Tag: پی ٹی آئی

  • پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن ترمیمی ایکٹ چیلنج کرنے کا اعلان

    پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن ترمیمی ایکٹ چیلنج کرنے کا اعلان

    اسلام آباد : چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر  نے الیکشن کمیشن ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنےکااعلان کردیا اور کہا کل آپ نےعوام کاجم غفیردیکھ لیا، یہ حکومت کیلئے نشان عبرت بنے گا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹرگوہر نے قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔

    بیرسٹرگوہر کا کہنا تھا کہ آپ ون گومیں ساری رپورٹیں رکواتےہیں، کوئی بھی ڈسکشن ہوئےبغیربل پاس کراتےہیں،ب ممبران کوبھی نہیں پتاکونسی قانون سازی ہورہی ہے، اس ایوان میں یہ نویں قانون سازی ہورہی ہے، کوشش کر رہے ہیں مخصوص نشستیں انھیں مل جائیں۔

    انھوں نے کہا کہ یہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل ایسا ہی ہے جیسے یہ حکومت اقتدارمیں آئی ، انھوں نے فارم47کوبدل کرکےاپنی حکومت بنالی ، یہ آج بھی ہارے ہوئے ہیں اور یہ کل بھی ہارے ہوئے تھے۔

    چیئرمین تحریک انصاف نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کیلئےالیکشن کمیشن میں4درخواستیں بھجوائیں، فارم میں لکھاہواتھایہ تمام امیدوارپی ٹی آئی کےہیں، ایک سازش کےتحت پی ٹی آئی سےبلےکانشان لیاگیا، تمام امیدواروں کوالگ الگ نشان الاٹ کیے گئے، ہرانےکی کوشش کی گئی اسکےباوجودپی ٹی آئی دوتہائی اکثریت سے جیتی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پارلیمان سپریم ضرور ہے لیکن آئین کی تشریح کرنا سپریم کورٹ کا اختیارہے، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے ذریعے غیر آئینی قانون سازی کو ہم چیلنج کریں گے۔

    بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سب سےپہلےہم الیکشن کمیشن گئےپھرہائیکورٹ گئےپھرسپریم کورٹ گئے، 11جج صاحبان نےمتفقہ بیان دیاپی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اوررہےگی، ایک بارسپریم کورٹ نےکہہ دیاتویہ حتمی ہوتا ہے، پارلیمان سپریم ہےلیکن سپریم کورٹ کافیصلہ بھی حتمی ہے، ہم اس قانون سازی کوعدالت میں چیلنج کریں گے۔

    چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ لوگ بانی پی ٹی آئی کابیانیہ نہیں بھولے، کل سب نےعوام کاجم غفیردیکھ لیایہ حکومت کیلئےنشان عبرت بنےگا، شہبازشریف حسینہ واجد کو فون کرکے راستہ پوچھ لیں کہ جاناکیسے ہے۔

    انھوں نے ایوان میں کہا کہ آپ کی ورڈنگ میں بھی غلطی ہے، آئین کودیکھیں کس کےکہنےپرقانون سازی کررہےہیں، آئین کہتا ہے ہر آزاد امیدوار کے پاس 3 دن کا وقت ہے، جس جماعت کوچاہےجوائن کرے۔

    بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ آپ سپریم کورٹ کےفیصلےکوکالعدم قرار دینےکی کوشش کر رہے ہیں، یہ کس کے کہنے پر قانون سازی کر رہے ہیں ، یہ غیر آئینی غیر قانونی عمل ہے اس کی مذمت کرتے ہیں، آئین سے متصادم قانون سازی کی کیوں اجازت دی جاتی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ جناب اسپیکرآپ کی آئینی ذمہ داری ہےآپ قانون سازی کی اجازت دیتےہیں، کیاکسی کارائٹ ہےایسےبل پیش کرےجوآئین کےمتصادم ہو، آپ نےیہ بل لااینڈجسٹس کوبھیجاایسی کیاعجلت ہے، ان کےکسی ایم این اےسےپوچھ لیں بل میں کیا تھانہیں بھی نہیں معلوم۔

    پی ٹی آئی چیئرمین نے خبردار کیا کہ فیصلوں پر عمل کیا جاتا ہے کالعدم قرارنہیں دیا جاتا ، سیاسی جماعت کو اسپیس نہیں دیں تو حسینہ واجد جیسا حال ہو گا۔

