Tag: پی ٹی وی

  • آغا ناصر: فن کی دنیا کا ایک باکمال

    آغا ناصر: فن کی دنیا کا ایک باکمال

    تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں‌ ادب و فنون کی دنیا میں جن قابل اور باصلاحیت شخصیات نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مختلف شعبہ جات میں اپنے منفرد کام کی بدولت نام و مقام پایا، ان میں آغا ناصر بھی شامل ہیں۔ وہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اور ’’الف نون‘‘ جیسے پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے ہدایت کار اور متعدد کتب کے مصنّف تھے۔

    آغا ناصر کی شہرت بطور پروڈیوسر، ہدایت کار، براڈ کاسٹر ہی نہیں‌ بلکہ وہ ٹیلی ویژن کی ایسی شخصیت بھی تھے جن کا تذکرہ کیے بغیر اس مقبول میڈیم کے ابتدائی برسوں کی تاریخ مکمل نہیں‌ ہوسکتی۔ آغا صاحب 12 جولائی 2016ء کو اسلام آباد میں‌ انتقال کر گئے تھے۔

    9 فروری 1937ء میں آغا ناصر نے میرٹھ کے قصبے فرید نگر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بی اے کا امتحان سندھ مسلم کالج سے پاس کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ یہاں انھوں‌ نے تاریخ کے مضمون میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ آغا ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955ء میں ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر کیا تھا۔ بعد میں وہ اس ادارے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملک میں ٹیلی ویژن سینٹر کے قیام کے بعد آغا ناصر جیسے قابل اور باصلاحیت براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر کو پی ٹی وی سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور 1964ء میں انھوں نے نشریاتی ادارے میں اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ عرصہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کیا جب کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اور نیف ڈیک کے سربراہ رہے۔

    آغا ناصر کا ایک حوالہ ادب بھی ہے اور کشور ناہید اس سے متعلق اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں، "وہ شخص جس نے ساری عمر میڈیا میں گزاری۔ فیض صاحب سے عشق کیا۔ ان کے شعروں اور نظموں کی ایسی تشریح کی کہ ہم جیسے لوگ جو فیض صاحب سے قربت کا دعویٰ کرتے تھے، وہ بھی کتاب پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اس کو آپ سب اور ہم آغا ناصر کے نام سے پکارتے، جانتے اور پہچانتے تھے۔ اس نے ایک سال تک موت کو للکارا، صفیہ کی محبت اور بچوں کی خدمت کا امتحان لیا۔ جب اسے اطمینان ہوگیا کہ اب سب سوئے ہوئے ہیں۔ خاموشی سے نیند کے عالم میں اپنی محبتوں، دوستیوں اور کتابوں کو خدا حافظ کہا۔”

    1974 میں اسلامی ممالک کی کانفرنس کا سارا انتظام بھی آغا صاحب کے ذمہ تھا۔ اس سے قبل بھارت سے جنگ کے زمانے میں انھوں نے عالی جی اور دیگر شعرا سے قوم کا لہو گرمانے اور محاذ پر لڑنے والے اپنے فوجی بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نغمات لکھوائے اور انھیں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا۔

    خواجہ معین الدّین کے سماجی طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کو آغا ناصر نے بہ طور ہدایت کار پی ٹی وی پر پیش کیا تھا۔ 1966ء میں اس ڈرامے نے مقبولیت کا ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل پی ٹی وی کے ناظرین ڈرامہ سیریز ’’الف نون‘‘ سے لطف اندوز ہوئے اور یہ بھی مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک تھا جس کے ہدایت کار آغا ناصر ہی تھے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے پیش کردہ پروگراموں‌ میں ’’اسٹوڈیو نمبر 9 ‘‘ اور’’حامد میاں کے ہاں‘‘ بہت مشہور ہوئے۔

