Tag: پی ڈی ایم

  • پی ڈی ایم ٹولے نے ہر حربہ آزما لیا لیکن انکا گراف اوپر نہیں جارہا، مسرت چیمہ

    پی ڈی ایم ٹولے نے ہر حربہ آزما لیا لیکن انکا گراف اوپر نہیں جارہا، مسرت چیمہ

    پاکستان تحریک انصاف کی رہنما مسرت چیمہ نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم ٹولے نے ہر حربہ آزما لیا لیکن انکا گراف اوپر نہیں جارہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق مسرت چیمہ نے کہا ہے کہ یہ بضد ہیں ان کا سیاسی گراف اوپر جائیگا تو ملک میں انتخابات ہونگے، ملک اس نہج پر پہنچ رہا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔

    انہوں نے کہا کہ امپورٹڈ ٹولہ اپنی سیاست بچانے کیلئے آئین کیخلاف سازش کر رہا ہے، ملک کو کرپشن سے لتھڑی اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔

    پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ عوام نے فیصلہ کر لیا اب وہ شریف، زرداری کی سیاست کا سکہ نہیں چلنے دینگے، ملک کو آگے لے جانا ہے تو عمران خان کو دیوار سے لگانے کی سوچ بدلنا ہوگی۔

    مسرت چیمہ کا کہنا تھا کہ بڑھک مارنیوالے اسحاق ڈارنے منی بجٹ سے عوام کو نکیل ڈال دی، اس قدر مہنگائی کر دی کہ اب آٹا ، گھی ،دالیں، چکن بھی لگژری آئٹمز ہیں۔

  • حکومتی اتحاد انتشاراور ن لیگ اختلافات کا شکار

    حکومتی اتحاد انتشاراور ن لیگ اختلافات کا شکار

    پاکستان کی سیاست میں‌ وقت بدلتے ہی وفاداریاں تبدیل کرنا ایک روایت بن چکا ہے۔ آج ایک جانب مسلم لیگ ن میں دراڑیں گہری ہو رہی ہیں تو دوسری جانب حکومتی اتحاد پی ڈی ایم میں بھی اتحاد کا فقدان آشکار ہو چکا ہے جو مستقبل قریب میں‌ بڑی سیاسی تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔

    پاکستان کی موجودہ سیاست میں ایک جانب تنہا لیکن بھرپور اپوزیشن جماعت عمران خان کی ہے تو دوسری جانب 12 جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ہے اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کی صورت میں ان کی حکم رانی ہے۔ لیکن جب سے یہ حکومت قائم ہوئی ہے تب سے بڑھتی مہنگائی اور سہولیات کی فراہمی میں ناکامی، ذاتی مفاد میں فیصلے اور ریلیف کے حصول کے لیے اقدامات سے اس کی مقبولیت کم ہوئی ہے جس کا ثبوت بعض غیر جانب دار سروے رپورٹس اور ایک سال کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔

    یوں تو اس وقت پوری پی ڈی ایم ہی عمومی طور پر عوام کی ناراضی کا شکار ہے لیکن سیاسی طور پر اس وقت سب سے نازک صورتحال مسلم لیگ ن کی ہے۔ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود تمام فیصلوں کو بوجھ تنہا ن لیگ ہی اٹھا رہی ہے اور اس کا خمیازہ اسے ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں بڑھتی غیر مقبولیت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

    گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جب پی ڈی ایم حکومت بنی تو اس کی بڑی اتحادی جماعتوں نے وہ عہدے اور وزارتیں حاصل کیں جن کا عوامی معاملات بالخصوص روزمرہ کے مسائل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پی پی نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ وزات خارجہ، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور دیگر عہدے اور وزارتیں حاصل کیں، جب کہ جے یو آئی نے بھی وزارت مواصلات اور دیگر وزارتوں پر ہاتھ صاف کیا جب کہ ن لیگ خزانہ، داخلہ، ترقی و منصوبہ بندی، تجارت جیسی وزارتیں لے کر سب سے خسارے میں یوں رہی کہ مہنگائی ہو یا دہشتگردی یہ سب ن لیگ کے کھاتے میں جا رہا ہے۔