  • پی ٹی آئی کو 22 اگست کو  اسلام آباد  میں جلسے کی اجازت مل گئی

    پی ٹی آئی کو 22 اگست کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت مل گئی

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت مل گئی، اس حوالے سے اسٹیٹ کونسل نے عدالت کو آگاہ کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی حکم کے باوجود پی ٹی آئی احتجاج کی اجازت کی درخواست پر فیصلہ نہ کرنے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نےدرخواست پر سماعت کی، پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

    وکیل پاکستان تحریک انصاف نے عدالت کے روبرو کہا بائیس جولائی کو درخواست دی کہ 26 جولائی کو احتجاج کرنا ہے ، عدالت نے استفسار کیا کس فیصلے پر توہین عدالت ہے ؟ اسٹیٹ کونسل نے بتایا دو آرڈرز ہم نے پاس کئے تھے۔

    جس پر عدالت نے اسٹیٹ کونسل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے لکھا ہے 20 اگست کے بعد کسی جگہ جلسہ احتجاج کر سکتے ہیں۔

    عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سے کہا توہین عدالت تو اس پر نہیں بنتی ،جج نے درخواست آپ کو بھیجی ، فیض آباد بلاک ہوا اس کے نقصانات قومی کو ہو رہے ہیں ،ڈی چوک پر تو احتجاج پر مکمل پابندی عائد کر دیں ، پچھلے فیض آباد دھرنے میں کتنے لوگ ایمبولینس میں فوت ہوئے ؟

    عدالت نے اسٹیٹ کونسل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا حکومتی پارٹی اجازت مانگے گی آپ پلیٹ میں رکھ کر دیں گے ،صرف یہ تو نہیں ہو سکتا یہ اپوزیشن میں ہیں۔

    اسٹیٹ کونسل کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ نے 20 اگست کے بعد جلسے کی اجازت دی ہے، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کس چیز کی توہینِ عدالت؟ توہینِ عدالت تو بنتی ہی نہیں ہے، سیکیورٹی کے معاملے پر انتظامیہ کے کام میں مداخلت کرنا عدالتوں کا کام نہیں۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے سیاسی جماعت اگر اجتماع کرنا چاہ رہی ہے تو کیا حرج ہے؟ فیض آباد پر احتجاج ہوا سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا، بیٹھ کر اسلام آباد کیلئے کوئی ایس او پی، قانون یا رولز بنا لیں، حکومتی پارٹی اجازت مانگے گی آپ پلیٹ میں رکھ کر دیں گے۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ صرف یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اپوزیشن میں ہیں، عدالت نے اسٹیٹ کونسل سے حیرانی سے استفسار کیا آپ نے ایف نائن پارک میں احتجاج کی اجازت نہیں دی؟ پارک تو پارک ہے، آپ لوگ رولز نہیں بناتے۔

  • پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستیں : پی ٹی آئی نے  لسٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرادی

    پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستیں : پی ٹی آئی نے لسٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرادی

    لاہور : تحریک انصاف کے مرکزی رہنماوں نے پنجاب کی 24 خواتین کی مخصوص نشستوں کی لسٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروا دی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے کئے گئے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو 24 خواتین کے نام جمع کروا دئے ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ مخصوص نشستیں  دینے کی لسٹ میں ڈاکٹر یاسمین راشد، عائشہ علی بھٹہ‎، طیبہ عنبرین، کلثوم اکرم، سائرہ رضا، فرح آغا، فردوس، ریحانہ، عابدہ بی بی، سعدیہ ایوب کے نام شامل ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سمیہ نورین، عذرہ نسیم، آسیہ امجد، تنزیلہ عمران، قربان فاطمہ، کومل ندیم سندھو، بشریٰ سعید، امینہ بدر، میمونہ کمال کا نام بھی مخصوص نشستوں کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

    اس کے علاوہ عامرہ اظہر، صفیہ جاوید، عقصی عاصم، امینہ بلال، ناہید نیاز وٹو، سارہ علی سید، تہمینہ ریاض، شیرین نواز خان، سیدہ فاطمہ حیدر کا نام بھی الیکشن کمیشن میں جمع کروایا گیا۔

    ذرائع نے مزید کہا کہ شہلہ احسان، شہلہ ممتاز، عابدہ کوثر، نادیہ اصغر، سیدہ حنا تسلیم اور نیلوفر احمد ملک کو بھی خواتین کی مخصوص نشست کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

