Tag: چائلڈ لیبر

  • چائلڈ لیبر قطعاً برداشت نہیں، بچے میری ریڈ لائن ہیں: مریم نواز

    چائلڈ لیبر قطعاً برداشت نہیں، بچے میری ریڈ لائن ہیں: مریم نواز

    آج بچوں سے مشقت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ چائلڈ لیبر قطعاً برداشت نہیں، بچے میری ریڈ لائن ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بچوں سے جبری مشقت کے انسداد عالمی دن پر پیغام میں کہا کہ آج کے دور میں چائلڈ لیبر کے واقعات انسانیت کے لئے المیہ ہیں، بچوں سے جبری مشقت، معاشرے کے باشعور شہریوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ بچوں کے ہاتھ میں قلم، کتاب، لیپ ٹاپ ہونے چاہئیں، اوزار اور اینٹیں نہیں، قلم تھامنے والی کم سنی کی عمر میں بوجھ اٹھانے پر مجبور بچے ہر مہذب معاشرے کیلئے سوالیہ نشان ہیں، معصوم بچوں کا بچپن محفوظ نہ رہا تو آنے والا معاشرہ مفید شہری سے محروم رہے گا۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ چائلڈ لیبر کو محض ایک مسئلہ نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کا سوال سمجھتے ہیں، چائلڈ لیبر قطعاً برداشت نہیں، بچے میری ریڈ لائن ہیں، چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    مریم نواز شریف نے کہا کہ پنجاب چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نافذ  کرنے والا پہلا صوبہ ہے، ورچوئل چائلڈ سیفٹی اسٹیشن قائم کرکے بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنارہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ چائلڈ لیبر کیخلاف موثر اقدامات سے بچوں کو جبری مشقت سے نجات دلا کر تعلیم کی طرف لارہے ہیں، ایسا پنجاب چاہتے ہیں جہاں ہر بچہ مزدوری نہیں علم حاصل کرے گا اور قوم کا مستقبل سنوارے گا۔

  • افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ

    افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ

    کابل: افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ ہوگیا۔

    2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے سیاہ ترین باب کا آغاز ہوا، طالبان کی ناقص پالیسیوں، جنگ اور غربت کے باعث افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، 12 جون کو دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن منایا گیا۔

    چائلڈ لیبر کے عالمی دن پر اقوام متحدہ دفتر برائے انسانی امور کی خصوصی رپورٹ پیش کی گئی رپورٹ میں تمام ممالک میں چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار بتائے گئے۔

    رپورٹ میں افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح کو سنگین ترین قرار دیا گیا اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 19 فیصد افغان بچے چائلڈ لیبر میں ملوث ہیں، او سی ایچ اے افغانستان میں بچوں کی موجودہ صورتحال مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان پر زور دیا گیا کہ وہ چائلڈ لیبر کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کریں اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ چائلڈ لیبر میں ملوث بچوں کے خاندانوں کی کفالت کی جائے۔

    بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال افغانستان میں چائلڈ لیبر کی شرح میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے، طالبان نے بچوں کی آزادی اور بچپن کو چھین کر ان کو اپنے حقوق سے محروم کردیا۔

    رپورٹ کے مطابق طالبان کے دور میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا اور معاشی حالات کی وجہ سے بچے کام کرنے پر مجبور ہوگئے، افغانستان میں لاتعداد بچے اینٹوں کی تیاری، قالین کی بُنائی، تعمیرات، کان کنی اور کھیتی باری کا کام کر رہے ہیں اسکے علاوہ بڑی تعداد میں بچے سڑکوں پر بھیک مانگ رہے یا کچرا جمع کر رہے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک طالبان اپنی ناقص حکمرانی سے افغانستان کے مستقبل کو گہری تاریکیوں میں دھکیلتے رہیں گے؟۔

