Tag: پی ڈی ایم

  • کراچی  میں خشک سالی کا خدشہ، الرٹ جاری

    کراچی میں خشک سالی کا خدشہ، الرٹ جاری

    اسلام آباد : پی ڈی ایم اے نے کراچی سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں خشک سالی کے خدشے کا الرٹ جاری کردیا۔

    تفصیلات کے بارشوں میں کمی کی وجہ سے کراچی سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں خشک سالی کے پیش نظر پی ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کردیا۔

    پی ڈی ایم اے نے کہا سندھ میں رواں سیزن کےدوران باون فیصد کم بارش ریکارڈ کی گئی، جس کے باعث فروری، مارچ تک خشک سالی بڑھنے کا امکان ہے۔

    الرٹ میں کہنا تھا کہ نوشہروفیروز، سکھر، شہید بے نظیرآباد، جامشورو میں بھی خشک سالی کا خدشہ ہے۔

    پی ڈی ایم اے نے کراچی میں ڈپٹی کمشنرز کو متبادل انتظام کی ہدایت کردی ہے جبکہ خیرپور اور تھرپارکر کی ضلعی انتظامیہ کو بھی پیشگی انتظام کی ہدایت کی ہے

  • پی ڈی ایم دور کے وزیر اعظم کے 80 ارب ترقیاتی پیکچ میں کٹ لگانے کی تیاری

    پی ڈی ایم دور کے وزیر اعظم کے 80 ارب ترقیاتی پیکچ میں کٹ لگانے کی تیاری

    اسلام آباد: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دور کے وزیر اعظم کے 80 ارب ترقیاتی پیکچ میں کٹ لگانے کی تیاری کی جا رہی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ 53 ارب کٹوتی کی تجویز منظوری کے لیے قومی اقتصادی کونسل میں پیش کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم دور میں وزیر اعظم اقدامات کے تحت بجٹ میں 80 ارب کے 9 منصوبے شامل کیے گئے تھے، جن میں سے جولائی تا دسمبر 2023 وزیر اعظم اقدامات کے تحت تقریباً 2 ارب جاری کیے گئے۔

    ذرائع کے مطابق ترقیاتی پیکج میں زرعی ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر منتقلی کے پروگرام کے لیے 30 ارب روپے مختص تھے، بجٹ میں وزیر اعظم لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، چھوٹے قرضوں کے لیے وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے تحت 10 ارب روپے مختص تھے، وزیر اعظم یوتھ اسکل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے لیے 5 ارب روپے مختص تھے۔

    ذرائع کے مطابق پاکستان انڈوومنٹ فنڈ برائے ایجوکیشن کے لیے 5 ارب روپے مختص تھے، وزیر اعظم آئی ٹی اسٹارٹ اپس اور وینچر کیپیٹل پروگرام کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے تھے، اسپورٹس اقدامات کے لیے 5 ارب، سبز انقلاب پروگرام کے لیے 5 ارب روپے مختص تھے، اور خواتین کو با اختیار بنانے کے پروگرام کے لیے بھی 5 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

  • کیاواقعی پی ڈی ایم اتحاد نے پاکستان کو تاریخ کی بدترین پارلیمنٹ دی؟

    کیاواقعی پی ڈی ایم اتحاد نے پاکستان کو تاریخ کی بدترین پارلیمنٹ دی؟

    کثیر جماعتی سیاسی اتحاد المعروف پی ڈی ایم پر مشتمل حکومت سولہ ماہ بعد تحلیل کر دی گئی۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کیےاور یوں شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کا دورِ اقتدار ختم ہوا ۔ تاہم نگراں وزیراعظم کا اعلان ہونے تک شہباز شریف ہی اس منصب پر فرائض انجام دیتے رہیں گے۔

    اتحادی حکومت 13 جماعتوں پر مشتمل تھی جس کی بظاہر قیادت شہباز شریف نے کی اور ان کی حکومت نے کوئی قابلِ ذکر کام کیا یا نہیں، لیکن کچھ ریکارڈ ضرور بنائے اور توڑے بھی ہیں۔ اگر بات کریں حکومت اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کے بارے میں تو صرف شاہد خاقان عباسی کا حالیہ بیان ہی بہت کچھ عیاں کردے گا۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے اس مرکزی راہ نما نے اسمبلی تحلیل ہونے سے قبل اسے پاکستان کی تاریخ کی بدترین پارلیمنٹ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ خدا کا شکر ہے آج اس اسمبلی سے نجات مل جائے گی۔ جب حکومتی اتحاد کی ایک بڑی جماعت کا اہم رکن یہ کہے تو 16 ماہ تک اس اتحادی حکومت نے جس قوم کے حال اور مستقبل کے فیصلے کیے ہوں، اس کے جذبات اور خیالات کیا ہوں‌ گے، یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں‌۔

    شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے اور اپوزیشن لیڈر بھی۔ بحیثیت وزیراعلیٰ وہ ایک اچھے منتظم رہے۔ اس عرصہ میں قوم نے ان کا جوشِ خطابت بھی دیکھا جس میں آئے روز وہ مائیک گراتے اور توڑتے رہے۔ وزیراعظم پاکستان بننے کے بعد شہباز شریف نے کچھ ایسا ہی کام ایک مختلف انداز میں کیا۔ بحیثیت وزیراعظم انھوں نے متعدد ریکارڈ بنائے اور چند سابق ریکارڈ توڑےہیں۔

    پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جسے ہم صرف پی ڈی ایم کہنےاور لکھنے پر اکتفاکرتے ہیں، اس کی اتحادی حکومت شاید دنیا کی واحد حکومت ہو جودو چارنہیں بلکہ 13 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھی اور اس میں ‘اِدھر اُدھر’ کی جماعتوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ کمزور ترین معیشت کے ساتھ حکومت سنبھال کر دنیا کی طویل ترین کابینہ بنانے کا ریکارڈ بھی شہباز شریف نے بنایا۔ ان کی کابینہ 83 اراکین پر مشتمل رہی جن پر نوازشات یوں کی جاتی رہیں کہ درجن سے زائد وزیر، مشیر بے محکمہ وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔ اسی حکومت میں مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر عوام کے ایک طبقے نے اس اتحادی حکومت سے جو امیدیں وابستہ کر لی تھیں وہ بھی ٹوٹ کر بکھر گئیں۔

    پی ٹی آئی دور میں کمر توڑ مہنگائی پر عوام سے ہمدردی جتانے والی سیاسی جماعتیں اور اس مہنگائی کے خاتمے کا عزم کر کے آنے والی انہی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم حکومت نے گزشتہ سال اپریل میں جب اقتدار سنبھالا تو مہنگائی کا ایسا چاند چڑھا کہ عوام کو جیسے زندہ درگور ہی کر دیا۔ اس دور حکومت میں‌ مہنگائی نے اپنے تمام سابق ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ ایسی جادوگر حکومت رہی کہ جیسے جیسے عوام پر شکنجہ کستا رہا ویسے ویسے ان پر مشکلات کی گرفت کمزور ہوتی رہی۔ یہ حکومت عملی طور پر ایک مشہور واشنگ پاؤڈر کا چلتا پھرتا اشتہار نظر آئی کہ جس میں داغ بھی اچھے اور جب وہ اس میں دھلیں تو غائب بھی ہوجائیں۔ انجام کار یہی ہوا کہ وہ لوگ جن پر اس حکومت کے قیام سے قبل فرد جرم عائد ہونے کے قریب تھی حکومت کے خاتمے تک لانڈری سے بے داغ ہو کر نکل گئے۔

    عوام کو یہ حکمراں جہاں دیگر حوالوں سے یاد رہیں گے وہیں ایسے ناقابل عمل نعروں اور بیانات پر بھی شہباز شریف کو مدتوں یاد رکھا جائے گا جیسا کہ عوام کو اپنے کپڑے بیچ کر سستا آٹا دیں گے لیکن اس کے بعد آٹے نے وہ اڑان بھری کہ عوام کے کپڑے اتر گئے اور لوگ اس آٹے کو پانے کے لیے لمبی قطاروں میں لگ کر مرنے لگے۔

    تحلیل کردہ حکومت نے اپنی پوری مدت کے دوران دنیا کے سامنے کاسۂ گدائی پھیلائے رکھا جس کا برملا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے ایک تقریب میں اپنے خطاب کے دوران ان جملوں سے کیا تھاکہ ’’جب بھی آتا ہوں تو آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پھر مانگنے آگیا، میں مانگنے نہیں آیا، لیکن کیا کروں مجبوری ہے، آپ نے پہلے بھی ہماری مدد کی ہے آج بھی مدد کر دیں، وعدہ کرتا ہوں کہ قوم دن رات ایک کر کے آپ کا یہ پیسہ واپس کر دے گی۔‘‘ اور اسی نوع کی دیگر تقاریر اور بیانات بھی منظر عام پر آتے رہے جس میں انگریزی کی کہاوت بیان کرتے ہوئے ان کا ایک بیان ہماری غیرتِ ملّی پر کسی تازیانے سے کم نہیں‌ تھا کہ بھکاریوں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا (beggars can’t be choosers)۔

