Tag: چاند

  • ارب پتی شخص نے 30 ہزار خواتین کے دل توڑ دیے

    ارب پتی شخص نے 30 ہزار خواتین کے دل توڑ دیے

    ٹوکیو: جاپان کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے والے ارب پتی شخص نے 30 ہزار خواتین کے دل توڑ دیے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جاپان کے 22ویں امیر ترین کہلانے والے یوساکو نامی شخص نے اعلان کیا تھا کہ اسے ایک ایسی خاتون دوست کی تلاش ہے جس کے ساتھ وہ چاند کا سفر کریں گے۔

    یہ اعلان یوساکو کی جانب سے مقامی نجی ٹی وی کے ذریعے کیا گیا جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں امیدوار سامنے آگئیں جنہوں نے خواش کا اظہار کیا کہ وہ ان کے ساتھ چاند پر جانا چاہتی ہیں۔

    تیس ہزار کے قریب خواتین امیدوار کا دل اس وقت ٹوٹ گیا جب مذکورہ شخص نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ افسوس ناک خبر دی کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنا منصوبہ معطل کررہے ہیں۔

    چاند گاؤں: مریخ کی طرف سفر کا پہلا پڑاؤ

    انہوں نے کہا کہ مجھے بہت افسوس رہے گا کہ میں اپنا یہ پلان ختم کررہا ہوں، تاہم ان تمام خواتین کا شکریہ جنہوں نے میرے ساتھ چاند پر سفر کرنے کی خواہش ظاہر کی، میں ایسی تمام خواتین سے دل سے معافی مانگتا ہوں۔

    یوساکو کا کہنا تھا کہ میں نجی ٹی وی سے بھی معذرت خوا ہوں جنہوں نے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے پروگرام کا آغاز کیا اور ہزاروں خواتین منظر عام پر آئیں، میں تمام ٹی وی ملازمین سے بھی معافی مانگتا ہوں۔

  • چاند کی وہ تصاویر جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں

    چاند کی وہ تصاویر جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں

    چینی خلائی ایجنسی نے چاند کے تاریک حصے کی تصاویر جاری کی ہیں، یہ وہ تصاویر ہیں جو چین کے شمسی مشن ’چینگ 4‘ نے بھیجی ہیں۔

    چینی خلائی ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ ان تصاویر پر ناسا نے مزید کام کیا ہے اور انہیں واضح بنایا ہے۔ بھیجی جانے والی تصاویر میں چاند کا وہ حصہ ہے جو سورج سے روشنی تو حاصل کرلیتا ہے، تاہم یہ زمین سے چھپا ہوا رہتا ہے۔

    چینی مشن چینگ 4 کو گزشتہ برس جنوری میں لانچ کیا گیا تھا۔ اسے چاند کے مدار میں پہنچ کر 14 شمسی دن ہوچکے ہیں، خیال رہے کہ چاند پر گزارا گیا ایک دن زمین کے 14 دنوں کے برابر ہوتا ہے۔

    گزشتہ برس جب چینگ 4 نے چاند پر کامیاب لینڈنگ کی تھی تو یہ چاند کے عقبی اور تاریک حصے میں اترنے والا دنیا کا پہلا خلائی جہاز تھا۔ مجموعی طور پر یہ چین کا چاند کی سطح پر اترنے والا دوسرا مشن تھا۔

    مشن میں موجود خلائی گاڑیاں مختلف قسم کے آلات سے لیس ہیں جو علاقے کی ارضیاتی خصوصیات جانچنے کے علاوہ حیاتیاتی تجربات بھی کر رہی ہیں۔ ان کی اب بھیجی گئی تصاویر کو بونس قرار دیا جارہا ہے۔

    علاوہ ازیں یہ گاڑی چاند پر موجود اس بڑے گڑھے کا مطالعہ بھی کرے گی جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ماضی میں کسی زبردست ٹکراؤ کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔

    یہ خلائی گاڑی چاند کے جس مقام پر ہے وہ زمین سے اوجھل ہے اور اس سے براہ راست رابطہ ممکن نہیں چنانچہ اس کا رابطہ زمین سے ایک سیٹلائٹ کے ذریعے ہے۔

  • ربیع الاول کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا

    ربیع الاول کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا

    کراچی: ربیع الاول 1441 ہجری کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج بعد نماز عصر کراچی میں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ربیع الاول کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس محکمہ موسمیات کے دفتر کراچی میں آج ہوگا، رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمان اجلاس کی صدارت کریں گے۔

    چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان کریں گے۔ زونل کمیٹیوں کے اجلاس لاہور، کوئٹہ اور پشاورمیں ہوں گے، محکمہ موسمیات کے نمائندے بھی اجلاس میں شریک ہوں گے۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق آج ربیع الاول کا چاند نظر آنے کے واضح امکانات ہیں، چاند نظر آنے کی صورت میں ملک بھر میں عید میلاد النبی 10 نومبر بروز اتوار کو منائی جائے گی۔

    واضح رہے ماہ ربیع الاول امت مسلمہ کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس مہینے نبی آخرالزماں ﷺ کی دنیا میں آمد ہوئی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری دنیا کے لئے عملی نمونہ بن کر آئے اور وہ ہر شعبے میں اس اوج کمال پر فائز ہیں کہ ان جیسا کوئی تھا اور نہ ہی قیامت تک آسکتا ہے۔

  • شکاری چاند کے سحر انگیز نظارے

    شکاری چاند کے سحر انگیز نظارے

    برطانیہ میں شکاری چاند نمودار ہوگیا، انوکھے چاند کے باعث آسمان پر پیدا ہونے والی سرخی نے لوگوں کو سحر زدہ کردیا۔

    برطانیہ کے کچھ حصوں میں دکھائی دیا جانے والا یہ چاند ہنٹر مون یعنی شکاری چاند کہلاتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوا اور لوگوں کو سحر زدہ چھوڑ گیا۔

    چودہویں کا یہ انوکھا چاند ہر سال اکتوبر کے اختتام پر نمودار ہوتا ہے اور ہر 4 سال بعد نومبر میں دیکھا جاتا ہے۔

    اس چاند کی یہ انفرادیت زمین سے اس کے فاصلے، سفر کے مراحل اور موسم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، یہ چاند خزاں کی آمد کا اشارہ ہے۔

    یہ چاند سال کا سب سے چھوٹا مکمل (چودہویں) کا چاند تھا کیونکہ یہ اپنے سفر کے قاعدے کے مطابق اس وقت اپنے مدار کے بالکل آخری حصے اور زمین سے سب سے زیادہ فاصلے پر موجود ہے۔

    غروب آفتاب کے ساتھ جب یہ چاند طلوع ہونا شروع ہوتا ہے تو اس وقت سرخی مائل ہوتا ہے اور اس کے باعث آسمان بھی سرخ ہوجاتا ہے۔ اس چاند کو ٹریول مون بھی کہا جاتا ہے۔

    اس چاند کا نام رکھے جانے کی تاریخ ان لوک روایات پر مبنی ہے جب شکاری اور کسان شکار کی تلاش اور فصلوں کی کٹائی اس چاند کی روشنی میں کیا کرتے تھے۔

    اس چاند سے ایک روایت یہ بھی منسوب ہے کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب اگلے سرد مہینوں کے لیے گوشت محفوظ کرلیا جائے۔

    طلوع اور غروب ہونے کے وقت کے علاوہ بظاہر اس چاند اور چودہویں کے دیگر چاندوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

  • بھارت کی چاند کو چھونے کی کوشش ایک بار پھر ناکام

    بھارت کی چاند کو چھونے کی کوشش ایک بار پھر ناکام

    بھارت کا چاند پر اترنے کا خلائی مشن چندریان 2 بھی ناکام ہوگیا، خلائی جہاز کا رابطہ اس وقت منقطع ہوگیا جب وہ چند ہی لمحے بعد چاند کی سطح پر لینڈ کرنے والا تھا۔

