بھارتی نوجوانوں نے ایسا کپ تیار کرلیا جس میں چائے پینے کے بعد اسے کھایا جاسکتا ہے، اسے بسکٹ کپ کا نام دیا گیا ہے۔
بھارتی شہر کولہاپور سے تعلق رکھنے والے 3 نوجوانوں نے کچرے میں کمی اور آلودگی پر قابو پانے کے لیے ایک انوکھا قدم اٹھایا ہے، تینوں دوستوں نے چائے کا ایسا کپ تیار کیا ہے جسے کھایا بھی جاسکتا ہے۔
اس کپ کو بسکٹ کپ کا نام دیا گیا ہے۔ بسکٹ اور دیگر اجزا پر مشتمل اس کپ سے چائے پینے کے بعد اسے کھایا جاسکتا ہے۔
ان نوجوانوں نے ایڈیبل کٹلری کے نام سے ایک برانڈ قائم کیا ہے جس میں وہ ایسے برتن تیار کرتے ہیں جنہیں کھایا جاسکے، تاکہ ڈسپوزیبل کپوں اور پلیٹوں سے ہونے والے کچرے میں کمی کی جاسکے۔
اگر کوئی کپ نہیں کھانا چاہتا تو اسے جانوروں کو کھلایا جاسکتا ہے یوں یہ کچرا پھیلانے کا سبب نہیں بنے گا۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے کیے جانے والے نوجوانوں کے اس اقدام کو بے حد سراہا جارہا ہے۔
کلونجی شفا اور فوائد کا خزانہ ہے، اس کا باقاعدہ استعمال بے تحاشہ جسمانی فوائد پہنچا سکتا ہے، کلونجی اور دیگر بوٹیوں کی چائے گلے کے بے شمار مسائل سے بچا سکتی ہے۔
اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر بلقیس نے کلونجی کے فوائد بتاتے ہوئے اس کی چائے بنانے کا طریقہ بتایا۔
ڈاکٹر بلقیس کے مطابق کلونجی کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں:
کلونجی امیون بوسٹر ہے جس سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔
پھیپھڑوں کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔
پرسکون نیند لانے میں مدد گار ہے۔
جسم کے مختلف اعضا کے درد میں کمی لاسکتی ہے۔
نزلہ زکام اور ناک بند ہونے کی صورت میں صرف کلونجی سونگھنے سے تکلیف میں کمی ہوسکتی ہے۔
سر میں درد ہو تو کلونجی کو ہلکا سا توے پر گرم کر کے ماتھے پر لگائیں، درد میں فوری افاقہ ہوگا۔
کلونجی کا تیل روزانہ 1 سے 2 بوند روزانہ پینے سے پیٹ کے کیڑے ختم ہوجاتے ہیں۔
گلا خراب ہو، ٹانسلز ہوں یا کھانسی ہو تو کلونجی کو نیم گرم کر کے ململ کے کپڑے میں باندھیں اور پوٹلی بنا کر گلے کی سکائی کریں، فوری آرام حاصل ہوگا۔
کلونجی کی چائے
ڈاکٹر بلقیس نے کلونجی کی چائے بنانے کا طریقہ بھی بتایا۔
اس کے لیے 2 کپ پانی پین میں ڈالیں، اس میں 1 سے 2 چمچ کلونجی شامل کریں، سیاہ زیرہ آدھا چائے کا چمچ، سونف 1 چمچ، 1 سے 2 کڑے پتے اور ادرک کا ٹکڑا شامل کریں۔
اسے اتنا پکائیں کہ 2 کپ پانی 1 کپ رہ جائے۔
اسے چھان لیں اور دل چاہے تو ایک چمچ شہد ڈال کر پئیں، اسے اتنا گرم ہونا چاہیئے جتنا برداشت کرسکیں اور اسے گلے میں روک روک کر پئیں۔
بعد ازاں اس کے اوپر پانی نہ پئیں۔
اس کا باقاعدہ استعمال ہاضمے اور گلے کے مسائل کو ٹھیک رکھے گا جبکہ قوت مدافعت میں اضافہ اور دوران خون میں بھی بہتری آئے گی۔
کراچی: معروف آسٹریلوی کرکٹ امپائر سائمن ٹوفل کی ویڈیو وائرل ہوگئی جس میں انہیں دیسی انداز میں چائے بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پی ایس ایل سیزن فائیو کے میچز میں امپائرنگ کے لیے پاکستان آنے والے معروف آسٹریلوی کرکٹ امپائر سائمن ٹوفل بھی چائے کے دیوانے نکلے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں کرکٹ کی دنیا کے نامور امپائر سائمن ٹوفل کو چائے بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔سائمن ٹوفل نے دیسی انداز میں چائے بنا کر نہ صرف ساتھیوں سے داد وصول کی بلکہ پاکستانیوں کے بھی دل جیت لیے۔
