Tag: چاند

  • متحدہ عرب امارات کا پہلا خلائی مشن تیاری کے آخری مراحل میں

    متحدہ عرب امارات کا پہلا خلائی مشن تیاری کے آخری مراحل میں

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات اپنا پہلا خلائی مشن 28 نومبر کو چاند پر بھیجے گا، مشن کی کامیابی کی صورت میں امارات امریکا، روس اور چین کے بعد چاند کی سطح پر اترنے والا پہلا عرب اور دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا۔

    اردو نیوز کے مطابق متحدہ عرب امارات نے مریخ کے بعد چاند کے اسرار دریافت کرنے کے لیے پہلا اماراتی خلائی مشن (ایکسپلورر راشد) 28 نومبر کو چاند پر بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

    مشن کی کامیابی کی صورت میں امارات امریکا، روس اور چین کے بعد چاند کی سطح پر اترنے والا پہلا عرب اور دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا۔

    محمد بن راشد خلائی سینٹر کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امارات کے مقامی وقت کے مطابق پہلا اماراتی خلائی مشن 28 نومبر کو 12 بج کر 46 منٹ پر روانہ کیا جائے گا۔

    سینٹر کا کہنا ہے کہ تاریخ اور وقت میں موسمی حالات یا دیگر امور کی وجہ سے تبدیلی ہو سکتی ہے۔

    یہ اعلان اٹلس کے دہانے پر ایکسپلورر راشد کی لینڈنگ کے مقام کی تصدیق کے بعد کیا گیا ہے، یہ اطمینان کر لیا گیا کہ ایکسپلورر راشد 47.5 ڈگری شمال اور 44.4 ڈگری مشرق میں میئر فریگورس زون کے جنوب مشرق میں بیرونی کنارے پر اترے گا جسے چاند کے انتہائی شمال میں واقع بحر البرد (ٹھنڈک کا سمندر) کہا جاتا ہے۔

    اٹلس کا دہانہ ایسا مقام ہے جسے اس سے قبل کسی بھی خلائی مشن نے دریافت نہیں کیا۔

    خلائی مشن اس وقت امریکا کے کیپ کینورل خلائی بیس 40 میں موجود ہے، روانگی کی تاریخ قریب آنے پر اسے لانچنگ پیڈ پر منتقل کردیا جائے گا۔

    آئی سپیس کے مطابق خلائی گاڑی براہ راست چاند کا رخ کرنے کے بجائے کم توانائی والے ٹریک کا انتخاب کرے گی، روانگی کے 5 ماہ بعد مارچ 2023 میں گاڑی چاند پر اترے گی۔

    مشن کا مقصد چاند کی سطح کی مختلف پہلوؤں سے جانچ کرنا ہے جن میں چاند کی مٹی اور اس کی تشکیل، اجزا، اس کی حرارتی خصوصیات اور ترسیل کی خصوصیات کی جانچ کی جائے گی۔

    مشن کے دوران روور چاند کی سطح کی تصاویر لے گا اور دبئی کے کنٹرول روم میں واپس بھیجے گا، مشن مادی سائنس، روبوٹکس، نقل و حرکت، نیوی گیشن اور مواصلات میں نئی ​​ٹیکنالوجیز کا بھی تجربہ کرے گا۔

  • سعودی عرب: آسمان پر اچانک کیا نظر آیا؟

    سعودی عرب: آسمان پر اچانک کیا نظر آیا؟

    ریاض: سعودی عرب کے آسمان پر چاند اور مریخ کے قریب آنے کا منظر دیکھا گیا، ایسا مریخ کی گردش کی وجہ سے ہوا۔

    العربیہ نیوز کے مطابق سعودی عرب اور عرب دنیا کے آسمان میں جمعہ کی نصف شب کے بعد گھٹتا ہوا چاند سیارہ مریخ کے سامنے سے گذرا، اس منظر کو دیکھ کر ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ گویا چاند اور مریخ قریب ہوگئے ہیں۔

    جدہ میں فلکیاتی سوسائٹی کے سربراہ انجینیئر ماجد ابو زاہرہ نے وضاحت کی کہ چاند اور مریخ کو شمال مشرقی افق کی طرف دیکھا جائے گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ٹیلی اسکوپ کے میدان میں ایک ساتھ نظر نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے درمیان بظاہر فاصلہ وسیع ہے۔ لیکن یہ دوربین کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہفتہ وار بنیادوں پر مریخ کی چمک کا مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ کیسے ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگا۔

