Tag: چائے کے باغات

  • سری لنکا دیوالیہ، چائے کے باغات میں کام کرنے والے بھی متاثر

    سری لنکا دیوالیہ، چائے کے باغات میں کام کرنے والے بھی متاثر

    کولمبو: سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کی وجہ سے ملک کی ایک بڑی منافع بخش زراعت چائے کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے، سری لنکا چائے کی پیداوار رکھنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔

    چین، بھارت، سری لنکا اور کینیا چاروں ملک مل کر دنیا بھر میں استعمال کی جانے والی چائے کی 75 فیصد پیداوار کرتے ہیں۔

    ارولپن اور ان کے شوہر سری لنکا میں چائے کے ایک کھیت میں روزانہ کئی گھنٹے کام کرتے ہیں، لیکن مہینے بھر کی مشقت کے بعد وہ 30 ہزار سری لنکن روپے یا قریب اسی ڈالر ہی کما پاتے ہیں۔

    یہ رقم ارولپن، ان کے شوہر، تین بچوں اور ان کی ساس کے لیے ناکافی ہے، 42 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث ان کے خاندان کو اپنی خوراک کم کرنا پڑ رہی ہے۔

    ارولپن کا شمار ان لاکھوں سری لنکن شہریوں میں ہوتا ہے جو اس وقت اس جزیرہ ملک کے تاریخی اقتصادی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔

    سری لنکا کی معیشت کا زیادہ انحصار سیاحت پر تھا لیکن کووڈ 19 کی وبا کے باعث اس ملک کی سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی۔ حکومت کی جانب سے پہلے ہی ٹیکس میں کٹوتیاں کی گئی تھیں، جس کی وجہ سے حکومت کی آمدن پہلے ہی کم تھی۔

    اب سری لنکا کے زرمبادلہ کے ذخائر میں شدید کمی واقع ہوئی ہے اور یہ تیل، ادویات اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات زندگی عوام کو نہیں پہنچا پا رہا، ایسے میں اس ملک نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    مہنگائی اور اشیا خور و نوش کی کمی کے باعث گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

    ارولپن جیسے افراد، جو چائے کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں، زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں، جس پہ کاشت کر کے وہ اپنے گھر والوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔

    چائے کی صنعت شدید متاثر

    سری لنکا میں چائے کی کاشت کی صنعت سے ہزاروں افراد وابستہ ہیں، یہ صنعت بہت زیادہ اس لیے بھی متاثر ہوئی کیوں کہ گزشتہ اپریل میں راجا پاکسے کی حکومت نے اچانک کیمیائی کھاد کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔

    اگرچہ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے لیکن اس پابندی کے باعث ملک میں کیمیائی کھاد کی شدید کمی ہوئی اور زیادہ تر کسانوں کو دیسی کھاد استعمال کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔

    ٹی پلانٹیشن ایسوسی ایشن کے ترجمان روشن راجہ دورائی کا کہنا ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ، پیٹرول کی کمی اور بہت زیادہ مہنگائی نے چائے کی صنعت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔

    ارولپن اور ان کے شوہر نہیں چاہتے کہ ان کے بچے چائے کے کھیتوں میں کام کریں لیکن انہیں خدشہ ہے کہ وہ اس بحران کے باعث اپنے 22 سالہ بیٹے کو یونیورسٹی نہیں بھیج پائیں گے۔ ارولپن نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بیٹے سے ایک فیکٹری میں کام کروانے پر مجبور ہے۔

  • آسام کے چائے کے باغات حاملہ خواتین کے لیے خطرناک ترین مقام

    آسام کے چائے کے باغات حاملہ خواتین کے لیے خطرناک ترین مقام

    بھارتی ریاست آسام ایک طرف تو دنیا بھر میں اپنی چائے کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے، تو دوسری جانب اسے بچوں کی پیدائش کے حوالے سے بھارت کا انتہائی خطرناک مقام بھی قرار دیا جاتا ہے۔

    آسام میں واقع چائے کے باغات میں خواتین کسانوں اور مزدوروں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے تاہم ان خواتین کے لیے طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    ان خواتین میں کئی حاملہ بھی ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص طبی سہولیات، غیر غذائیت بخش خوراک اور دن کا طویل عرصہ کام کرنا ان حاملہ خواتین کی ڈلیوری کے لیے نہایت خطرات پیدا کردیتا ہے۔

    آسام میں ہر ایک لاکھ میں سے 237 خواتین زچگی کے وقت موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔

    یہ شرح بھارت کی مجموعی شرح سے بھی زیادہ ہے، بھارت بھر میں ایک لاکھ میں سے 130 خواتین دوران زچگی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

    آسام میں موجود چائے کے یہ باغات چائے کی نصف ملکی ضرورت پوری کرتے ہیں جبکہ یہ کئی بین الاقوامی چائے کے برانڈز کو بھی چائے فراہم کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    مالکان یہاں پر کام کرنے والے کسانوں اور مزدوروں کو جائز اجرت اور طبی سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہیں تاہم چند ہی مقامات پر کسانوں کو یہ سہولیات میسر ہیں۔

    باغات میں کام کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ معمولی سی طبیعت خرابی سے لے کر زچگی تک کے لیے دور و قریب میں کوئی طبی سہولت موجود نہیں۔ ’طبی سہولیات کے نام پر یہاں صرف ایک کان میں ڈالنے والی مشین (اسٹیتھو اسکوپ) اور بلڈ پریشر کا آلہ دستیاب ہوتا ہے‘۔

    ان کے مطابق حاملہ خواتین بھی اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ روزانہ کا ہدف پورا نہیں ہوگا تو اجرت نہیں ملے گی۔

    انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سماجی کارکن نے بتایا کہ خواتین حمل کے آخری دنوں تک کام کرتی ہیں، کئی خواتین کے یہاں کھیت میں ہی بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے۔

    دوسری جانب بھارتی مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اس ریاست کا دور دراز ہونا اور سفر کے لیے مناسب ذرائع نہ ہونا یہاں مختلف سہولیات کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے۔