Tag: چار مینار

  • قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    محمد قلی قطب شاہ کو عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا، ایک بار جب وہ دلّی گیا تو شوق شوق میں اس نے ایک بہت اونچا مینار بنا دیا، جسے آج کل قطب مینار کہتے ہیں۔ جب یہاں کی رعایا کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان میں غیض و غضب کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اپنے شہر کو چھوڑ کر دلّی میں مینار بنوانے کا کیا مطلب؟

    بادشاہ نے دلّی والے آرکٹیکٹ کو بلا کر اسے یہاں بھی ویسا ہی مینار بنانے کو کہا۔ لیکن قطب مینار بناتے بناتے وہ آرکیٹکٹ بے چارہ بوڑھا ہو گیا تھا اور اب اس میں اس بلندی پر پہنچے کی سکت نہیں رہ گئی تھی۔ جب اس نے اپنی معذوری ظاہر کی تو بادشاہ نے کہا کوئی مضائقہ نہیں تم چار چھوٹے چھوٹے مینار بنا دو، ہم کسی اور نوجوان آرکٹیکٹ کو کہہ دیں گے کہ وہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر کھڑا کر کے ایک اونچا مینار تیار کر دے۔

    جب چاروں مینار علیحدہ علیحدہ تیار ہو گئے تو ایک مدبّر نے صلاح دی کہ عالم پناہ آپ کیوں نہ چار مینار علیحدہ علیحدہ ہی رہنے دیں۔ اس طرح آپ رعایا کو کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے دلّی میں ایک مینار بنوایا تو یہاں کے لوگوں کے لیے چار مینار بنوائے۔ اس کے علاوہ آپ کے نام کے چار حصّوں یعنی محمد، قلی، قطب اور شاہ کے لیے ایک ایک مینار یادگار رہے گا۔

    بادشاہ کو یہ صلاح پسند آئی اور نہ صرف فوری طور پر اس کی شخصیت کو چار چاند بلکہ چار مینار لگ گئے اور ہمیشہ کے لیے اس کا نام امر ہو جانے کا امکان پیدا ہوگیا۔ اس مدبّر کو ایسی صلاح دینے کی پاداش میں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا گیا اور اس طرح حیدرآباد کا امتیازی نشان وجود میں آیا۔

    چار مینار کی دھوم جب دلّی تک پہنچی تو مغل بادشاہ اورنگ زیب کے دل میں اسے دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے جب دکن کے دورہ کا پروگرام بنایا تو اس کا سپہ سالار اور فوج کے ہزاروں سپاہی سیاحت کے شوق میں اس کے ساتھ ہوئے، یہاں ٹورسٹ لوگوں کا رش اتنا تھا کہ اورنگ زیب کو چھے مہینے انتظار کرنا پڑا۔ بے تاب ہوکر اس نے شہر پر دھاوا بول دیا۔

    یہ عمارت دیکھی تو اتنی پسند آئی کہ سات سال تک یہیں ٹکا رہا۔ آخر چار مینار کی تصویر دل میں لیے ہوئے وہ دکن میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔

    (معروف ادیب، مزاح نگار اور مؤرخ نریندر لوتھر کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا، یہ شگفتہ پارہ اسی شہر سے متعلق ان کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے، اس مضمون میں انھوں نے دکن کی ایک مشہور اور تاریخی اہمیت کی حامل یادگار "چار مینار” کے بارے میں شگفتہ بیانی کی ہے)

  • قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    جنوبی ہندوستان کی سلطنتِ گولکنڈہ اور قطب شاہی خاندان کے محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر مانا جاتا ہے۔

    وہ 1565ء میں‌ پیدا ہوا اور اس سلطنت کا پانچواں حکم راں تھا جس نے بعد میں شہر حیدرآباد دکن بسایا اور وہاں شہرہ آفاق یادگار چار مینار تعمیر کروائی۔

    اسی قلی قطب شاہ کے عشق کی کہانی بھی مشہور ہے جس کی حقیقت میں مؤرخین کا اختلاف ایک طرف، مگر یہ لوک گیتوں اور کہانیوں کا حصّہ ہے۔

    کہتے ہیں محمد قلی قطب شاہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیا۔ وہ چھپ چھپ کر اس سے ملاقاتیں کرنے لگا تھا۔ بادشاہ نے شہزادے کو اس سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ نہ رکا۔

    مشہور ہے کہ ایک بار محبوبہ سے ملاقات کے لیے شہزادے نے بپھرے ہوئے دریا میں گھوڑا ڈال دیا تھا۔ بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو پدرانہ شفقت اور محبت نے جوش مارا اور حکم دیا کہ دریائے موسیٰ پر پُل تعمیر کردیا جائے۔ غالباً یہی وہ واحد راستہ تھا جس سے گزر کر شہزادہ اپنی محبوبہ سے ملنے جاتا تھا۔

    بالآخر وہ وقت آیا جب محمد قلی قطب شاہ سلطان بنا اور اس لڑکی سے شادی کرلی۔ کہتے ہیں اس کا نام ‘بھاگ متی’ تھا، جسے سلطان نے ‘قطبِ مشتری’ کے خطاب سے سرفراز کیا۔

    ادبی مؤرخین کا خیال ہے کہ قلی قطب شاہ جس لڑکی (بھاگ متی) کی محبّت میں‌ گرفتار ہوا تھا، وہ رقص و موسیقی میں کمال رکھتی تھی۔ اسی کے نام پر بادشاہ نے شہر ‘بھاگ نگر’ بسایا تھا جسے بعد میں حیدر آباد کا نام دے دیا گیا۔ اسی طرح بھاگ متی کو حیدر محل کہا جانے لگا تھا۔

    سلطان محمد قلی قطب شاہ کی محبّت کی داستان کو بعض مؤرخین نے من گھڑت داستان اور افسانہ لکھا ہے۔ اسی طرح لڑکی کے قبولِ اسلام اور سلطان سے نکاح کے بعد ملکہ بن جانے پر بھی بحث کی جاتی ہے۔

    شہر حیدرآباد کی وجہِ تسمیہ وہ خطاب بتایا جاتا ہے جو قطبِ‌ مشتری سے ‘حیدر محل’ ہوگیا تھا، تاہم اس پر اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن سلطان اور محبوبہ سے محرم بننے تک بھاگ متی داستانوی ادب میں آج بھی زندہ ہیں۔