    آغا ناصر نے ڈرامے بھی تحریر کیے اور اپنی خودنوشت سوانح بعنوان آغا سے آغا ناصر بھی یادگار چھوڑی۔ اس میں انھوں نے اپنی یادوں، باتوں اور مشاہیر و احباب سے ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دورانِ ملازمت پیش آنے والے کچھ اہم اور یادگار واقعات کو بھی رقم کیا ہے۔ خودنوشت کے علاوہ ان کی کتابیں ’گمشدہ لوگ‘، ’ گلشنِ یاد‘ اور’ہم، جیتے جی مصروف رہے‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    آغا ناصر کو سرکاری سطح پر تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • منو بھائی: بے مثال کہانیاں اور لازوال کردار تخلیق کرنے والا قلم کار

    منو بھائی: بے مثال کہانیاں اور لازوال کردار تخلیق کرنے والا قلم کار

    ٹیلی ویژن ڈرامہ ’’سونا چاندی‘‘ دیکھتے ہوئے بڑے ہونے والوں کی ایک نسل ہی نہیں‌ ان کے بعد آنے والے بھی منّو بھائی کے مداح ہوگئے اور آج بھی اس ڈرامے کو ہر طبقہ و عمر کا فرد دیکھنا پسند کرے گا۔ اس ڈرامے کے خالق منّو بھائی بھی اپنے مقبولِ عام کرداروں یعنی سونا اور چاندی کی طرح‌ ہمارے دلوں میں آج بھی بستے ہیں۔

    معروف ادیب، کالم نگار اور کئی مقبول کھیلوں کے مصنّف منّو بھائی 19 جنوری 2018ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھوں‌ نے پی ٹی وی کے سنہری دور میں ارد گرد پھیلی ہوئی کہانیوں کو اپنے ڈراموں‌ کا موضوع بنایا اور ان کے کردار بھی گلی محلّے میں چلتے پھرتے لوگ اور ان کے معمولات تھے۔ سونا چاندی بھی ایک سادہ لوح دیہاتی جوڑے کی کہانی ہے جو شہر آ کر مختلف گھروں میں نوکری کرتا ہے اور ان کی توسط سے شہری زندگی اور معاشرے کے بہت سے تضاد اور نشیب و فراز سامنے آتے ہیں۔

    منّو بھائی کو ایک گوہرِ نایاب کہنا چاہیے کہ جن کا قلم بامقصد، تعمیری اور مفید تحریروں کے لیے متحرک رہا۔ انھیں ڈرامہ نگار اور کالم نویس کے طور پر شہرت ملی۔ انھوں نے اپنے کالموں میں سماجی برائیوں اور معاشرتی مسائل کی نشان دہی کی اور ساتھ ہی اپنے ڈراموں کے ذریعے ہماری گرفت کرتے ہوئے اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ منّو بھائی نے پنجابی کھیل ’’کی جاناں میں کون‘‘ بھی تحریر کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    منّو بھائی نے صحافت بھی کی اور کافی عرصہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک رہے۔ انھوں‌ نے سلسلہ وار اور طویل دورانیے کے کھیل بھی لکھے۔ ان کا تحریر کردہ سلسلے وار کھیل ’’آشیانہ‘‘ خاندانی اقدار سے جڑے مسائل پر مبنی تھا جب کہ مشہور ڈرامہ ’’دشت‘‘ بلوچستان کی ثقافت اور روایات کی عکاسی تھی۔ منّو بھائی نے مشہور ڈرامہ ’’جھوک سیال‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کی، جسے دیہاتی زندگی اور کردار نگاری میں شان دار کہانی قرار دیا جاتا ہے۔ ڈرامہ سیریل سونا چاندی کے علاوہ ان کے طویل دورانیے کے کھیل ’’خوب صورت‘‘ اور ’’گم شدہ‘‘ آج بھی ذہنوں میں‌ محفوظ ہیں۔

