Tag: پی ڈی ایم

  • نواز شریف کی 300 یونٹس تک صارفین کو مفت بجلی دینے کی تجویز

    نواز شریف کی 300 یونٹس تک صارفین کو مفت بجلی دینے کی تجویز

    اسلام آباد / لندن: حکومتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 300 یونٹس تک صارفین کو مفت بجلی دینے کی تجویز دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں نواز شریف نے 300 یونٹس تک صارفین کو مفت بجلی دینے کی تجویز دی ہے، نواز شریف نے کہا کہ ان صارفین کو سولر لگا کر دیں یا مفت بجلی دیں۔

    انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کرنی ہے تو عوام کو ریلیف دیں۔

    ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ نے اجلاس میں کہا کہ اگست تک وقت دیں تو ڈالر 200 پر پہنچ جائے گا اور تیل و بجلی کی قیمتیں کم ہوں گی۔

    اجلاس میں فضل الرحمٰن نے شکوہ کیا کہ بعض حکومتی معاملات ہم سے پوچھے بغیر ہو رہے ہیں جس پر نواز شریف نے کہا کہ آپ سے مشاورت ہونی چاہیئے۔

    ذرائع کے مطابق نواز شریف نے کہا کہ کبھی سوچا نہیں تھا اس طرح حکومت لوں گا، یہ حکومت لے کر بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کی۔

    انہوں نے کہا کہ اب ڈٹ جاؤ اور دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر عوام کا خیال کرو۔

    ذرائع کے مطابق ایک پی ڈی ایم رہنما نے کہا کہ عوام پر جو بوجھ 6 ماہ میں ڈالنا تھا وہ مفتاح اسماعیل نے ایک ساتھ ڈال دیا۔

  • ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    وزارتِ داخلہ کی ضمنی الیکشن اور سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کر دی ہے اور اب قومی اسمبلی کی 8 اور پنجاب اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی الیکشن اتوار 16 اکتوبر اور کراچی کے بلدیاتی الیکشن اتوار 23 اکتوبر کو مقررہ شیڈول کے تحت ہی منعقد ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ساتھ ہی ایک سوال نے بھی جنم لے لیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان جو قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہیں وہ یہ تمام نشستیں جیت کر اپنا ہی ایک ریکارڈ توڑ دیں گے اور نئی تاریخ رقم کرکے اپنے مخالفین کو بھی سرپرائز دے سکیں گے؟ یہ تاریخ رقم کرنا اس لیے ہو گا کہ اب تک کسی بھی سیاسی رہنما نے اب تک 7 نشستوں پر بیک وقت انتخاب نہیں لڑا ہے، اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور پھر عمران خان بیک وقت 5 حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 4 نشستوں کے فاتح اور ایک پر شکست کھائی تھی جب کہ عمران خان نے 2018 میں سیاست کے بڑے بڑے برج گراتے ہوئے تمام 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Imran Khan (@imrankhan.pti)

    ان انتخابات میں عمران خان نے این اے 53 اسلام آباد سے ن لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، بنّوں 35 جے یو آئی ف کے اکرم درانی، این اے 243 سے ایم کیو ایم پاکستان کے علی رضا عابدی، ن لیگ کے مضبوط ترین گڑھ لاہور کی نشست این اے 131 سے موجودہ وفاقی وزیر سعد رفیق کو شکست دینے کے ساتھ میانوالی سے بھی قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔

    ملک میں بیک وقت اتنی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر غالباً پہلی بار ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات کا ڈھول اس وقت بجا جب موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی میں سے منتخب کردہ 11 ممبران کے استعفے منظور کیے تھے جن میں دو مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین کے استعفے بھی شامل تھے۔ استعفوں کی منظوری کے بعد 9 خالی نشستوں پر ستمبر میں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ تاہم ملک میں سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے 16 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔

    جن اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں این اے-22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے- 24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے- 31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے- 45 کرم ون سے فخر زمان خان، این اے-108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے-237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے-239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے-246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد شامل تھے۔ ان کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کیے گئے تھے۔

