Tag: چاول

  • پکے ہوئے چاول جلد اور بالوں کی خوبصورتی بڑھانے میں مددگار

    پکے ہوئے چاول جلد اور بالوں کی خوبصورتی بڑھانے میں مددگار

    پکے ہوئے چاول بچ جائیں تو انہیں پھینکنے کے بجائے حسن نکھارنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    پکے ہوئے چاول جلد اور بال دونوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں، انہیں مندرجہ ذیل طریقے سے استعمال کریں۔

    بالوں کے لیے

    پکے ہوئے چاولوں کو بلینڈر میں ڈالیں اور اس میں ایک چمچ کیسٹر آئل، ایک چمچ لیموں کا رس اور آدھا کپ دہی مکس کر کے بالوں میں لگائیں، اس سے بال لمبے، گھنے، چمکدار اور مضبوط ہوں گے۔

    صاف رنگت

    ایک کپ پکے ہوئے چاولوں میں 2 چمچ دودھ، 1 چمچ شہد اور آدھا چمچ ہلدی مکس کریں اور چہرے پر لگائیں۔ اس سے جلد صاف اور رنگ گورا ہوگا۔

    کھلے مساموں کی صفائی

    چہرے کے کھلے مساموں کی صفائی کرنے کے لیے پپکے ہوئے چاولوں میں ایلو ویرا جیل اور گلاب کا عرق مکس کریں اور چہرے پر لگائیں، اس سے مسام صاف ہوں گے جس سے جلد صاف ستھری اور چمکدار نظر آئے گی۔

  • بھارت میں کھانا پکانے کے تیل کی قلت کے بعد متبادل طریقہ سامنے آگیا

    بھارت میں کھانا پکانے کے تیل کی قلت کے بعد متبادل طریقہ سامنے آگیا

    نئی دہلی: بھارت میں درآمدی تیل کی کمی کی وجہ سے مقامی طور پر چاول کی بھوسی سے تیل تیار کیا جارہا ہے جو عوام میں بھی مقبول ہورہا ہے۔

    بھارت میں چاول کی بھوسی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ سبزیوں کے تیل کا دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک بھارت عالمی سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے خوردنی تیل کی کمی پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔

    چاول کی گھسائی میں ایک ضمنی پیداوار، چاول کی چوکر یا بھوسی روایتی طور پر مویشیوں اور مرغیوں کی خوراک کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔

    حالیہ برسوں میں، آئل ملز نے چاول کا تیل نکالنا شروع کر دیا ہے، جو کہ صحت کے بارے میں شعور رکھنے والے صارفین میں مقبول ہے لیکن تاریخی طور پر حریفوں کے تیل سے زیادہ مہنگا ہے۔

    اس صنعت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں چاول کی چوکر کے تیل کی مجموعی کھپت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے لیکن یہ خوردنی تیلوں میں سب سے تیزی سے بڑھنے والے تیلوں میں سے ایک ہے، اور طلب کو پورا کرنے کے لیے پیداوار اور درآمدات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    انڈونیشیا کی جانب سے پام آئل کی برآمدات پر پابندیوں اور یوکرین سے سورج مکھی کے تیل کی ترسیل میں رکاوٹوں کی وجہ سے عالمی خوردنی تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے حریف تیلوں پر رائس بران آئل کے روایتی پریمیم کو ختم کر دیا ہے۔

    اس سے چوکر کے تیل کی طلب میں اضافہ ہوا ہے جس کے ذائقے کی خصوصیات سورج مکھی کے تیل سے ملتی جلتی ہیں۔

    بین الاقوامی ایسوسی ایشن آف رائس بران آئل (IARBO) کے سیکرٹری جنرل بی وی مہتا نے کہا کہ جیسے جیسے یوکرین سے سورج مکھی کے تیل کی درآمد میں کمی آئی، صارفین نے اسے چاول کی چوکر کے تیل سے بدلنا شروع کر دیا۔

    انہوں نے کہا کہ ہندوستان عام طور پر اپنی سورج مکھی کے تیل کی دو تہائی سے زیادہ ضروریات یوکرین سے درآمدات کے ذریعے پوری کرتا ہے۔

    بھارت میں، چاول کی چوکر کا تیل اب 1 لاکھ 47 ہزار بھارتی روپے فی ٹن پر فروخت ہو رہا ہے جبکہ سورج مکھی کے تیل کی قیمت 1 لاکھ 70 ہزار روپے ہے۔