    6 فروری 1933ء کو پنجاب کے شہر وزیر آباد میں آنکھ کھولنے والے منّو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔ والد عظیم قریشی پاکستان ریلوے میں ملازم تھے جب کہ پنجابی زبان کے مشہور شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ منو بھائی نے 1947ء میں میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج کیمبل پور(اٹک) چلے گئے جہاں اساتذہ کی توجہ اور حوصلہ افزائی نے انھیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع دیا اور وہ پنجابی زبان میں‌ شاعری کرنے لگے۔ بعدازاں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور رپورٹنگ کے ساتھ کالم نویسی شروع کردی۔ وہ ’’گریبان‘‘ کے نام سے مؤقر اخبارات میں‌ لکھتے رہے۔ وہ اپنی فکاہیہ تحریروں میں معاشرے کی برائیوں اور انفرادی رویّوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر اظہارِ‌ خیال کرتے تھے جنھیں قارئین میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ کالم نویسی کے ساتھ انھوں نے پنجابی میں شاعری بھی جاری رکھی۔ ان کی مشہور تصانیف میں ’’اجے قیامت نئیں آئی ( پنجابی شاعری کا مجموعہ)، جنگل اداس ہے ( منتخب کالموں کا مجموعہ)، فلسطین فلسطین، محبت کی ایک سو ایک نظمیں اور انسانی منظر نامہ (تراجم) شامل ہیں۔

    2007ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

  • میرا اصل نام ریشم نہیں ہے، اداکارہ کا دہائیوں بعد انکشاف

    میرا اصل نام ریشم نہیں ہے، اداکارہ کا دہائیوں بعد انکشاف

    پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ ریشم نے کئی دہائیوں بعد انکشاف کیا ہے کہ اُن کا اصل نام ریشم نہیں ہے۔

    حال ہی میں ریشم نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شرکت کی جہاں اُنہوں نے اپنے کیریئر سمیت زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کی۔

    اداکارہ نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق پنجاب کے شہر فیصل آباد سے ہے لیکن میرے شوبز کیریئر کی شروعات سے پہلے ہی میری فیملی لاہور شفٹ ہوگئی تھی۔

    ریشم نے کہا کہ میں نے پی ٹی وی کے ڈراموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا، شروعات میں مجھے مختصر کردار ملتے تھے لیکن جب لوگوں کو میری اداکاری پسند آنے لگی تو پھر مجھے مرکزی کرداروں کے لیے کاسٹ کیا گیا۔

    انہوں نے اپنے نام سے متعلق بتایا کہ میرا اصل نام ریشم نہیں بلکہ صائمہ ہے، مجھ سے پہلے ہی پاکستانی شوبز میں صائمہ نام کی اداکارہ موجود تھیں تو اسی وجہ سے مجھے اپنا نام تبدیل کرنا پڑا۔

    ریشم نے بتایا کہ میری بہن نے بڑے غور و فکر کے بعد میرا بام تبدیل کردیا تھا اس کے بعد میرا پہلا ڈرامہ ریلیز ہوا اور پھر اسی نام سے مجھے شہرت حاصل ہوئی۔

    یاد رہے کہ ریشم کا نام پاکستانی فلم انڈسٹری کے نامور فنکار میں شامل ہوتا ہے، لیکن اب اداکارہ ریشم فلمی دنیا سے کنارہ کیے ہوئے ہیں، 55 سالہ ریشم تاحال شوبز انڈسٹری کے نئے چہروں کو اپنی خوبصورتی سے مات دیتے نظر آتے ہیں۔

  • کنور آفتاب: پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک معمار کا تذکرہ

    کنور آفتاب: پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک معمار کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں سے ایک کنور آفتاب سنہ 2010ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ کئی یادگار ڈرامے اور دستاویزی پروگرام کنور آفتاب کا نام اس شعبے کے ایک باکمال اور بہترین فن کار کے طور پر زندہ رکھیں‌ گے۔

    پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کے آغاز کے ساتھ ہی اس شعبے میں قدم رکھنے والے فن کاروں اور قابل و باصلاحیت پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں میں ایک کنور آفتاب بھی تھے جن کی اوّلین سیریل ’نئی منزلیں نئے راستے‘ لاہور میں تیار ہوا، لیکن سینسر کی زد میں آگیا۔ تاہم بعد کے ادوار میں انھوں نے کئی یادگار ڈرامے پی ٹی وی کو دیے۔