    9 حلقوں پر ضمنی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی کرائے، کچھ حلقوں میں اعتراضات کے بعد تمام حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے تاہم ان 9 انتخابی حلقوں میں سے دو حلقوں کراچی لیاری سے این اے 246 اور این اے 45 کرم ون کی نشستوں پر ضمنی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ این اے 246 لیاری کراچی سے منتخب عبدالشکور شاد کی جانب سے اپنے استعفے کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 246 لیاری کراچی کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا جب کہ این اے 45 کرم میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے باعث وہاں بھی پولنگ نہیں ہو رہی جس کے باعث اب ان سات حلقوں میں پولنگ ہوگی جہاں عمران خان کا براہ راست اپنے مخالفین سے ٹکراؤ ہو گا۔

    اس کے علاوہ حلقہ این اے 157 ملتان فور وہ حلقہ ہے جہاں شاہ محمود کے بیٹے شاہ زین نے پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کی امیدوار اور شاہ محمود کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کا پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسی گیلانی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے جب کہ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں پی پی 139 شیخوپورہ فائیو، پی پی 209 خانیوال سیون اور پی پی 241 بہاولنگر فائیو میں بھی اسی روز پولنگ ہوگی۔
    تاہم اتوار کو مجموعی طور پر ان 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں سب کی توجہ قومی اسمبلی کی ان سات نشستوں پر ہے جہاں عمران خان نے خود میدان میں اتر کر مخالفین کو بڑا چیلنج دیا ہے۔ خان صاحب اس فیصلے سے قوم سمیت اپنے تمام حریفوں کو یہ تاثر دینے میں تو کامیاب رہے ہیں کہ وہ کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وکٹ گنوانے کی پروا نہیں کرتے اس کے ساتھ ہی قوم کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ عمران خان اکیلے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کے مدمقابل ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ معرکہ سر کر سکیں گے؟ کہیں یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی جوا تو ثابت نہیں ہوگا؟ یہ سوالات اس لیے کہ یہ الیکشن ایسے موقع پر ہونے جا رہے ہیں کہ جب عمران خان کو تواتر کے ساتھ اپنی متنازع اور مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

    گو کہ اس وقت عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے نشانے پر ہیں، کئی مقدمات قائم جب کہ مزید بننے جا رہے ہیں، عدالتوں کے چکر بھی لگ رہے ہیں، خاص طور پر مبینہ آڈیو لیکس کے بعد مخالفین کے زبانی حملوں اور عملی اقدامات میں بھی تیزی آچکی ہے لیکن زمینی حقائق اور حالات کو دیکھا جائے تو ہر گزرتا دن یہ باور کراتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی ان کے مخالفین کی سب سے بڑی پریشانی ہے کہ جہاں حکمراں اتحاد بالخصوص ن لیگ کی قیادت اور رہنماؤں کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا ہے، وہ جہاں جاتے ہیں چور، چور کی صدائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر ن لیگی رہنما عوامی مقامات پر جانے سے گریز کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب مخالفین کے الزامات، مقدمات در مقدمات اور مبینہ آڈیو لیکس کے باوجود عمران خان کے جلسے اسی زور وشور سے بدستور جاری ہیں اور وہاں عوام پہلے کی طرح پرجوش انداز میں بڑی تعداد میں پہنچ رہی ہے، ایسے میں ایک جانب پی ٹی آئی کا مجوزہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اس سے قبل ضمنی الیکشن حکمرانوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ تاہم ایسے موقع پر پی ٹی آئی کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس کے مدمقابل وہ سیاسی قوتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاسی افق پر چھائی رہی ہیں اور انہیں سیاست کے تمام گُر آتے ہیں۔

    یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے تو ان 11 حلقوں میں وہ کیا خاص بات تھی کہ پہلے مرحلے میں ان کے استعفے منظور کرنے کا انتخاب کیا گیا؟ اگر 2018 کے انتخابی نتائج سامنے رکھے جائیں تو سب پر واضح ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ان حلقوں سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو باقاعدہ ہوم ورک کر کے ڈی سیٹ کیا ہے۔

    2018 کے عام انتخابات کے نتائج پر نظر دوڑائی جائے تو ضمنی الیکشن کا معرکہ لڑنے والے مذکورہ سات حلقوں میں سے 5 حلقے ایسے ہیں جہاں ہار جیت کا مارجن صرف چند سو سے زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار کے لگ بھگ رہا۔ اگر ان نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو عمران خان کیلیے 7 نشستیں جیتنا تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا کیونکہ 2018 میں ان کے مخالفین کے ووٹ منقسم تھے لیکن اس الیکشن میں تمام مخالف 12 یا 13 جماعتوں کا ووٹ اکٹھا ہے اور ہر حلقے میں عمران خان کا مقابلہ بھی پی ڈی ایم کے ایک ہی مشترکہ امیدوار سے ہوگا۔

    اگر عمران خان ان میں سے کچھ حلقے ہار جاتے ہیں تو حکومت اسے اپنی جیت قرار دے گی کیونکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد حکومتی اتحاد اس موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تاثر ختم کیا جائے اور اگر ان کے من پسند نتائج آئے تو حکومتی اتحاد کیلیے کو عوام کو متوجہ کرنے کے لیے ایک خوش کُن اور حوصلہ افزا بیانیہ مل سکتا ہے۔

    اگر عمران خان نے سات نشستیں جیت لیں تو پھر حکومتی اتحاد جس میں پہلے ہی دراڑیں‌ پڑی ہوئی ہیں، مزید دفاعی پوزیشن پر چلا جائے گا۔ اگر بھرپور جیت کے ساتھ ہی عمران خان نے اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا تو پھر ایک نیا سیاسی میدان سجے گا۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جہاں ضمنی الیکشن عمران خان اور حکومتی اتحاد کے لیے بڑا معرکہ ثابت ہوں گے وہیں ان کے نتائج کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے سیاسی صف بندیاں کہیں دور شروع بھی ہوچکی ہیں۔

  • آئندہ حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟  پی ڈی ایم آج سر جوڑ کر بیٹھیں گے

    آئندہ حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ پی ڈی ایم آج سر جوڑ کر بیٹھیں گے

    اسلام آباد : پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس آج ہوگا ، جس میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور سیاسی صورت حال پرمشاورت ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق حکومتی اتحاد کو پنجاب میں بدترین شکست اور وفاق میں چیلنجز کا سامنا ہے ، پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس آج شام طلب کیا گیا ہے۔

    مولانا فضل الرحمان مسلم ہاؤس چک شہزاد میں اجلاس کی صدارت کریں گے، پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے سربراہان اجلاس میں شرکت کریں گے۔

    اجلاس میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور سیاسی صورت حال پر مشاورت کی جائے گی۔

    گذشتہ روز سربراہ پی ڈی ایم مولانافضل الرحمان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ اپنی پوری سیاست کی فکرو،ہم نےتمہاری حکومت کوزمین بوس کردیا، اب پنجاب حکومت کی خیرمناؤجوچنددن کی مہمان ہے۔

    مولانافضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اگر قانون میں کہیں سقم ہےتواس پرقانون سازی ہونی چاہیے، اسپیکر قومی اسمبلی کو کہا ہے کہ تحقیقات کر کے استعفے قبول کریں، اسپیکرکی صوابدیدہےکہ وہ کب استعفےمنظورکرتے ہیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں ادارے سے کوئی گلہ نہیں البتہ اٹک پار سے شکوہ ضرورہے ، حکومت سےشکوہ ہے،عمران خان کیخلاف کیسزکافیصلہ کیوں نہیں ہورہا ، عمران خان کیخلاف کیسزپرعوامی رائےعامہ ہموارکرنےکی ضرورت ہے۔

  • پی ڈی ایم کا سپریم کورٹ کے  بائیکاٹ  کے فیصلے سے یوٹرن؟

    پی ڈی ایم کا سپریم کورٹ کے بائیکاٹ کے فیصلے سے یوٹرن؟

    اسلام آباد : حکمران اتحاد کی جانب سے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کرنے کے اعلان کے باوجود پیپلزپارٹی، چوہدری شجاعت اورڈپٹی اسپیکرکے وکیل سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پی ڈی ایم نے سپریم کورٹ کے بائیکاٹ کرنے کے فیصلے سے یوٹرن لے لیا، پیپلزپارٹی،چوہدری شجاعت اورڈپٹی اسپیکرکےوکیل سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