  • افغانستان میں چائلڈ لیبر میں تیزی سے اضافہ

    افغانستان میں چائلڈ لیبر میں تیزی سے اضافہ

    کابل: افغان طالبان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان میں جنگ اور غربت کے باعث چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان حکومت نے بچوں کی آزادی اور بچپن کو چھین کر ان کو اپنے حقوق کی تکمیل کے مواقع سے محروم کیا ہے، افغان طالبان کے دور میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا جبکہ معاشی حالات کی وجہ سے بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق حال ہی میں رمضان کے دوران کابل میں چائلڈ ورکرز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا، افغانستان میں لاتعداد بچے اینٹوں کی تیاری، قالین کی بُنائی، تعمیرات، کان کنی اور کھیتی باڑی کا کام کر رہے ہیں، باقی بچے سڑکوں پر بھیک مانگ رہے اور کچرا جمع کررہے ہیں۔

    غیر ملکی فلاعی تنظیم کے ایک اہلکار نے طلوع نیوز کو بتایا افغانستان میں 20 لاکھ سے زائد افراد جن میں سے 50 فیصد بچے ہیں کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

    افغانستان میں سیفٹی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر ارشد ملک نے کہا محنت مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد میں تقریباً 38 فیصد اضافہ ہوا ہے، طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانی معیشت تباہ ہوئی ہے۔

     مزدور بچوں نے طلوع نیوز کو بتایا کہ معاشی چیلنجز کی وجہ سے وہ ایسے خطرناک کام اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، گھر میں میری بہنیں بھوکی ہیں اور ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس لیے میں مزدوری کرنے پر مجبور ہوں۔

    اس سے قبل اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ نے 2023 کو افغانستان میں بچوں کے لیے تباہ کن سال قرار دیا تھا۔

    چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ایک تہائی سے زیادہ بچے خطرناک کاموں میں مصروف ہیں، 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے بچوں کے مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

    امریکی محکمہ لیبر کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں وہ بچے جو لیبر فورس میں شامل ہیں جسمانی چوٹوں اور صحت کی تیزی سے خرابی کا شکار ہیں، کام کرنے والے بچے جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق خواتین کی ملازمت پر طالبان کی پابندیوں نے بھی چائلڈ لیبر میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

    ایک غیر ملکی فلاحی تنظیم کے سروے کے مطابق  2022 میں خواتین کی زیر قیادت 29 فیصد گھرانوں میں کم از کم ایک بچہ چائلڈ لیبر کا شکار تھا جو کہ 2021 میں 19 فیصد سے زیادہ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کام کرنے والے بچوں کو اکثر منشیات کی سمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ جسمانی اور جنسی استحصال کا بھی شکار  ہوتے ہیں۔

    افغان حکومت کی جانب سے بنیادی ضروریات کی فراہمی میں ناکامی کی وجہ سے افغانستان کے بچے لیبر فورس میں شامل ہو رہے ہیں، وسائل کی کمی کی وجہ سے معیشت ناکام ہو گئی ہے اور افغانی بچے یہ زبردستی کا کام کرنے پر مجبور ہیں۔

  • پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت کے رجحان میں اضافہ

    پاکستان میں بچوں کی جبری مشقت کے رجحان میں اضافہ

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں سے جبری مشقت کے خلاف آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 5 میں سے 1 بچہ جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت 5 سے 17 سال کی عمر کے 16 کروڑ بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔

    اس کا ایک سبب دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی جنگیں، خانہ جنگیاں، قدرتی آفات، اور ہجرتیں ہیں جو بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں زندگی کی تپتی بھٹی میں جھونک دیتی ہیں۔

    کووڈ 19 کی وبا نے بھی دنیا کی مجموعی غربت میں اضافہ کیا ہے اور کم آمدن والے طبقے کے لیے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔

    پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کے منفی رجحان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے، اسکول جانے سے محروم افراد کی تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ ہے اور یہ تعداد پاکستان کو دنیا میں آؤٹ آف اسکول بچوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر کھڑا کردیتی ہے۔

    تعلیم سے محروم ان بچوں کی بڑی تعداد جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے جن کی تعداد اندازاً 1 کروڑ 20 لاکھ ہے۔

    ماہرین عمرانیات و معاشیات کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ جو کچھ وہ کما رہے ہیں وہ ایک نہایت معمولی رقم ہے۔