    بھارتی خلائی ادارے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کا کہنا ہے کہ چندریان 2 چاند کے جنوبی قطب پر لینڈنگ کرنے جاہا تھا تاہم لینڈنگ سے چند ہی لمحے قبل زمینی مرکز سے اس کا رابطہ منقطع ہوگیا۔

    لینڈنگ سے قبل اسرو کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ چاند پر لینڈنگ سے 15 منٹ قبل زمین پر موجود سائنسدانوں کا اس خلائی مشن میں کردار ختم ہوجائے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو جہاز خود کار طریقے سے چاند پر لینڈ کر جائے گا، وگرنہ وہ چاند کی سطح سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گا۔

    تاحال اس خلائی جہاز کے بارے میں کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوسکیں چنانچہ توقع کی جارہی ہے کہ خلائی جہاز تباہ ہوچکا ہے۔

    مشن کی ناکامی کے بعد بھارتی صدر نریندر مودی اسرو پہنچے جہاں انہوں نے قوم کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ایسے مواقع مزید آئیں گے۔

    چندریان 2 کو 22 جولائی کو زمین سے لانچ کیا گیا تھا اور ایک ماہ بعد 20 اگست کو یہ چاند کے مدار میں داخل ہوگیا تھا۔

    بھارت نے اس مشن کے لیے اپنا سب سے مضبوط راکٹ جیو سنکرونس سیٹلائٹ لانچ وہیکل (جی ایس ایل وی) مارک تھری استعمال کیا تھا۔ اس کا وزن 640 ٹن ہے (جو کہ کسی بھرے ہوئے جمبو جیٹ 747 کا ڈیڑھ گنا ہے) اور اس کی لمبائی 44 میٹر ہے جو کسی 14 منزلہ عمارت کے برابر ہے۔

    اس سیٹلائٹ سے منسلک خلائی گاڑی کا وزن 2.379 کلو ہے اور اس کے تین واضح مختلف حصے ہیں جن میں مدار پر گھومنے والا حصہ آربیٹر، چاند کی سطح پر اترنے والا حصہ لینڈر، اور سطح پر گھومنے والا حصہ روور شامل تھا۔

    اگر بھارت کا یہ مشن کامیاب ہوجاتا تو وہ سابق سوویت یونین، امریکہ اور چین کے بعد چاند کی سطح پر لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن جاتا۔ مشن کی کامیابی کی صورت میں ایک اور تاریخ بھارت کی منتظر تھی، بھارتی خلائی جہاز چاند کے اس حصے پر لینڈ کرنے جارہا تھا جہاں آج تک کوئی نہیں گیا۔

    بھارت کا اس مشن کو بھیجنے کا مقصد ایک طرف تو خلائی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا تھا، تو دوسری طرف چاند کی سطح پر تحقیقات کرنا بھی تھا۔ خلائی مشن پانی اور معدنیات کی تلاش کا کام کرنے والا تھا جبکہ چاند پر آنے والے زلزلے کے بارے میں بھی تحقیق کی جانی تھی۔

    چاند کے مدار میں گردش کرنے والے حصے کی زندگی ایک سال کی تھی جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے والا تھا، اس کے ساتھ وہ وہاں کی مہین ماحول کو سونگھنے کی کوشش بھی کرنے والا تھا۔

    چاند کی سطح پر اترنے والے حصے کا نام اسرو کے بانی کے نام پر ’وکرم‘ رکھا گیا تھا۔ اس کا وزن نصف تھا اور اس کے بطن میں 27 کلو کی چاند پر چلنے والی گاڑی تھی جس پر ایسے آلات نصب کیے گئے تھے جو چاند کی سرزمین کی جانچ کر سکتے۔