  • پی ٹی آئی کا 5 اگست کو ملک بھر میں جلسوں اور دھرنوں کا اعلان

    پی ٹی آئی کا 5 اگست کو ملک بھر میں جلسوں اور دھرنوں کا اعلان

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف نے بانی کی قید کو ایک سال مکمل ہونے پر پانچ اگست کوملک بھرمیں جلسوں دھرنوں کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 5اگست کو بانی پی ٹی آئی کی قید کو ایک سال مکمل ہو جائے گا،پانچ اگست کو ملک بھر میں بڑے جلسے کریں گے۔

    اسد قیصر کا کہنا تھا کہ عوام مہنگائی اور بانی پی ٹی آئی کی غیر قانونی گرفتاری کیخلاف باہر نکلیں، غریب آدمی کیسےبڑھتی مہنگائی میں گزارا کریں گے،ٹیکسٹائل انڈسٹری بیٹھ گئی ہیں۔

    انھوں نے تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کورخصت کرنےکیلیےتمام جماعتوں کوایک میزپربیٹھنا ہوگا۔

    رہنما پی ٹی آئی نے بتایا کہ ہمارے اکتالیس ایم این ایزکو نشانہ بنایا جارہاہے حکومت سے ہمارامطالبہ ہے کہ غیرقانونی کریک ڈاؤن کو ختم کیاجائے، کریک ڈاؤن کیخلاف سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے ورنہ ہم خود درخواست دینگے۔

  • احتجاج کی کال ، عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی والوں کو خبردار کردیا

    احتجاج کی کال ، عظمیٰ بخاری نے پی ٹی آئی والوں کو خبردار کردیا

    لاہور : وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری نے خبردار کیا ہے کہ احتجاج اور دھرنےکےنام پرشہریوں کی زندگی اجیرن بنانےکی اجازت نہیں دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور سمیت پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے جبکہ معروف شاہراہوں اور چوراہوں پر پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات ہے۔

    وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ پنجاب میں دفعہ 144 دہشت گردی کے پیش نظرلگائی گئی، قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سے سختی سے نمٹاجائے گا۔

    وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا تھا کہ احتجاج ، دھرنےکےنام پرشہریوں کی زندگی اجیرن بنانےکی اجازت نہیں دیں گے، جو جماعت 2014 سے سڑکوں پر ہے 3دن گھروں میں آرام کر لے۔

    انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی تاریخ سڑکوں،چوک چوراہوں کےگرد ہی گھومتی ہے،ملک میں انتشار،افراتفری اورہیجان کی کیفیت پیدا کرنا ہی دھرنا پارٹی کا ایجنڈا ہے۔

    صوبائی وزیر نے بانی پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اڈیالہ جیل میں بیٹھے قیدی کا مشن دھرنوں کے ذریعے ہی اقتدار میں پہنچنا ہے۔

    بھوک ہڑتال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو ڈھائی گھنٹے والی بھوک ہڑتال ہی سوٹ کرتی ہے، بھوک ہڑتال کیلئے3 سے 7بجےتک والی ٹائمنگ بہتر ہے۔

    وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ دھرناپارٹی کے پاس احتجاج اور دھرنےکےلیے خیبر پختونخوا موجود ہے، کے پی کےعوام کی بدقسمتی ہے،5سال تک پیسہ دھرنوں پرخرچ ہوگا ، مریم نواز نے سستی روٹی دی اور کےپی میں11سال سےانقلابی تقریروں سےپیٹ بھررہے ہیں۔

  • پی ٹی آئی کا کل ملک گیر احتجاج کا اعلان،  پاکستانیوں سے بھرپور شرکت کی اپیل

    پی ٹی آئی کا کل ملک گیر احتجاج کا اعلان، پاکستانیوں سے بھرپور شرکت کی اپیل

    اسلام آباد : اپوزیشن لیڈر اور  پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے کل ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے پاکستانیوں سے بھرپور شرکت کی اپیل کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے تحریک انصاف کے کل ملک گیراحتجاج کے حوالے پیغام میں پاکستانیوں سے احتجاج میں بھرپور شرکت کی اپیل کردی۔

    عمر ایوب نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکنان احتجاج میں بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں،کل ہمارا پورے ملک میں بھرپور اور پر امن احتجاج ہوگا۔