    ابو زاہرہ نے مزید کہا کہ مریخ کی چمک زمین کے آسمان میں بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مریخ بہت بڑا نہیں ہے، جس کا قطر صرف 6 ہزار 790 کلو میٹر ہے اور مشتری کے برعکس ہے جو ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مشتری کا قطر 1 لاکھ 40 ہزار کلو میٹر ہے، مریخ کے سائز کے 20 سے زیادہ سیارے مشتری کے سامنے ایک ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں، اس لیے مشتری ہمیشہ روشن دکھائی دیتا ہے، کیونکہ یہ بہت بڑا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔

    چھوٹے مریخ کے لیے، جس کی چمک اس کی قربت یا زمین سے فاصلے سے متعلق ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ مریخ زمین کے مدار سے باہر سورج کے گرد گھومتا ہے اور زمین اور مریخ کے درمیان فاصلہ بدل جاتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات زمین اور مریخ نظام شمسی کے ایک ہی طرف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔

    زیادہ تر 2021 میں مریخ اور زمین ایک دوسرے سے سورج کے تقریباً مخالف سمتوں پر تھے۔

    سرخ سیارے کی چمک کو بعض اوقات زمین کے سورج کے گرد ایک بار گردش کرنے سے منسوب کیا جاتا ہے جس میں ایک سال لگتا ہے جبکہ مریخ کو ایک بار گردش کرنے میں تقریباً 2 سال لگتے ہیں۔

    جب زمین مریخ اور سورج کے درمیان سے گزرتی ہے تو دونوں کے گرد اس کے گذرنے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے، سورج کے گرد یہ ایک سال میں چکر کاٹتی ہے جبکہ مریخ کے گرد 2 سال اور 50 دن میں اس کی گردش مکمل ہوتی ہے۔

  • ڈیڑھ سو سال بعد آج آسمان پر حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا

    ڈیڑھ سو سال بعد آج آسمان پر حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا

    آج 24 جون کی رات آسمان پر ایک حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا، یہ نظارہ 158 سال قبل دکھائی دیا تھا۔

    اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر اس ہفتے آسمان پر ایک خوبصورت نظارہ آپ کا منتظر ہوگا، جو صدیوں بعد ہی دکھائی دیتا ہے۔ چاند 5 سیاروں کے ساتھ ایک قطار میں دکھائی دے گا۔

    آج سے زمین کا چاند نظام شمسی کے دیگر 5 ستاروں کے ساتھ ایک ترتیب تشکیل دے رہا ہے، جو اہل زمین کے لیے صدیوں بعد ایک دل نشین و محسور کن منظر پیش کرے گا۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق یہ نظارہ اس سے قبل 158 سال قبل دکھائی دیا تھا، چاند کی اس ترتیب میں 5 سیارے عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل ایک قطار میں آجائیں گے اور یہ ترتیب اگلے 2 دن یعنی 25 جون تک برقرار رہے گی۔

    سورج کے ساتھ قربت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ پانچوں ستارے ایک دل نشین پریڈ تشکیل دیں گے جو دیکھنے والوں کو حیرت سے گنگ کردینے کے لیے کافی ہے۔

    اس حوالے سے خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ نظام شمسی میں سیاروں کی چاند کے ساتھ یہ ترتیب شاذ و نادر ہوتی ہے، اس سے قبل یہ حیران کن نظارہ 5 مارچ 1864 میں دیکھا گیا تھا۔

    اس مظاہر قدرت میں سب سے شاندار بات تو یہ ہے کہ چاند بذات خود سیارہ نہیں ہے لیکن وہ بھی ان سیاروں کے ساتھ اس قطار کو ترتیب دے گا۔

    جون کے مہنے میں یہ پانچوں سیارے ترتیب پا چکے ہیں تاہم اس ماہ کے آخر تک انہیں واضح طور پر دیکھا جا سکے گا، یہ ترتیب آسمان پر ایک پھیلی ہوئی خم دار کمان کی شکل میں مشرق سے شمال مشرق اور پھر جنوب میں دکھائی دے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دل آویز آسمانی پریڈ میں رات کے وسط تک زحل دکھائی دے گا، پھر بتدریج مشتری اور مریخ، اس کے 30 سے 40 منٹ بعد زہرہ اور طلوع آفتاب سے کچھ دیر قبل عطارد دکھائی دے گا۔

    چاند کی سیاروں کے ساتھ اس ترتیب سے زمین کو بھی اپنی پوزیشن کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔

  • چاند سے ایسی امید نہ تھی، سائنس دانوں کا ناقابل یقین انکشاف

    چاند سے ایسی امید نہ تھی، سائنس دانوں کا ناقابل یقین انکشاف

    الاسکا: امریکی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ چاند اربوں سال سے زمین کے ماحول سے پانی کھینچ رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی آف الاسکا فیئربینکس کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چاند اربوں سال سے زمین سے پانی کھینچ رہا ہے اور اسے برف کی شکل میں گہرے گڑھوں کے اندر جمع کر رہا ہے۔

    یہ تحقیق دراصل یہ جاننے کے لیے کی جا رہی تھی کہ چاند پر موجود پانی کا ماخذ کیا ہے، ٹیم کی قیادت یو اے ایف جیو فزیکل انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر گنتھر کلیٹچکا نے کی، تحقیق سے پتا چلا کہ پانی بنانے والے آیونز (ہائیڈروجن اور آکسیجن آئنز) جب زمین کے مقناطیسی کرہ کے ایک حصے (دُم) سے گزرتے ہیں، تو چاند کی اپنی کشش ثقل انھیں چاند کی جانب کھینچ لیتی ہے۔

    واضح رہے کہ پلینیٹری سوسائٹی کی ویب سائٹ پر چاند کے پانی کے بارے میں ایک مضمون کے مطابق چاند پر بھیجے جانے والے مشنز نے پانی کی موجودگی کی تصدیق کی ہے، یہ پانی چاند کے قطبوں پر ان گڑھوں میں برف کی صورت میں موجود ہے جن پر سورج کی کرنیں نہیں پڑتیں۔

    سانس دانوں کا ماننا ہے کہ اس میں دیگر مشتبہ عوامل بھی شامل ہوسکتے ہیں جن میں 3.5 بلین سال قبل ایسٹیرائیڈز کی بمباری، اور آکسیجن اور ہائیڈروجن آئن فراہم کرنے والی شمسی ہوا شامل ہیں۔

    ٹیم کا اندازہ ہے کہ چاند پر 840 کیوبک میل سطح پر پرما فراسٹ یا زیر زمین مائع پانی موجود ہے، جو زمین کے ماحول سے نکل کر وہاں پہنچا ہے، اتنا پانی شمالی امریکا کی جھیل ہورون کو بھرنے کے لیے کافی ہے، جو کرہ ارض کی آٹھویں بڑی جھیل ہے۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر کے سائنس دان اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح چاند پر انسانی رہائش کا حل تلاش کیا جا سکے۔

  • چاند پر پانی کی تلاش، روسی سائنس دانوں کی اہم ایجاد

    چاند پر پانی کی تلاش، روسی سائنس دانوں کی اہم ایجاد

    روسی سائنس دانوں نے ایسا روبوٹ ایجاد کیا ہے جو چاند کی مٹی سے پانی نکال سکے گا، یہ روبوٹ مستقبل میں چاند کے اسٹیشن کو پانی فراہم کرنے اور راکٹ انجنوں کو ایندھن فراہم کرنے کے قابل بنائے گی۔

    روسی نیشنل ریسرچ سینٹر کرچاتوف انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے ایک روبوٹ کا پروجیکٹ تیار کیا ہے جو چاند کی مٹی سے پانی نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    روبوٹ کی تخلیق مستقبل میں چاند کے اسٹیشن کو پانی فراہم کرنے اور راکٹ انجنوں کو ایندھن فراہم کرنے کے قابل بنائے گی۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ قمری روورز کے موجودہ ملکی اور غیر ملکی منصوبے ریگولتھ، برف کے جمے ہوئے ٹکڑوں اور چاند کی مٹی کی دیگر اقسام سے پانی نکالنے کی سہولت فراہم نہیں کرتے، روسی سائنسدانوں کی ایجاد کردہ ڈیوائس اس مسئلے کو حل کر دے گی۔

    اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک قمری روور کا وزن تقریباً 1.4 ٹن ہوگا، اس کی لمبائی 4 میٹر اور چوڑائی 2 میٹر تک ہوگی۔

    اس کمپلیکس میں توانائی ذخیرہ کرنے اور کنٹرول کرنے کے نظام کے ساتھ ایک 8 بائی 8 پہیوں والی چیسس، پانی کو جمع کرنے کے لیے گرمی سے موصل کنٹینر اور زمین سے بخارات بننے کے لیے ایک کنٹینر، ایک کٹر، نیز سورج کی شعاعوں کا مرکز اور ایک شمسی بیٹری شامل ہوگی۔

