Tag: پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس

  • بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق پولنگ مٹیریل عدالت میں  پیش کردیا

    بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق پولنگ مٹیریل عدالت میں پیش کردیا

    اسلام آباد : بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سےمتعلق پولنگ مٹیریل پیش کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ بلا مقابلہ بھی ہو تو بھی ووٹ ڈالنا پڑتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    وکیل پی ٹی آئی بیرسٹرعلی ظفر نے سماعت کے وقفے کے بعد دلائل میں کہا کہ انٹراپارٹی الیکشن میں نامزدگی فارم ایک ہی سائیڈکی جانب سے جمع کرائے گئے، انٹراپارٹی الیکشن میں کوئی مدمقابل پینل ہی نہیں تھا، اسلام آباد میں انٹراپارٹی الیکشن کیلئے کوئی جگہ دینے کو تیارنہیں تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کو دلائل کیلئےکتنا وقت درکار ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرلوں، کاغذات نامزدگی جمع ہوناپہلا اور انتخابات کامقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جہاں الیکشن ہوا کیا وہاں آپ کا دفتر ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ جس گراؤنڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کے ساتھ ہے، الیکشن کمیشن نےآئی جی کےپی کو پشاور میں سیکیورٹی فراہمی کیلئے خط لکھا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق تمام اخبا رات نے شائع کیا،عوام آگاہ تھے، پولیس کوالیکشن کے مقام سےمتعلق آگاہ کردیاگیاتھا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ اکبرایس بابرجس وقت آئےاس وقت تک نامزدگی فارم جمع کرانےکاوقت ختم ہوگیاتھا، وقت 3 بجے کا تھا مگر پھر بھی اکبر ایس بابر کو آفس آنے کی اجازت دی گئی، اگر اکبر ایس بابر کا پینل ہوتا تو انٹرا پارٹی الیکشن لڑ سکتے تھے، آج تک اکبرایس بابرنےاپناپینل نہیں دیا، ابھی بھی نہیں بتایاکہ میرایہ پینل تھااورمیں الیکشن لڑناچاہتاتھا، اگراکبرایس بابرکےپاس اپناپینل ہوتاتوہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ایک شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا،کہیں لکھا ہوا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ایک شخص انٹراپارٹی الیکشن نہیں لڑ سکتا، چیف جسٹس نے مزید پوچھا چیئرمین کے انتخابات کیلئے بھی پینل ہونا لازمی ہے؟ چیئرمین کا الیکشن کہاں ہوا تھا، جس پربیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ چیئرمین کیلئے پینل کا ہونا لازمی نہیں،وہ اکیلئے لڑ سکتا ہے، پارٹی چیئرمین کا الیکشن بھی پشاور میں ہوا تھا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں کیا وہ بتائی گئیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کر دیا تھا، میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہم کر دی تھی، جو پینل سامنے آئے انکی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں،اکبرایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑناچاہتےتھے۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے سینیٹرکاانتخاب بھی اِن ڈائریکٹ ہوتاہے،مطلوبہ ووٹ حاصل کرنےہوتےہیں، اگرآپ کوایک ووٹ بھی نہ پڑےتوآپ سینیٹرنہیں بن سکتےتھے، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ میں ٹیکنوکریٹ نشست پر بلامقابلہ سینیٹ رکن منتخب ہواتھا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سےمتعلق پولنگ مٹیریل پیش کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ بلا مقابلہ بھی ہو تو بھی ووٹ ڈالنا پڑتا ہے،آپ ڈکٹیٹرشپ کی طرف جا رہے ہیں ایک آدمی کہہ دے یہ پینل وہ پینل، یہ جمہوریت تو نہ ہوئی، سیکرٹری جنرل بھی ایسے ہی آ گئے، چیئرمین بھی ایسے ہی آ گئے، بورڈ بھی ایسے ہی آ گیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ الیکشن ہے یا سلیکشن یا کیا ہے ؟ آپ کیوں نہیں الیکشن کرواتے، مسئلہ کیا تھا؟ بڑی بڑی ہستیاں توبلا مقابلہ آجاتی ہیں لیکن آپ کےتوچھوٹےسےچھوٹاعہدیداربھی بلا مقابلہ منتخب ہوا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ن لیگ میں نواز شریف اور مریم نواز بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ اے این پی کو بھی کوئی 20 ہزار کا جرمانہ ہوا ہے، وکیل نے بتایا کہ جی آج ہی فیصلہ آیا ہے 20 ہزار جرمانہ کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ پارٹی انتخابات کروائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ لیکن آپ کا مسئلہ تو کافی پرانا چل رہا ہے، اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، چیئرمین، سیکرٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا آخر مسئلہ کیا تھا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں ن لیگ کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا اور کہا ن لیگ میں بھی سب بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتےرہتےہیں، اس پرتبصرہ نہیں کریں گے۔