  • آبادی میں تیزی سے اضافہ: کیا فصلوں کی پیداوار بڑھانا ممکن ہے؟

    آبادی میں تیزی سے اضافہ: کیا فصلوں کی پیداوار بڑھانا ممکن ہے؟

    واشنگٹن: سائنس دانوں کو ایک تحقیق سے علم ہوا ہے کہ پودوں کے RNA میں تبدیلی سے ان کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ کیا جا سکتا ہے اور وہ خشک سالی کے حالات میں بھی زیادہ مزاحمت کر سکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یونیورسٹی آف شکاگو، پیکنگ یونیورسٹی اور گوئی چو یونیورسٹی کی ٹیم نے آلو اور چاول کے پودوں میں ایک جین کا اضافہ کیا جسے ایف ٹی او کہا جاتا ہے۔

    اس کے نتیجے میں ان میں خوراک پیدا کرنے کا عمل یعنی فوٹو سینتھسس کا سبب بننے والے عوامل میں اضافہ ہوا اور نتیجتاً پودے زیادہ بڑے بھی ہوئے اور ان کی پیداوار بھی کہیں زیادہ ہوئی۔

    تجربہ گاہ میں انہوں نے اصل سے تین گنا زیادہ پیداوار فراہم کی جبکہ کھیتوں میں 50 فیصد زیادہ، ان کا جڑوں کا نظام بھی کہیں زیادہ بڑا نظر آیا جس کی وجہ سے وہ خشک سالی کی صورت میں زیادہ مزاحمت بھی دکھا رہے ہیں۔

    تحقیق میں شامل چوان ہی کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی واقعی حیران کن ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ تکنیک اب تک ہر پودے پر کام کرتی دکھائی دے رہی ہے اور عمل بھی سادہ ہے۔

    کیمسٹری، بائیو کیمسٹری اور مالیکیولر بائیولوجی کے معروف پروفیسر چوان ہی کہتے ہیں کہ ہم پودوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، لکڑی کے حصول سے لے کر خوراک، ادویات، پھولوں اور تیل تک ، یہ طریقہ پودوں سے حاصل کردہ ان چیزوں کی پیداوار بڑھانے کا بھی ذریعہ بنے گا۔

    ان کے مطابق اس سے گلوبل وارمنگ کے اس ماحول میں پودوں کو بہتر بنانے کا موقع بھی ملے گا۔

    یاد رہے کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب اس وقت غذائی تحفظ یا فوڈ سیکیورٹی بہت بڑا مسئلہ ہے جو کلائمٹ چینج، عالمی حدت اور ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے مستقبل قریب میں دنیا کو پیش آسکتا ہے۔

  • سندھ میں گنا، کپاس اور چاول کی فصلیں متاثر ہونے کا خدشہ

    سندھ میں گنا، کپاس اور چاول کی فصلیں متاثر ہونے کا خدشہ

    کراچی: وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو کا کہنا ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے کم پانی دینے کی وجہ سے رواں سال تینوں کیش کراپ گنا، کپاس اور چاول کی فصلیں متاثر ہو سکتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو کا کہنا ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے سندھ کو اس کے حصے کا پانی کم دینے کی وجہ سے گنے، چاول اور کپاس کی فصلوں کو نقصان کا خدشہ ہے۔

    اسماعیل راہو کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کو خدشہ ہے کہ رواں سال تینوں کیش کراپ گنا، کپاس اور چاول کی فصلیں متاثر ہو سکتی ہیں، سندھ میں پانی کی قلت 40 فیصد تک ہے جس میں سے کوٹری بیراج پر یہ قلت 60 فیصد تک ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گڈو بیراج، سکھر بیراج اور کوٹری بیراج کے کمانڈ ایریا میں اس وقت تین فصلیں خطرے میں ہیں، گنا پانی نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ رہا ہے، چاول کے بعد یہ دوسری فصل ہے جس کو زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔

    اسماعیل راہو کا کہنا تھا کہ دوسرے نمبر پر کپاس ہے جو پہلے ہی ٹارگٹ سے کم لگائی گئی تھی، وہ بھی پانی کی قلت سے متاثر ہے۔

    وزیر زراعت کے مطابق تیسری فصل چاول ہے جس کی نرسری مئی میں لگ جاتی ہے اور اس میں بیج لگایا جاتا ہے، لیکن پورے سندھ میں ابھی تک بیج نہیں لگایا جا سکا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ چاول کی فصل کا انحصار موسمی نہروں پر ہوتا ہے لیکن وہ کاشت کار جو صرف خریف کی فصل لیتا ہے وہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔

  • سعودی عرب میں مہنگائی کی لہر، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ

    سعودی عرب میں مہنگائی کی لہر، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ

    ریاض: سعودی عرب میں مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، مرغی کے بعد چاول بھی مہنگے کردیے گئے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں چاولوں کے نرخ 10 سے 15 فیصد تک بڑھ گئے۔ ایک ٹن چاول اکتوبر 2019 میں 3 ہزار 372 یا ساڑھے 3 ہزار ریال میں دستیاب تھا، اب اس کی قیمت بڑھ کر 3 ہزار 747 تا 4 ہزار 122 ریال ہوگئی ہے۔

    مارکیٹ ماہرین کے مطابق چاول مہنگے ہونے کی بنیادی وجہ اکتوبر کے مقابلے میں جنوری 2020 کے دوران چاول کی رسد کم ہونا ہے۔ دوسری جانب چاول اضافی مقدار میں خریدنے کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

    چاول برآمد کرنے والی بھارتی کمپنیوں نے بھی فی ٹن 100 تا 150 ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی مارکیٹ میں انڈین چھوٹی الائچی کی قیمت بھی 90 فیصد بڑھ گئی ہے۔ انڈین چھوٹی الائچی 90 ریال فی کلو میں فروخت ہو رہی تھی۔ اب اس کی قیمت 160 ریال ہوگئی ہے اور یہ سعودی مارکیٹ میں بہت کم دستیاب ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب میں مرغی کمپنیوں نے بھی پیر 20 جنوری سے مرغی کے گوشت کے نرخ 10 سے 12.5 فیصد تک بڑھا دیے ہیں۔

    مرغی کمپنیوں نے یہ اضافہ قومی چارہ فیکٹریوں کی جانب سے مصنوعات کی قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد اضافے پر کیا ہے۔ حکومت نے یکم جنوری 2020 سے چارے پر سبسڈی ختم کردی ہے جس کے بعد چارہ تیار کرنے والی فیکٹریوں نے بھی اپنی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔

  • فلپائنی خاتون کا پلاسٹک کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے انوکھا اقدام

    فلپائنی خاتون کا پلاسٹک کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے انوکھا اقدام

    منیلا: فلپائن کے دارالحکومت کے مضافات میں واقع ایک گاؤں نے پلاسٹک سے جنم لینے والے کچرے کا انوکھا حل نکال لیا.

    تفصیلات کے مطابق قصبے میں مقیم رونیلا ڈاریکو کی تحریک پر شہری کچرا چن چن کر ان تک پہنچانے لگے.

    رونیلا کو قصبے میں ’’انوائرمینٹل آنٹی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سڑک سے گزرتے ہوئے پلاسٹک شاپر  چننے کی عادت کی وجہ سے انھیں یہ عرفیت ملی.

    رونیلا چاہتی تھیں کہ ان کا قصبے پلاسٹک سے پاک ہوجائے، انھوں نے انفرادی حیثیت میں‌ کام کیا، مگر خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، تب انھوں‌نے ایک انوکھا راستہ تلاش کیا.

    رونیلا نے اعلان کر دیا کہ جو  بھی  ان کے پاس ایک کلو پلاسٹک لائے گا، اسے آدھے کلو چاول بدلے میں‌دیے جائیں گے.

    اس خبر نے عوام کے لیے تحریک کا کام کیا اور لوگ شہر بھر سے پلاسٹک اکٹھا کرکے ان کے پاس لانے لگے.

    مزید پڑھیں: مردان میں غلط جگہ کچرا پھینکنے پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد

    پروگرام کی شہرت جلد دور دور تک پھیل گئی. شہری گھر اور اطراف کا کچرا جمع کرکے خوشی خوشی جمع کرانے پہنچنے لگے، ماحولیات کو آلودگی سے بچانے کی اس مہم کی بھرپور پذیرائی ملی ہے.

    سوال یہ ہے کیا کہ اس انوکھے منصوبے کا اطلاق کراچی میں کیا جاسکتا ہے؟ اس بارے میں‌ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا.