    ان کے مطابق لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے، اگر بچوں کو وہ 1 ہزار یا 500 روپے مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہوگا۔

    پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اور غیر مؤثر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیمی سہولیات کا استطاعت سے باہر ہونا اور غربت مزید بچوں کو جبری مشقت کی دلدل میں دھکیل سکتی ہے۔

  • سعودی عرب: 15 برس سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھنا خلاف قانون

    سعودی عرب: 15 برس سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھنا خلاف قانون

    ریاض: سعودی عرب میں پبلک پراسیکیوشن نے کہا ہے کہ 15 برس سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھنا ممنوع ہے، پراسیکیوشن نے اس حوالے سے ہدایات جاری کی ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی پبلک پراسیکیوشن نے کہا ہے کہ 15 برس سے کم عمر بچوں کو ملازم کے طور پر رکھنا ممنوع ہے، سعودی قانون محنت اور تحفظ اطفال قانون 15 برس سے کم عمر بچوں سے ملازمت کروانے کی اجازت نہیں دیتا۔

    پبلک پراسیکیوشن نے انسداد روزگار اطفال کے عالمی دن کے موقع پر انتباہ جاری کیا۔

    پبلک پراسیکیوشن نے تحفظ اطفال قانون کی متعلقہ دفعہ کا متن شائع کیا ہے جس میں کہا گیا کہ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازم رکھنا ممنوع ہے، ایسے بچوں سے ایسا کوئی کام نہیں لیا جا سکتا جو ان کی جسمانی و ذہنی صحت یا سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو۔

    پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ ان سے کوئی فوجی کام نہیں لیا جا سکتا اور نہ ہی جنگوں میں شریک کیا جا سکتا ہے۔

    پراسیکیوشن نے قانون محنت کی دفعہ جاری کی ہے جس کے مطابق ایسے کسی بچے کو جس کی عمر 15 سال نہ ہوئی ہو، اسے ملازم نہیں رکھا جا سکتا۔ اسے ڈیوٹی مراکز میں کام کے لیے جانے کی اجازت نہیں۔

    متعلقہ وزیر بعض فیکٹریوں یا مخصوص مقامات پر ملازمت کے حوالے سے ممنوعہ عمر بڑھا سکتے ہیں، وزیر کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ 13 سے 15 برس تک کی عمر کے بچوں کو ہلکی ڈیوٹی والی ملازمت کرنے کی اجازت دیں۔

  • بچوں کی جبری مشقت ان کا بچپن چھن جانے کے مترادف

    بچوں کی جبری مشقت ان کا بچپن چھن جانے کے مترادف

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں سے جبری مشقت کے خلاف آگاہی کا دن منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بچوں سے جبری مشقت کروانا ان سے ان کا بچپن چھین لینے کے مترادف ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 5 سے 17 سال کی عمر کے 152 ملین بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔

    اس کا ایک سبب دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی معرکہ آرائیاں، خانہ جنگیاں، قدرتی آفات، اور ہجرتیں ہیں جو بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں زندگی کی تپتی بھٹی میں جھونک دیتی ہیں۔

    پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں چائلڈ لیبر کے منفی رجحان میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔

    پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کا حتمی اور موجودہ اندازہ لگانا مشکل ہے جو مختلف سیکٹرز میں مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو سرکاری اعداد و شمار موجود ہیں وہ 18 برس قبل یعنی سنہ 1996 میں اکٹھے کیے گئے تھے۔

    ماہرین عمرانیات و معاشیات کے مطابق ملک میں چائلڈ لیبر میں اضافے کی وجہ عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ٹھہرایا جاتا ہے جو کہ ان کی رائے میں درست نہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خاندانوں کو مکمل طور پر معاشی سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ جو کچھ وہ کما رہے ہیں وہ ایک نہایت معمولی رقم ہے۔ لوگ چائلڈ لیبر کو اس لیے کام پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سستی ہوتی ہے۔ تو اگر بچوں کو وہ 1 ہزار یا 500 روپے مہینہ بھی دیتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس چھوٹی سی رقم سے پورے خاندان کا گزارا ہوگا۔

    پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں تاہم یہ ناکافی اور غیر مؤثر ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے مزدوری کے تحت شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان ان 67 ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں چائلڈ لیبر کی صورتحال خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔

  • بچوں سے مزدوری، وبا نے خراب صورت حال کو مزید بدتر بنا دیا

    بچوں سے مزدوری، وبا نے خراب صورت حال کو مزید بدتر بنا دیا

    نیویارک: اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ بچوں سے مزدوری (چائلڈ لیبر) میں گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی بار اضافہ ہوا ہے، اور کرونا وبا نے خراب صورت حال کو مزید بدتر بنا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ نے جمعرات کو انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں 2 دہائیوں میں پہلی بار چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے اور کرونا بحران کی وجہ سے مزید کروڑوں بچے اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    اس سلسلے میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور اقوام متحدہ کی بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم یونیسیف نے ایک مشترکہ رپورٹ تیار کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 2020 کے آغاز میں چائلڈ لیبر کی تعداد 16 کروڑ ہو چکی ہے، جس میں گزشتہ چار برسوں میں 8 کروڑ 40 لاکھ بچوں کا اضافہ ہوا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2000 سے 2016 تک مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد کم ہو کر 9 کروڑ 40 لاکھ ہو گئی تھی، تاہم اس کے بعد اس میں اضافے کا رجحان شروع ہوا، جیسے جیسے کرونا بحران میں اضافہ ہوتا گیا پوری دنیا میں 10 میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر میں پھنستا گیا، جس سے سب سے زیادہ افریقا کا خطہ متاثر ہوا۔

    یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگرچہ چائلڈ لیبر کی شرح اب بھی 2016 والی ہے، تاہم آبادی بڑھ گئی ہے، جس سے یہ تناسب بہت بڑھ گیا ہے۔ دونوں اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر تیزی سے بڑھتے غریب خاندانوں کی فوری امداد کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو اگلے 2 برس میں تقریباً مزید 5 کروڑ بچے چائلڈ لیبر کے لیے مجبور ہو جائیں گے۔

    یونیسف کی چیف ہنریٹا فور نے برملا اعتراف کیا کہ ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی لڑائی میں ہار رہے ہیں، کرونا بحران نے ایک خراب صورت حال کو بدترین بنا دیا ہے، عالمی سطح پر لاک ڈاؤن، اسکولوں کی بندش، معاشی رکاوٹوں اور سکڑتے ہوئے قومی بجٹ کے دوسرے سال میں خاندان دل توڑ دینے والے انتخاب پر مجبور ہیں۔

    اداروں کے مطابق 2022 کے آخر تک مزید 90 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں دھکیلے جائیں گے، نیز چائلڈ لیبر کی آدھی تعداد کی عمریں 5 سے 11 برس کے درمیان ہیں۔

  • 14 سال سے کم عمر بچے یا بچی کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جاسکتا: شیریں مزاری

    14 سال سے کم عمر بچے یا بچی کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جاسکتا: شیریں مزاری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے حکومت نے قانون بنایا ہے، 14 سال سے کم عمر بچے یا بچی کو گھریلو کام کے لیے ملازم نہیں رکھا جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گھریلو ملازمہ زہرہ تشدد اور قتل کیس پر وکلا سے بریفنگ لی، زہرہ کو تشدد کے بعد قتل کیا گیا۔

    شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ مقدمہ ہمارے لیے بہت اہم اور ٹیسٹ کیس ہے، چائلڈ لیبر کے حوالے سے حکومت نے قانون بنایا ہے۔ 14 سال سے کم عمر بچہ یا بچی گھریلو کام کے لیے ملازم نہیں رکھ سکتے۔

    انہوں نے کہا کہ میرا مقصد سپورٹ کرنا ہے اور مقدمے میں انصاف ہونا چاہیئے، مسئلہ قانون نہیں ہے قانون کے نفاذ کا ہے۔

    وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ زینب الرٹ ایپ پہ شکایات درج کی جاسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ 3 جون کو راولپنڈی میں 8 سالہ گھریلو ملازمہ زہرہ کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ ایک پنجرے کی صفائی کے دوران 2 طوطے اڑ گئے تھے۔