    کون کہتا ہے کہ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی اتحادی حکومت نے ریلیف نہیں دیا اور کسی نے قربانی نہیں دی۔ اس حکومت میں قربانی بھی دی گئی اور ریلیف بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ قربانی کا بکرا عوام بنے اور چھری ان پر ہی چلی جب کہ ریلیف حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کا مقدر بنا۔ اتحادی حکومت کی سب سے بڑی کارکردگی اپنے مقدمات ختم کرانا رہی۔ نیب قوانین میں تبدیلی سے فائدہ اٹھانے والوں میں آصف علی زرداری سب سے آگے رہے جب کہ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز کے ساتھ ایک طویل فہرست ہے جو اس سے مستفید ہوئی اور توشہ خانہ کے نیب ریفرنسز، میگا منی لانڈرنگ سمیت درجنوں کیسز ختم کر کے داخلِ دفتر کر دیے گئے۔ حکومت کے جاتے جاتے شریف خاندان کو بڑا ریلیف یہ بھی ملا کہ نیب عدالت میں کیس زیر سماعت ہونے کے باعث شہباز شریف، حمزہ، سلیمان اور دیگر کی جو جائیدادیں منجمد تھیں وہ ریلیز کر دی گئیں۔

    حکومت پر اعتماد کا یہ عالم رہا کہ اپنے حق میں ہونے والی قانون سازی اور بھائی کے وزیراعطم ہونے کے باوجود نواز شریف دبئی اور سعودی عرب تو آتے جاتے رہے لیکن پاکستان نہ آسکے۔ پارٹی راہنماؤں‌ سے سوال کرنے پر تاریخیں تو دی گئیں لیکن واپسی نہ ہوئی۔

    اس حکومت کے سوا سالہ دور میں ملک شدید معاشی بحران کا شکار رہا اور اس کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا جس کا اظہار خود وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین کرتے رہے لیکن اس عرصہ میں‌ بھی حکومتی اراکین اور زعما نے سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک درجنوں‌ دورے کیے اور سنا گیا کہ بعض دوروں میں‌ خاندانوں اور دوستوں کو نوازا گیا۔ فضل الرحمان، مریم نواز، آصفہ بھٹو کوئی سرکاری عہدہ نہ رکھتے ہوئے بھی کئی سرکاری دوروں میں شامل رہے۔ اسی بدترین معاشی بحران سے دوچار ملک پر حکومت کے آخری دنوں‌ میں الیکشن مہم چلاتے ہوئے ممبران اسمبلی کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری، فنڈز کا اجرا تک کیا گیا حد تو یہ ہے کہ جس ملک میں غریب کو ایک وقت کی روٹی بمشکل میسر ہے اسی ملک کے ایوانوں میں موجود غریبوں‌ سے ہمدردی کا ڈراما رچانے والے اراکین پر آخری روز قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا اور ان کے لیے شاہانہ انداز میں ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔

    اگر پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنا دور حکومت مخالفین کو چور ڈاکو اور نہیں چھوڑوں گا کے نعرے لگاتے گزارا تو یہ حکومت بھی سوا سال گھڑی چور کا بیانیہ لے کر اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی رہی اور اسی بیانیے میں اپنے اپنے دور اقتدار کے بڑے بڑے تحائف کو چھپا لیا۔

    پی ڈی ایم حکومت میں بھی بیرونِ ملک بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہماری روایت قائم رہی اور لندن کے بعد دبئی میں بھی نشتیں‌ ہوتی رہیں جس کو اپوزیشن نے دبئی پلان کا نام دیا۔ آئین اور قانون شکنی کی بدترین مثال قائم کی۔ پنجاب اور کے پی میں الیکشن 90 دن میں نہیں ہوئے 8 ماہ ہونے کو آئے غیر آئینی طور پر دونوں صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہیں۔ عدالت کی جانب سے دو مرتبہ الیکشن کرانے کے احکامات کو بھی حکومت نے اہمیت نہ دی۔