    اس حصے کی زندگی صرف 14 دن تھی اور اس کا نام ’پراگیان‘ رکھا گیا تھا جس کا مطلب دانشمندی ہے۔

    بھارت اس سے پہلے سنہ 2008 میں ایک اور خلائی مشن چندریان 1 چاند کی طرف روانہ کرچکا ہے۔ وہ خلائی جہاز بھی چاند کی سطح پر اترنے میں ناکام رہا لیکن اس نے ریڈار کی مدد سے چاند پر پانی کی موجودگی کی پہلی اور سب سے تفصیلی دریافت کی تھی۔

  • ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    ناسا کی خاتون انجینیئر چاند کے تاریخی سفر کے لیے پرعزم

    چاند پر قدم رکھنا انسان کا وہ خواب تھا جو ہزاروں سال سے شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر تھا، یہی وجہ ہے کہ جب پہلے انسان نے چاند پر قدم رکھا تو یہ انسانی ترقی و ارتقا کا ایک نیا باب قرار پایا۔

    اب بہت جلد ایک خاتون کو بھی چاند کی طرف بھیجا جانے والا ہے، امریکی خلائی ادارہ ناسا اس خلائی منصوبے پر کام کر رہا ہے اور امید ہے کہ وہ سنہ 2024 میں پہلی خاتون کو چاند پر بھیجنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

    اس منصوبے میں ایک خاتون انجینیئر ہیتھر پال بھی شامل ہیں، پال گزشتہ 25 برسوں سے ناسا سے منسلک ہیں اور فی الوقت وہ اس اسپیس کرافٹ پر کام کر رہی ہیں جو پہلی خاتون کو چاند پر لے کر جانے والا ہے۔

    پال کا کہنا ہے کہ گزشتہ 25 برسوں میں انہوں نے بہت سے رجحانات کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ اب اس شعبے میں بھی بہت سی خواتین آرہی ہیں اور انہیں مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔

    چاند پر واپسی کے اس سفر کو قدیم یونان کے چاند کے معبود ’ارٹمیس‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ارٹمیس دیوی، اپالو کی جڑواں بہن تھی اور اپالو اس خلائی مشن کا نام رکھا گیا جو پہلے انسان کو چاند کی طرف لے کر گیا۔

    اس مشن کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے ناسا کے بجٹ میں ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ کیا ہے تاکہ ٹیکنالوجی اور خلائی میدان میں ایک اور تاریخ رقم کی جاسکے۔

  • ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا

    ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا

    کراچی: ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا، اجلاس بعد نماز عصر میٹ کمپلیکس کراچی میں منعقد ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا۔

    مفتی منیب الرحمٰن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اجلاس بعد نماز عصر میٹ کمپلیکس کراچی میں منعقد ہوگا۔

    محکمہ موسمیات کی پیشگوئی

    دوسری جانب محکمہ موسمیات نے ذوالحج کے چاند کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج ذوالحج کا چاند نظر آنے کے قوی امکانات ہیں، عید الضحیٰ 12 اگست کو ہوگی۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ چاند آج 8 بجکر 12 منٹ پر پیدا ہونا شروع ہوجائے گا، اس دوران ملک کے بیشتر حصوں میں مطلع جزوی طور پر ابر آلود رہنے کا امکان ہے، 7 بجکر 17 منٹ پر سورج طلوع ہوجائے گا۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق آج غروب آفتاب کے بعد چاند 53 منٹ تک افق پر دیکھا جا سکے گا، چاند کی عمر 35 گھنٹے 29 منٹ ہوگی۔

    وفاقی حکومت کا عیدالضحیٰ پر چار چھٹیاں دینے کا اعلان، نوٹی فکیشن جاری

    یاد رہے کہ 31 جولائی کو حکومت پاکستان نے عید الضحیٰ کی سرکاری تعطیلات کا نوٹی فکیشن بھی جاری کیا تھا جس کے مطابق 12 سے 15 اگست تک تعطیلات ہوں گی۔

    وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے مطابق پیر 12 اگست سے 15 اگست جمعرات تک تمام سرکاری و نجی کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ ملک بھر کے تمام سرکاری و نجی دفاتر 16 اگست بروز جمعہ سے معمول کے مطابق کھلیں گے۔

  • ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کل ہوگا

    ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کل ہوگا

    کراچی: ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کل ہوگا، اجلاس بعد نماز عصر میٹ کمپلیکس کراچی میں منعقد ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کل ہوگا۔

    مفتی منیب الرحمٰن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اجلاس بعد نماز عصر میٹ کمپلیکس کراچی میں منعقد ہوگا۔

    محکمہ موسمیات کی پیشگوئی

    دوسری جانب محکمہ موسمیات نے ذوالحج کے چاند کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل ذوالحج کا چاند نظر آنے کے قوی امکانات ہیں، عید الضحیٰ 13 اگست کو ہوگی۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ چاند آج 8 بج کر 12 منٹ پر پیدا ہونا شروع ہوجائے گا، اس دوران ملک کے بیشتر حصوں میں مطلع جزوی طور پر ابر آلود رہنے کا امکان ہے، 7 بج کر 17 منت پر سورج طلوع ہوجائے گا۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق کل غروب آفتاب کے بعد چاند 53 منٹ تک افق پر دیکھا جا سکے گا، چاند کی عمر 35 گھنٹے 29 منٹ ہوگی۔

    گزشتہ روز حکومت پاکستان نے عید الضحیٰ کی سرکاری تعطیلات کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا ہے جس کے مطابق 12 سے 15 اگست تک تعطیلات ہوں گی۔

    وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے مطابق پیر 12 اگست سے 15 اگست جمعرات تک تمام سرکاری و نجی کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ ملک بھر کے تمام سرکاری و نجی دفاتر 16 اگست بروز جمعہ سے معمول کے مطابق کھلیں گے۔

  • کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ چاند پر زمین خریدنا چاہتے ہیں؟

    چاند پر قدم رکھنے کے اہم ترین سنگ میل کو 50 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ ان 50 برسوں میں دنیا خلائی میدان میں بھی کافی آگے نکل چکی ہے، چاند کے علاوہ دوسرے سیاروں پر بھی کئی کامیاب مشنز بھیجے جا چکے ہیں۔

    جب سے چاند کا سفر انسان کی دسترس میں آیا ہے تب سے دنیا کے دولت مند افراد چاند پر جانے، وہاں کی زمین کو اپنی ملکیت قرار دینے اور وہاں پر گھر بنانے کی خواہش کر چکے ہیں۔

    یہ وہ افراد ہیں جو زمین کے تمام وسائل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور زمین کی ہر سہولت ان کے لیے قابل رسائی ہے چنانچہ اب ان کا اگلا خواب چاند پر جانا ہے۔

    ایسا ہی ایک شخص ڈینس ہوپ بھی ہے جو پہلے ہی چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرچکا ہے۔ سنہ 1980 میں ڈینس نے اقوام متحدہ کو ایک خط لکھ کر چاند پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا اور دریافت کیا کہ اگر انہیں اس پر کوئی قانونی اعتراض ہے تو وہ اسے آگاہ کریں۔

    اقوام متحدہ نے ڈینس کے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا جس کے بعد ڈینس خود کو اس حوالے سے کلیئر سمجھتا ہے۔

    اس کے بعد اس نے لونر ایمبسی نامی ویب سائٹ بنائی جہاں اس نے چاند پر جائیداد کی خرید و فروخت کا کام شروع کردیا، اور صرف یہی نہیں دنیا بھر سے اب تک 60 لاکھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس ویب سائٹ کے ذریعے چاند پر زمین خرید چکے ہیں۔

    ڈینس کے بعد اس کا بیٹا کرس لیمار اب یہ کام کر رہا ہے۔ وہ صرف 24.99 ڈالر کے عوض چاند کا ایک ایکڑ فروخت کر رہا ہے۔