    مالک حسان صدیقی اور ان کی اہلیہ نے طیش میں آکر بچی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا، بچی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گئی تھی۔

  • شیریں مزاری کا چائلڈ لیبر کے خلاف اہم اقدام

    شیریں مزاری کا چائلڈ لیبر کے خلاف اہم اقدام

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ یونیسف کے ساتھ چائلڈ لیبر سروے کروایا جارہا ہے، انسانی حقوق کے لیے ایم آئی ایس (مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) بنانے کی تیاری بھی شروع کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت نے برسوں سے چائلڈ لیبر سروے نہیں کروایا۔ وزارت انسانی حقوق یونیسف کے ساتھ چائلڈ لیبر سروے کروا رہی ہے۔

    شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ سروے جون 2020 میں مکمل ہونا تھا لیکن کووڈ 19 کی وجہ سے تاخیر ہو سکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے انسانی حقوق کے لیے ایم آئی ایس (مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) بنانے کی تیاری شروع کر دی ہے، سسٹم ہمیں پالیسی اور اقدامات کے لیے ڈیٹا بیس فراہم کرے گا۔

    وفاقی حکومت نے گزشتہ برس چائلڈ لیبر کے سدباب کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی تھی، شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ہم ہر بچے کی اسکول میں رسائی اور تعلیم کا حصول یقینی بنائیں گے۔

    دوسری جانب ملک میں چائلڈ لیبر کی زنجیر میں جکڑے بچوں کے قتل اور تشدد کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    چند روز قبل ہی راولپنڈی میں 8 سالہ گھریلو ملازمہ کو مالکان کی جانب سے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس سے صفائی کے دوران پنجرہ کھلا رہ گیا جہاں سے 2 طوطے اڑ گئے۔

    مالکان حسان صدیقی اور اس کی اہلیہ نے بچی پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئی۔

    شیریں مزاری کے مطابق کم عمر ملازمہ سے زیادتی اور قتل کیس میں پولیس سے رابطے میں ہیں، کیس میں شامل میاں بیوی 4 دن کے ریمانڈ پر ہیں۔ وزارت انسانی حقوق نے ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ میں ترمیم کی تجویز دی ہے، گھریلو کام کو خطرناک قرار دینے کی ترمیم شامل کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

  • حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے ہرممکن اقدامات کر رہی ہے: صدر پاکستان

    حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے ہرممکن اقدامات کر رہی ہے: صدر پاکستان

    اسلام آباد: صدر پاکستان عارف علوی نے کہا ہے کہ حکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے ہرممکن اقدامات کر رہی ہے.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے چائلڈ لیبر پر قومی سروے کے اجرا کے موقع پر کیا. ان کا کہنا تھا کہ چائلڈ لیبر پر سروے کا اجرا 22 برس بعد کیا جارہا ہے.

    صدرمملکت نے کہا کہ چائلڈ لیبرکے خاتمے کے لئے ہرممکن اقدامات کررہی ہے، تعلیم اور صحت ملک کے بنیادی مسائل ہیں، سروے سے حکومتی ترجیحات مرتب کرنےمیں مدد ملتی ہے.

    صدرمملکت عارف علوی نے کہا کہ آئین پاکستان میں بچوں کے حقوق کوتحفظ فراہم کیا گیا ہے، تاثر درست نہیں کہ چائلڈ لیبر ہماری ثقافت کا حصہ ہے.

    مزید پڑھیں: حکومت نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے ہیلپ لائن قائم کردی

    انھوں نے کہا کہ عوام ملازم بچوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، لازم ہے کہ بچوں سے کام لینے کے ساتھ ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے.

    یاد رہے کہ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبرکے خاتمے کے لئے وزارت میں ہیلپ لائن قائم کردی ہے.

    خیال رہے کہ یاد رہے کہ چائلڈ لیبر ترقی پذیر ممالک کا ایک گمبھیر مسئلے ہے، جس کے سدباب کے ماہرین مربوط اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں.