Tag: چاند

  • زمین پر چاند جیسے گڑھے نے ارضیاتی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا

    زمین پر چاند جیسے گڑھے نے ارضیاتی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا

    زمین پر ڈائنوسار سے بھی کروڑوں سال قدیم چاند جیسا گڑھا دریافت ہوا ہے، جس نے ارضیاتی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔

    امریکی ریاست ویومنگ کا مطالعہ کرنے والے ماہرینِ ارضیات نے شہابِ ثاقب کے نتیجے میں پڑنے والا ایسا گڑھا دریافت کیا ہے جس کو اس سے قبل زمین پر کبھی نہیں دیکھا گیا۔

    یہ گڑھا ڈائنو سار کی موجودگی سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آیا، اور اسے شہابی پتھر کا گڑھا کہا جا رہا ہے، جو کسی شہابی پتھر کے گرنے کے نتیجے میں بنا ہے۔

    اس سلسلے میں جیولوجیکل سوسائٹی آف امریکا بلیٹن نامی جریدے میں ایک تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جرمن اور امریکی سائنس دانوں کی ٹیم نے ثانوی اثرات کے گڑھوں کا ایک میدان دریافت کیا ہے، جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ میدان تقریباً 280 ملین سال پہلے ایک بڑے اور اصل شہابی پتھر کے گرنے کے بعد اس سے نکلنے والے مواد کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ثانوی گڑھے نظام شمسی کے چٹانی اجسام میں عام ملتے ہیں، یہ وہ سیارے ہیں جہاں یا تو ماحول ہے ہی نہیں یا پھر وہاں باریک ماحول ہے یعنی ٹھنڈا ماحول جہاں زندگی نہیں پنپ سکتی، جیسا چاند اور مریخ۔ تاہم یہ ثانوی گڑھے (Secondary craters) زمین یا وینس جیسے دبیز ماحول والے (یعنی جو گرم سیارے ہیں) اجسام میں نایاب ہیں۔

    محققین نے مقالے میں لکھا کہ یہاں پہلی بار اس بات کا ثبوت پیش کیا جا رہا ہے کہ زمین پر سیکنڈری کریٹرنگ ممکن ہے، محققین نے 10 سے 70 میٹر قطر کے 31 گڑھوں کی باقاعدہ نشان دہی کر دی ہے، جس کو وہ ویومنگ امپیکٹ کریٹر فیلڈ کہتے ہیں، جنوب مغربی ویومنگ میں اس کا رقبہ 40 بائی 90 کلومیٹر ہے، جو کیسپر، ڈگلس اور لارامی کے شہروں کے قریب ہے۔

    انھوں نے 60 ممکنہ دیگر گڑھوں کی بھی نشان دہی کی ہے، تاہم ان کی تصدیق کے لیے مزید مطالعے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اب تک زمین پر شہابِ ثاقب کی وجہ سے بننے والے صرف 208 گڑھے دریافت ہوئے ہیں۔

  • ٹویوٹا چاند پر چلنے والی گاڑی بنائے گی

    ٹویوٹا چاند پر چلنے والی گاڑی بنائے گی

    جاپانی ملٹی نیشنل آٹو موٹیو مینوفیکچرر کمپنی ٹویوٹا چاند کی سطح کے لیے گاڑی بنانے پر کام کر رہی ہے، گاڑی کو اس دہائی کے آخر میں لانچ کیا جائے گا۔

    کمپنی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ٹویوٹا جاپان کی اسپیس ایجنسی کے ساتھ ایک وہیکل پر کام کر رہی ہے جس کے ذریعے چاند کی سطح پر چلا جا سکے گا۔

    یہ منصوبہ 2040 تک انسان کے چاند پر رہنے اور پھر زندگی کو مریخ پر لے جانے کے پیشِ نظر بنایا گیا ہے۔

    جاپان اسپیس ایجنسی کے اشتراک سے بنائی جانے والی اس گاڑی کا نام لونر کروزر رکھا گیا ہے، یہ نام ٹویوٹا کی لینڈ کروزر پر رکھا گیا ہے۔ اس گاڑی کی لانچ اس دہائی کے آخر میں کی جائے گی۔