    اگر لونر ایمبسی کی اس قیمت کو مدنظر رکھا جائے تو چاند کی زمین جو 9 ارب 38 کروڑ 37 لاکھ 48 ہزار 198 ایکڑ پر مشتمل ہے، کی کل قیمت 2 کھرب 34 ارب سے زائد بنتی ہے۔

    لیکن کیا آپ واقعی چاند پر جائیداد خرید سکتے ہیں؟

    سرد جنگ کے دور میں جب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان خلائی دوڑ جاری تھی، تب اقوام متحدہ نے ایک خلائی معاہدہ طے کیا۔

    اس معاہدے کے مطابق کوئی بھی فلکی جسم جیسے چاند، کسی سیارے یا کسی شہاب ثاقب پر، کوئی بھی قوم حاکمیت، اپنے استعمال یا اس پر اپنے تصرف کے باعث وہاں اپنی ملکیت نہیں جتا سکتی۔

    یعنی کوئی بھی قوم وہاں اپنا جھنڈا لگا کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ ہماری زمین ہے۔

    تاہم کرس لیمار اور اس کے 60 لاکھ گاہک حکومتیں نہیں ہیں، یہ فرد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سو اسے اس معاہدے کا ایک جھول تو کہا جاسکتا ہے، تاہم چاند پر صاحب جائیداد ہونا پھر بھی ممکن نہیں۔

    سنہ 2015 میں سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ایک اسپیس ایکٹ پر دستخط کیے تھے جس کے تحت انفرادی طور پر چاند سمیت دیگر فلکی اجسام پر کان کنی اور خرید و فروخت کا کام کیا جاسکتا ہے، تاہم چاند کی زمین کی ملکیت پھر بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

    ناسا کے ایک سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فار انٹرنل افیئرز اسٹیفن ای ڈوئل کے مطابق، جو ایک ریٹائرڈ وکیل بھی ہیں، ’آپ چاند پر جا سکتے ہیں اور وہاں سے اس کی مٹی یا پتھر تو ساتھ لاسکتے ہیں۔ لیکن آپ چاند پر کچھ لکیریں کھینچ کر اسے اپنا حصہ قرار نہیں دے سکتے‘۔

    یعنی آپ چاند پر زمین کی ملکیت نہیں حاصل کرسکتے۔

    اس کے باوجود چاند کے حوالے سے تجارتی دوڑ دنیا کی کئی بڑی کمپنیوں کے درمیان جاری ہے۔ سنہ 2016 میں مون ایکسپریس وہ پہلی نجی امریکی کمپنی بنی جسے چاند پر لینڈ کرنے کی حکومتی اجازت ملی۔

    تاہم ابھی تک مون ایکسپریس کا شمسی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ کمپنی خلا میں ان خلائی مشنز کے لیے ایک گیس اسٹیشن بنانا چاہتی ہے جو خلا میں دور تک جانا چاہتے ہوں۔

    مون ایکسپریس کے علاوہ یورپی خلائی ایجنسی اور ایک اور نجی کمپنی پلینٹری ریسورسز بھی چاند کے حوالے سے تجارتی مقاصد رکھتی ہیں۔ جدید سائنس اور خلائی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ چاند پر بھی جلد تعمیراتی منصوبے اور ملکیتی تنازعے شروع ہوسکتے ہیں۔