    پی پی وکیل فاروق ایچ نائیک اور چوہدری شجاعت کےوکیل صلاح الدین اور ڈپٹی اسپیکردوست محمدمزاری کےوکیل عرفان قادر سپریم کورٹ پہنچے۔

    وکیل عرفان قادر نے کہا کہ دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا بائیکاٹ نہیں کیا، میں نے بھی کبھی کسی عدالت کا بائیکاٹ نہیں کیا، آج عدالت کے سامنے اپنی بات کروں گا۔

    یاد رہے گذشتہ روز سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں حکومتی اتحاد کی فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

    بعد ازاں حکمران اتحاد نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں فل کورٹ نہ بنانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے دھمکیوں پر اتر آئے تھے۔

  • بڑی جماعتوں کے بعد مسلم لیگ ن کو چھوٹی جماعتوں نے بھی گھیر لیا

    بڑی جماعتوں کے بعد مسلم لیگ ن کو چھوٹی جماعتوں نے بھی گھیر لیا

    اسلام آباد: بڑی جماعتوں کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کو چھوٹی جماعتوں نے بھی گھیر لیا، متعدد اہم معاملات پر اب ن لیگ کو بڑی جماعتوں کے بعد چھوٹی جماعتوں کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ن لیگی حکومت کو تین صوبوں کے گورنرز اور چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ درپیش ہے، جن پر پاکستان پیپلز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔

    اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی ان چھوٹی جماعتوں نے بھی سر جوڑ لیے ہیں جنھیں قومی اسمبلی میں کوئی خاص قوت حاصل نہیں ہے، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ سمیت چند دیگر جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے رابطوں پر اتفاق کر لیا ہے۔

    ذرائع نیشنل پارٹی اور پی کے میپ کا کہنا ہے کہ وہ پی ڈی ایم میں سیاسی جدوجہد کے لیے اکھٹے ہوئے تھے، لیکن حکومت کی تبدیلی کے بعد بڑی جماعتوں کے اہداف بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ چھوٹی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کا اجلاس جلد بلائیں۔

    واضح رہے کہ حکومتی اتحاد کی جماعتیں آئندہ چند ہفتوں میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، تین صوبوں کے گورنر اور چیئرمین نیب کے عہدے ان اہداف میں شامل ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن سے اس سلسلے میں آئندہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں باضابطہ رابطے کیے جائیں گے، کچھ رابطے ہو بھی چکے ہیں جن میں مولانا نے انھیں اجلاسوں کے لیے گرین سگنل بھی دیے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا ان رابطوں کے ذریعے اپنی بارگیننگ پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

    یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن خیبر پختون خوا سے چیئرمین نیب کے لیے 2 نام دے چکے ہیں، بی اے پی بھی اس سلسلے میں دو نام دے چکی ہے، اس وقت ایک طرف حکومت کو معاشی اور بڑی جماعتوں کے بحران کا سامنا ہے، وہاں اب چھوٹے صوبوں سے چھوٹی جماعتوں کی صورت میں بھی نیا چیلنج سامنے آ رہا ہے، آنے والے دنوں میں امکان ہے کہ یہ جماعتیں مولانا کے پاس اکھٹی ہوں اور مولانا، آصف زرداری کی طرح حکومت کے ساتھ ‘دو اور لو’ کی بارگیننگ کریں۔

    ایم کیوایم اور بی اے پی کے بعد ایک اوراتحادی جماعت ناراض ، حکومت سے علیحدگی پر غور

    دوسری طرف ذرائع نے کہا ہے کہ حکومت کی ایک اور اہم اتحادی جماعت ناراض ہو گئی ہے، عوامی نیشنل پارٹی نے وفاقی حکومت سےعلیحدگی پر غور شروع کر دیا ہے، اس حوالے سے ایمل ولی خان کی زیر صدارت اے این پی کی مرکزی قیادت کا اجلاس منعقد ہوا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں حکومتی اتحاد کے لیے کیے گئے وعدوں اور ان پر عمل درآمد سے متعلق تبادلہ خیال ہوا، اے این پی رہنماؤں نے حکومت سے علیحدگی کی تجویز دے دی، جس پر ایمل ولی خان نے حتمی فیصلوں کے لیے مرکزی قیادت کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا۔

    اے این پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہ ہو سکا، پارٹی کو کسی بھی حکومتی فیصلوں پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا ہے۔