  • قطر کی جانب سے پاکستانی چاول کی درآمد پر عائد پابندی ختم

    قطر کی جانب سے پاکستانی چاول کی درآمد پر عائد پابندی ختم

    اسلام آباد: قطر نے پاکستانی چاول کی درآمدات پر عائد پابندی ختم کر کے چاول کی درآمدات کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد سے رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی۔ وفد کی قیادت رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین صفدر میکری نے کی۔

    اس موقع پر مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ قطر اور ایران کی منڈیوں میں چاول کی برآمدات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اگلے 5 سال تک چاول کی برآمدات کو 2 سے 5 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے۔

    مشیر تجارت نے کہا کہ چاول کی برآمدات کو 5 ارب ڈالر تک لے جانے کے لیے جامع حکمت عملی بنائیں گے، چین اور انڈونیشیا میں اضافی مارکیٹ رسائی سے چاول کی برآمدات میں اضافہ ہوا۔

    اس سے قبل ایک موقع پر مشیر تجارت کا کہنا تھا کہ حکومت ایک لاکھ ٹن کھاد درآمد کرے گی، حکومتی اقدامات سے درآمدات میں 6 ارب ڈالر کمی ہوئی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ درآمدات میں کمی سے تجارتی خسارہ 5.9 ارب ڈالر کم رہا، جبکہ اس وقت ملک کا تجارتی خسارہ 31 ارب ڈالر ہے۔

    عبدالرزاق داؤد کا کہنا تھا کہ ملک میں کھاد کی قلت کا کوئی خدشہ نہیں، ہم نے قطر کو چاول کی برآمدات شروع کر دی ہے، ایران نے 5 لاکھ ٹن چاول آرڈر کیا جو آئندہ ماہ سے شروع ہوگا۔

  • مانسہرہ میں کاشت کیا جانے والا قیمتی ترین چاول

    مانسہرہ میں کاشت کیا جانے والا قیمتی ترین چاول

    پاکستان دُنیا کا چوتھا ملک ہے جہاں چاول کی بہترین فصل کاشت کی جاتی ہے۔ مقامی سطح پر بھی گندم کے بعد چاول خوراک کے طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زرعی اجناس میں شمار ہوتی ہے۔

    ضلع مانسہرہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مشہور و معروف دیسی گڑلا چاول بھی کاشت کیا جاتا ہے (جو سادے پانی میں دیسی سرخ لوبیہ کے ساتھ حسب ضرورت نمک ڈال کر ابالا جاتا ہے اور دیسی گھی دودھ یا دہی کے ساتھ کھایا جاتا ہے جو کہ بہت لذیذ طاقتور اور صحت بخش ہوتا ہے ۔

    اس کا پلاو ٔبھی بنایا جاتا ہے لیکن اول الذکر طریقے کے ساتھ اس کا اپنا ایک الگ مزہ ہوتا ہے ) ہےجو نہ صرف کھانے میں بہت لذیذ ہوتے ہیں بلکہ جہاں کہیں بھی ہزارے وال بستے ہیں وہ یہ چاول بہت ہی پسند کرتے ہیں۔

    مانسہرہ میں گڑلا چاول کی پنیری کا عمل جاری ہے جبکہ کسان آج بھی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ سبسڈی کے انتظار میں ہیں۔کسانوں کا کہنا ہے کہ محکمہ زراعت ان کو معلومات فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی دھان کی کاشت کے لئے پنجاب کی طرح ہمارے ہاں نہری پانی میسر ہے۔

    کسانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کھاد اور ادویات مہنگی کر دی گئی ہیں جبکہ بازار میں سرکاری ریٹ سے بھی مہنگی ملتی ہیں۔ اس لئے وہ منافع تو درکنار اصل قیمت بھی وصول نہیں کر پا رہے۔

    کسان برادری نے مطالبہ کیا کہ حکومت زراعت کے شعبے کو ترقی دینے بارے بلند بانگ دعوے کرنے کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دے اور ان کو دھان کی کاشت سے سبسڈی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

    دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس فصل کی کاشت میں مزدور وں کو اجرت پر نہیں رکھا جاتا بلکہ مقامی زمینداری امدادِ باہمی کے تحت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے کھیتوں میں بلامعاوضہ کام کرتے ہیں ۔ اس عمل کو عشر کا نام دیا جاتا ہے ۔

    کھیتوں میں بوائی کے لیے بیل زمیندار کے اپنے ہوتے ہیں جس کی زمین پر کام کیا جارہا ہوتا ہے اور کام کرنے والوں کے کھانے اور چائے پانی کا بندوبست بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے، سندھ میں اس عمل کو ونگار کہا جاتا ہے۔