    کنور آفتاب 28 جولائی 1929ء کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ گارڈن کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ والد انھیں وکیل بنانا چاہتے تھے، لیکن کنور آفتاب نے لندن جا کر فلم سازی کی تربیت حاصل کی اور چار برس کے بعد وطن لوٹے تو بطور ڈائریکٹر، پروڈیوسر اپنی پہلی فلم ’جھلک‘ تیّار کی۔ یہ روایتی اور عام ڈگر سے ہٹ کر فلم تھی جو باکس آفس پہ کامیاب نہ ہوسکی۔

    اس فلم کی ناکامی کے بعد وہ 1964ء میں ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے فلم سازی کی تعلیم اور اپنے تجربے سے کام لے کر ٹیلی ویژن کی سرکردہ شخصیات اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال کے ساتھ اردو ڈرامہ کو ہر خاص و عام میں مقبول بنایا۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار لکھتے ہیں کہ کنور آفتاب زندگی بھر تجرباتی فلموں اور ڈراموں، علامت نگاری اور تجریدی فنون اور ادبی دانش وری کے سخت مخالف رہے۔ ڈرامے سے اُن کا رابطہ شعر و ادب کے حوالے سے نہیں بلکہ بصری فنون کے حوالے سے تھا چنانچہ ایسے مصنفین جو عوام کی سمجھ میں نہ آنے والا ادب تخلیق کرتے تھے، اُن کے نزدیک گردن زدنی تھے۔

    عارف وقار مزید لکھتے ہیں، وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہا کرتے تھے کہ میں راجپوت ہوں، جو کہتا ہوں کر دکھاتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی ملازمت کے دوران پندرہ برس تک اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اُن کا سکھایا ہوا پہلا سبق یہی تھا کہ وقت کی پابندی کرو اور دوسروں سے بھی کراؤ۔ اگر ہیرو بھی ریہرسل میں لیٹ آیا ہے تو سب کے سامنے اس کی سرزنش کرو تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے۔ سختی کے اس رویّے نے شروع شروع میں مجھے بہت پریشان کیا اور میں آرٹسٹ برادری میں ناپسندیدہ شخصیت بن کے رہ گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس سخت گیر رویّے کے ثمرات نمودار ہونے لگے جب ساری ٹیم نے بر وقت پہنچنا شروع کردیا اور ڈرامے صحیح وقت پر تیار ہوکر سب سے داد وصول کرنے لگے۔ غلام عباس کی کہانی ’ کن رس‘ اپنی سنجیدگی کے لحاظ سے اور امجد اسلام امجد کا ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ اپنی ظرافت کے سبب کنور آفتاب کی ابتدائی کامیابیوں میں شامل تھے۔ جس طرح لاہور میں انھوں نے نوجوان ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی تربیت کی اور اسے کامیڈی لکھنے کے گر سکھائے اسی طرح کراچی میں انھوں نے کہانی کار حمید کاشمیری کا ہاتھ تھاما اور ٹیلی پلے کے اسرار و رموز سمجھائے۔ کنور آفتاب کا طرزِ آموزش خالصتاً عملی تھا۔ وہ لیکچر دینے کی بجائے ہر چیز کر کے دکھاتے تھے۔

    کنور آفتاب کے مشہور ٹیلی وژن ڈراموں میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

    کنور آفتاب احمد نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں ایوارڈ دیے گئے۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پی ٹی وی فیفا ورلڈ کپ 2022 دکھانے میں کیوں ناکام رہا؟

    پی ٹی وی فیفا ورلڈ کپ 2022 دکھانے میں کیوں ناکام رہا؟

    اسلام آباد: پی ٹی وی پر فیفا ورلڈ کپ 2022 براہ راست نشر کرنے میں ناکامی کی رپورٹ قومی اسمبلی میں‌ پیش کر دی گئی، جس میں‌ کہا گیا ہے کہ پی ٹی وی فیفا ورلڈ کپ دکھانے کے لیے کم منافع کما کر نشریاتی حقوق حاصل کر سکتا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی وی فیفا ورلڈ کپ 2022 کے میچ براہ راست نشر کرنے میں ناکام رہا۔