  • چاند پر لینڈنگ کے بارے میں تنازعات کا آغاز کب ہوا؟

    چاند پر لینڈنگ کے بارے میں تنازعات کا آغاز کب ہوا؟

    آج ہم ایک ڈیجیٹل دور میں جی ر ہے ہیں جہاں کسی بھی خبر کو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں چند منٹ لگتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ ہی گھنٹوں میں اس سے متعلق مثبت اور منفی تبصرے زبان  ِزدِ عام ہوتے ہیں ۔ مگر0 5برس قبل جب امریکہ نے اپنا پہلاانسانی مشن چاند کی جانب بھیجا اور نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھ کر خود کو تاریخ میں امر کیا ، اس وقت آج کی طرح نہ تیز تر مواصلاتی ذرا ئع تھے اور نہ ہی سوشل میڈیا مو جود تھا ۔لہذا ابتدا میں اس مشن کے متعلق جو چہ مگوئیاں ہوئیں اور شکوک وشبہات اٹھائے گئے وہ اخبارات کی سرخیوں تک محدود رہے جن میں بغیر ثبوت کے صرف سنی سنائی باتوں کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ انسان کا چاند پر پہلا قدم اصلی نہیں بلکہ کسی سٹوڈیو میں فلمائی گئی ایک فلم تھی۔

    پچاس برس قبل عوام کے پاس تیز تر مواصلاتی ذرائع نہیں تھے لہذاٰاس دور میں مستند معلومات کا حصول محض کتابوں کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ چاند کے سفر کے بارے میں شکوک و شبہات پہلی دفعہ 1974 میں بل کیسنگ کی کتاب ‘ وی نیور وینٹ ٹو مون” یا "انسان کبھی چاندپر نہیں گیا ” میں منظر ِ عام پر آئے۔ اگرچہ بل کیسنگ 1950 میں راکٹ ڈائن سے باحیثیت تکنیکی لکھاری وابستہ تھے اور اس حوالے سے کافی معلومات رکھتے تھے مگر پھر بھی انھوں نے کتاب میں سر سری حوالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی اپولو الیون دراصل ایریا الیون نامی پروڈکشن سٹو ڈیو کی تیار کردہ ایک فلم تھی جسے ناسا نے لائیو نشریات کے طور پر دکھایا۔ کتاب کے جلد ہی مشہور ہوجانے کے بعد جب کیسنگ کو اس حوالے سے بحث کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے اعتراف کیا کہ انکی نا صرف اپولو مشن بلکہ راکٹ کا بارے میں بھی معلومات سرسری ہیں ۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنی کتاب میں برملا لکھا کہ اس مشن کے حقیقت ہونے کے امکانات محض 0.0017 فیصد ہیں ۔

    کیسنگ کی کتاب شائع ہوتے ہی اپولو مشن کو جعلی ریکارڈنگ سمجھنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی گئی کیونکہ اس دور میں ویت نام کی جنگ اور واٹر گیٹ سکینڈل کی وجہ سے امریکی حکومت عوام کا اعتبار پہلی ہی کھو چکی تھی۔ 1971میں نائٹ نیوز پیپر کی جانب سے ایک سروے کراوا یا گیا تو مون لینڈنگ پر یقین کرنے والے امریکیوں کی تعداد 30 فیصد تھی۔ جبکہ 1976 میں کیئے جانے والے ایک مستند پول میں یہ تعداد 28فیصد تھی۔ یعنی اس دوران ناسا یا امریکی حکومت کی جانب سے عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی تمام کوششیں ضائع ہو گئیں تھیں اور عوام ہنوز اسے متنا زع سمجھتے تھے۔