    حکومت پہلے ہی اپنے ہر اقدام سے ملنے والے بیک باؤنس سے پریشان تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس مشکل صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔ اسی پریشان کُن صورتحال میں اب ن لیگ میں اندرونی اختلافات نے اس کی قیادت کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ مسلم لیگ ن میں اب مریم نواز کی قیادت کو چیلنج اور ہوئے ان کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کیا جانے لگا ہے۔

    سیاسی حلقوں میں تو پہلے ہی یہ بازگشت ہے کہ شریف خاندان میں دوریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں جس کا گاہے گاہے اظہار مریم نواز بھی کرتی رہتی ہیں۔ وزیراعظم کے صاحبزادے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو سیاسی منظر سے غائب کر دیا گیا ہے اور اب یہ اطلاعات ہیں کہ ن لیگ میں تین سوچیں پنپنے لگی ہیں ایک وہ جو نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ ہیں۔ دوسرے وہ جو شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی کے حامی اور اس وقت حکومت میں موجود ہیں اور تیسرا پارٹی میں موجود سینیئر رہنماؤں کا وہ طبقہ جو مریم نواز کی قیادت کا بھرپور مخالف ہے۔

    مریم نواز کو جب سے مسلم لیگ ن کا چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر بنایا گیا ہے یہ اختلافات ڈرائنگ روم سے نکل کر عوام کے سامنے آچکے ہیں۔ سب سے پہلے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو نواز شریف کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں نے مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنائے جانے پر پارٹی کے سینیئر نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کے بعد متعدد مواقع پر اس بات کا میڈیا میں برملا اظہار کیا کہ انہیں مریم نواز کی قیادت میں کام کرنا منظور نہیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر شاہد خاقان عباسی نے مستقبل میں مریم کو ن لیگ کا صدر بنانے پر پارٹی چھوڑنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔

    صرف شاہد خاقان عباسی ہی نہیں ہیں جو مریم نواز کو پارٹی میں قائدانہ پوزیشن ملنے پر ناراض ہیں بلکہ کہا جارہا ہے کہ سینیئر رہنماؤں کی بڑی تعداد ان کی ہم خیال ہے جو وقت آنے پر کھل کر اس کا اظہار کرسکتے ہیں۔ شاہد خاقان کے بعد سینیئر رہنما اور صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر سردار مہتاب عباسی بھی خاموش نہیں رہ سکے اور اقرار کر لیا کہ عمران خان کی حکومت کو گرانا اور پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنانا بڑی غلطی تھی۔ کے پی میں ن لیگ کے خلاف سازش ہوئی۔ سردار مہتاب عباسی نے کہا کہ ن لیگ چند لوگوں تک محدود کر دی گئی ہے۔ پہلے پارٹی فیصلے کرتی تھی اب صرف چند لوگ کرتے ہیں۔ مریم نواز پارٹی کی قائد کی بیٹی ہیں لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر اور جماعت کو ساتھ لے کر فیصلے کیے جائیں تو پارٹی کیلئے بھی اچھا ہوگا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ سوال بھی اٹھا دیا کہ جس پارٹی میں شخصیات کی بنیاد پر معاملات چلائیں گے وہ ملک کیسے چلائے گی؟

    مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا میں بھی اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے ترجمان اور سابق رکن اسمبلی اختیار ولی نے ن لیگ کے وزرا کو مغرور قرار دیا ہے اور کہا کہ وفاقی وزرا مسلم لیگ ن کو پنجاب کے چند اضلاع تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔

    نظریاتی اختلافات اب صرف پارٹی کے اندر اور خاندان سے باہر ہی نہیں رہے بلکہ خاندان کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ مریم کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر بھی پارٹی فیصلوں پر اپنی قیادت پر برس پڑے ہیں ۔ انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ن لیگ کے غیر جمہوری رویوں اور پارٹی میں گروہ بندی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جس کے بعد اطلاعات ہیں کہ مریم نواز نے اپنے شوہر سے اظہار ناراضی کرتے ہوئے ان پر پارٹی پالیسی سے متعلق بیانات دینے پر پابندی لگا دی ہے۔

    چدہدری نثار جو نواز شریف کے کئی دہائیوں تک دست راست رہے انہوں نے بھی مریم نواز کو پارٹی میں سینیئر لیڈر شپ سے زیادہ اہمیت دینے پر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور کئی سال سے سیاسی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جب کہ حال ہی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو اپنے خاندانی عزیز اسحاق ڈار کو منصب دینے کے لیے وزارت سے ہٹا کر پارٹی سے بھی سائیڈ لائن کیا گیا وہ پارٹی رہنماؤں میں پیدا ہونے والی بے چینی کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔

    مریم نواز گو کہ شاہد خاقان عباسی کو اپنا بڑا بھائی اور ان کے اختلافات دور کرنے کے لیے بات چیت کرنے کا عندیہ دے چکی ہیں تاہم یہ صرف بیانات اور کارکنوں کو مطمئن کرنے کی زبانی کوشش کہا جا سکتا ہے کیونکہ شاہد خاقان پہلے ہی مریم نواز کی قیادت کو تسلیم نہ کرنے کا واضح اعلان کرچکے ہیں تو ان سے اب کیا بات ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب اس ساری صورتحال میں پارٹی کے اصل قائد نواز شریف کی پراسرار خاموشی اور خاقان سے کوئی رابطہ نہ کرنا بھی عیاں کر رہا ہے کہ شاہد خاقان اور پارٹی قیادت کی سوچ الگ الگ ہوچکی ہے۔

    ادھر وفاقی حکومت میں موجود 12 جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) بھی انتشار کا شکار ہے۔ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کے بعد پہلے مرحلے میں 16 مارچ کو ملک بھر کے 33 حلقوں میں ضمنی الیکشن کے اعلان پر پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اس میں حصہ نہ لینے کا دوٹوک اعلان کیا تھا۔ تاہم اس اعلان کو ان کے اتحادیوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔

    پہلے ایم کیو ایم نے کراچی سے قومی اسمبلی کے 9 حلقوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ پھر پیپلز پارٹی نے یہ کہتے ہوئے کہ پی پی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے، مولانا فضل الرحمان کے اعلان سے انحراف کر گئی۔ حد تو یہ کہ کاغذات نامزدگی جمع ہوئے تو ن لیگ کی جانب سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے گئے ہیں۔

    اس تمام صورتحال کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کی مخالفت میں بننے والے اتحاد پی ڈی ایم میں سیاسی اتفاق نہیں ہے اور آئندہ عام انتخابات اب چاہے وہ قبل از وقت ہوں، مقررہ وقت پر یا پھر کچھ تاخیر سے جب بھی نئے الیکشن کا بگل بجے گا پی ڈی ایم خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جائے گا اور آج ہم نوالہ و ہم پیالہ کل ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ عوام کو پھر ’’پیٹ پھاڑنے، لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے، ڈیزل پرمٹ کی آوازیں، کرپشن کے بادشاہوں کی کہانیاں‘‘ سننے کو ملنے لگیں کہ پاکستانی سیاست میں کچھ ناممکن نہیں ہے۔

  • پی ڈی ایم ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے پر قائم

    اسلام آباد : پی ڈی ایم ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے پر قائم ہے، پی پی نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے سے اختلاف نہیں کیا۔