    ایجاد کیے جانے والے اس روبوٹ کی تیکنیکی معلومات کے مطابق یہ ڈیوائس زمین سے اترنے والی گاڑی کے ذریعے چاند کے ایک مخصوص حصے تک پہنچائی جائے گی۔

  • کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا

    کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا

    کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا جس میں ہمارے نظام شمسی کے 4 سیارے ایک قطار میں موجود ہوں گے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کل نظام شمسی کے 4 سیارے ایک سیدھی قطار میں آجائیں گے، اس نایاب قدرتی مظہر کا نظارہ شمالی نصف کرے سے کیا جا سکے گا۔

    سیاروں کے سیدھی قطار میں آنے کا عمل 17 اپریل سے شروع ہو گیا تھا لیکن اس قطار کو بہترین شکل میں کل صبح کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    اس قطار کا نظارہ کل شفق پھوٹنے سے پہلے آسمان پر کیا جا سکے گا۔ 23 اپریل سے زمین کا چاند بھی اس قطار میں شامل ہو جائے گا۔

    24 جون کو نظام شمسی کے دیگر تمام سیارے مزید بڑی سیاراتی ترتیب میں جمع ہو جائیں گے لیکن اس کا نظارہ دوربین یا ٹیلی اسکوپ سے کیا جا سکے گا۔

    واضح رہے کہ آنکھ سے دیکھی جا سکنے والی ترتیب بہت کم دیکھنے میں آتی ہے، سنہ 2005 سے اب تک صرف تین دفعہ سیاروں کو قطار میں دیکھا گیا ہے۔

  • سیارہ مشتری پر آکسیجن دریافت؟

    سیارہ مشتری پر آکسیجن دریافت؟

    ماہرین ایک طویل عرصے سے دوسرے سیاروں پر زندگی یا زندگی کے لیے سازگار حالات کی تلاش میں ہیں اور اب ایک تحقیق میں انہیں سیارہ مشتری پر آکسیجن کے شواہد ملے ہیں۔

    حال ہی میں ہونے وال ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا کہ مشتری کے چاند یورپا کے برف کے خول میں موجود نمکین پانی ممکنہ طور پر برف سے ڈھکے مائع پانی کے سمندر میں آکسیجن کی آمد و رفت کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ چاند کی ناسازگار سرزمین کے اندر ایسا ہونا زندگی کو کی بقا کے لیے سازگار ہوسکتا ہے۔

    ان کا ماننا ہے کہ یورپا کے سمندر میں موجود آکسیجن کی مقدار ممکنہ طور پر اتنی ہی ہوسکتی ہے جتنی مقدار اس کی آج زمین کے سمندر میں ہے۔

    یہ تھیوری پہلے پیش کی جا چکی ہے لیکن امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر آسٹن میں قائم یونیورسٹی آف ٹیکسس کے ماہرین نے دنیا کی پہلی طبیعات پر مبنی اس عمل کی کمپیوٹر سمیولیشن آزمائش کے لیے بنائی۔

    یو ٹی جیکسن اسکول آف جیو سائنسز کے شعبہ ارضیاتی سائنسز سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے سربراہ محقق مارک ہیسی کا کہنا تھا کہ ان کی ریسرچ نے اس عمل کو ممکنات کی دنیا میں ڈال دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں ایک یورپا کے سمندر کے اندر کی سطح میں زندگی کی افزائش کے حوالے سے مسئلے کا ایک حل فراہم کرتا ہے۔

  • سعودی عرب میں پہلا روزہ کب ہوگا؟

    سعودی عرب میں پہلا روزہ کب ہوگا؟

    ریاض: سعودی عرب میں پہلے روزے کا اعلان کردیا گیا ہے، عید الفطر 2 مئی کو ہونے کا امکان ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی ایمریٹس سوسائٹی کے چیئرمین اور عرب یونین برائے فلکیات کے رکن ڈاکٹر الابراہیمی الجروان نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب میں رمضان کا چاند یکم اپریل کو نظر آنے کا امکان ہے اور پہلا روزہ 2 اپریل بروز ہفتے کو ہوگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈاکٹر الابراہیمی کا کہنا ہے کہ عرب خطے سمیت زیادہ تر اسلامی ممالک میں اسی تاریخ سے رمضان شروع ہونے کا امکان ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ رمضان کے آغاز میں روزہ 13 گھنٹے 40 منٹ کا ہوگا لیکن اس کا دورانیہ 14 گھنٹے تک پہنچ جائے گا اور آخر میں روزے کا دورانیہ 14 گھنٹے 20 منٹ کا ہوگا۔