    انھوں نے بتایا کہ احتجاج میں ہمارے تین بنیادی مطالبات ہیں، پہلا بانی ٹی آئی،بشریٰ بی بی اور کارکنان کو رہا کیا جائے، دوسرا حکومت کی جانب سے کی جانےوالی مہنگائی کیخلاف ہے اور تیسرا پاکستان کے مسائل کا حل صاف اور شفاف انتخابات ہیں۔

    اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی ایک بارپھروزیراعظم بنیں گےتب ملک ترقی کی راہ پرگامزن ہوگا۔

  • ڈیجیٹل دہشت گردی پی ٹی آئی نہیں باہر سے لوگ کررہے ہیں: فوادچوہدری

    ڈیجیٹل دہشت گردی پی ٹی آئی نہیں باہر سے لوگ کررہے ہیں: فوادچوہدری

    لاہور: پاکستان تحریک انصاف حکومت کے سابق وزیر چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل دہشت گردی پی ٹی آئی نہیں باہر سے لوگ کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کابینہ میٹنگ میں پی ٹی آئی پر پابندی کا ممکنہ فیصلہ ہوگا، آصف زرداری اور نواز شریف تاریخ کی غلط سائیڈ پر ہیں ان کا ساتھ دینے والا سیاست میں نظریں نہیں ملا سکے گا۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے اور اب حکومت نے مزید عدم استحکام کا سوچ لیا ہے، عوام بجلی کے بل نہیں دے پا رہے، یہ ابھی شروعات ہے عوام کے لئے مزید مشکلات بڑھیں گی۔

    انہوں نے کہا کہ جو باہر بیٹھ کر لڑانا چاہتے ہیں ان سے سب کو دور رہنا چاہیے، ڈیجیٹل دہشت گردی پی ٹی آئی نہیں باہر سے لوگ کررہے ہیں۔

    فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ملک میں انارکی کی صورتحال پیدا کی جارہی ہے، ملک میں دہشتگرد تنظیموں کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔

  • پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ ن لیگ کا اپنا فیصلہ ہے، پیپلز پارٹی

    پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ ن لیگ کا اپنا فیصلہ ہے، پیپلز پارٹی

    وزیرآباد: گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ ن لیگ کا اپنا فیصلہ ہے، پیپلز پارٹی سے مشورہ نہیں کیا گیا۔

    گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر خان نے وزیر آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اس معاملے کو پارٹی اجلاس اور سی ای سی میں لے کر جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں پی ٹی آئی کو دو حصوں میں رکھ کر سوچیں، جو 9 مئی واقعات میں ملوث ہیں انہیں سزائیں دیں لیکن جو محب وطن ہیں ان کےخلاف کارروائی مناسب نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔

    اس کے علاوہ حکومت نے مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

  • پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی سے بات چیت کی خبروں کو مسترد کردیا

    پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی سے بات چیت کی خبروں کو مسترد کردیا

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی سے بات چیت کی خبروں کو مسترد کردیا اور کہا خبر مکمل طور پر بے بنیاد اور گمراہ کن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے پیپلز پارٹی سے بات چیت کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ
    ایک چینل پر مجھ سےمنسوب بیان کی سختی سےتردید کرتا ہوں۔

    رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پی پی سے بات چیت کی خبر مکمل طور پر بے بنیاد اور گمراہ کن ہے، بانی پی ٹی آئی نےایسی کوئی ہدایت نہیں دی، نہ ہی میں نے میڈیا پر ایسا کوئی بیان دیا ہے۔

    یاد رہے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی نے کہا تھا کہ پارٹی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ "یہ آپشن ہمارے لیے 09 فروری کو بھی دستیاب تھا ہم ایک مضبوط اپوزیشن پارٹی کے طور پر کام کریں گے۔

    یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینئر قیادت نے وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔

  • پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    ملک میں پہلے ہی سیاسی خلفشار کم نہیں تھا کہ موجودہ حکومت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا یہ دھماکا خیز اعلان سامنے آگیا کہ وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور اس جماعت کے بانی عمران خان سمیت سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو یہ مشورہ نجانے کس نے دیا ہے۔

    شہباز حکومت یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے اکثریتی رائے سے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے ماقبل فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دی کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت اور حقیقت ہے جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

    اس فیصلے کے اگلے ہی روز اسلام آباد کی سیشن عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو باعزت بری کر دیا جب کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ دونوں کی سائفر کیس میں سزا معطل کر کے انہیں رہا کرنے اور سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی سمیت شاہ محمود قریشی کو بری کر چکی ہے۔ عدالت سے مختلف کیسوں میں بانی پی ٹی آئی کے حق میں فیصلوں سے حکومت کے پہلے ہی ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے جس کا اظہار حکومتی نمائندے اپنے بیانات اور پریس کانفرنسوں میں کر رہے تھے، لیکن مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے عدالتی فیصلے سے حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم اور اپنے اتحادیوں کی حمایت سے ہر قانون اور بل کو کثرت رائے سے منظور کرانے کی طاقت سے محروم ہوگئی ہے، اس تناظر میں حکومت کا یہ اعلان اہمیت رکھتا ہے۔

    مذکورہ یہی تین بڑے کیسز تھے جن میں عمران خان کو سزائیں ہوئی تھیں اور ان ہی عدالتی فیصلوں کے پیچھے حکومت چھپتی آ رہی تھی۔ اب جب ان تینوں کیسز کے فیصلوں کے ساتھ مخصوص نشستوں پر بھی پی ٹی آئی کو ایسا ریلیف ملا جو شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا تو حکومت جو پہلے ہی فارم 45 اور 47 کی پکار، امریکی کانگریس میں انتخابات میں بدعنوانیوں سے متعلق منظور قرارداد اور عالمی سطح پر انتخابی عمل کی شفافیت پر اٹھائے جانے والے سوالات کے باعث پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے، اس کا بوکھلاہٹ کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ تاہم عدالتی فیصلوں کے جواب میں اگر حکومت نے یہ سوچ کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور اس کے بانی سمیت دیگر پر آرٹیکل 6 (دوسرے لفظوں میں غداری) کے مقدمات درج کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، کہیں وہ اس سے قبل اسی حکومت کے کیے گئے فیصلوں کی طرح ان پر ہی الٹ نہ پڑ جائیں کیونکہ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم (ون) حکومت اور موجودہ حکومت نے اپنے تئیں اب تک پی ٹی آئی اور عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کیے اس کے نتائج ان کی توقعات اور امیدوں کے برعکس نکلے۔ بجائے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کو نقصان ہونے کے، ان کی عوامی مقبولیت بڑھی جب کہ حکومت بالخصوص ن لیگ کی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلی سطح تک جا پہنچا۔

    پی ٹی آئی رہنما کئی ہفتوں سے برملا اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کی جماعت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ اچانک نہیں بلکہ کہیں نہ کہیں طے شدہ اور بی پلان کے طور پر موجود تھا۔ تاہم عطا تارڑ کی پریس کانفرنس کے بعد جماعت اسلامی، جے یو آئی ف، عوامی نیشنل پارٹی، انسانی حقوق کونسل نے کھل کر اس حکومتی فیصلے کی مذمت اور اسے خلاف آئین و قانون قرار دیا ہے جب کہ امریکا بھی اس پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔ تاہم اس بحث سے قطع نظر نجانے کس نے حکومت کو یہ ’’دانشمندانہ‘‘ مشورہ دیا، لیکن یہ ایسا نادر مشورہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں تو الگ خود حکومتی جماعت ن لیگ میں اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جاوید لطیف، خرم دستگیر سمیت کئی آزادانہ رائے دینے والے پارٹی رہنما اس سے اختلاف کر رہے ہیں۔ حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پی پی نے یہ کہہ کر دامن بچا لیا کہ ہمیں اس حوالے سے ن لیگ نے اعتماد میں نہیں لیا جب کہ دیگر اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، ق لیگ ودیگر نے چپ سادھ لی یا وہ گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس صورتحال کے بعد یہ اعلان کرنے والے عطا تارڑ تو ٹی وی اسکرین سے غائب ہیں لیکن ان کی جگہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، خواجہ آصف اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر عمل اتحادیوں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔

    پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی نئی بات نہیں ہے بلکہ مرکزی دھارے کے علاوہ صوبائی دھارے، قوم پرست اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی درجنوں جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی اور انہیں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔

    اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جس طرح ابتدائی عشرے میں جمہوریت نہیں پنپ پائی تھی اور حکومتوں کا آنا جانا لگا تھا اسی طرح سیاست کو بھی پابند سلاسل کرنے کا سلسلہ اسی دور سے شروع ہوا جب 1954 میں اس وقت ’’سیاسی و جمہوری‘‘ کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی۔ تاہم کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی، لیکن 2013 میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی۔ ایوب خان کے دور میں کسی ایک سیاسی جماعت پر اس پابندی تو عائد نہیں ہوئی تاہم اس وقت ملک میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا، تاہم یہ پابندی بعد ازاں اٹھا لی گئی تھی۔

    پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی دوسری جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جس پر پہلے 1971 میں یحییٰ خان نے جبکہ 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پابندی عائد کی تھی جو حرف تہجی کی الٹ پلٹ اور ان ہی پرانے سیاسی چہروں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے روپ میں ملک کے سیاسی افق پر موجود اور کئی حکومتوں کا حصہ رہ چکی ہے۔ مشرف دور میں پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن لڑنا مشکل ہوا تو وہ پی پی پی پارلیمنٹرین کے نام سے سامنے آئی جب کہ 2016 میں جب ایم کیو ایم کا زوال آیا تو وہ ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے کام کرنے لگی۔ آج پابندی کا شکار بننے کو تیار پی ٹی آئی نے اپنے دور میں تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا لیکن کچھ عرصے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔

    حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کا اعلان تو کرچکی اور آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت وفاقی حکومت کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار رکھتی بھی ہے، مگر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔ وفاقی حکومت پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف کام کرنے والی کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اعلان کر کے پندرہ دنوں کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی جس پر حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا۔ تو جب یہ گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں جب جائے گی تو حکومت کو وہ تمام شواہد دینے ہوں گے جو ایک سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دلواتے ہیں اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس میدان میں حکومت کو سبکی ہوگی۔

    اگر ن لیگ اپنے اعلان پر عمل کرتی ہے تو اس سے ایسا سیاسی و آئینی بحران اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوگی جس کی لپیٹ میں خود ن لیگ کی حکومت اور اس کی بچھی کھچی سیاست آ جائے گی۔ ن لیگ اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر وفاق میں کھڑی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ پابندی کی صورت میں جمہوری وفاقی حکومت وہاں کیا گورنر راج لگائے گی؟ اگر پی پی کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرتی یا دیگر جماعتیں بھی اقتدار یا کسی ان دیکھے دباؤ کے تحت خاموش رہتی ہیں تو یہ درپردہ حمایت تعبیر کی جائے گی اور اس سے وہ راستے کھلیں گے کہ آنے والے وقت میں کوئی سیاسی جماعت اس سے محفوظ نہیں رہے گی اور ہر جماعت کو آج خاموش حمایت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

    ماضی میں کی جانے والی غلطیاں ایک سبق ہوتی ہیں لیکن اقتدار کے نشے میں مست صاحب اختیار لوگ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور مسند اقتدار پر آنے کے بعد وہ خود کو عقل کُل اور ہر مسئلے کے حل کی کنجی سمجھتے ہوئے اپنے تئیں نئی تاریخ بنانے والے فیصلے کرتے ہیں جو حقیقت میں مستقبل کے مورخ کے لیے ایک اور تاریک باب اور آنے والوں کے لیے نیا سبق دینے کی داستان رقم کر رہے ہوتے ہیں۔

    ہماری روایت ہے کہ نظریاتی اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اب سیاسی جماعت پر پابندی کے ساتھ سیاستدانوں پر آرٹیکل 6 لگا کر تو ایک قدم آگے بڑھا جا رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں وقت کا پہیہ گھومتے اور ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ن لیگ کا وتیرہ رہا ہے کہ اس نے ماضی میں جو گڑھے مخالفین کے لیے کھودے وہ خود ہی اس میں جا گری۔ اگر آج وہ اگر آرٹیکل 6 کا شکنجہ مخالف سیاستدانوں کے گرد کستی ہے تو آئین کی کئی خلاف ورزیاں جان بوجھ کر شہباز شریف کی پہلی وفاقی حکومت، نگراں حکومت کرچکی ہے۔ اس لیے یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے اور دامن سب کے ہی تار تار ہوسکتے ہیں۔

    (یہ تحریر مصنّف کے ذاتی خیالات، اس کی رائے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)