    آئندہ چند روز میں نگراں حکومت اقتدار سنبھال لے گی تاہم یہ افواہیں بھی گردش میں‌ ہیں‌ کہ نگراں حکومت کا اقتدار پنجاب اور کے پی کی طرح طویل ہوسکتا ہے اور ان باتوں کو تقویت اس سے مل رہی ہے کہ حکومت نے اپنی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل ہی نئی مردم شماری کی منظوری دی ہے جب کہ سابق وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن کرانے کے بیانات دیتے رہے ہیں۔ گو کہ گزشتہ روز سینیٹ میں بروقت الیکشن کرانے کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہے لیکن سیاسی بصیرت رکھنے والے کہتے ہیں‌ کہ یہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والا معاملہ ہے۔

    حکومت کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کا اتحاد بھی ختم ہوگیا ہے۔ ن لیگ جو سالوں سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری، سزا اور نا اہلی کے ساتھ پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں پر غیر علانیہ پابندی سے لگتا ہے کہ اس کو کچھ زیادہ ہی لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ انتخابات (اگر ہوئے تو) اس میں ن لیگ کتنا فائدہ اٹھاتی ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہونے کے باعث پی ڈی ایم حکومت کی ساری ناکامی اسی کے کھاتے میں پڑی ہے اور عوامی غیظ وغضب کا نشانہ بھی بن سکتی ہے۔ اس سارے کھیل میں پیپلز پارٹی محتاط رہی اور سوا سال میں عوام سے براہ راست تعلق نہ ہونے والی وزارتیں لے کر حکومت کے مزے بھی اڑائے اور اپنے آگے کے کانٹے بھی صاف کیے۔

  • پیپلزپارٹی کا پی ڈی ایم سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ

    پیپلزپارٹی کا پی ڈی ایم سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: ذرائع پیپلزپارٹی نے کہا ہے ہے پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ذرائع پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پی ڈی ایم سے الیکشن میں انتخابی اتحاد سیاسی خسارہ ہے، آئندہ عام انتخابات سے متعلق  مشاورت جلد جاری کی جائے گی۔

    پی پی ذرائع کا بتانا ہے کہ پی پی قیادت ممکنہ انتخابی اتحاد کے بارے میں پارٹی کی رائے لے چکی ہے، پارٹی رہنمائوں کی اکثریت نے پی ڈی ایم سے اتحاد کی مخالفت کردی ہے۔

    ذرائع کا یہ بھی بتانا ہے کہ الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد ممکن ہے، اے این پی سے انتخابی اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن ہے، ماضی میں اے این پی سے پی پی کے خوشگوار ورکنگ ریلیشن رہے ہیں جبکہ جے یو آئی سے ماضی والے ورکنگ ریلیشن نہیں رہے ہیں۔

     پی پی ذرائع کا کہنا ہے کہ جانبدارانہ رویہ اپنانے پر  پی ڈی ایم سے راہیں جدا کی تھیں، پی ڈی ایم کا پیپلزپارٹی سے رویہ ہمیشہ جانبدارانہ رہا ہے، جے یو آئی، ن لیگ نے  پی ڈی ایم کو ہائی جیک کر رکھا ہے، پی ڈی ایم نے پیپلزپارٹی، اے این پی کو دیوار سے لگائے رکھا۔

  • دبئی فیصلہ پی ڈی ایم کا فیصلہ نہیں ہوگا: ترجمان پی ڈی ایم

    دبئی فیصلہ پی ڈی ایم کا فیصلہ نہیں ہوگا: ترجمان پی ڈی ایم

    کراچی: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ترجمان نے کہا ہے کہ دبئی فیصلہ پی ڈی ایم کا فیصلہ نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان پی ڈی ایم حافظ حمد اللہ نے اے آر وائی نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دبئی میں کیا گیا فیصلہ پاکستان اور پی ڈی ایم کا فیصلہ نہیں ہوگا۔

    انھوں نے کہا ہمیں اعتراض دبئی میں ہونے والی ملاقات پر نہیں، بلکہ اس سے لاعلم رکھے جانے پر ہے، ہمیں ملاقات کی خبر بھی میڈیا کے ذریعے ملی۔ حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا کہ جے یو آئی پی ڈی ایم کی اہم جماعت ہے، اسے اس طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، نگران سیٹ اپ اور دیگر معاملات پر ہمیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔

    گزشتہ روز پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی دبئی میں آصف زرداری اور نواز شریف کی ملاقات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ن لیگ کو پی ڈی ایم کو اعتماد میں لے کر دبئی میں ملاقات کرنی چاہیے تھی۔

    دبئی میں زرداری نواز ملاقات پر مولانا فضل الرحمان نے اعتراض اٹھا دیا

    انھوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں پی ٹی آئی سے اتحاد کے امکان کو بھی ظاہر کیا اور کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے 2002 میں مجھے وزیر اعظم امیدوار کے طور پر ووٹ دیا تھا، اگرچہ ان کے ووٹ کے باوجود میں الیکشن نہیں جیت سکا تھا، لیکن اگر مجھ پر یہ انکشاف نہ ہوتا کہ وہ مغربی دنیا کا ایجنٹ ہے تو ووٹ کا قرض اتارتا۔

  • پی ڈی ایم کی آرمی چیف کے خلاف عمران خان کے بیان کی شدید مذمت

    پی ڈی ایم کی آرمی چیف کے خلاف عمران خان کے بیان کی شدید مذمت

    اسلام آباد: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے آرمی چیف کے خلاف عمران خان کے بیان کی شدید مذمت کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پی ڈی ایم نے کہا ہے کہ سیاسی لبادہ اوڑھے دہشت گرد آئین کے ساتھ کھڑے ہونے اور سیاست میں مداخلت سے انکار پر فوج اور آرمی چیف پر حملے کر رہا ہے۔

    پی ڈی ایم نے کہا ’’امریکن جیوش لابی جس کے لیے فکر مند ہے، اس کی حافظ قرآن، ایمان دار اور پروفیشنل آرمی چیف سے تکلیف ہم سمجھ سکتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والی فوج اور اس کے سپہ سالار کے خلاف دہشت گردوں کا سہولت کار اور مسلح جتھے جنگ کر رہے ہیں۔‘‘

    پی ڈی ایم کے مطابق لسبیلہ کے شہدا کے خلاف غلیظ مہم چلانے والا اب فوج اور آرمی چیف کے خلاف گھٹیا مہم چلا رہا ہے، تکلیف یہ ہے کہ بند کمرے اور ایوان صدر میں ایکسٹینشن کی آفر کرنے کی سہولت ختم ہو چکی ہے، اور آرمی چیف اور فوج پر بے بنیاد الزامات اس لیے لگائے جا رہے ہیں کیوں کہ انھیں عمران نیازی اور پورے ٹبر کی کرپشن کا علم ہے۔

    پی ڈی ایم نے کہا کہ جناح ہاؤس، ریڈیو پاکستان، شہدا، قومی یادگاروں پر حملے کرنے والا فوج اور عوام میں تقسیم پیدا کرنے کے بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، دہشت گردوں کو واپس لانے والا دہشت گرد کھل کر پاکستان کے خلاف سامنے آ چکا ہے۔

    پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے بیان میں کہا کہ ’’سلیکشن کی سہولت بند ہے، عمران نیازی کا بیان اسے دیکھ کر خوش ہونے اور جوڈیشل این آر او دینے والوں کے لیے آئینہ ہے۔‘‘

  • حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرت کیوں ناکام ہوئے؟ پرویزالہیٰ کا انکشاف

    حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرت کیوں ناکام ہوئے؟ پرویزالہیٰ کا انکشاف

    لاہور: سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ نے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کی وجہ بیان کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ان خیالات کا اظہار تحریک انصاف کے مرکزی صدر پرویز الہٰی نے ملاقات کے لئے آئے مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کیا۔

    انہوں نے شریف خاندان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نوازشریف پاکستان میں الیکشن نہیں بلکہ انار کی چاہتے ہیں،
    نوازشریف نے ہی پی ڈی ایم میں اپنی ویٹو پاور سے مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

    چوہدری پرویزالہٰی کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی کہانی ختم ہو چکی اب سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوگا،پوری قوم چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ کھڑی ہے، وہ قوم کے ہیرو بن چکے ہیں، چیف جسٹس کو گھر بھیجنے کی دھمکیاں دینے والے اس بار خود گھر جائیں گے۔

    سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ عمران خان اور میرے گھر پر حملے کرانے والوں کو عوام الیکشن میں جواب دیں گے، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے ساتھ الیکشن کے بعد عوام جو کرے گی یہ تماشا پوری دنیا دیکھے گی۔