    تفصیلات کے مطابق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی آصف زرداری سے ملاقات ہوئی ، جس میں سیاسی صورتحال پرتبادلہ خیال کیا گیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ ملاقات میں ضمنی انتخابات سمیت صوبائی انتخابات کےانعقادپرمشاورت کی گئی اور پی ڈی ایم کےضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینےکے فیصلے پربھی بات چیت ہوئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے پر قائم ہے۔

    پی پی نے پی ڈی ایم کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلےسےاختلاف نہیں کیا۔

    اس سے قبل رہنما جے یوآئی (ف)مولاناعبدالغفورحیدری نے کہا تھا کہ پی ڈی ایم تحریک ہے،انتخابی اتحادنہیں ،ضمنی الیکشن میں بحیثیت پارٹی حصہ لینےیانہ لینےکافیصلہ قائدین کریں گے۔

  • پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں میں انتخابات پر رائے تقسیم

    اسلام آباد : پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں میں انتخابات پر مختلف آرا سامنے آرہی ہیں، پیپلز پارٹی انتخابات میں تاخیر کے حق میں نہیں جبکہ ن لیگ کے اندر بھی انتخابات پر متضاد رائے ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں میں انتخابات پر رائے تقسیم ہوگئی ، ذرائع نے بتایا کہ پنجاب، کے پی انتخابات پر حکومتی اتحادیوں کی 3میٹنگز ہو چکی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی انتخابات میں تاخیر کے حق میں نہیں جبکہ ق لیگ اور کچھ چھوٹی جماعتیں تاخیر چاہتی ہیں۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے پہلےاتحادی اپنی جماعتوں میں مشاورت کریں گے ، ن لیگ کے اندر بھی انتخابات پر متضاد رائے ہے۔

    کچھ لیگی رہنما انتخابات کی تیاریوں اور چند تاخیر کے انتظارمیں ہیں تاہم حتمی مشترکہ فیصلہ پارٹیوں کی انٹرنل میٹنگز کے بعد اتحادیوں کے اجلاس میں ہوگا۔

    گذشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف،آصف زرداری اورمولانافضل الرحمان کی ملاقات ہوئی تھی ، جس میں ملکی سیاسی صورتحال سمیت پنجاب اورکے پی سے متعلق حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ ملاقات میں آئندہ انتخابات نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد کرانے پر غور کیا گیا۔

  • پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے الیکشن ملتوی کرانے کی مہم کا آغاز کردیا

    پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے الیکشن ملتوی کرانے کی مہم کا آغاز کردیا

    لاہور : جے یو آئی نے انتخابات مؤخر کرانے کیلئے اہم شاہراہوں پر پینا فلیکس آویزاں کردیئے، پینا فلیکس پر محسن نقوی کی تصویر کے ساتھ ‘پہلے احتساب پھر انتخاب’ کے نعرے تحریر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے الیکشن ملتوی کرانے کی مہم کا آغاز کردیا ہے۔

    جے یو آئی نے انتخابات مؤخر کرانے کیلئے اہم شاہراہوں پر پینا فلیکس آویزاں کردیئے ، محسن نقوی کی تصویر سے مزین پینا فلیکس پر "پہلے احتساب پھر انتخاب” کے نعرے تحریر ہیں۔

    پینا فلیکس مولانافضل الرحمان کے ساتھی بلال میر کی جانب سے لگائے گئے ، پینا فلیکس پرنگراں وزیراعلیٰ کی تصویر کے ساتھ بلال میرکی بھی تصویرآویزاں ہے۔

    مولانافضل الرحمان عام انتخابات کومؤخرکرنے کی تجویز پہلے ہی دے چکے ہیں۔

    گذشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف سے آصف زرداری اورمولانافضل الرحمان کی ملاقات ہوئی تھی ، جس میں ملکی سیاسی صورتحال سمیت پنجاب اورکے پی سےمتعلق حکمت عملی پرمشاورت کی گئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں آئندہ انتخابات نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد کرانے پر غور کیا گیا۔

    پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی اعلیٰ قیادت کی ملاقات ہوئی ہے جس میں عام انتخابات سے متعلق نئی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔

  • ’’پی ڈی ایم دو کلو گوشت کیلئے پوری بھینس ذبح کرنا چاہتی ہے‘‘

    لاہور : تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ نوازشریف کی بیماری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، پی ڈی ایم دو کلو گوشت کیلئے پوری بھینس ذبح کرنا چاہتی ہے۔

    یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام اعتراض ہے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں نوازشریف وطن واپس آکر مقدمات کا سامنا کریں۔

    فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ پتہ نہیں نوازشریف کو ایسی کون سی بیماری ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، عام انتخابات میں 13جماعتیں مل کر الیکشن لڑیں گی اور انہیں بری طرح شکست ہوگی، پی ڈی ایم قیادت 2کلو گوشت کیلئے پوری بھینس ذبح کرنا چاہتی ہے۔

    اپوزیشن کی جانب سے نگراں وزیراعلیٰ کیلئے جو نام دیئے گئے وہ غیرمناسب ہیں جبکہ نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیلئے اپوزیشن جماعت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، ہماری خواہش تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے بھی افہام وتفہیم سے کام لیا جاتا۔

    ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم تو75سال سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزررہا ہے، ایک شخص نے ذاتی انا کیلئے پی ٹی آئی کی منتخب حکومت گرائی اور اس کیلئے پی ڈی ایم کو بطور آلہ کار استعمال کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کا کاروبار اور بچے سب ملک سے باہر ہیں کسی بھی وقت وہ طیارہ پکڑ کر باہر چلے جائیں گے، ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے اختیار کا حق عوام کے پاس ہے، ایک ذمہ دار سیاسی جماعت ہونے کے ناطے ہم اداروں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

    پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ منی لانڈرنگ روکنے کیلئے اداروں کا کردار ہونا چاہیے، عمران خان منی لانڈرنگ روکنے کیلئے اداروں کے کردار کے حق میں ہیں، حکمرانوں کو نیب کا قانون ختم کرکے11سو ارب روپے کاریلیف دیا گیا، ہم تو چاہتے ہیں نوازشریف و اپس آئیں اور اپنے کیسز کا سامنا کریں۔

  • صوبوں میں نگراں سیٹ اپ کتنا طویل ہوسکتا ہے؟عمران خان کی مقبولیت سے خائف پی ڈی ایم نے ماہرین سے رائے مانگ لی

    لاہور : عمران خان کی مقبولیت سے خائف پی ڈی ایم نے الیکشن کے التوا کیلئے آئینی ماہرین سے رائے مانگ لی کہ صوبوں میں نگراں سیٹ اپ کتنا طویل ہوسکتا ہے؟

    تفصیلات کے مطابق عمران خان کی مقبولیت کے خوف سے پی ڈی ایم الیکشن سے راہ فرار کی راہیں تلاش کرنے لگی.

    پی ڈی ایم نے قانونی ماہرین سے الیکشن کو التوا میں ڈالنے سے متعلق مشاورت شروع کردی ، ذرائع نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت نے قانونی ماہرین سےآئینی پہلوؤں پرغور کرنے کا کہہ دیا ہے۔

    پی ڈی ایم نے خواہش ظاہر کی ہے کہ قانونی ماہرین الیکشن آگے کرنے کی آئینی شقوں کو تلاش کریں اور رائے طلب کی کہ صوبوں میں نگران سیٹ اپ کتنالمباعرصہ کھینچا جاسکتا ہے؟
    .
    ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ماہرین نے ابتدائی طور پر آرٹیکل 232 اور 158 کی شقوں سے آگاہ کیا، جس پر پی ڈی ایم قیادت نے قانونی ماہرین کومزید آئینی شقوں پرغورو خوض کی ہدایت کردی ہے۔