    اسرار احمد- مانسہری

  • بچے ہوئے چاول کھانا خطرناک ہوسکتا ہے

    بچے ہوئے چاول کھانا خطرناک ہوسکتا ہے

    اکثر اوقات ہمارے گھروں میں استعمال کے بعد بچے ہوئے کھانے کو فریج میں محفوظ کردیا جاتا ہے اور اگلے دن استعمال کیا جاتا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے ہوئے چاول کھانا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے ہوئے چاول کھانا فوڈ پوائزننگ کا سبب بن سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چاولوں کو دوبارہ گرم کرنا خطرناک نہیں، بلکہ اہمیت اس بات کی ہے کہ پکانے کے بعد چاولوں کو کیسے محفوظ کیا گیا۔

    پکنے کے بعد چاول جتنا زیادہ معمول کے درجہ حرارت پر رہیں گے اتنا ہی زیادہ ان میں صحت کے لیے خطرناک ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔

    ماہرین کے مطابق کچے چاولوں میں فوڈ پوائزننگ پیدا کرنے والے بیکٹریا موجود ہوتے ہیں اور قوی امکان ہوتا ہے کہ پکنے کے بعد بھی یہ کسی حد تک موجود رہیں۔

    ایسے میں روم ٹمپریچر پر رکھنا ان بیکٹریا کی افزائش میں دوگنا اضافہ کردیتا ہے۔

    چاولوں سے ہونے والی فوڈ پوائزننگ کھانے کے ایک سے 5 گھنٹے بعد ڈائریا اور قے کی صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے۔

    تاہم یہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتی اور 24 گھنٹے تک ہی رہتی ہے۔ ماہرین چاولوں کی فوڈ پوائزننگ سے بچنے کے لیے کچھ تجاویز دیتے ہیں۔

    کوشش کریں کہ چاولوں کو پکنے کے بعد ایک ہی دفعہ میں سرو کردیں۔

    اگر چاول بچ جائیں اور انہیں محفوظ کرنا ہو تو ایک دن سے زیادہ محفوظ نہ کریں۔

    فریج سے نکلے ہوئے چاولوں کو اچھی طرح گرم کریں۔

    ایک بار فریج سے چاول نکال لینے کے بعد ایک ہی بار گرم کریں اور کوشش کر کے ختم کردیں۔ بار بار فریج میں رکھنا یا گرم کرنا انہیں خطرناک بنا سکتا ہے۔

  • چاولوں کی کون سی قسم صحت کے لیے فائدہ مند؟

    چاولوں کی کون سی قسم صحت کے لیے فائدہ مند؟

    یوں تو چاول نشاستے سے بھرپور غذا ہے اور یہ صحت کے لیے نہایت فائدہ مند غذا سمجھی جاتی ہے، لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چاولوں کے صحت کے لیے مفید ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ کھائے جانے والے چاول کس قسم کے ہیں۔

    ایک تحقیق میں ماہرین کا کہنا تھا کہ سفید چاول غذائیت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں۔ سفید چاولوں سے ملوں میں پروسیسنگ کے دوران وٹامن بی، آئرن، اور ریشے صاف کردیے جاتے ہیں۔

    گو کہ اس میں آئرن اور وٹامن بی بھرپور مقدار میں موجود ہوتے ہیں اور پروسیسنگ کے باوجود ان کی مقدار سفید چاولوں میں برقرار رہتی ہے لیکن ریشے بالکل صاف ہو جاتے ہیں۔

    یاد رہے کہ ریشہ ہاضمے کو بہتر بنانے کے لیے نہایت مددگار ہے اور ریشے کے بغیر چاول موٹاپے کا سبب بنتے ہیں۔

    دوسری طرف بھورے یا براؤن چاول اپنے مکمل غذائی اجزا کے ساتھ موجود ہوتے ہیں کیونکہ ان کی پروسیسنگ کے دوران صرف ان کا بیرونی چھلکا نکالا جاتا ہے جو کھانے کے قابل نہیں ہوتا۔

    بھورے چاولوں میں اینٹی آکسیڈنٹس، وٹامن ای اور ریشہ بھرپور مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک کپ پکے ہوئے بھورے چاولوں میں 3.5 گرام ریشہ ہوتا ہے جبکہ اسی مقدار کے سفید چاولوں میں ایک گرام سے بھی کم ریشہ موجود ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق بھورے چاولوں میں سبالرین نامی ایک اور مادہ موجود ہوتا ہے جو حیرت انگیز طور پر سفید چاولوں میں موجود نہیں ہوتا۔ یہ بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    اسی طرح براؤن چاول ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ بھی کم کرتے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ چاولوں کو کھانے سے قبل ان کی بہتر قسم کا انتخاب کیا جائے تاکہ ان میں موجود غذائیت سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