    ٹویوٹا موٹر کارپوریشن میں لونر کروزر پروجیکٹ کے سربراہ ٹکاؤ ساٹو کا کہنا تھاکہ یہ گاڑی اس خیال پر مبنی ہے کہ لوگ بحفاظت گاڑی میں کام کر سکیں، کھا سکیں، سو سکیں اور دیگر افراد کے ساتھ رابطہ کر سکیں اور ایسا ہی بیرونی خلا میں کیا جاسکے۔

    ساٹو کا کہنا تھا کہ خلا میں جا کر ہم شاید ٹیلی کمیونی کیشن اور دیگر ٹیکنالوجی اتنی جدید کرنے کے قابل ہوجائیں جو انسانی زندگی کے لیے اہم ثابت ہوگی۔

  • زلزلوں کا سبب زمین کی حرکت نہیں، چاند کی کشش ہے: نئی تحقیق

    زلزلوں کا سبب زمین کی حرکت نہیں، چاند کی کشش ہے: نئی تحقیق

    اب تک سمجھا جاتا رہا تھا کہ زمین کے اندر موجود ٹیکٹونک پلیٹس جن کی حرکت زلزلوں کا سبب بنتی ہے، زمین کی حرکت کی وجہ سے ہلتی ہیں، تاہم اب اس حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق زمین کے اندر موجود ٹیکٹونک پلیٹس کا سخت خول ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے اور زمین اور اس کے اوپر بسنے والی زندگی کو متعدد طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔

    یہ بڑی پلیٹیں شاید آہستہ حرکت کرتی ہیں لیکن یہ زمین کے منظر پر منفرد چیزوں کی تخلیق کا سبب ہوتی ہیں جیسے کہ پہاڑ، کھائیاں، انفرادی جزیرے، آرکیپیلیگو (سمندر میں جزیروں کا سلسلہ) اور سمندری خندقیں۔ یہ سب برِ اعظموں کے پیمانے پر ہوتا ہے۔

    تاہم، زلزلے، آتش فشاں اور سونامی بھی زمین کے مرکز کی بیرونی چٹانی پرت، جس کو لیتھو سفیئر کہتے ہیں، کی مستقل حرکت کے نتیجے میں آتے ہیں۔

    ٹیکٹونک پلیٹ فی سال اوسطاً 40 ملی میٹر حرکت کرتی ہے، یہ رفتار ناخن بڑھنے کی رفتار کے برابر ہی ہے۔

    جنوبی امریکا کی مغرب میں نازکا پلیٹ سب سے تیزی سے یعنی 160 ملی میٹر فی سال کی رفتار سے حرکت کرتی ہے، یہ رفتار بال کے بڑھنے کی رفتارکے قریب ہے۔

    پلیٹوں کی حرکت کے متعلق اتفاق رائے کے مطابق زمین کے مرکز میں موجود بڑے پیمانے پر گرم توانائی پلیٹوں کا حرکت کا سبب ہوتی ہے۔

    لیکن سینٹ لوئس میں موجود واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی نئی تحقیق کے مطابق زمین کے اندر اتنی توانائی موجود نہیں کہ وہ ٹیکٹونک پلیٹوں کو ہلا سکیں، اس کے بجائے زمین، چاند اور سورج کے درمیان غیر متوازی کششِ ثقل ایک ساتھ پورے مرکز کی گردش کا سبب بنتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ زمین کی پلیٹیں شاید اس لیے ہلتی ہوں کہ سورج چاند پر طاقتور کششِ ثقل کا کھنچاؤ ڈالتا ہو جو زمین کے گرد چاند کے مدار کو طویل کرتا ہو۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ بیری سینٹر کی پوزیشن زمین کی سطح سے قریب ہوئی ہے، بیری سینٹر زمین اور چاند کے سینٹر آف ماس کو کہا جاتا ہے۔ یہ اب زمین کے مرکز کی نسبت 600 کلو میٹر فی ماہ آگے پیچھے حرکت کرتا ہے۔

    زمین کے گردش جاری رکھنے پر یہ عمل اندرونی دباؤ کو بھی بڑھاتا ہے۔

  • چاند پر موجود آکسیجن سے متعلق بڑا انکشاف

    چاند پر موجود آکسیجن سے متعلق بڑا انکشاف

    چاند کی مٹی اور پتھروں پر تحقیق کرنے والے خلائی سائنس کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ چاند پر موجود آکسیجن دنیا کے انسانوں کے لیے ایک لاکھ سال تک کافی ہوگی۔