    اجلاس میں اے این پی رہنماؤں نے حکومت سے علیحدگی کا اختیار پارٹی سربراہ کو دے دیا۔

  • پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم جلسے میں شرکت  کا  فیصلہ

    پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم جلسے میں شرکت  کا  فیصلہ

    اسلام آباد : پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم جلسے میں شرکت  کا  فیصلہ کرلیا، نمائندہ وفد پی ڈی ایم جلسے میں شرکت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی کا فیصلہ نہ ہو سکا، ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پشاورموڑپرپی ڈی ایم جلسے میں محدود شرکت کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت مرکزی رہنما پی ڈی ایم جلسے میں شریک نہیں ہوں گے، پیپلزپارٹی کا نمائندہ وفد پی ڈی ایم جلسے میں شرکت کرے گا۔

    ذرائع نے کہا کہ پارٹی کارکنوں کو پی ڈی ایم کے عوامی اجلاسوں میں شرکت کے لیے نہیں بلایا جائے گا، کیونکہ پی پی پی اسٹریٹ شو پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے جنگ کو پارلیمنٹ تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔

    ذرائع کے مطابق پی پی کے ڈی چوک جلسے میں پی ڈی ایم مرکزی قیادت شریک نہیں ہوئی تھی ، جس پر پیپلزپارٹی ڈی چوک جلسے میں پی ڈی ایم قیادت کی عدم شرکت پرنالاں ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے نمائندہ وفد کے درجے کی قیادت بھجوائے گی تاہم جلسے کےلیےتاحال وفد کےناموں کو حتمی شکل نہ دی جا سکی۔

  • وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    یہ درست ہے کہ کسی بھی ملک میں مضبوط جمہوریت کے لیے مستعد اور فعال اپوزیشن ضروری ہوتی ہے جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہوئے اس پر عوامی فلاح و بہبود کے کاموں اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپوزیشن اور حکومت کا کردار کبھی دو انتہاؤں پر ہوتا ہے تو کبھی ایسا کہ لگتا ہی نہیں کہ ملک میں کسی اپوزیشن کا وجود ہے۔ یہاں 90 کی دہائی اگر سیاسی رسہ کشی میں گزری تو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ اپوزیشن کے بارے میں یہی تاثر قائم رہا کہ یہ فرینڈلی اپوزیشن ہے اور اس تاثر کو خود اپوزیشن نے اپنے اقدامات سے تقویت دی۔

    پاکستان میں‌ اپوزیشن کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ ایک خاص وقت پر اشارہ پاتے ہی سڑکوں پر نکل آتی ہے اور حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کو عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات سے جوڑتی ہے۔

    ہمارے بلاگ کے عنوان سے واضح ہے ہم اپوزیشن کی جانب سے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے نتائج پر نہیں بلکہ اس کی ٹائمنگ اور ان حالات پر بات کریں گے جن میں اپوزیشن جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے پر اتفاق کیا۔

    گزشتہ سال اپریل میں جب حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو حکومتی حلقوں نے سکون کا سانس لیا تھا وجہ صاف تھی کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا اور اپنی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ کئی بڑے جلسے بھی کیے تھے جس نے حکم راں جماعت کو دباؤ میں‌ لے لیا تھا، لیکن جب ذاتی مفاد کے لیے ایک بڑی ملکی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے دوسری بڑی پارٹی ن لیگ کو بائی پاس کر کے یوسف رضا گیلانی کو حکومت کی مدد سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوایا تو گویا پی ڈی ایم میں انتشار پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں پی پی پی اور اے این پی کو اس اتحاد سے نکلنا پڑا اور پی ڈی ایم عملاً ٹوٹ گئی۔ کیوں کہ پی ڈی ایم بنانے کے فیصلے میں بھی پی پی پی پیش پیش تھی اور 20 ستمبر 2020 کو بلاول بھٹو کی میزبانی میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں اس کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    بہرحال پی پی پی کے اس اتحاد سے علیحدہ ہونے کے بعد پی ڈی ایم میں شریک تمام جماعتیں جو پہلے حکومت کے خلاف صف آرا تھیں، ایسا لگنے لگا کہ ان کا ہدف اب حکومت نہیں رہی، خاص طور پر ن لیگ اور پی پی پی نے تو ایک دوسرے کو نشانے پر رکھ لیا اور وہ گولہ باری ہوئی کہ حکومتی ایوانوں میں تو شادیانے بج گئے۔ اس دوران کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے پی پی اور ن لیگ قیادت کے ساتھ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کے خلاف بیانات داغ دیتے لیکن مجموعی طور پر اپوزیشن آپس ہی میں گتھم گتھا نظر آئی جس کا حکومتی جماعت نے کئی بار فائدہ بھی اٹھایا۔