    پنجاب میں مفت آٹا اسکیم میں مبینہ کرپشن سے متعلق پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ شہبازشریف اور محسن نقوی کی مفت آٹا اسکیم لوٹ مار کا منصوبہ ہے،جو میں نے کہا تھا شاہد خاقان عباسی نے اس کی تصدیق کردی ہے،مفت آٹا اسکیم میں بیس20 ارب سے کہیں زیادہ کی کرپشن ہوئی ہے مگر ہم شہبازشریف اور محسن نقوی سے قوم کی پائی پائی وصول کریں گے۔

  • "حکومت ایسا ماحول نہ بنائے جس سے بگاڑ پیدا ہوجائے”

    "حکومت ایسا ماحول نہ بنائے جس سے بگاڑ پیدا ہوجائے”

    لاہور: وائس چیئرمین پی ٹی ۤآئی شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ گذشتہ رات والے واقعے کے بعد ایسا ماحول بنے گا تو کوئی حل نہیں نکل سکے گا بلکہ مزید بگاڑ ہوجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق پرویز الہیٰ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ رات کے واقعے سے ہم رنجیدہ ہیں، پرویزالٰہی کےگھرپرجو کچھ کیا گیا دلی صدمہ پہنچا،پرویزالٰہی ضمانت پرتھے،سرچ وارنٹ کے بغیرپولیس گھرمیں داخل ہوئی،ایسےماحول سے کوئی حل نہیں نکلےگا بلکہ بات بگڑےگی۔

    وائس چیئرمین پی ٹی ۤآئی کا کہنا تھا کہ ذاتی طورپر بہت دکھ ہوا ہے میرےپاس اس کےالفاظ نہیں ہیں، چوہدری ہاؤس میں وہ ہستیاں بھی رہائش پذیر ہیں جو حکومت کیساتھ تعاون کررہی ہیں، وہ ہستیاں پی ڈی ایم کاحصہ ہیں اس کا بھی احساس نہیں کیا گیا۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آزمائش کےدن آتےہیں اورگزر جاتے ہیں، پرویزالٰہی کے حوصلےاورعزم کو جانتا ہوں مونس الٰہی سے بھی رابطہ ہوا ہے،انشااللہ یہ وقت گزرجائےگا۔

    شریف خاندان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ شریف فیملی پرجب مشکل وقت آیا تو چوہدری برادران نے مدد کی،کاش جنہوں نے کل حملہ کیا وہ ماضی کی روایت کو یاد رکھتےتو شاید ایسانہ کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ کل رات جس طرح گیٹ توڑےگئےایسے ہی عمران خان کےگھرپربھی حملہ کیا گیا،عمران خان کے گھرپر بھی چادراورچاردیواری کاخیال نہیں رکھا گیا،عمران خان بھی اس آزمائش سےگزرےاورگزررہےہیں۔

    حکومت کے ساتھ مذاکرات سے متعلق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو ہم نےکوئی زبردستی نہیں بٹھایا،حکومتی لوگ اپنی مرضی کےمطابق بیٹھےہیں،خواجہ آصف کوتحفظات ہیں توانہیں اپنی پارٹی سےبات کرنی چاہیے ہم چاہتےہیں نیک نیتی کےساتھ بات چیت آگےبڑھے۔

    انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان تحریک انصاف نیک نیتی سے مذاکرات کیلئے بیٹھی ہے،اس وقت ملک میں جمود ہے ہم چاہتے ہیں کہ جمود سےباہرنکل کرانتخابات کی طرف بڑھیں۔

  • عمران خان سے مذاکرات کیے جائیں یا نہیں؟ بلاول کے اصرار کے باوجود اتحادی جماعتیں اتفاق رائے نہ کر سکیں

    عمران خان سے مذاکرات کیے جائیں یا نہیں؟ بلاول کے اصرار کے باوجود اتحادی جماعتیں اتفاق رائے نہ کر سکیں

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس کا اندرونی احوال سامنے آ گیا ہے، اجلاس میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اصرار کے باوجود اتحادی جماعتیں عمران خان سے مذاکرات پر اتفاق رائے نہ کر سکیں۔

    تفصیلات کے مطابق حکومتی اتحادیوں کا اجلاس پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ساتھ ڈائیلاگ پر کسی اتفاق رائے کے بغیر ختم ہو گیا، اجلاس میں عمران خان سے مذاکرات کے لیے اتحادی جماعتوں‌ نے مشروط حمایت کی، جب کہ اس سلسلے میں جے یو آئی نے بلاول بھٹو کے مؤقف کی مکمل مخالفت کی۔