    گزشتہ ماہ اکتوبر میں، آسٹریلوی خلائی ایجنسی اور ناسا نے آرٹیمس پروگرام کے تحت چاند پر آسٹریلوی ساختہ روور بھیجنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کا مقصد چاند کی چٹانوں کو جمع کرنا ہے، ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ چاند پر سانس لینے کے قابل آکسیجن فراہم کر سکتے ہیں۔

    اس سلسلے میں چھپنے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ چاند پر موجود مٹی، پتھروں اور چٹانوں پر اتنی آکسیجن موجود ہے کہ وہ دنیا کے 8 ارب انسانوں کے لیے ایک لاکھ سال تک بھی کم نہیں ہوگی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سائنس دان چاند کی مٹی اور چٹانوں سے آکسیجن لے کر انسانوں کے لیے قابل استعمال بنانے کا طریقہ وضع کر لیں تو چاند پر انسانوں کی بستیاں بسائی جا سکتی ہیں، کیوں کہ یہ آکسیجن مرکبات کی شکل میں ہے، جب کہ چاند پر ہوا کا تناسب نہ ہونے کا برابر ہے، اور ہوا میں زیادہ مقدار ہیلیم، نیون اور ہائیڈروجن کی ہے۔

    ماہرین کے مطابق معدنیات جیسا کہ سیلیکا، ایلومینیم، آئرن اور میگنیشیم آکسائیڈز چاند کی زمین کی سطح پر بڑی مقدار میں موجود ہیں، اور یہ تمام معدنیات آکسیجن پر مشتمل ہوتی ہیں، لیکن اس شکل میں نہیں جس تک ہمارے پھیپھڑے رسائی حاصل کر سکیں۔

    یہ مواد ان گنت ہزار سالوں سے چاند کی سطح پر ٹکرانے والے شہابیوں کے اثرات کے نتیجے میں آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ چاند کی چٹانوں میں 45 فی صد تک آکسیجن موجود ہے، لیکن ان مرکبات کو توڑ کر آکسیجن کو خالص شکل میں لانے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں توانائی صرف کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

    اس لیے اگر چاند پر توانائی کا انتظام کر کے آکسیجن حاصل کی جائے، یا کوئی ایسا طریقہ ایجاد کر لیا جائے کہ کم توانائی کے استعمال سے ہی آکسیجن کو مرکبات سے الگ کیا جا سکے، تو چاند پر انسانی زندگی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

  • مشتری کے چاند پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی

    مشتری کے چاند پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی ٹیلی اسکوپ ہبل نے سیارہ مشتری کے چاند پر پانی کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنسدانوں نے سیارہ مشتری کے خوبصورت چاند جینی میڈ پر آبی بخارات کی دریافت کا اشارہ دیا ہے۔

    پانی کے بخارات اس وقت وجود پاتے ہیں جب چاند کی سطح سے برفیلے ذرات ٹھوس سے گیس میں بدل جاتے ہیں۔ یہ تحقیق ہبل خلائی دوربین کی بدولت ممکن ہوئی ہے جس سے حاصل شدہ غیر معمولی ڈیٹا اب بھی سائنسدانوں کے زیرِ مطالعہ ہے۔

    جینی میڈ نہ صرف سیارہ مشتری بلکہ نظام شمسی کا بھی سب سے بڑا چاند ہے، اس سے قبل کہا گیا تھا کہ اس پر زمین کے تمام سمندروں سے زائد پانی موجود ہے۔ لیکن درجہ حرارت اتنا سرد ہے کہ وہ پانی منجمد ہوچکا ہے۔ لیکن جینی میڈ کا سمندر لگ بھگ 100 میل گہرائی میں موجود ہے جو قشرِ جینی میڈ کے نیچے پایا جاتا ہے۔

    ماہرینِ فلکیات گزشتہ بیس برس سے ہبل کی تحقیق کو دیکھتے ہوئے جینی میڈ پر پانی کے بخارات کی تلاش میں ہیں۔ سنہ 1998 میں ہبل خلائی دوربین نے عکسی طیف نگاروں کی بدولت جینی میڈ کی اولین تصاویرلی تھیں۔ ان میں دو تصاویر بہت مقبول ہوئیں جن میں برق ذدہ گیس کی رنگین پٹیوں نما ساخت دیکھی جاسکتی ہے جبکہ ایک اور تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند کا کمزور مقناطیسی میدان بھی ہے۔

