Tag: پی پی کی خبریں

  • منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری، فریال تالپور ملزمان نہیں، لطیف کھوسہ

    منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری، فریال تالپور ملزمان نہیں، لطیف کھوسہ

    لاہور: سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس کی ایف آئی آر میں آصف زرداری اور فریال تالپور ملزمان نہیں ہیں۔

    وہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں گفتگو کر رہے تھے، انھوں نے کہا ’منی لانڈرنگ کا کیس 2015 میں شروع ہوا جب کہ آصف زرداری نے 2008 میں زرداری گروپ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔‘

    سردار لطیف احمد خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ مقدمے میں آصف زرداری کا انور مجید کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، انھوں نے خود کہا ہے کہ صدر بننے سے پہلے وہ کمپنی سے مستعفی ہو گئے تھے۔

    پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا ’ایف آئی اے سے کہا ہمیں سوال نامہ دیں، ایف آئی اے والوں نے کہا سوال نامہ بنا کر بھیج دیں گے، جب سوال نامہ ملے گا تو ہم سوالوں کا جواب دے دیں گے، فی الوقت ایک طرح سے تو ایف آئی اے والوں نے آصف زرداری کو استثنیٰ دے دیا ہے، فریال تالپور نے کہا اب جو بھی پوچھنا ہے مجھ سے پوچھیے گا۔‘


    جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف علی زرداری اور فریال تالپور ایف آئی اے میں پیش


    لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس آنی چاہیے، ملک سے پیسہ باہر جانے سے ہی معیشت خراب ہوئی ہے، اس سلسلے میں بیرون ممالک کے ساتھ دو طرفہ معاہدے اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

    پی پی رہنما نے کہا کہ مفرور ملزم اسحاق ڈار لندن میں آزاد گھوم رہا ہے، نواز شریف کے بچے بھی لندن کے انہیں فلیٹس میں رہتے ہیں جن پر کیس چلا، انھیں پاکستان واپس کیوں نہیں لایا جاتا، المیہ یہی ہے کہ باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

  • پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری کی تردید کردی

    پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری کی تردید کردی

     

    کراچی: منی لانڈرنگ کیس میں بینکنگ کورٹ نے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سمیت دیگر ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں، سینئر وکیل فارو ق ایچ نائیک نے منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آٓصف علی زرداری کے وارنٹ جاری ہونے کی تردید کردی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں ہونے والی سماعت میں عدالت نے مقدمے میں ملوث ،مفرور ملزمان کو گرفتار کرکے 4 ستمبر کو عدالت کے روبرو پیش کرنے کا حکم دیا ہے، سابق صدر کی ہمشیرہ اسی مقدمے میں فریال تالپور ضمانت پر ہیں لہذا انہیں حراست میں نہیں لیا جائے گا۔

    پیپلز پارٹی کے رہنما اورسینئر وکیل فاروق ایچ نائیک نے آصف علی زرداری کے وارنٹ جاری ہونے کی تردید کردی، ان کا کہنا ہے کہ عدالت نے آصف علی زرداری کے وارنٹ جاری نہیں کیے، میڈیا پر چلنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

    پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے بھی وکیل فارق ایچ نائیک کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کےوارنٹ گرفتاری سےمتعلق چلائی جانےوالی خبریں بے بنیاد ہیں۔

    واضح رہے میگا منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر اور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر نے کی خبریں سامنے آئیں تھیں ۔مقدمے میں شریک دیگر ملزمان میں نمرمجید،اسلم مسعود،عارف خان،نصیرعبداللہ حسین لوتھا،عدنان جاوید، عمیر،اقبال آرائیں ، اعظم وزیرخان،مصطفی ذوالقرنین ودیگرکےنام شامل ہیں۔

    ملزمان کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں رپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے اور ایف آئی اے نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ ملزمان جو تحقیقات کے لیے پیش نہیں ہورہے ہیں، ان کے وارنٹ جاری کیے جائیں ،اس سلسلے میں حسین لوائی ، طحہٰ رضا ، انور مجید اور عبد الغنی پہلے ہی گرفتار کیے جاچکے ہیں، اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور عبد الغنی کو گزشتہ روز ایف آئی اے کی کسٹڈی میں اسلام آباد سے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔

    اے آروائی نیوزکے بیورو چیف اسلام آباد صابر شاکر کے مطابق وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد ایف آئی اے کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سابق صدر سمیت دیگر ملزمان کو کسی بھی وقت حراست میں لے سکتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سابق صدر کے پاس صرف ایک آپشن ہے کہ وہ ہائی کورٹ سے راہداری ضمانت حاصل کرلیں۔ اگر وہ یہ ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ضمانت بینکنگ کورٹ تک پہنچنے تک کارآمد رہے گی اس کے بعد بینکنگ کورٹ کو اختیار ہوگا کہ وہ ملزمان کی ضمانت منظور کریں یا انہیں گرفتار کرنے کا حکم صادر کریں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ حسین لوائی کی گرفتاری کے بعد  سیکیورٹی ایسکچینج کمیشن پاکستان نے پاکستان سیکیورٹی ایکسچینج کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے حسین لوائی کو عہدے سے برطرف کرنےکی ہدایت اورنوٹی فکیشن جاری کیا تھا،  جس کے مطابق انہیں ایس ای سی پی کے قانون 2015 کے سیکشن 12 اور انڈر سیکشن 170  عہدے سے برطرف کیے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ الیکشن کے تین دن بعد منی لانڈرنگ کیس میں پیپلزپارٹی کی رہنما فریال تالپورعدالت میں پیش ہوئی تھیں اورانہوں نے بیکنگ کورٹ میں 20 لاکھ روپے زرضمانت جمع کراکر اپنے لیے ضمانت حاصل کی تھی۔

     اس سے قبل 12 جولائی کو سپریم کورٹ میں مبینہ جعلی اکاؤنٹس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نےحکم دیا تھا کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کوالیکشن تک نہ بلایا جائے۔

    دوسری جانب نیب لاہور نے آج منی لانڈرنگ کیس میں کاروباری شخصیت میاں منشا کو بھی طلب کیا، نیب حکام کے مطابق میاں منشا کو کہا گیا ہے کہ وہ 2010 میں لندن میں خریدے گئے ہوٹل کی تفصیلات مہیا کریں، جبکہ منی لانڈرنگ سے متعلق مزید پوچھ گچھ بھی کی جائے گی۔

  • پیپلزپارٹی کا انتخابی نشان’’تلوار‘‘دوبارہ حاصل کرنے کا فیصلہ

    پیپلزپارٹی کا انتخابی نشان’’تلوار‘‘دوبارہ حاصل کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے پرانے انتخابی نشان’’تلوار‘‘حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، الیکشن کمیشن نے تلوار کے نشان کو انتخابی فہرست میں بحال کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے اگلے عام انتخابات میں انتخابی نشان تیر کے بجائے تلوار سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں باقاعدہ درخواست بھی جمع کرادی گئی ہے۔

    پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے انتخابی نشان تلوار کیلئے درخواست جمع کرادی، مذکورہ درخواست پر کل الیکشن کمیشن میں باقاعدہ سماعت ہوگی۔

    یاد رہے کہ تقریباً چالیس سال قبل ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار تھا، پیپلزپارٹی نے1970اور1977میں تلوار کے نشان پر ہی الیکشن لڑا تھا۔

    بعد ازاں تلوار کا نشان انتخابی فہرست سے ہی خارج کردیا گیا تھا، اب الیکشن کمیشن نے تلوار کا یہ نشان دوبارہ بحال کردیا ہے۔
    پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد تیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑے، تیر پر کئی نعرے اور پارٹی ترانے جیالوں میں بہت مقبول ہوئے۔

    واضح رہے کہ پاکستان کی دیگر بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن شیر، پاکستان تحریک انصاف بلے اور متحدہ قومی موومنٹ پتنگ کے نشان سے ہی الیکشن لڑیں گی۔

    اس بار الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کیلئے نشانات کی جو فہرست  تیار کی ہے اس میں سیاسی جماعتوں کے لیے 330 انتخابی نشان رکھے گئے ہیں۔

    مذکورہ فہرست میں پہلی مرتبہ انگریزی کے چھ حروف تہجی بھی شامل کیے گئے ہیں، ان چھ حروف تہجی میں اے، بی ، جی، کے، پی اور ایس شامل ہیں، اس کے علاوہ  انتخابی نشانات میں چمچ اور جوتا بھی فہرست کا حصہ ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