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائمن ٹوفل کا شمار کرکٹ کے بہترین امپائروں میں ہوتا ہے وہ 2004 سے 2008 تک مسلسل پانچ بار آئی سی سی امپائر آف دی ایئر قرار پائے ۔ معروف آسٹریلوی کرکٹ امپائر تقریباََ 11 سال بعد پی ایس ایل کے موقع پر پاکستان آئے ہیں۔
بیجنگ: بچوں کی شرارتیں کبھی کبھی والدین کے لیے وبال جان بن جاتی ہیں۔
ایسا ہی کچھ ہوا چین میں جہاں کھیل کھیل میں بچے نے والدین کے لیے پریشانی بڑھادی اور مدد کے لیے فائر فائٹرز کو طلب کرنا پڑگیا، طویل کاوشوں کے بعد معاملہ حل ہوا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق چین کے شہرچانگشا میں ایک بچے نے کھیل ہی کھیل میں چائے کی کیتلی اپنے سر میں پھنسالی، جس کے بعد والدین کی دوڑیں لگ گئیں اور بلآخر فائر فائٹرز کو طلب کرنا پڑا۔
بچے نے دھات سے بنی ہوئی کیتلی اپنے سرمیں پھنسائی جو لینے کے دینے پڑگئی۔
والدین نے فوری طور پر ہیلپ لائن میں کال کرکے مدد طلب کی بعد ازاں فائر فائٹرز کا عملہ جائے وقوعہ پر پہنچا اور آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد بچے کا سر باحفاظت کیتلی سے نکالا البتہ گلے میں ہلکی خراشیں آئیں۔
کراچی: پنو عاقل سے تعلق رکھنے والے والدین 2 روز سے اپنی 6 سالہ جھلسی ہوئی بچی لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے، بچی کو مختلف اسپتالوں نے علاج سے منع کردیا۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کی تحصیل پنو عاقل سے تعلق رکھنے والی 6 سالہ معصومہ 2 روز قبل چائے کے برتن میں گر کر جھلس گئی، 2 روز سے والدین سندھ بھر کے اسپتالوں میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
والدین کا کہنا ہے کہ بچی کو سول اسپتال پنو عاقل لے کر گئے تو انہوں نے سول اسپتال سکھر بھیج دیا، سول اسپتال سکھر گئے تو انہوں نے کراچی این آئی سی ایچ بھیج دیا۔
والدین کا مؤقف ہے کہ این آئی سی ایچ گئے تو انہوں نے کراچی سول اسپتال برنس وارڈ بھیج دیا لیکن برنس وارڈ میں بھی علاج کرنے سے منع کردیا گیا۔
مجبور باپ نے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ بیٹی کو جھلسے 48 گھنٹے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، بیٹی کو لے کر سندھ بھر کے اسپتالوں میں گھما چکا ہوں۔
والدین نے میڈیا کے سامنے روتے ہوئے کہا کہ خدارا انصاف کیا جائے اور بیٹی کا علاج کیا جائے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی سندھ میں اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جب شکار پور میں 10 سالہ بچے کو کتے نے کاٹ لیا تھا۔
والدین اسے لے کر اسپتالوں میں گھومتے رہے لیکن کہیں ویکسین نہ ملی، معصوم بچے نے تڑپ تڑپ کر ماں کی گود میں جان دے دی تھی۔
مولانا ظفر علی خاں ساری زندگی سیاست اور صحافت کے میدان میں سرگرم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات و واقعات کے زیر اثر ان کے مضامین اور نظم و نثر کے موضوعات کی نوعیت سیاسی ہوتی تھی، مگر بنیادی طور پر وہ ایک شاعر اور ادیب تھے۔