    اگرچہ بعض تصاویر وہاں آکسیجن کے سالمے او 2 کو ظاہر کرتی ہیں لیکن بعض تصاویر یک ایٹمی آکسیجن کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ پھر مزید تحقیق کی گئی تو 2018 میں ناسا کے جونو مشن کے مشاہدات اور ہبل کی تصاویر کا باہم موازنہ کیا گیا ۔ یہ کام کے ٹی ایچ رائل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سوئیڈن کے سائنسدانوں نے کیا۔ اس میں 1998 سے 2010 تک ہبل کا ڈیٹا بھی پڑھا گیا جس میں زیادہ تر تصاویر شامل تھیں۔

    ماہرین پر انکشاف ہوا کہ جینی میڈ کا درجہ حرارت بدلتا رہتا ہے اور دن کے اوقات میں خط استوا پر اتنی گرمی ضرور ہوتی ہے کہ منجمد برف کا کچھ حصہ پگھل کر بھاپ کی شکل اختیار کرلیتا ہے،بعد ازاں اس کی مزید تصدیق بھی ہوگئی۔

    اس طرح سالماتی آکسیجن کی تصدیق ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ درجہ حرارت میں تبدیلی سے پانی کے بخارات بن رہے ہیں۔

    سنہ 2022 میں ایک جدید ترین خلائی جہاز اسی مقصد کے لیے روانہ کیا جائے گا۔ یورپی خلائی ایجنسی کا یہ جہاز جوس کے نام سے مشہور ہے اور 2029 میں مشتری اور اس کے چاندوں تک پہنچے گا، توقع ہے کہ اس کے تفصیلی مشاہدے سے اولین نتائج کی تصدیق ہوسکے گی۔

  • اگر چاند کہیں غائب ہوجائے تو کیا ہوگا؟

    اگر چاند کہیں غائب ہوجائے تو کیا ہوگا؟

    کیا کبھی آپ کے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اگر چاند اچانک غائب ہو جائے تو ہمارا کیا ہوگا؟ اس سوال سے مختلف سوال پیدا ہوں گے، کیا ہماری راتیں مکمل اندھیری ہو جائیں گی؟ سمندری لہروں اور موسموں پر کیا فرق پڑے گا؟ کیا چاند کی عدم موجودگی ہماری نیند کو بھی متاثر کرے گی؟ یا نتائج اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے؟

    آئیں ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔

    دراصل ہماری زمین کے اس قریبی ترین آسمانی پڑوسی کی بھی اپنی کشش ثقل ہے، جو زمین سے کہیں کمزور ہے لیکن اس پر اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔ اسی کشش کا رد عمل ہوتا ہے کہ سمندر میں جوار بھاٹا یا مد و جزر آتا ہے اور اس کی لہریں کہیں آگے بڑھتی اور کہیں پیچھے ہٹتی ہیں۔ ان لہروں کو توانائی تو ہوا سے ملتی ہے لیکن انہیں صورت یہی جوار بھاٹا دیتا ہے۔

    پھر یہ چاند کی کشش ثقل کا اپنی جانب کھینچنا ہی ہے کہ زمین سورج کے مقابلے میں اپنے محور پر 23.5 کا جھکاؤ رکھتی ہے۔ یہ جھکاؤ ہی ہمیں چار موسم دیتا ہے اور ایسی آب و ہوا کہ جس میں ہم رہ سکتے ہیں۔ یعنی چاند نہ ہو تو زمین رہے کے قابل نہ رہے۔

    اگر چاند نہ ہو تو زمین پر دن بھی صرف 6 سے 8 گھنٹے کا رہ جائے گا۔ کروڑہا سالوں میں سمندری مد و جزر میں آنے والی تبدیلیاں اور ان کا دباؤ ہے جس کی وجہ سے زمین کی گردش سست ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں 24 گھنٹے کا دن ملتا ہے۔ اگر چاند باقی نہ رہے اور اس کی کشش موجود نہ ہو تو زمین اپنے محور پر موجودہ رفتار سے تین سے چار گنا زیادہ تیزی سے گھومے گی اور یہ بہت ہی بھیانک صورتحال ہوگی۔

    اپنے محور پر اتنی تیزی سے گردش کرنے کی وجہ سے زمین پر 480 کلومیٹرز فی گھنٹے تک کی رفتار رکھنے والی ہوائیں چلیں گی۔ پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کے بچنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں رہے گا اور پودے بھی وہی بچیں گے جو بہت گہری جڑیں رکھتے ہوں اور جانور بھی ایسے جو بہت چھوٹے اور بہت سخت جان ہوں۔