    رپورٹ کے مطابق اس معاملے کی مزید انکوائری کے لیے تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے، کمیٹی کی آرا اور سفارشات کی روشنی میں ضروری کارروائی کی جائے گی۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹیلی کاسٹ حقوق کے حصول میں ناکامی پر متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی گئی، سرکاری چینل کے ناطے فیفا ورلڈ کپ پی ٹی وی پر نشر کرنا اس کی ذمہ داری تھی، پاکستان کی اکثریتی آبادی ورلڈ کپ دیکھنے سے محروم رہی۔

  • اسلم اظہر: پاکستان میں شعبۂ نشدریات کی ایک عہد ساز شخصیت

    پاکستان میں براڈ کاسٹنگ اور ٹیلی ویژن کے شعبہ کی اوّلین ممتاز اور باکمال شخصیات میں اسلم اظہر کا نام سرفہرست ہے جنھیں پاکستان ٹیلی وژن کا بانی کہا جاتا ہے۔ آج اس میڈیا لیجنڈ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    فنونِ لطیفہ اور پرفارمنگ آرٹ کے دلدادہ اسلم اظہر نے 1964 میں پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز کیا اور اسے معیار و کمال کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اسلم اظہر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت نے انھیں ستارۂ پاکستان اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    اسلم اظہر 1932 میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 1954 میں کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد چٹاگانگ میں برما آئل کمپنی میں کچھ عرصہ نوکری کی۔ نوکری میں دل نہ لگا اور 1960 میں ملازمت کو خیر باد کہہ کر واپس کراچی چلے گئے۔

    اسلم اظہر زرخیز اور تخلیقی ذہن کے مالک تھے اور اس زمانے کے تھیٹر جیسے مقبول میڈیم کے علاوہ وہ ہندوستان میں فلم سازی اور اس کی تیکنیک سیکھنے میں بھی دل چسپی رکھتے تھے، یہ اور بات تھی کہ وہ طالبِ‌ علم قانون کے رہے تھے۔ تاہم زمانۂ طالبِ علمی ہی میں‌ فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیوں میں حصّہ لینے والے اسلم اظہر جب کراچی لوٹے تو اپنے شوق اور دل چسپی کے میدان میں کام کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا، اس سلسلے میں آغاز فری لانسر کے طور پر کر دیا۔ انھیں محکمۂ اطلاعات کے لیے چند دستاویزی فلمیں بنانے کا موقع ملا۔ اسلم اظہر کو زیادہ لگاؤ تھیٹر سے تھا۔ اسی دوران اپنے دوست فرید احمد کے ساتھ کراچی آرٹس تھیٹر سوسائٹی قائم کی اور اس کے تحت کئی ڈرامے پیش کیے۔ یہاں ان کی ملاقات نسرین جان سے ہوئی اور دونوں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہو گئے۔

    سنہ 1964 میں حکومت نے جب ٹیلی وژن کی نشریات شروع کرنے کے لیے ایک جاپانی کمپنی کی خدمات حاصل کیں تو اس کی جانب سے اسلم اظہر سے بھی رابطہ کیا گیا۔ اب یہ کمپنی لاہور میں ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے لیے کام کرنے جارہی تھی۔ اسلم اظہر اس پروجیکٹ کا حصّہ بنے اور ان کی سربراہی اور نگرانی میں یہ منصوبہ کام یاب ہوا۔ بعد میں انھیں پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔

    اسلم اظہر بذاتِ خود نہایت منجھے ہوئے براڈ کاسٹر تھے۔ صدا کاری کا فن ان کی آواز کے زیر و بم کے ساتھ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ ایک تخلیق کار اور اختراع ساز بھی تھے جن کے زمانے میں نت نئے آئیڈیاز اور مختلف تجربات کیے گئے اور وہ کام یاب ہوئے۔

    1982-83 میں پی ٹی وی کی پہلی ایوارڈ تقریب اور متعدد شان دار اور طویل دورانیے کی نشریات کو اسلم اظہر کا تاریخی کارنامہ ہیں۔ 1970 کے انتخابات کی طویل ٹرانسمیشن بھی اسلم اظہر کی بدولت کام یاب ہوئی اور پی ٹی وی کے شان دار ریکارڈ کا حصّہ ہے۔