    قصہ مختصر اپریل میں پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد حکومتی حلقوں میں بے چینی ختم ہوگئی اور ملکی فضا میں جو سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی وہ صرف اپوزیشن کیمپ تک ہی محدود رہی۔

    اپوزیشن کی باہمی ’’تُو تُو مَیں میں‘‘ جاری تھی کہ اسی دوران 16 ستمبر 2021 کو عمران خان اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ملاقات ہوتی ہے۔ روسی صدر کی طرف سے دعوت کو عمران خان قبول کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دورہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے بہت اہم ہے۔ وزیرِاعظم کسی بھی صورت اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ہیں۔ یہ تاریخی دورہ فروری 2022 کے اواخر میں طے پاتا ہے اور دونوں طرف گرم جوشی نظر آتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے دورے کا وقت قریب آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست میں اچانک بھونچال آگیا ہے، ایک دوسرے کی مخالفت میں‌ آگے سے آگے بڑھ جانے والی پارٹیاں توقع کے بَرخلاف ایک دوسرے کے لیے محبت سے بانہیں پھیلا لیتی ہیں اور ایک دوسرے کے ہاں سیاسی آنیاں جانیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی ماحول میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیتے ہیں اور اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھرپور رابطوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

    بلاول بھٹو کے اس اعلان کے بعد پی پی پی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری جو کہ کافی عرصہ سے صاحب فراش ہونے کے ساتھ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں اچانک تندرست ہوکر سیاسی میدان میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے مفاہمتی بلے سے ایک اور اننگ کھیلنے کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جس بات پر پی ڈی ایم میں پہلی دراڑ پڑی تھی یعنی گزشتہ سال پی پی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی تجویز کو ن لیگ نے سختی سے رد کردیا تھا اب چند ملاقاتوں کے بعد ن لیگ پی پی کے اس فارمولے پر من وعن راضی ہوجاتی ہے اور پہلے اس تجویز کے شدید مخالف نواز شریف اس کی منظوری بھی دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ تماشا پوری قوم گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے دیکھ رہی ہے۔

    متحدہ اپوزیشن کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے اور عین دورہ روس سے چند روز قبل یہ سرگرمیاں اتنی عروج پر پہنچتی ہیں کہ عوام بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیا ہوگیا کہ چند ماہ قبل ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے والے اب ایک دوسرے کے دست و بازو بن رہے ہیں۔ وہ تماشا لگتا ہے کہ کبھی اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے دورہ روس کے دوران تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بات کی جاتی ہے تو مارچ کے آخری ہفتے میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا اعلان ہوتا ہے۔ یہاں بتاتے چلیں کہ 22 اور 23 مارچ تک اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونا ہے۔

    اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف اپنی تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے نمبرز پورے ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ بہرحال عمران خان دورہ روس مکمل کرکے آجاتے ہیں اس کے بعد تو گویا سیاسی پیالی میں وہ طوفان برپا ہونا شروع ہوتا ہے کہ عوام کو لگتا ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اب گئی کہ تب گئی۔ اس بلاگ کی اشاعت تک اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی نے جمعہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ 25 مارچ ویسے ہی عمران خان کے لیے تاریخی دن ہے کہ 30 سال قبل اسی روز پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بنا تھا اور اس وقت کے کپتان عمران خان نے عالمی کرکٹ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھی۔ اس بار 25 مارچ کو عمران خان کے ہاتھوں میں کیا آتا ہے یہ تو آنے والا 25 مارچ ہی بتائے گا۔