    ذرائع کے مطابق اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں اکثریت نے مشروط مذاکرات کی حمایت کی، اراکین نے کہا کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ عمران خان اپنے کیسز کے لیے تو مذاکرات نہیں چاہتے، انتخابات پر تو بات ہو سکتی ہے لیکن عمران خان کے مقدمات پر نہیں۔

    اکثریتی رائے تھی کہ عمران خان پر مکمل بھروسہ نہیں، اس لیے اگر مذاکرات ہوں بھی تو احتیاط سے کیے جائیں، پی پی رہنما بلاول نے کہا کہ ہم نے مذاکرات کا راستہ اپنایا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ بات چیت نہ کی، پی ڈی ایم رہنما نے کہا کہ یہ بھی دیکھا جائے کہ دوسری طرف کس سے بات کی جائے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی اپنی کمیٹی بناتی ہے اور پھر عمران خان اپنی کمیٹی ہی کو ویٹو کر دیتا ہے، پنجاب میں الیکشن کے فیصلے کے لیے پارلیمنٹ ہی سپریم ہے۔

    ذرائع نے یہ بھی کہا کہ اجلاس میں بلاول بھٹو نے اپوزیشن سے مذاکرات کے معاملے پر اصرار کیا، ایم کیو ایم، بی این پی، خالد مگسی، چوہدری سالک، محسن داوڑ اور دیگر نے بلاول بھٹو کے مؤقف کی تائید کی، تاہم جے یو آئی نے مذاکرات کے حوالے سے بلاول کے مؤقف کی مخالفت کی۔ جے یو آئی کا مؤقف تھا کہ عمران خان کوئی سیاسی قوت نہیں، ہم پی ٹی آئی سے ڈائیلاگ کی مخالفت کرتے ہیں۔

    مولانا فضل الرحمان نیشنل گرینڈ ڈائیلاگ کے مخالف نکلے، پی پی کا پیچھے ہٹنے سے انکار

    ذرائع کے مطابق شاہ زین بگٹی نے کہا کہ ’’ہم ڈائیلاگ کے مخالف نہیں لیکن عمران پر بھروسہ نہیں ہے۔‘‘

    بلاول بھٹو نے کہا کہ ’’مذاکرات نہ کرنا غیر جمہوری اور غیر سیاسی طرز عمل ہے، پیپلز پارٹی بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں کرتی، ڈائیلاگ سے ہی ملک کو بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘

  • بجلی اور گیس صارفین پر 1300 ارب روپے کا بوجھ، پیٹرولیم مصنوعات 148 روپے 85 پیسے مہنگی

    بجلی اور گیس صارفین پر 1300 ارب روپے کا بوجھ، پیٹرولیم مصنوعات 148 روپے 85 پیسے مہنگی

    اسلام آباد: پی ڈی ایم حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا، ایک سال کے دوران بجلی اور گیس صارفین پر 1300 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق موجودہ حکومت کے ایک سال میں پیٹرولیم مصنوعات 148 روپے 85 پیسے تک فی لیٹر مہنگی کی گئی ہیں، جب کہ ایک سال میں بجلی 11 روپے 30 پیسے فی یونٹ مہنگی کی گئی۔

    ایک سال کے دوران گیس کے نرخوں میں 112 فی صد تک اضافہ کیا گیا، اور گیس صارفین پر 310 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔

    اتحادی حکومت نے بجلی صارفین پر بھی ایک ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا، بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7 روپے 91 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا، 3 روپے 39 پیسے فی یونٹ کا اضافی سرچارج بھی عائد کیا گیا، اور صارفین نے سہ ماہی، ماہانہ ایڈجسٹمنٹ میں اضافے کا بوجھ الگ سے برداشت کیا۔

    پی ڈی ایم حکومت کا ایک سال عوام پر بھاری رہا

    ایک سال کے دوران پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 122 روپے 17 پیسے کا اضافہ کیا گیا، ہائی اسپیڈ ڈیزل 148 روپے 85 پیسے فی لیٹر مہنگا کیا گیا، مٹی کے تیل کی فی لیٹر قیمت میں 54 روپے 73 پیسے کا اضافہ کیا گیا، اور لائٹ ڈیزل آئل 64 روپے 37 پیسے فی لیٹر مہنگا کیا گیا۔