    اسلم اظہر نے بہترین کیمرہ مینز، اداکار، ڈیزائنرز، اور رائٹرز کے ساتھ لاہور کے اور پھر کوئٹہ اور کراچی میں بھی ٹی وی اسٹیشن قائم کیے۔ پاکستان کی تاریخ کے مایہ ناز فن کار انہی کے دور میں پروان چڑھے۔

    سنہ 1977 کے انتخابات سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں ان کو پاکستان ٹیلی وژن تربیتی اکیڈمی کا سربراہ تعینات کیا گیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کا وہ واحد دور تھا جب وہ ٹی وی سے منسلک نہیں رہے، تب وہ کراچی منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے دستک تھیٹر گروپ کا آغاز کیا اور اپنے تھیٹر کے ذریعے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا شروع کی۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں اسلم اظہر کو پاکستان ٹیلی وژن اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا تھا۔

    اسلم اظہر 2015ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔

  • پی ٹی وی: مریم اورنگزیب نے پرویز الہٰی کی تقریب حلف برداری نشر نہیں ہونے دی

    پی ٹی وی: مریم اورنگزیب نے پرویز الہٰی کی تقریب حلف برداری نشر نہیں ہونے دی

    اسلام آباد: وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کی تقریب حلف برداری پی ٹی وی سے نشر نہیں ہونے دی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پرویز الہٰی کی تقریب حلف برداری کو نشر کرنے سے روک دیا، عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والے سرکاری ٹی وی پر صحافتی بد دیانتی کی گئی۔

    رپورٹس کے مطابق مریم اورنگزیب نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے نو منتخب وزیر اعلیٰ کی ایوان صدر میں منعقدہ سرکاری تقریب براہ راست نشر نہیں ہونے دی۔

    پی ٹی وی نے تقریب اسکرین کے صرف ایک حصے پر برائے نام چلائی، اور عوام کو تقریب حلف برداری براہ راست دیکھنے سے محروم رکھا گیا۔

    چوہدری پرویزالہیٰ نے وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھالیا

    واضح رہے کہ سرکاری ٹی وی وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ماتحت ہے۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مریم اورنگزیب کے کہنے پر پرویز الہٰی کی تقریب حلف برداری نہیں دکھائی گئی۔

    فواد چوہدری نے تنبیہہ کی کہ میں بتا رہا ہوں کہ پی ٹی وی پر جو لوگ اس وقت عہدوں پر ہیں اگلے مہینے نہیں ہوں گے، اگر ان لوگوں کو بھی جیل میں جانا ہے تو ایسا کرتے رہیں، مریم اورنگزیب خود جیل جانے والی ہیں۔

    گزشتہ روز نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالہٰی نے حلف اٹھا لیا، صدر عارف علوی نے ان سے ایوان صدر اسلام آباد میں حلف لیا، پرویز الہٰی سپریم کورٹ کے حکم پر وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھانے جب گورنر ہاؤس پہنچے تو اس کے گیٹ بند ملے، اور پرویز الہٰی کو داخلے کی اجازت نہیں ملی، گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے ان سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔

  • آج معروف اداکار حسام قاضی کی برسی ہے

    آج معروف اداکار حسام قاضی کی برسی ہے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار حسام قاضی 3 جولائی 2004 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج اس اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1961 میں‌ پیدا ہونے والے حسام قاضی کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ انھوں نے بیالیس سال کی عمر پائی۔ اپنے فنی کیریئر کا آغاز ڈراما "خالی ہاتھ” سے کرنے والے حسام قاضی کو کاظم پاشا کے ڈراما سیریل "چھاؤں” سے پاکستان بھر میں شہرت ملی۔

