سورج، چاند اور آگ کو ہزاروں سال پہلے بسنے اور اجڑنے والی کئی تہذیبوں اور سلطنتوں میں پوجا جاتا رہا ہے۔ مظاہرِ قدرت لوگوں کے نزدیک خدا اور ایک ایسی عظیم طاقت تصور کیے جاتے تھے جو ان کے معاملات کے ساتھ زندگی اور موت کا بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بعد میں جب انسان نے بولنا، لکھنا پڑھنا سیکھا تو ان مظاہر کا معاشروں میں مذاہب، فلسفے اور انسانی سوچ کی تشکیل میں بھی کردار نظر آنے لگا اور پھر یہ دیومالائی داستانوں کا حصّہ بنتے چلے گئے۔ لیکن ان سے جڑے مختلف عقائد اور توہمات پر آج سے ایک صدی پہلے تک بھی لوگ مکمل یقین رکھتے تھے۔
بعض تہذیبوں اور مذاہب میں چاند کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ چاند سے متعلق بہت سے قصے، کہانیاں وابستہ ہیں۔ چاند پورا ہو یا آدھا، چودھویں کا ہو یا پھر چاند گرہن کا موقع آئے۔ قدیم دور کے لوگوں نے اسے کبھی خدا تسلیم کیا تو کہیں اس کی بدلتی ہوئی حالتوں سے خوف زدہ ہوکر غیظ و غضب اور قہر کا دیوتا مان لیا۔ جہل اور لاعلمی کے دور کے انسان نے چاند کے بارے میں کئی دل چسپ قصّے اور روایات بھی بعد میں گھڑ لیں اور یہ سب کسی نہ کسی شکل میں مذاہب کا حصّہ بن گئیں۔ کسی نے چاند گرہن کو انسانوں کے لیے طاقت و توانائی کا ذریعہ مان لیا تو جوتشیوں اور ساحروں نے چاند گرہن کو انسانوں سے قربانی مانگنے کی علامت مشہور کردیا۔ چودھویں کا چاند ہو تو رات کو ڈر کر دعائیں اور منتر پڑھنے بیٹھ گئے۔ الغرض طرح طرح کی باتیں اور افسانے آج تک سننے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں ہم ایسے ہی چند واقعات آپ کی دل چسپی کے لیے پیش کررہے ہیں جو قدیم دور کے مختلف ادوار پر تحقیقی کتب میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
ہپو کریٹس آف کوس کو قبل مسیح کا یونانی طبیعیات داں کہا جاتا ہے جو کہتا تھا کہ ”رات کی تاریکی میں چاند کی دیوی کی طرف منہ پھیرنے والا مسخر ہو جاتا ہے، دہشت زدہ ہو جاتا ہے، مت ماری جاتی ہے۔‘‘
چین کی لوک کہانیوں میں چاند کو ایک دیوی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کئی قصائص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ دیوی یعنی چاند اپنے شوہر کی روشنی چھین کر اس خوب صورت شکل میں رات کو جگمگاتی ہے، ورنہ کسی زمانے میں چاند دیوی ایک چٹان میں رہتی تھی۔ چین میں دیوی چاند کو ”چینج‘‘ (Change) پکارتے تھے۔
زیادہ تر کہانیوں میں چاند کو دیوی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ دیوی عورتوں کے تحفظ کی علامت ہے اور ان کے حقوق کی لڑائی لڑتی رہی ہے۔
جاپانی لوک کہانیوں میں بھی ہمیں بوڑھے چاند دیوتا اور سورج کے بارے میں قصّے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کسی زمانہ میں جاپانیوں کے نزدیک سورج گرہن اس وقت ہوتا تھا جب آسمان سے زمین پر زہر کی بارش شروع ہوتی ہے، اس لیے گرہن کے لگتے ہی جاپان میں پانی کے تمام کنوئیں ڈھک دیے جاتے تھے۔
یونانی اور رومن باشندوں نے دو دیویوں (دیوی ارتمس اور دیوی سلینی) کا رشتہ بھی چاند سے جوڑا ہے۔ ”نورس‘‘ (Norse) مائیتھولوجی میں چاند ”مانی (Mani) اور سورج (Sol) بہن بھائی تھے۔ ان دونوں نے مل کر دن رات تشکیل دیے۔ پھر یوں ہوا کہ ان کے باپ کو ان دونوں میں تکبّر کی بُو آنے لگی۔ یہ اس کے نزدیک ناقابل معافی تھا اور باپ نے اپنی طاقت سے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ یعنی سورج کو دنیا کے ایک کونے پر محدود کر دیا اور چاند کو دنیا کے دوسرے کونے پر رکھ دیا۔ یوں سورج اور چاند آسمانوں میں الگ الگ ہو گئے۔ جس کے بعد ایک بڑی جنگ ہوئی جس میں کئی دیوتا مارے گئے۔ مانی (چاند) کے پیچھے بھیڑیے لگ گئے جنہوں نے (چاند گرہن کے وقت) اسے کھا لیا۔ لیکن بعد میں بھائی ”سول‘‘ یعنی سور ج نے بچا لیا۔
سورج گرہن پر قدیم چینیوں میں مشہور تھا کہ سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب نظروں سے اوجھل رہنے والا اژدھا سورج کو نگلنے لگتا ہے۔ وہ سورج کو جتنا کھا لیتا ہے اتنا ہی اسے گرہن لگ جاتا ہے۔
محققین بتاتے ہیں کہ 840ء میں فرانس میں مکمل سورج گرہن ہوا اور وہ زمانہ فرانسیسی بادشاہ لویئس کا تھا۔ وہ پانچ منٹ تک حیرت اور خوف کے ملے جلے تأثر کے ساتھ سورج گرہن کو دیکھتا رہا اور یہ خیال اسے آیا کہ اس کے ملک کو کچھ ہورہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اسی تذبذب کے عالم میں وہ ابدی نیند سوگیا۔ سورج گرہن کا یہ واقعہ اس کے حواس پر سوار ہوگیا تھا اور وہ اس کی تاب نہ لاسکا۔
محققین کے مطابق کرسٹوفر کولمبس کا ایک واقعہ بھی اسی طرح کا ہے۔ امریکہ کے سفر کے دوران کرسٹوفر کولمبس کا جہاز ایک سال جمیکا کے جزائر میں رکا رہا۔ ان کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہو گیا اور خوراک کی شدید کمی ہو گئی۔ کرسٹوفر کولمبس اور ساتھیوں نے وہاں کے باشندوں سے خوراک مانگ کر گزارہ کیا۔ وہ بھی ان سے تنگ آگئے۔ ادھر 29 فروری 1504ء کو چاند کو گرہن لگ گیا۔ کولمبس نے کہانی گھڑی اور مقامی باشندوں کو خبردار کیا کہ ” تم لوگوں نے مجھے کھانے پینے کا سامان نہیں دیا تھا اب دیکھو! خدا تم سے ناراض ہے۔‘‘ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر خوراک مہیا نہ کی تو خدا چاند کو ہی غائب کر دے گا۔ تب مقامی باشندے کولمبس کے سامنے گڑگڑائے اور التجا کی کہ ”آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ چاند واپس کر دے ہم خوراک دینے کو تیار ہیں۔‘‘یوں کولمبس کی چالاکی کام کر گئی کیوں کہ وہ ان جاہل اور توہم پرست باشندوں کے مقابلے میں ایک قابل شخص تھا اور جانتا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