    اس کے کچھ عرصے بعد اپولو مشن ایک دفعہ پھر عوامی توجہ کا مرکز بن گیا جب فلیٹ ارتھ سوسائٹی کی جانب سے لینڈنگ پر تکنیکی اعتراضات اٹھائے گئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ لینڈنگ کی جو فلم ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی تھی وہ والٹ ڈزنی کے مالی تعاون سے تیار کی گئی تھی جس کا سکرپٹ آرتھر سی کلارک نے لکھا تھا۔ واضح رہے کہ فلیٹ ارتھ سوسائٹی ایسے اراکین پر مشتمل ہے جو زمین کے گول ہونے پر یقین نہیں رکھتے اور ان کا دعویٰ ہے کہ زمین ہموار ہے۔اس شدید تنقید کی ایک بڑی وجہ 1978 میں منظرِ عام پر آنے والی مریخ کے سفر پر بنائی گئی فلم "کیپریکون ون ” تھی جس میں دانستہ ایسے مناظر فلمائے گئے جو اپولو لینڈنگ سے کافی زیادہ مماثلت رکھتے تھے۔ اس فلم کو امریکی حکومت کی مخالف لابی نے سپانسر کر کے بنوایا تھا تا کہ عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کو کچھ اور زیادہ بڑھایا جا سکے ۔ یعنی وہ عوام کی فلاح کے لیئے کام کرنے کے بجائے اس طرح کے جعلی لینڈنگ مشن دکھا کر عوام کو بے وقوف بنا نے کی کوشش کر رہی ہے۔ لہذا ایسے افرراد جو زیادہ سا ئنسی معلومات نہیں رکھتے تھے وہ اپولو الیون مشن کو جعلی سمجھنے لگے اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ دراز ہوتا چلا گیا۔

    اپولو الیون مشن کو جعلی قرار دینے کے لیئے سوویت یونین کی جانب سے ایک باقاعدہ منظم مہم بھی چلائی گئی جس میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی اور سوویت سائنسدانوں نے اپولو مشن کو جعلی قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس مقصد کے لیئے مشن کی جاری کی جانے والی ویڈیو پر بے شمار تکنیکی اعتراضات اٹھائے گئے جیسے امریکی جھنڈے کا ہوا میں لہرا نا ، تصاویر میں آسمان پر ستاروں کی عدم موجودگی اور نیل آرم سٹرانگ کی سپیس واک میں تکنیکی نقائص شامل ہیں ۔ صرف اپولو الیون ہی نہیں اس کے بعد چاند کی جانب بھیجے جانے والے اپولو سلسلے کے تمام مشنز کو بھی جعلی قرار دیا گیا اگرچہ عوام امریکہ اور روس کے درمیان عشروں سے جاری سپیس وار سے ناواقف نہیں تھے اور سائنسی معلومات رکھنے والے افراد جانتے تھے کہ سپیس ٹیکنالوجی میں روس امریکہ سے کافی آگے تھا۔ اور اپولو الیون سے پہلے چاند پر انسان بردار مشن بھیجنے کے لیئے پوری طرح پر عزم بھی مگر حیرت کی بات ہے کہ اس کے بعد روس نے چاند کی جانب اپنا مشن خود ہی ختم کر دیا مگر وہ امریکہ کے چاند مشن کو جعلی قرار دینے کے لیئے ہمیشہ لابنگ کرتا رہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

    دنیا بھر میں عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس مشن کو جعلی ہی سمجھتی اور پاکستان سمیت ترقی پزیر ممالک میں یہ آج بھی ہاٹ تاپک سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان میں سائنس میں بے رغبتی اور ملکی میڈیا کی جانب سے سائنسی خبروں کو اہمیت نہ دینے کے باعث اس طرح کی متنازع خبریں ہر دور میں پھیلتی رہی ہیں اور تعلیم یافتہ حلقوں کے انھیں رد کرنے اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی جاتی ۔ حالانکہ ہمارا ہمسایہ اور حریف ملک بھارت 22 جولائی کو اپنا مشن "چندریان2″چاند کی جانب روانہ کرنے وا لا ہے اور چین نے بھی اسی برس چاند کی تاریک ترین سطح پر اپنا خلائی مشن بھیجا ہے مگر ہماری عوام آج بھی اپولو الیون کو جعلی قرار دینے میں جتی ہوئی ہے ۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان کا خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو ایک واضح لائحہ عمل کے ساتھ پاکستان کا خلائی پروگرام مضبوط بنیادوں پر شروع کرے۔جس سے عوام میں بھی سائنسی شعور بیدار ہوگا اور و روزمرہ زندگی میں خلائی سائنس کی اہمیت کو بخوبی سمجھ سکیں گے۔