    عید الفطر سے متعلق ڈاکٹر الابراہیمی کا کہنا تھا کہ عید الفطر 2 مئی کو ہونے کا امکان ہے۔

  • خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلائی راکٹ کا بے قابو ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا

    خلا میں اس وقت تباہ شدہ راکٹس اور سیٹلائٹس کا ملبہ ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، ایسے ہی ایک راکٹ کا ٹکڑا چاند کی سطح سے جا ٹکرایا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ناسا کا کہنا ہے کہ خلا میں گھومتے بے قابو راکٹ کا ٹکڑا چاند سے ٹکرا گیا ہے۔

    سائنس دانوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ خلا میں کئی سالوں سے زیر گردش ناکارہ راکٹ کا تین ٹن وزنی ٹکڑا چاند کے اس حصے سے ٹکرا گیا ہے جو کہ خلائی دوربین کی نظروں سے اوجھل ہے۔

    اس حوالے سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اس تصادم میں چاند پر بہت معمولی اثرات مرتب ہوئے ہوں گے اور ہوسکتا ہے اس سے چاند کی سطح پر چھوٹا گڑھا بننے سے گرد و غبار کے بادل پیدا ہوئے ہوں۔

    تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات کچھ دنوں یا ہفتوں میں سامنے آجائیں گی۔

    سائنس داں اس راکٹ کے ٹکڑے کو کئی سالوں سے ٹریک کر رہے تھے۔ ابتدا میں ان کا خیال تھا کہ اس کا تعلق ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس سے ہے لیکن بعد میں اس کا تعلق چین کے کسی راکٹ سے جوڑا گیا تھا جس پر چین اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری بھی سامنے آئی۔

    ناسا کے مطابق راکٹ کے اس حصے کو مارچ 2015 میں ناسا کی جانب سے ریاست ایری زونا میں ہونے والے اس سروے کے دوران دیکھا گیا تھا۔ بعدازاں سائنس دانوں کی اس میں دلچسپی ختم ہوگئی تھی کیوں کہ وہ ابتدا میں اسے شہاب ثاقب سمجھ رہے تھے۔ اس وقت اسے خلائی کچرا تصور کیا گیا تھا۔

    خلائی کچرا اس وقت ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، یورپین اسپیس ایجنسی کے ایک محتاط اندازے کے مطابق خلا میں زیر گردش کچرے میں 36 ہزار 500 ٹکڑے جسامت میں 10 سینٹی میٹر (4 انچ) سے بھی بڑے ہیں۔

    جبکہ اس کچرے کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے ابھی تک کوئی خلائی پروگرام شروع نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ یہ بہت مہنگا کام ہے۔

  • چاند کا درجہ حرارت جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    چاند کا درجہ حرارت جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ چاند پر دن کے وقت درجہ حرارت 120 ڈگری سینٹی گریڈ، اور رات کے وقت منفی 130 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوسکتا ہے۔

    ناسا کے مطابق چاند کے خط استوا پر قمری دن کے وقت چاند کا درجہ حرارت 120 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ سکتا ہے۔

    اگست 2019 میں جرنل جیو فزیکل ریسرچ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چاند کا دن کا وقت زمین کے دو ہفتوں کے برابر ہوتا ہے، اور چاند کو اپنا ایک دن مکمل کرنے کے لیے دنیاوی 27.3 دن درکار ہوتے ہیں۔

    ناسا کے مطابق چاند کا رات وقت بھی تقریباً دو ہفتے طویل ہوتا ہے، جس کے دوران چاند کا درجہ حرارت منفی 130 ڈگری سیلسیئس تک گر جاتا ہے۔

    چاند کے قطبین کے قریب کچھ جگہوں پر درجہ حرارت منفی 253 ڈگری سیلسیئس تک گر سکتا ہے۔

    ان ڈرامائی شدتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چاند کے پاس کوئی ایٹماسفیئر نہیں ہے جو گرمائش کو روک سکے۔

    چاند کے اطراف گیسز کی پرت کے نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہاں موجود گڑھے اور اہم نشانات اس طریقے سے ختم نہیں ہوئے جس طرح سے زمین پر ہوئے۔

    ناسا کا لونر ریکنائسنس آربِٹر چاند کے درجہ حرارت کے مطابق بہترین معلومات فراہم کرتا ہےم اس مشن کو سنہ 2009 میں لانچ کیا گیا تھا۔