    جیسا کہ ہم نے بلاگ کے آغاز میں تحریک عدم اعتماد کی ٹائمنگ پر بات کی تھی تو ذہن کے دریچے کھولنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کچھ اوراق کھنگالنے پڑیں گے۔

    قیام پاکستان کے تقریباً پونے دو سال بعد 8 جون 1949 کو ایران میں پاکستانی اور روسی سفارتکاروں کے ذریعے پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو روسی صدر جوزف اسٹالن کی جانب سے دورہ روس کی دعوت دی جاتی ہے جس کے بعد سفارتی ایوانوں میں جیسے بھونچال آجاتا ہے۔

    اس حوالے سے عائشہ جلال اپنی کتاب ”پاکستان اسٹیٹ آف مارشل رول” میں لکھتی ہیں کہ امریکا کی حمایت یافتہ مضبوط لابی جس کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد کر رہے تھے وزیراعظم کو دورہ ماسکو سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کو یہ دھمکی بھی دی کہ حکومت کرو یا گھر جاؤ۔ اسی طرح ایک اور مصنف اختر بلوچ نے اس سلسلے میں ایک غیرمعمولی انکشاف کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر لارڈ گریفٹی سمتھ نے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو دھمکی دی تھی کہ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اگر ماسکو گئے تو پاکستان برطانیہ اور امریکا سے دشمنی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

    اسی انداز فکر کی تائید ایک ممتاز اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی اس خبر سے بھی ہوتی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس کی خبر شہ سرخی میں شائع ہوئی اور خبر میں بتایا گیا کہ پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان دولت مشترکہ ممالک میں سے روس کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہ مملکت ہوں گے لیکن فیوڈلز پہ مشتمل امریکی نواز وزرا ڈر گئے اور دورہ کینسل ہو گیا۔ دورے کی تنسیخ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن موڑ تھا۔

    پاکستانی خارجہ پالیسی پر ابتدائی کتابوں میں سے ایک ’’پاکستانز فارن پالیسی‘‘ کے مصنف مشتاق احمد لکھتے ہیں وزیراعظم کا ماسکو نہ جانا ایک بھیانک غلطی تھی کیونکہ اس دورے کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف ایک متوازن خارجہ پالیسی پر کاربند ہونے کا موقع ملتا بلکہ عالمی قوتوں کی طرف سے پذیرائی اور حمایت بھی ملتی۔

    دونوں ادوار میں دورۂ روس کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہم نے قارئین کے سامنے رکھ دی ہے۔ آپ اس کا موازنہ کرتے ہوئے سوچیے کہ جو کچھ آج کل وطن عزیز پاکستان میں ہورہا ہے کہیں یہ سب کسی کے اشارے پر تو نہیں‌ ہو رہا؟؟؟

  • پیپلزپارٹی کا دوبارہ پی ڈی ایم میں شمولیت کا امکان

    پیپلزپارٹی کا دوبارہ پی ڈی ایم میں شمولیت کا امکان

    اسلام آباد : پی‌ ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمان آج سابق صدر آصف زرداری سے ملاقات میں پی ڈی ایم میں دوبارہ شمولیت کی دعوت دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت کو گھر بھیجنے کے مشن پر اپوزیشن کی ملاقاتیں جاری ہے ، پی‌ ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمان کی سابق صدر آصف زرداری سے آج ملاقات ہوگی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں سیاسی صورتحال،تحریک عدم اعتمادسےمتعلق گفتگوہوگی اور فضل الرحمان،آصف زرداری کوپی ڈی ایم میں دوبارہ شمولیت کی دعوت دیں گے۔

    گزشتہ رات پی ڈی ایم اسٹیئرنگ کمیٹی اجلاس میں پی پی اور اےاین پی نےنمائندگی کی ، جس مین اے این پی نے پی ڈی ایم لانگ مارچ میں شرکت کااعلان کردیاتھا جبکہ پی پی نے بھی پی ڈی ایم لانگ مارچ میں شرکت کیلئے گرین سگنل دیا۔

    خیال رہے پی ڈی ایم جماعتیں پی پی کےڈی چوک پرجلسےمیں شریک ہوئی تھیں جبکہ حکومتی اتحادیوں کی جانب سےبھی آئندہ 24 گھنٹےمیں بڑااعلان متوقع ہیں۔