    علی ظفر کا کہنا تھا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، اے این پی کو 20ہزارروپے جرمانہ کرکے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہوں گے؟ علی ظفر نے کہا کہ آپ اختلافی نقطہ نظر بھی سنتے ہیں جو اچھی بات ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ ہمیشہ پیشہ ورانہ انداز میں دلائل دیتے ہیں، بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کرینگے، آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہوسکتا ہے کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں۔

  • پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس:  چیف جسٹس اور نیاز اللہ نیازی  کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس: چیف جسٹس اور نیاز اللہ نیازی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    اسلام آباد : پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر کے بار بار بولنے پربرہمی اظہار کرتے ہوئے کہا ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    دوران سماعت پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی کے بار بار بولنے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سماعت میں وقفہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، ہم اٹھ جاتے ہیں۔

    نیاز اللہ نیازی اور چیف جسٹس کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ آپ نےمیرےبیٹےکے لائسنس انٹرویو میں بھی پی ٹی آئی کےسوالات پوچھےتھے، آپ میری تذلیل کر رہے ہیں۔

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے علم ہی نہیں کہ نیاز اللہ نیازی کا کوئی بیٹا بھی ہے، اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں،کیا ہم نیاز اللہ نیازی کو نوٹس جاری کریں؟

    وکیل علی ظفر نے نیازاللہ نیازی کے رویے پر عدالت سے معذرت کرلی۔

  • آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اور کہیں الیکشن ہوگئے، چیف جسٹس کے پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں ریمارکس

    آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اور کہیں الیکشن ہوگئے، چیف جسٹس کے پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں ریمارکس

    اسلام آباد : پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ  نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اورکہیں الیکشن ہوگئے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل
    ہیں۔

    پی ٹی آئی کے وکیل حامد علی خان اور علی ظفرروسٹرم پر آئے، بیرسٹر علی ظفر نے دلائک دیتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین اورقانون الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی ا سکروٹنی کا اختیار نہیں دیتا، الیکشن کمیشن پارٹی انتخابات بے ضابطگی کے الزام پر انتخابی نشان واپس نہیں لے سکتا، بیرسٹر علی ظفر

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 17 کی تشریح کی ہے، ایک نشان پر انتخاب لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی جماعت اور عوام کے بنیادی حق کی نفی کرنا ہے۔

    علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے، آرٹیکل 17 (2) سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 (2) کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، میری ایک گزارش ایک سیاسی پارٹی کے بنیادی حقوق سے متعلق بھی ہے۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےتفریق کامظاہرہ کیااورآرٹیکل25کی نفی کی،پی ٹی آئی کےکسی بھی ممبرنےالیکشن کوچیلنج نہیں کیا، الیکشن کمیشن کےپاس سوموٹوکااختیارنہیں کہ شکایت کنندہ بھی بنے اور جج بھی۔

    بیرسٹر علی ظفر نےکہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ، پی ٹی آئی نے پہلے2022 میں انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لئے عملدرآمد کیا۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، 2دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، پی ٹی آئی کے کسی بھی ممبرنےالیکشن کوچیلنج نہیں کیا، اگرانٹراپارٹی انتخابات چیلنج بھی ہوتےتویہ سول کورٹ کاکیس بنتا۔

    علی ظفر نے مزید کہا کہ 14افرادجن کادعویٰ تھا وہ پی ٹی آئی ممبران ہیں انہوں نےالیکشن کمیشن میں درخواستیں دائرکیں، استدعاکی گئی پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کوکالعدم قراردےکردوبارہ انتخابات کاحکم دیاجائے، اس دوران الیکشن کمیشن نےبھی ساتھ ساتھ تکنیکی نقطے اٹھانےشروع کردیے،الیکشن کمیشن کی جانب سےدستخط اورتاریخوں سےمتعلق اعتراض اٹھائےگئے۔

    وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نےان 14افرادکی درخواستوں کی بنیادپی ٹی آئی کونوٹس بھیجا، سماعت ہوئی جس میں ہمارابنیادی موقف یہ تھا کہ یہ تمام 14 افراد پارٹی ممبران نہیں، ہم نےزبانی طورپران 14افرادکےبارےمیں اپناموقف دیا، سماعت ختم ہوئی توالیکشن کمیشن نے32سوالات ہمیں تھمادیے جن کاہم نےتحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی اور کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کرینگے نہ ہی نشان دیں گے۔

    وکیل نے گذشتہ سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نقطہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن انکی رکنیت توتھی،صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبرایس بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں،الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرینگے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے، کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈدینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔

    جس پر وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے،مخدوم علی خان کا نقطہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا، انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے،آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، آپ یہ نہیں کرسکتےکہ کاغذکاٹکڑاپیش کریں اورکہیں الیکشن ہوگئے، آپ کم سےکم انٹراپارٹی الیکشن کی موٹی موٹی باتیں دکھادیں،کچھ توپیش کریں ، آپ دکھادیں کہ ہم نےانٹراپارٹی الیکشن میں سب کوموقع دیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کاالزام ہےپی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کاغذاکاٹکڑاہے، آپ نےنہیں بتایاکہ انٹراپارٹی الیکشن کہاں ہورہے ہیں، آپ نے پشاور کا توالیکشن کا ذکر کیا مگرالیکشن کہیں اورچمکنی میں کرادیے، انٹراپارٹی الیکشن چمکنی میں ہوئے جو پشاور نہیں کوئی اور جگہ ہے۔

    جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے جن بےضابطگیوں کی نشاندہی کی وہ پی ٹی آئی آئین سے ہی کی ہیں تو علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول اور مقام پر کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں، اکبر ایک بابر کو الیکشن لڑنے دیتے سپورٹ نہ ہوتی تو ہار جاتے، پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں،کل وہ باہر آ کر کہہ دیں کہ یہ عہدیدار کون ہیں تو کیا ہوگا؟ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے 8 لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ؟

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جن ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اسکی نشاندہی کر رہا ہوں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیاد نقطہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اگر وہ ہی نہ ہوا تو باقی چیزیں خود ختم ہو جائیں گی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر انتخابات باقاعدہ طریقےکار سےکرائےہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے، انٹرا پارٹی انتخابات کی پیچیدگیوں میں نہ جائیں، بس اتنا بتا دیں کیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں تمام اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں۔

    چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں۔

  • پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت ، آج فیصلہ متوقع

    پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت ، آج فیصلہ متوقع

    پشاور : پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت جاری ہے، جسٹس اعجازانور نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن شیڈول کے بعد کیسے انتخابی نشان کا فیصلہ کرسکتے ہیں؟

    تفصیلات کے مطابق پشاورہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر سماعت ہوئی، جسٹس اعجاز انور ، جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کرنے والے فریقین کے وکیل قاضی جواد ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ میرے موکل پی ٹی آئی کے سابق ضلعی جنرل سیکریٹری رہے ہیں ، میرے موکل کو میڈیا سے پتہ چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں، میرےموکل الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔

    جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں ، انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قراردیےگئے،آپ کو چاہیےتھا دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا، آپ نےپارٹی نشان واپس لیےجانےپراعتراض نہیں کیا۔

    جس پر وکیل نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا جس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے، انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہیں تو
    جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا ہائیکورٹ صرف صوبے کو دیکھ سکتی ہے، کیا ہر صوبے میں الگ الگ کیس کرنا چاہیے تھا ان کو؟ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا تو یہاں پر کیسے کیس نہیں کرسکتے۔

    جسٹس اعجاز انور نے بھی استفسار کیا انٹراپارٹی الیکشن میں تمام ممبران الیکٹ ہوئےیاصرف صوبےکی حد تک؟ وکیل نے بتایا کہ انٹرپارٹی الیکشن میں پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔

    جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس میں کہا کہ یہاں پر الیکشن ہوا اور الیکشن کمیشن نے اس کو کالعدم قرار دیا ،انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا ہے تو اس کو یہاں کیوں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ یہ تو لاہور ہائیکورٹ بھی گئےتھےوہاں پر ان کی درخواست خارج ہوئی۔

    جسٹس اعجاز انورنے مزید کہا کہ لاہورہائیکورٹ نےآرڈرمیں لکھا کیس پشاورہائیکورٹ ،سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے،لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔

    دوران سماعت اکبرایس بابر نے اپنے بیان میں کہا کہ بہترہوتاپشاور ہائیکورٹ ہمیں بھی سنتی، ہم پشاورہائیکورٹ کو ثبوت دیتے، فیصلہ صادر کرنےسے پہلے ہمیں بھی سناجاتا، پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن کے نام پرفراڈ کیا،انٹراپارٹی الیکشن کا مقام تک خفیہ رکھا گیا۔

    اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن کےنام پر ہونیوالےفراڈکےتمام ثبوت ہیں، ہمیں ہائیکورٹ نے نوٹس نہیں دیے، فارن فنڈنگ کیس میں 200 سے زائد پیشیاں ہوئیں، تحریک انصاف نے متعدد رٹ پٹیشن دائر کیں، پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے، اس سے پہلے یہ روایت نہیں تھی۔

    سابق رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن کےبازو مضبوط کرنے کےبجائےباندھےجا رہے ہیں، پڑوسی ملک میں الیکشن کمیشن کےمعاملات میں مداخلت نہیں ہوتی۔

    جج نے ریمارکس دیئے الیکشن شیڈول جاری ہو جائےتوکیسے آپ کسی کےانتخابی نشان کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی پارٹی بغیر انتخابی نشان کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے؟ وکیل شکایت کنندہ نے بتایا کہ 1985 میں بھی غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ وہ تو مارشل لاء کا دور تھا۔

    جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ایک پارٹی کو نشان مل جائے تو آپ کو کیا نقصان ہوگا؟ شکایت کنندہ کے وکیل نے دلائل دیے کہ جو پارٹی قانون کےمطابق پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی توکیوں سپورٹ کریں، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں ہر الیکشن کیلئے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے۔

    جسٹس اعجاز انوار نے کہا کہ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ، نشان واپس لینا ٹھیک ہے، سوال کیا کہ کیا آپکی درخواست پرالیکشن کمیشن نےانٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیا ۔ کیا سپریم کورٹ میں درخواست واپس لی گئی ہے، جس پر وکلا نے عدالت کو بتایا کہ جی سپریم کورٹ سے درخواست واپس لے لی گئی ہے۔

    جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ الیکشن کاعمل ٹھیک نہیں تھا تو شوکاز جاری کیا گیا وہ کہاں ہے؟ وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ 7 دسمبر کو ان کو نوٹس جاری کیا گیاتھا، جس پر جسٹس اعجاز انور استفسار کیا نوٹس میں کہاں لکھاہےالیکشن ایکٹ 208 ، 209 کی خلاف ورزی ہوئی، شوکاز تو 2021 میں دیا گیا،اس کے بعد تو کوئی جاری نہیں کیا گیا۔

    شکایت کنندہ کی طرف سے طارق آفریدی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دائرہ اختیارپربات کروں گاکہ درخواست عدالت سن سکتی ہے یا نہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ سے پہلے وکیل صاحب نے بھی دائرہ اختیار پر ایک گھنٹہ دلائل دیے،انہوں نے جو نکات اٹھائےاس کےعلاوہ کوئی ہےتوبتائیں۔

    طارق آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی لیول پلیئنگ فیلڈکی بات کررہی ہےتواپنےکارکنوں کوبھی یہ فیلڈدے، پارٹی کے کارکنوں کو پتہ نہیں تھا کہ الیکشن کہاں پرہیں، پھرایک بلبلا اٹھااورانٹراپارٹی الیکشن ہوئے، جس پر جسٹس اعجازانور نے ریمارکس دیئے پھروہ بلبلا بھی پھٹ گیا، یہاں پر کبھی کون تو کبھی کون لاڈلا بن جاتا ہے، آپ سیاسی باتیں نہ کریں قانونی نقطے پر آجائے۔

    وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ یہ خود لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں، ہم نےبھی لیول پلیئنگ فیلڈ مانگی تھی تو جسٹس اعجاز انورکا کہنا تھا کہ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ،نشان واپس لینا ٹھیک ہے۔

    جس پر وکیل نے بتایا کہ جوپارٹی قانون کےمطابق پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی توکیوں سپورٹ کریں، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں ہر الیکشن کیلئے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے، شکایت کنندہ پارٹی ممبر ہے ان کو پارٹی سے نکالا گیا، جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے ہم اس پر نہیں جاتے کہ یہ پارٹی ممبر تھےیانہیں، آپ کی درخواست پرالیکشن کمیشن نےانٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیا۔