    حسام قاضی نے زمانہ طالبِ علمی میں‌ اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ وہ کامرس میں ماسٹر کرنے کے بعد کوئٹہ کے ایک کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے اور تدریسی مصروفیات کے ساتھ اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ حسام قاضی پی ٹی وی کوئٹہ مرکز کے ان اداکاروں میں سے ایک تھے جنھیں اپنے کرداروں کے سبب ملک گیر شناخت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    حسام قاضی کے مشہور ڈرامہ سیریلوں میں ماروی، ایمرجنسی وارڈ، کشکول شامل ہیں۔ ان کی آخری زیر تکمیل ڈرامہ سیریل ’’مٹی کی محبت‘‘ تھی۔

    سنہ 2000 میں‌ حسام قاضی کو دل کے عارضے کی تشخیص ہوئی تھی، تاہم ضروری علاج اور دیکھ بھال کے بعد وہ طبیعت میں‌ بتدریج بہتری محسوس کررہے تھے۔ انھوں نے آرام کی غرض سے کالج میں اپنی ذمہ داریوں‌ سے طویل رخصت لے رکھی تھی اور اپنے کنبے کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں‌ آخری سانس تک قیام پذیر رہے۔

    حسام قاضی نے ٹیلی ویژن پر اپنے وقت کے بڑے اور سینئر اداکاروں کے ساتھ کام کیا تھا۔ دھیما لہجہ، خوب صورت آواز اور عمدہ پرفارمنس ناظرین میں حسام قاضی کی مقبولیت کا سبب تھی۔ پی ٹی وی کے ناظرین نے خاص طور پر ڈرامہ ماروی میں‌ ان کی پرفارمنس کو بے حد پسند کیا تھا۔

  • پی ٹی وی نے 4 ارب روپے کا ریونیو ٹارگٹ حاصل کیا ہے: فواد چوہدری

    پی ٹی وی نے 4 ارب روپے کا ریونیو ٹارگٹ حاصل کیا ہے: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے 4 ارب روپے کا ریونیو ٹارگٹ حاصل کیا ہے، پی ٹی وی جب ہمیں ملا تھا مکمل دیوالیہ تھا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے 4 ارب روپے کا ریونیو ٹارگٹ حاصل کیا ہے۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ سرکاری ٹی وی کی تاریخ کا سب سے بڑا ریونیو ہے۔ پی ٹی وی جب ہمیں ملا تھا مکمل دیوالیہ تھا، اس مختصر عرصے میں دو چینلز ڈیجیٹل کیے اور پی ٹی وی کا بزنس ماڈل دیا۔

    انہوں نے کہا کہ آج پی ٹی وی ان اداروں میں شامل ہے جو منافع میں ہیں۔

  • پی ٹی وی کی مقبول اداکارہ طاہرہ نقوی کا یومِ‌ وفات

    پی ٹی وی کی مقبول اداکارہ طاہرہ نقوی کا یومِ‌ وفات

    آج پاکستان ٹیلی وژن کی مقبول فن کارہ طاہرہ نقوی کی برسی ہے۔ وہ 2 جون 1982ء کو وفات پاگئی تھیں۔ ان کا فنی سفر مختصر ہے، لیکن اس عرصے میں‌ طاہرہ نقوی نے چھوٹے پردے پر نمایاں کردار نبھائے اور اپنی بے مثال اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔

    طاہرہ نقوی کی تاریخِ پیدائش 20 اگست1956ء ہے۔ وہ سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے ایک گائوں آلو مہار میں پیدا ہوئی تھیں۔

    انھوں نے ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور بعد میں ٹیلی وژن کے ڈراموں میں اداکاری کر کے شہرت حاصل کی۔ انھوں نے طویل دورانیے کا ڈرامہ زندگی بندگی اور اپنے وقت کی مقبول ترین سیریل وارث میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اپنے کرداروں کو اس خوبی سے نبھایا کہ وہ یادگار ثابت ہوئے۔

    طاہرہ نقوی کو 1981ء میں بہترین اداکارہ کا پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ انھوں نے دو فلموں میں بھی کام کیا، لیکن فلم انڈسٹری کے ماحول سے خود کو ہم آہنگ نہ کرسکیں اور مزید کام کرنے سے انکار کردیا۔

    1982ء میں انھیں‌ سرطان تشخیص ہوا، اور اسی مرض میں شدید علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ انھیں لاہور میں حضرت میاں میر کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