    گذشتہ روز مولانافضل الرحمان نے کہا تھا کہ 23 مارچ کو ملک بھر سے قافلے 23 کے بجائے25مارچ کو اسلام آبادمیں داخل ہوں گے، اوآئی سی اجلاس کےلیےآئےمہمان ہمارے لیے معزز ہیں اس لیے انہیں کسی قسم کی مشکلات نہیں ہونی چاہیے۔

    مولانافضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کوکل دعوت دینےکیلئےجاؤں گا، ہماراحکومت کے جلسے سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، ہم کئی ماہ پہلے ہی 23 مارچ کی تاریخ کا اعلان کر چکے تھے۔

  • وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد: پی ڈی ایم کا اہم سربراہی اجلاس کل طلب

    وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد: پی ڈی ایم کا اہم سربراہی اجلاس کل طلب

    اسلام آباد : پی ڈی ایم کا اہم سربراہی اجلاس کل طلب کرلیا گیا ، جس میں وزیراعظم عمران خان کےخلاف عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق حکمت عملی طے کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے معاملے پر پی ڈی ایم کا اہم سربراہی اجلاس کل طلب کرلیا گیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس پی ڈی ایم کےسربراہ مولانافضل الرحمان کی زیرصدارت ہوگا اور نوازشریف اجلاس میں وڈیولنک سے اور
    پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سربراہان بھی شریک ہوں گے۔

    اجلاس میں پی ڈی ایم عدم اعتماد سے متعلق حکمت عملی طے کرے گی اور مولانافضل الرحمان حکومتی اتحادیوں،اپوزیشن سے ملاقاتوں پر اعتماد میں لیں گے۔

    ذرائع کے مطابق اجلاس میں پی ڈی ایم حکومت مخالف حتمی حکمت عملی بھی طے کی جائے گی۔

    گذشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں شہباز شریف سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا عمران خان میں وارننگ دے رہا ہوں اپنی زبان ٹھیک کر لو، سن لو ہم تمھیں جام کرنا جانتے ہیں۔

    مولانا نے وزیر اعظم کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ہم نے شرافت کا راستہ اپنایا مگر تمہاری فطرت میں یہ چیز نہیں، آپ کی زبان بتا رہی ہے کہ وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں ہیں، لگام لگایا جائے، اس کے گلے میں پٹا ڈالا جائے، کیوں کہ پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

    فضل الرحمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی تو معاملات گلی کوچوں میں لے کر جائیں گے، پھر ہم سے کہا جائے گا کہ آپ ایسا نہ کریں کہ کہیں نظام نہ لپیٹ لیا جائے۔

  • پی ڈی ایم نے پیکا صدارتی آرڈیننس  کو مسترد کردیا

    پی ڈی ایم نے پیکا صدارتی آرڈیننس کو مسترد کردیا

    اسلام آباد : پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازیوں کو مسترد کرتے ہوئے پیکا صدارتی آرڈیننس کو کالا قانون قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ترجمان حافظ حمداللہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ آرڈیننس سے قانون سازی جمہوریت کی منافی آمریت کی علامت ہے۔

    ترجمان پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ حکومت نے ساڑھے 3سال میں 63 آرڈیننس جاری کیے، پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بجائے آرڈیننسز کا سہارا لیا جارہا ہے، حافظ حمداللہ

    حافظ حمداللہ نے مزید کہا کہ پیکا صدارتی آرڈیننس کالاقانون ہے، کوڈآف کنڈکٹ میں تبدیلی آرڈیننس پی ڈی ایم مسترد کرتی ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز صدر پاکستان عارف علوی نے اتوار کو پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے ترمیمی بل پر دستخط کئے تھے۔

    صدر کی جانب سے منظوری کے بعد جعلی خبروں اور نفرت انگیز مواد کو روکنے کے لیے پیکا ترمیمی ایکٹ جاری ہو گیا ہے، اب ریاستی اداروں اور اہم شخصیات کے خلاف نفرت انگیز مواد پر سخت قانونی کارروائی ہوگی۔

    آرڈیننس کے مطابق جعلی خبر دینے پر سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے، ناقابل ضمانت گرفتاری اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا بھی ہو سکے گی، فیک نیوز آرڈیننس کا اطلاق سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوگا۔