ان کا نظریہ، فکر اور صحافت کا ڈھب ہی نرالا تھا۔ نظم و نثر میں سبھی ان کے کمال کے معترف ہیں۔ حاضر دماغ، طباع اور خوش مذاق تھے۔ کہتے ہیں چائے اور حقہ دونوں ان کے پسندیدہ تھے۔ گویا دھواں اور بھاپ ان کے ذہن کی مشین کو متحرک رکھتا تھا اور ان کا قلم اداریے، نظمیں لکھتا اور مختلف موضوعات پر تحاریر کو ان کی نظر سے گزار کر اشاعت کے قابل بناتا تھا۔
تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ حقے کی نے منہ میں ڈالے، اس کے ہر کش پر ایک شعر کہہ دیا کرتے تھے۔ حقے کے کش کا دھواں ان کے منہ سے ایک شعر تر ساتھ لے کر نکلتا تھا۔
حقے اور چائے پر فدا تھے اور فرماتے تھے، زندگانی کے لطف دو ہی تو ہیں، صبح کی چائے اور شام کا حقہ، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کے ہاں حقے اور چائے میں صبح و شام کی کوئی قید نہ تھی۔ ان کا ذہن رواں ہی حقے کے کش کے ساتھ ہوتا تھا۔ اسی طرح چائے کے بارے میں ان کا نعرۂ مستانہ شعر کا روپ یوں دھارتا ہے۔
چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے
شیخ کرامت ﷲ گجراتی سے مروی ہے کہ مولانا ظفر علی خاں ایک دفعہ اتحاد ملت کے جلسے منعقدہ گجرات میں جب رات کے ایک بجے صدارتی تقریر سے فارغ ہوئے تو چائے کی فرمائش کردی۔ اس وقت دیگچی کا ابلا ہوا دودھ ملنا مشکل تھا، جسے وہ چائے کے لیے بہ طور خاص پسند کرتے تھے۔
شیخ کرامت ﷲ کہیں سے دودھ منگوانے میں کام یاب ہو گئے اور مولانا کی دل پسند چائے تیار کروا کر ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ مولانا نے جونہی چائے کی چسکی لی، ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ چائے کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے۔
چائے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی مشروب ہے وہیں اس سے متعلق ایسی طبی فوائد کے حوالے سے باتیں گڑھی گئی ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
چائے کے نقصانات اور فوائد پر عرصہ دراز سے بحث چل رہی ہے، اور ایسی پانچ بڑی غلط فہمیاں بھی چائے کے حوالے سے پائی جاتی ہیں، جس پر نہ صرف لوگ عمل کرتے ہیں بلکہ باقاعدگی سے دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ چلیں ہم آپ کو ان پانچ غلط فہمیوں سے آگاہ کرتے ہیں۔
سبزچائے کے استعمال سے وزن کم ہوتا ہے
محقیقین کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ سبزچائے کے استعمال سے وزن کم ہوتا ہے، حالاں کہ یہ سرے سے غلط ہے، بلکہ سبزچائے میں کم مقدار میں ڈرگ کی ایک ایسی قسم پائی جاتی ہے جو صحت کے لیے مضر بھی ہوسکتی ہے، جو لوگ کہتے ہیں دن میں 4 سے 5 کپ گرین ٹی پیئیں تو وزن کم ہوتا ہے تو یہ غلط ہے۔
چائے میں دودھ ملانے سے طبی فوائد ختم ہوجاتے ہیں
کیمیائی سے متعلق ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ لوگ کہتے یہں چائے میں دودھ ملانے سے اس کے طبی فوائد ختم ہوجاتے ہیں اور صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا، دراصل ایسی سوچ غلط ہے، دودھ میں کیلشیم پایا جاتا ہے جس کے استعمال سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور یقینی طور پر یہ صحت کے لیے بہت مفید ہے۔
سبزچائے کالی چائے سے زیادہ صحت بخش ہے
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سبز چائے کالی چائے سے زیادہ صحت بخش ہے لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دونوں چائے میں صرف رنگ کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے، دونوں کے طبی اور صحت بخش فوائد ایک جیسے ہی ہیں، اینٹی آکسیڈنڈ نامی اجزا جسمانی نشونما میں معاون کرتا ہے۔