    زیادہ تر سمندری مخلوق بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ بحری مخلوقات کی بقا کا انحصار سمندری کرنٹ پر ہوتا ہے۔ یہ کرنٹ پانی میں موجود غذائیت کو سمندری فرش سے اوپر کی سطح پر لاتی ہیں اور آکسیجن سے بھرپور سطح کے پانی کو گہرائی میں لے جاتی ہیں۔ مد و جزر تب بھی ہوگا لیکن اس پر اثر صرف سورج ہی ڈالے گا، جو 93 ملین میل کے فاصلے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ جوار بھاٹا صرف ایک تہائی ہی رہ جائے گا۔

    سمندری تبدیلیوں کی وجہ سے ساحلی علاقے بری طرح متاثر ہوں گے اور بیشتر علاقے زیرِ آب آجائیں گے۔ کیونکہ بغیر چاند کی دنیا میں خط استوا پر موجود سمندری پانی گرم اور قطبین یعنی پولز پر موجود پانی مزید ٹھنڈا ہو جائے گا، یہی اثرات زمینی علاقوں پر بھی مرتب ہوں گے۔

    زمین کے اپنے محور پر جھکاؤ میں تبدیلی آنے سے مزید موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور کئی علاقے انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں بچیں گے، بیشتر فصلوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور درجہ حرارت میں تبدیلی سے ایسے برفانی دور کا آغاز ہوگا، جس کا انسان نے کبھی سامنا نہیں کیا۔

  • کیا واقعی چاند اتنا قریب ہے؟ وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

    کیا واقعی چاند اتنا قریب ہے؟ وائرل ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی

    گزشتہ چند روز سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں قطب شمالی میں چاند کو ابھرتا اور پھر ڈوبتا ہوا دکھایا گیا ہے، متعدد فیکٹ چیکنگ ویب سائٹس نے اسے جعلی ثابت کردیا۔

    فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر وائرل ہونے والی 30 سیکنڈز کی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چاند طلوع ہورہا ہے اور اس کا حجم بہت بڑا ہے، ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ روس اور کینیڈا کے درمیان قطب شمالی کی ویڈیو ہے جہاں سے چاند اتنا ہی بڑا دکھائی دیتا ہے۔

    اسے پوسٹ کرنے والے ایک صارف نے دعویٰ کیا ہے کہ قطب شمالی میں 30 سیکنڈز کے لیے چاند اتنا بڑا دکھائی دیتا ہے، اس کے بعد 5 سیکنڈز کے لیے سورج کے سامنے آ کر اسے گرہن لگا دیتا ہے اور پھر غروب ہوجاتا ہے۔

    تاہم جلد ہی فیکٹ چیکنگ ویب سائٹس کے ذریعے معلوم ہوگیا کہ یہ ویڈیو اینی میشن کا کمال ہے، اسے ایک ٹاک ٹاکر نے بنایا تھا جو اس سے پہلے بھی اسی نوعیت کی اینی میٹڈ ویڈیوز بناتا رہا ہے۔

    البتہ اس سے پہلے ہی اس ویڈیو کی حقیقت کسی فیکٹ چیک کے بغیر کامن سینس کے ذریعے پہچانی جاسکتی ہے۔

    سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چاند اور زمین ایک دوسرے سے اس قدر فاصلے پر یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلومیٹر دور واقع ہیں کہ زمین کے کسی بھی حصے سے چاند کا اتنا بڑا دیکھا جانا ممکن نہیں۔ ویڈیو میں چاند اتنا قریب دکھائی دے رہا ہے جیسے ایک جست لگا کر اس تک پہنچا جاسکے۔

    ماہرین نے اس ویڈیو میں دکھائی دینے والی چند مزید غیر معمولی چیزوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو اس ویڈیو کو جعلی ثابت کرتی ہیں۔ جیسے کہ زمین پر گھاس کا ہونا، جبکہ قطب شمالی برفانی علاقہ ہے جہاں سال کے 12 ماہ زمین پر برف رہتی ہے۔

