Tag: پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے

  • ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ یاسمین اسماعیل کی برسی

    ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ یاسمین اسماعیل کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن اور اسٹیج کی معروف فن کار یاسمین اسماعیل 18 جنوری 2002ء کو وفات پاگئیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں ٹی وی اور اسٹیج کی اداکار اور کام یاب ہدایت کار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    یاسمین اسماعیل نے اپنے وقت کے مقبول ترین ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور ناظرین کی توجہ حاصل کی۔ راولپنڈی میں 1949ء میں پیدا ہونے والی یاسمین اسماعیل کے والد فوج میں تھے جن کی وفات کے بعد انھو‌ں نے کراچی میں رہائش اختیار کر لی تھی۔

    یاسمین اسماعیل 1960ء کی دہائی کے آخر میں پی ٹی وی سے وابستہ ہوئی تھیں اور تھیٹر کے ڈراموں کے لیے ہدایت کار کے طور پر بھی کام کرتی رہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں بطور اداکارہ انا، راشد منہاس، تنہائیاں اور تپش میں کام کیا جو اپنے وقت کے مقبول ترین ڈرامے ثابت ہوئے۔

    انھوں نے غیرملکی زبانوں کے ڈرامے اردو میں منتقل کرکے اسٹیج پر پیش کیے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

  • پاکستان ٹیلی وژن کے معمار کنور آفتاب احمد کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے معمار کنور آفتاب احمد کی برسی

    کنور آفتاب احمد کا نام پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں شامل ہے جو‌ 10 ستمبر 2010 کو لاہور میں‌ وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    کنور آفتاب احمد 28 جولائی 1929 کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے لندن اسکول آف فلم ٹیکنیک سے تعلیم حاصل کی۔

    کنور آفتاب نے فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر 1958 میں‌ اپنی پہلی فلم جھلک پیش کی تھی جو ناکام رہی جس کے بعد 1964 میں ملک میں‌ ٹیلی وژن نشریات کے آغاز پر اس میڈیم سے وابستہ ہوگئے۔

    کنور آفتاب احمد نے اپنی تعلیم اور صلاحیتوں کو ٹیلی ویژن کے لیے آزمایا اور اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال جیسی شخصیات کے ساتھ اردو ڈراما کو بامِ عروج دیا۔ کنور آفتاب احمد کی مشہور ٹیلی وژن سیریلز اور سیریز میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

    کنور آفتاب احمد کو نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی دستاویزی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں ایوارڈ دیے گئے۔ 10 ستمبر کو وفات پانے والے کنور آفتاب احمد لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستان کے نام ور موسیقار خلیل احمد کی برسی

    پاکستان کے نام ور موسیقار خلیل احمد کی برسی

    "وطن کی مٹی گواہ رہنا اور ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم” یہ وہ ملّی نغمے ہیں جو آج بھی روز اول کی طرح مقبول ہیں۔ ان نغمات کی موسیقی خلیل احمد نے ترتیب دی تھی جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    21 جولائی 1997 کو پاکستان کے نام ور موسیقار خلیل احمد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔

    خلیل احمد خاں یوسف زئی کو دنیائے موسیقی میں‌ خلیل احمد کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ 1934 میں گورکھپور میں پیدا ہونے والے خلیل احمد نے آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، وہ 1952 میں پاکستان آگئے۔

    موسیقی کے اسرار و رموز مہدی ظہیر سے سیکھے۔ 1962 میں فلم ’’آنچل‘‘ نمائش کے لیے پیش ہوئی جس کے نغمہ نگار حمایت علی شاعر تھے۔ اس فلم کے نغمات کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو، اور کھٹی کڑھی میں مکھی پڑی نے انھیں راتوں رات صفِ اول کا موسیقار بنا دیا۔ خلیل احمد نے اپنے وقت کی مشہور فلموں دامن، خاموش رہو، کنیز، مجاہد، میرے محبوب، آنچ، معصوم، آپ کا خادم، طلاق کے لیے موسیقی ترتیب دی۔