عام چائے کے مقابلے میں ٹی بیگ بہتر ہے
یہ بہت آسان ہے کہ ٹی بیگ اٹھایا اور پانی میں ڈبو کر چائے بنالی، لیکن اس کے مقابلے میں عام چائے جو باقاعدہ دودھ، پتی اور چینی کی مدد سے بنتی ہے زیادہ فائدے مند ہے، ٹی بیگ پر گرد چپکنے اور بعد میں کچرا بننے کا بھی سسب ہے۔ کینیڈا کے ماہرین نے ٹی بیگز کے استعمال کو خوفناک قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس کی چائے پینے والے پلاسٹک کے اربوں ذرات اپنے اندر لے جاتا ہے۔
جڑی بوٹیوں والی چائے میں نشہ نہیں ہوتا
عام روایت ہے کہ جڑی بوٹیوں والی چائے میں کیفین(نشے والی اجزا) نہیں ہوتی، بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جڑی بوٹیوں والی زیادہ ترچائے میں کیفین ملی ہوتی ہے، بعض ماہرین اسے چائے ماننے لیے بھی تیار نہیں ہیں جو درختوں کے بیج، پھلوں اور شاخوں کے ریشوں سمیت دیگر اشیا سے مل کر بنتی ہے۔
ہمارے ارد گرد بہت سے افراد چائے کے شوقین ہوتے ہیں اور نئے نئے ذائقوں کی چائے پینا پسند کرتے ہیں۔ یہ منفرد چائے بھی ایسے افراد کو نہایت پسند آئے گی۔
چین میں مقبول یہ چائے گرم پانی میں جا کر پھول کی طرح کھل جاتی ہے۔ یہ چائے دراصل پھولوں سے بنائی جاتی ہے۔
اس کے لیے عموماً چنبیلی، للی، روز یا کارنیشن کے پھولوں کی ایک گیند بنائی جاتی ہے اور اس کی بیرونی سطح پر چائے کے پتے سی دیے جاتے ہیں۔
پانی میں ڈالنے کے بعد اسے 20 سے 30 منٹ تک دھیمی آنچ پر پکایا جاتا ہے جس کے بعد اس چائے کو سرو کیا جاتا ہے۔
اس چائے کو بلومنگ ٹی کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا ذائقہ کچھ خاص نہیں ہوتا کیونکہ پھول چائے کے ذائقے کو ختم کردیتے ہیں۔ ذائقے کے لیے اس میں مزید کچھ اشیا بھی شامل کی جاتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ چائے چین میں قدیم دور سے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ سنہ 1980 سے اسے جدید طریقے سے پیش کیا جارہا ہے اور اب یہ یورپ اور شمالی امریکا میں بھی مقبول ہورہی ہے۔
کیا آپ کا شمار بھی چائے کے شوقین افراد میں ہوتا ہے؟ ویسے تو تقریباً ہم سب ہی چائے کے شوقین ہیں، لیکن وہ افراد جو گرما گرم چائے پینے کے شوقین ہوتے ہیں ان کے لیے ایک بری خبر ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھاپ اڑاتی گرما گرم چائے آپ کو کینسر میں مبتلا کرسکتی ہے۔
انٹرنیشنل جرنل آف کینسر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 60 سینٹی گریڈ تک گرم چائے پینے کے عادی افراد میں غذا کی نالی یعنی ایسو فیگس کے کینسر کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ طویل عرصے تک تیز گرم چائے پینے سے غذا کی نالی میں خراشیں پڑ جاتی ہیں اور یہ زخم بگڑ کر کینسر میں بدل جاتے ہیں۔
چائے کو ایک فائدہ مند مشروب سمجھا جاتا ہے تاہم کئی مواقعوں پر یہ نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق کھانے کے فوراً بعد چائے پینے کی عادت ہمارے نظام ہضم پر خطرناک طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے۔
خاص طور پر اگر ہمارے کھانے میں پروٹین شامل ہو تو چائے اس کے اجزا کو سخت کردیتی ہے نتیجتاً یہ مشکل سے ہضم ہوتے ہیں۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ کھانے سے ایک گھنٹہ قبل اور بعد میں چائے سے گریز کیا جائے۔