  • پی ڈی ایم زمینی حقائق سے بے خبر ہے: شیخ رشید

    پی ڈی ایم زمینی حقائق سے بے خبر ہے: شیخ رشید

    اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم زمینی حقائق سے بے خبر ہے، انسانی خوراک تو کیا مرغیوں کی خوراک بھی نہیں۔ 75 سالہ تاریخ میں ایسا ہیجان پیدا نہیں ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم زمینی حقائق سے بے خبر ہے، گندم، گیس بجلی سب مہنگی اور نایاب ہے۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ 40 ہزار پوائنٹس سے نیچے، گندم 41 سو من سے اوپر چلی گئی ہے، انسانی خوراک تو کیا مرغیوں کی خوراک بھی نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے بلدیہ سے بھاگنے والے الیکشن سے فراری ہیں، مارکیٹیں 8 بجے بند کروانے سے کچھ نہیں ہوگا، الیکشن ہی اعتماد بحال کریں گے۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 75 سالہ تاریخ میں ایسا ہیجان پیدا نہیں ہوا، 72 گھنٹے اہم ہیں، جمعے کو اسمبلیاں ٹوٹیں گی یا نہیں پتہ چل جائے گا۔

  • میرا پی ڈی ایم سے نہیں آصف زرداری اور شہباز شریف سے رابطہ ہے، چوہدری شجاعت

    میرا پی ڈی ایم سے نہیں آصف زرداری اور شہباز شریف سے رابطہ ہے، چوہدری شجاعت

    مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے دروان ہونے والی ملاقات کے بارے میں کہا کہ میرا پی ڈی ایم سے نہیں آصف زرداری اور شہباز شریف سے رابطہ ہے۔

    چوہدری شجاعت حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ روز شہباز شریف اور آصف زرداری سےملاقات اچھی رہی، ملاقات میں اچھی باتیں ہوئیں کوئی منفی بات نہیں ہوئی اور اس طرح کے سیاسی رابطے اور ملاقاتیں 3 سے 4 روز جاری رہیں گی۔

    چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ میراپی ڈی ایم سےنہیں آصف زرداری اورشہبازشریف سےرابطہ ہے، پنجاب کے معاملے پر ٹینشن زیادہ بنی ہےلیکن جلد اس کا حل نکل آئےگا۔

    چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ مجھے عام انتخابات جلد نظر نہیں آرہے، کچھ لوگ اسمبلیاں توڑنے اورکچھ بچانے پر تلے ہیں، عمران خان عقلمند آدمی ہیں انہیں مشورےکی ضرورت نہیں ہے۔

  • ’حکومت کا مستقبل روشن ہے ہم بحرانوں سے نکل آئیں گے‘

    ’حکومت کا مستقبل روشن ہے ہم بحرانوں سے نکل آئیں گے‘

    ڈیرہ اسماعیل خان: پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ حکومت کا مستقبل روشن ہے ہم بحرانوں سے نکل آئیں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان دوسروں پر تنقید کرنے سے قبل اپنی کارکردگی عوام کو بتائیں ان کا استعفوں کی گردان لگانا صرف بلیک میل کرنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا ان کا ایجنڈا ہے، ہم دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    فضل الرحمان نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنی ناکامی وفاق پر تھوپ رہی ہے انہوں نے اتنے قرضے لیے کہ ماضی میں کسی حکومت نہیں لیے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم ملکی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستان کا معاشی سیاسی اور دفاعی استحکام ہماری منزل ہے، سی پیک سے ملک بہت ترقی کریگا، 26 دسمبر کو شہباز شریف سی پیک کے اگلے مرحلے کا افتتاح کریں گے۔

    پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ہم تمام مکاتب فکر کے حقوق کی بات کرتے ہیں، ملک بھر سے بڑی شخصیات جے یو آئی میں شمولیت اختیار کررہی ہیں نئے لوگوں کی شمولیت سے جے یو آئی کا مستقبل روشن ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ جے یو آئی نے انسانی خدمت کے لیے سیاست کی ہے ہماری جماعت کو آج عوامی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے۔