختیار پر ایک گھنٹہ دلائل دیے،انہوں نے جو نکات اٹھائےاس کےعلاوہ کوئی ہےتوبتائیں۔

    طارق آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی لیول پلیئنگ فیلڈکی بات کررہی ہےتواپنےکارکنوں کوبھی یہ فیلڈدے، پارٹی کے کارکنوں کو پتہ نہیں تھا کہ الیکشن کہاں پرہیں، پھرایک بلبلا اٹھااورانٹراپارٹی الیکشن ہوئے، جس پر جسٹس اعجازانور نے ریمارکس دیئے پھروہ بلبلا بھی پھٹ گیا، یہاں پر کبھی کون تو کبھی کون لاڈلا بن جاتا ہے، آپ سیاسی باتیں نہ کریں قانونی نقطے پر آجائے۔

    وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ یہ خود لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں، ہم نےبھی لیول پلیئنگ فیلڈ مانگی تھی تو جسٹس اعجاز انورکا کہنا تھا کہ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ،نشان واپس لینا ٹھیک ہے۔

    جس پر وکیل نے بتایا کہ جوپارٹی قانون کےمطابق پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی توکیوں سپورٹ کریں، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں ہر الیکشن کیلئے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے، شکایت کنندہ پارٹی ممبر ہے ان کو پارٹی سے نکالا گیا، جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے ہم اس پر نہیں جاتے کہ یہ پارٹی ممبر تھےیانہیں، آپ کی درخواست پرالیکشن کمیشن نےانٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیا۔

  • پی ٹی آئی کے پاس ‘بَلے کا نشان’ رہے گا یا نہیں؟   فیصلہ محفوظ کرلیا گیا

    پی ٹی آئی کے پاس ‘بَلے کا نشان’ رہے گا یا نہیں؟ فیصلہ محفوظ کرلیا گیا

    پشاور : پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے انتخابی نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے انتخابی نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    درخواست پرسماعت جسٹس اعجاز خان نے کی، الیکشن کمیشن کے وکیل سکندرمہمند نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اعجازخان نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ نے کوئی ایسا آرڈر دیا ہے کہ ایک ہائی کورٹ کا حکم پورے ملک کیلئے ہوتا ہے؟ اخبار میں پڑھا تھا، کیا ایسے کوئی حکم ہے بھی؟

    جس وکیل سکندرمہمند نے کہا بالکل سپریم کورٹ نے آراوز سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کیا تھا، پہلا پوائنٹ یہ ہےکہ یکطرفہ کارروائی کے تحت فیصلہ معطل کیا گیا اور دوسرا پوائنٹ یہ ہےکہ کیس میں انٹرم ریلیف دیا ہے، اس کیس میں تو اس کے بعد کچھ بچاہی نہیں۔

    الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہمیں سنا ہی نہیں گیا حالانکہ الیکشن کمیشن اس میں فریق تھا، پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، یہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کوایسا فیصلہ دینے کا اختیار نہیں ہے ، اختیارات پر سوال اٹھائےگئے،کہاگیا الیکشن کمیشن کافیصلہ غیرآئینی ہے۔

    سکندرمہمند نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو سنے بغیر حکم امتناع جاری کردیا، الیکشن کمیشن اس میں فریق تھااس کو نہیں سناگیا، وفاقی حکومت اس کیس میں فریق ہی نہیں ہے، وفاقی اورصوبائی حکومت نےضمنی درخواست جمع کرائی کہ اس آرڈرمیں تصحیح کی جائے، وفاقی اورصوبائی حکومت کہہ رہی ہےکہ ہم فریق ہی نہیں ہیں۔

    وکیل کا دلائل میں مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن خودمختار ادارہ ہے، عدالت کا26 دسمبرکاآرڈرایک طرفہ ہےہمیں نہیں سناگیا،پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کی، ایک بار ایک عدالت کوآپ نےچوزکیاتوپھردوسری عدالت نہیں جاسکتے، عدالت کی چوائس سےمتعلق سپریم کورٹ کے فیصلے بھی ہیں۔

    جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ اس کیس میں درخواست گزار پارٹی سے کوئی موجود ہے تو وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ہمیں کوئی نظر نہیں آرہا، یہ خبر تو پورے دن نیوز چینل پر بھی چلی ہے،مجھے نہیں لگتا کہ ان کو یہ پتہ نہیں ہوگا کہ کیس سماعت کے لئے مقرر ہے، ہماری استدعا ہے کہ 26 دسمبر کا آرڈر واپس لیا جائے۔

    نگراں صوبائی حکومت نے کیس میں فریق بننے سے انکار کردیا، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا ہمارے لئے تمام جماعتیں برابر ہیں۔ہمارا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ،نام حذف کیا جائے۔ اگرہمیں نوٹس جاری کیا جاتا ہے تو پھر عدالتی معاونت کرینگے۔

    جس پر جسٹس اعجاز خان نے استفسارکیا کہ کیا وفاقی حکومت کا بھی یہی مؤقف ہے تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی ہمارا بھی یہی مؤقف ہے۔

    پشاور ہائیکورٹ نے وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل سننے کے بعد نظرثانی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