چائے دنیا میں پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے جو دنیا کے ہر خطے میں علیحدہ طریقے سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ مشروب دنیا بھر میں کافی سے بھی زیادہ مقبول ہے۔ چائے کا اصل خطہ چین کا جنوب مغربی علاقہ ہے جہاں ہر سالانہ 1.6 ارب پاؤنڈز چائے پی جاتی ہے۔
تاہم فی فرد چائے پیئے جانے کے حساب سے ترکی، آئرلینڈ اور برطانیہ سب سے آگے ہیں جہاں دنیا کے سب سے زیادہ چائے کے شوقین پائے جاتے ہیں۔
چائے کی دریافت
چینی کسان شننونگ
چائے کی دریافت کا سہرا ایک چینی کسان شننونگ کے سر ہے جو چینی عقائد کے مطابق زراعت کا بانی ہے۔ اپنے ایک مذہبی سفر کے دوران اس نے غلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی بوٹی 72 بار کھا لی جس کے بعد وہ مرنے کے قریب پہنچ گیا۔
اسی وقت ایک پتہ ہوا میں اڑتا ہوا شننونگ کے منہ میں چلا گیا۔ شننونگ نے اس پتے کو چبا لیا اور اسی پتے نے اسے مرنے سے بچا لیا۔
یہی پتی چائے کا پتہ تھا جو آگے چل کر دنیا کے مقبول ترین مشروب کی حیثیت اختیار کرگیا۔
گوکہ چائے کسی بھی زہر کا تریاق نہیں ہے، تاہم شننونگ کی اس کہانی کے باعث، جسے مؤرخین ایک داستان بھی قرار دیتے ہیں، چائے چینی مذہبی عقائد و روایات میں ایک اہم درجہ رکھتی ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق چائے کی پہلی کاشت اسی خطے میں تقریباً 6 ہزار سال قبل کی گئی تھی۔ اس وقت مصر کے فراعین کو اہرام مصر تعمیر کرنے میں بھی ابھی 15 سو سال کا عرصہ باقی تھا۔
چائے کا ابتدائی نام
چائے کو ابتدا میں کھانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ کہیں اس پودے کو بطور سبزی استعمال کیا جاتا تھا اور کہیں اسے گندم کے دانوں کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا تھا۔
کھانے سے مشروب کی حیثیت چائے نے صرف 15 سو سال قبل اختیار کی جب کسی نے حادثاتی طور پر دریافت کیا کہ حرارت اور نمی کے ذریعے ان پتوں سے نہایت ذائقہ دار مشروب تیار کیا جاسکتا ہے۔
چائے کے مختلف استعمالات کے طویل ارتقا کے بعد بالآخر گرم چائے نے مشروب کی اسٹینڈرڈ حیثیت اختیار کرلی۔
اس وقت چائے کے بہت سارے پتے لے کر، انہیں پیس کر پاؤڈر کی شکل دینے کے بعد گرم پانی میں ملایا جاتا جس کا ابتدائی نام ’مؤ چا‘ یا ’میٹ چا‘ تھا۔
یہ مشروب چین میں نہایت تیزی سے مقبول ہوگیا۔ بہت جلد اس کا تذکرہ چینی ادب و شاعری میں بھی کیا جانے لگا جبکہ یہ بادشاہوں کی پسندیدہ شے بن گیا۔
اس وقت چینی فنکاروں نے چائے کی سطح پر نقش و نگاری بھی انجام دی۔ اسے آپ آج کے زمانے کے جدیدکافی آرٹ کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں۔
یہ وہ دور تھا جب ریشم اور چینی مٹی کے برتنوں کی تجارت نے چین کو اہم تجارتی طاقت بنا رکھا تھا۔ بہت جلد ان دو اشیا کے ساتھ چائے بھی چین کی اہم تجارتی شے بن گئی اور بڑے پیمانے پر چین سے اس کو خریدا جانے لگا۔
چائے کا غیر ملکی سفر
نویں صدی میں ایک جاپانی راہب اس پودے کو بطور تحفہ چین سے جاپان لے کر آیا
ابھی تک چائے صرف چین میں اگائی جاتی تھی اور چند ایک ممالک اسے چین سے خریدا کرتے تھے۔
نویں صدی میں جب چین پر تنگ خانوادے کی حکومت تھی، ایک جاپانی راہب اس پودے کو بطور تحفہ چین سے جاپان لے کر آیا۔ اس کے بعد جاپان میں چائے کی مقبولیت کا دور شروع ہوگیا۔