    پاکستان ٹیلی وژن پر بچوں کا مقبول ترین پروگرام آنگن آنگن تارے تھا جس کے میزبان خلیل احمد بچوں اور بڑوں سبھی میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے ٹیلی وژن کے لیے متعدد نغمات کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی زندگی کے آخری کئی برس گم نامی میں گزرے۔

  • حمید کاشمیری: پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں کے خالق کی برسی

    حمید کاشمیری: پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں کے خالق کی برسی

    2003 میں آج کے روز حمید کاشمیری ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے تھے۔ اردو ادب میں افسانہ نگاری، ڈراما نویسی ان کا میدان رہا جس میں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور نام و مقام بنایا۔

    6 جولائی کو کراچی میں اردو کے اس معروف افسانہ نگار اور ڈراما نویس کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ یکم جون 1929 کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہونے والے حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔

    کراچی میں صدر کی الفنٹن اسٹریٹ پر حمید کاشمیری کی کتابوں کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں بڑے بڑے رائٹرز اور نام ور ادبی شخصیتیں اکثر اکٹھی ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی وژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

  • قاضی واجد، باکمال فن کار، شفیق انسان

    قاضی واجد، باکمال فن کار، شفیق انسان

    صدا کار و اداکار تو وہ تھے ہی باکمال، قاضی واجد کی صلاحیتوں کے معترف اور ان کے مداح تو ہم سب ہیں، لیکن ان کی شخصیت کا ایک روشن حوالہ ان کی عاجزی، خلوص اور دوسروں‌ سے تعاون اور مدد کا جذبہ بھی ہے۔


    قاضی واجد نہایت شفیق، سبھی سے پیار اور محبت کرنے والے انسان تھے۔

    سبھی کو پیار محبت سے، مل جل کر رہنے کی تلقین کرنے والے قاضی واجد کو ہم سے بچھڑے دو سال بیت گئے۔

    آج ان کی برسی ہے اور ساتھی فن کاروں سمیت مداح ان سے وابستہ یادیں تازہ کر رہے ہیں۔

    ان اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا۔ قاضی واجد نے 1943 میں گوالیار کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی میں بس گیا۔

    ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے قاضی واجد نے بچوں کے پروگرام کے لیے صدا کاری کے بعد جب قاضی جی کا قاعدہ شروع کیا تو زبردست کام یابی نصیب ہوئی۔ یہ پروگرام کئی سال جاری رہا۔

    اسی دور میں فلم بیداری میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کیا۔ پھر تھیڑ کی طرف آنکلے اور 1967 میں پروگرام ”آج کا شعر“ سے ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔

    اسٹیج پرفارمنس کی بات کی جائے تو انھوں نے خواجہ معین الدین کے مشہور ڈرامے’تعلیم بالغاں‘، ’وادیِ کشمیر‘، ’مرزا غالب بندر روڈ‘ میں کام کر کے خوب داد سمیٹی۔

    ٹی وی سے پیش کش گویا ان کے لیے ملک بھر میں پہچان کا وسیلہ بنی۔ ٹی وی کے لیے پہلا ڈراما ’ایک ہی راستہ‘ تھا، جس میں قاضی واجد نے منفی کردار نبھایا۔

    1969’خدا کی بستی‘ وہ ڈراما سیریل تھا، جس نے قاضی واجد کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اس میں انھوں نے ’راجا‘ کا کردار ادا کیا تھا۔

    اس کے اگلے برسوں میں ’تنہائیاں‘، ’ان کہی‘، ’دھوپ کنارے‘، ’حوا کی بیٹی‘ اور ’چاند گرہن‘ جیسی لازوال اور یادگار کہانیوں میں انھوں نے اپنا کردار نبھایا اور ناظرین کو اپنا مداح بنا لیا۔

    قاضی واجد نے زیادہ تر سنجیدہ، منفی اور مزاحیہ کردار نبھائے اور اپنی جان دار اداکاری سے انھیں یادگار بنایا۔

    1988 میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ 11 فروری 2018 ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