    علاوہ ازیں ویڈیو میں دکھائی دینے والی جھیل میں چاند کا سایہ بھی نہیں پڑ رہا جبکہ چاند بھی بہت تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کے گرد گھومنے والا چاند کا مدار اس قدر مکمل دائرے میں نہیں جیسے کہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چاند پرفیکٹ دائرے کی صورت میں حرکت کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں اس کا مدار کسی حد تک بیضوی ہے۔

    اس جعلی ویڈیو کو گزشتہ چند روز میں لاکھوں صارفین نے شیئر کیا –

  • عید الفطر کس دن ہوگی؟ فواد چوہدری نے بتا دیا

    عید الفطر کس دن ہوگی؟ فواد چوہدری نے بتا دیا

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے کیلنڈر اور رویت ایپ کے مطابق عید الفطر 14 مئی کو ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ عید کا حتمی اعلان رویت ہلال کمیٹی نے ہی کرنا ہے تاہم وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے کیلنڈر اور رویت ایپ کے مطابق چاند 13 مئی کو نظر آئے گا۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ عید الفطر 14 مئی کو ہوگی۔

    یاد رہے کہ رویت ایپ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے گزشتہ سال بنائی تھی جس کا مقصد اہم مواقعوں پر چاند دیکھنا تھا۔

    وفاقی وزیر اس سے قبل رمضان کے آغاز کی بھی پیشگوئی کرچکے ہیں۔

  • کویت میں عیدالفطر کب ہوگی؟

    کویت میں عیدالفطر کب ہوگی؟

    کویت سٹی: کویت میں عید الفطر کی پیشن گوئی کردی گئی، ماہر فلکیات کے مطابق جمعرات 13 مئی کو عید الفطر ہوسکتی ہے۔

    کویتی میڈیا کے مطابق کویت کے ماہر فلکیات عادل السعدون نے کہا کہ جمعرات 13 مئی کو عید الفطر ہوسکتی ہے۔

    ماہر فلکیات عادل السعدون کا کہنا ہے کہ 30 رمضان المبارک 12 مئی کی مناسبت سے ہلال دیکھنے کے لیے شرائط مندرجہ ذیل ہوں گی۔

    سورج شام 6:32 بجے غروب ہوگا جبکہ چاند شام 7 بج کر 12 منٹ پر نظر آئے گا۔

    سورج غروب ہونے کے بعد افق سے زیادہ چاند کے قیام کا دورانیہ 39 منٹ ہوگا۔ غروب آفتاب کے وقت افق کے اوپر چاند کی اونچائی ساڑھے 7 ڈگری ہوگی جبکہ چاند اور زمین کے درمیان زاویہ 9 ڈگری اور 18 منٹ کا ہوگا اور یہی شرائط ہلال دیکھنے کے لیے موزوں ہیں۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ چاند کو عام آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکے گا۔ البتہ سعودی عرب اور باقی مغربی عرب ممالک میں ہلال کو عام آنکھ سے دیکھا جاسکے گا۔

  • سعودی عرب: رمضان کے چاند کے حوالے سے اہم خبر

    سعودی عرب: رمضان کے چاند کے حوالے سے اہم خبر

    ریاض: سعودی عرب کی سپریم کورٹ نے لوگوں سے چاند دیکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے والے اپنی گواہی ریکارڈ کروا سکتے ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کی سپریم کورٹ نے اتوار کی شام رمضان کا چاند دیکھنے کی اپیل کردی ہے، عدالت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جو بھی رمضان کا چاند دیکھے اپنی گواہی ریکارڈ کروا سکتا ہے۔

    جمعے کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ام القریٰ کیلنڈر کے مطابق شعبان کا چاند 29 رجب کو دکھائی نہیں دیا تھا، جس کا سبب مملکت میں موسم کا غبار آلود ہونا بتایا گیا۔ اس کے بعد ام القریٰ کے کیلنڈر کے مطابق تاریخ کا تعین کیا گیا۔

    عدالت نے اس حوالے سے مزید کہا کہ اتوار کو مملکت کے تمام علاقوں میں رمضان کا چاند دیکھنے کی اپیل کی جاتی ہے۔

    عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ اگر کسی کو رمضان کا چاند دکھائی دے تو وہ اپنی گواہی کو ریکارڈ کروائے، اتوار کو چاند دکھائی نہ دینے کی صورت میں پیر جو کہ ام القریٰ کیلنڈر کے مطابق 30 شعبان، جبکہ عدالتی فیصلے کے مطابق 29 شعبان ہے، کی شام کو چاند دیکھا جائے۔