سولہویں صدی میں ڈچ تاجر چائے کی بڑی مقدار یورپ لے کر آئے اور یہاں سے چائے کی مقبولیت کا نیا دور شروع ہوا۔
برطانیہ میں چائے کی مقبولیت کا سہرا ملکہ کیتھرائن آف برگنزا کے سر ہے۔ کیتھرائن پرتگال کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتی تھی جس نے 1661 میں شہنشاہ چارلس دوئم سے شادی کی۔
ملکہ کیتھرائن آف برگنزا
سنہ 1662 سے 1685 تک برطانیہ کی ملکہ رہنے والی اس غیر ملکی خاتون نے چائے کو برطانوی اشرافیہ کا ایک پسندیدہ مشروب بنا دیا۔
برطانیہ اس وقت دنیا کے دیگر ممالک پر اپنا نوآبادیاتی تسلط قائم کر رہا تھا۔ اسی تسلط کے زیر اثر برطانیہ کے ماتحت علاقوں میں دیگر اشیا کے ساتھ چائے کا رواج بھی فروغ پانے لگا۔
سنہ 1700 تک چائے یورپ میں کافی سے 10 گنا زائد فروخت کی جارہی تھی جبکہ ابھی تک اس کی کاشت صرف چین میں کی جارہی تھی۔
اس دور میں چائے کی تجارت ایک منافع بخش کاروبار بن چکی تھی اور بڑے بڑے سمندری جہاز صرف چائے کی کھیپوں کو ایک سے دوسرے ملک پہنچایا کرتے تھے۔
چائے وجہ تنازعہ کب بنی؟
ابتدا میں برطانیہ چائے کو چاندی کے سکوں کے عوض خریدا کرتا تھا، تاہم یہ سودا اسے مہنگا پڑنے لگا۔
اسی دوران اس نے چین کو چائے کے بدلے افیم دینے کی پیشکش کی جسے چین نے قبول کرلیا اور یوں دونوں ممالک میں چائے اور افیم کا تبادلہ ہونے لگا۔
انیسویں صدی میں چین اور برطانیہ کے درمیان چائے اور افیم کا تبادلہ ہونے لگا
تاہم بہت جلد اس تجارتی تبادلے نے چینی شہریوں کی صحت پر بدترین منفی اثرات مرتب کرنا شروع کردیے۔ چینی افیم کے نشے میں مستقل دھت رہنے لگے۔
سنہ 1839 میں ایک چینی حکومتی عہدیدار نے افیم کی ایک بڑی برطانوی کھیپ کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ اقدام ان دونوں اقوام کے درمیان ایک جنگ کے آغاز کا باعث بن گیا۔
سنہ 1842 میں قنگ خانوادے نے برطانیہ سے شکست کے بعد ہانگ کانگ کی بندرگاہ انگریزوں کے حوالے کردی۔ چائے کی تجارت دوبارہ بحال ہوگئی لیکن اب اس میں چین کی مرضی کی شرائط شامل نہیں تھیں۔
اس جنگ نے چین کی معاشی حیثیت کو خاصا متاثر کیا۔
چائے کی اسمگلنگ
برطانوی ماہر حیاتیات رابرٹ فورچون
برصغیر پاک و ہند کو اپنا محکوم بنانے والی برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی چائے کی فصل پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے خود اسے اگانا چاہتی تھی۔
اس مقصد کے لیے ایک برطانوی ماہر حیاتیات رابرٹ فورچون کو مقرر کیا گیا کہ وہ کسی طرح ایک خفیہ آپریشن کے ذریعے چین سے چائے کے پتے چرا کر لے آئیں۔
رابرٹ اپنا بہروپ بدل کر چین میں چائے کی کاشت کرنے والے پہاڑوں میں ایک خطرناک مشن پر نکل گیا۔ یہاں سے اس نے چائے کے پودوں کو بھارت کے علاقے دارجلنگ میں اسمگل کیا۔
بعد ازاں دارجلنگ میں بھی مقامی طور پر چائے کی کاشت کا آغاز کردیا گیا۔
ترکی کی میٹھی رائز چائے سے لے کر نمکین تبتن مکھن والی چائے تک یہ مشروب دنیا بھر میں بے پناہ مقبول ہے اور روزانہ اس کا استعمال زندگی کا اہم حصہ ہے۔
دنیا کا ہر علاقہ اسے اپنی روایات کے مطابق تیار اور استعمال کرتا ہے۔ مختلف زبانوں میں اس کا نام بھی مختلف ہے، تاہم چائے کی جسم اور دماغ کو تازہ دم کرنے اور فرحت بخش احساس دلانے کی خاصیت یکساں ہے۔