Tag: چاکیواڑہ میں وصال

  • محمد خالد اختر: جداگانہ اسلوب کے حامل مزاح نگار

    محمد خالد اختر: جداگانہ اسلوب کے حامل مزاح نگار

    شہرت اور ستائش سے بے نیاز محمد خالد اختر ایک ایسے ادیب اور مزاح نگار تھے جن کی تخلیقات اور اسلوب نے باذوق قارئین ہی کو متوجہ نہیں کیا بلکہ مشاہیرِ ادب اور ہم عصر اہلِ قلم کو بھی ان کا مداح بنا دیا۔ آج خالد اختر کی برسی ہے۔

    اردو زبان کے اس منفرد مزاح نگار اور صاحبِ طرز ادیب نے 2 فروری 2002ء کو کراچی میں وفات پائی۔ محمد خالد اختر نے زندگی کی 90 بہاریں دیکھیں۔

    اردو کے ممتاز مزاح گو شاعر اور ادیب ابنِ انشاء نے خالد اختر کے اسلوب اور طرزِ تحریر سے متعلق کہا تھا: "محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگریزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔”

    ممتاز ادیب و انشاء پرداز محمد کاظم نے شاید اسی بات کو اپنے انداز سے یوں بیان کیا: "اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے، لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔ “

    چاکیواڑہ میں وصال محمد خالد اختر کا وہ ناول تھا جس نے اردو ادب اور ہر طبقۂ قاری کو متأثر کیا اور یہ ناول ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ شہرۂ آفاق شاعر اور ادیب فیض احمد فیض نے محمد خالد اختر کے اس ناول کو اردو کا اہم ناول قرار دیا تھا اور اس پر فلم بنانے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔

    محمد خالد اختر 23 جنوری 1920ء کو پنجاب کے ضلع بہاولپور کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم وہیں اسکول سے حاصل کی جب کہ صادق ایجرٹن کالج سے 1938ء میں بی اے کیا۔ اسکول کے دور میں کچھ عرصہ اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرّحمٰن ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوئے جب کہ کالج میں احمد ندیم قاسمی کا بھی ساتھ نصیب ہوا۔ قاسمی صاحب ان سے دو برس سینئر اور اگلے درجے میں تھے۔ 1945ء انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس کے مضمون میں تعلیم مکمل کرکے مزید پڑھنے کے لیے لندن گئے 1948ء میں وطن لوٹے۔ ملازمت کا آغاز الیکٹرک کمپنی سے کیا اور 1952ء میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوگئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو ان کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔ مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعری کا شوق ہوا اور پندرہ بیس نظمیں بھی کہہ لیں۔ محمد خالد اختر جب انگریزی ادب پڑھنے کی طرف مائل ہوئے تو نئے زاویے سے زندگی کو دیکھنے کا موقع ملا اور غیرملکی ادیبوں کے اسلوب سے بھی واقف ہوئے، انھوں نے انگریزی ادب پڑھنے کے ساتھ اس زبان میں کالج میگزین میں تحریریں بھی شایع کروائیں۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح لکھا، افسانے اور شخصی خاکے لکھنے کے ساتھ سفر نامہ بھی تحریر کیا اور ہر صنفِ‌ ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    محمد خالد اختر کی پہلی مزاحیہ تحریر احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے میں شائع کی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے قلم کی نوک سے مضامین، خاکے، افسانے، ناول اور سفرنامے نکلتے رہے جن میں بیس سو گیارہ وہ ناول تھا جو 1954ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا اور پھر ان کا مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال 1964 میں جب کہ کھویا ہوا افق ان کے افسانے کی کتاب تھی۔ کہانیوں کو انھوں نے چچا عبدالباقی کے عنوان سے کتاب میں یکجا کیا تھا۔ محمد خالد اختر کا ابنِ جُبیر کا سفر 1994 میں شایع ہوا۔

    معروف ادیب مسعود اشعر نے اپنے زمانے کی یادگار محافل کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا: ”ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کر کے جلسہ بر خاست کر دیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے۔ خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔ ”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔” ظہور نظر نے اعلان کیا۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔“

    ”ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلّفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔“

    ”آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کام یاب ہو چکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھا کہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کر خاموش ہو جاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے: ” ہاں یہ ایسا ہی ہے۔“ اور ہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ یک دَم ڈانٹ پڑی، اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔“

    محمد خالد اختر کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • زندگی کے پُر تموّج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک

    زندگی کے پُر تموّج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک

    فنون وہ ادبی مجلّہ تھا جو ممتاز ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے زیرِ ادارت پاکستان بھر میں مقبول ہوا اور اس مجلّے کی بدولت کئی تخلیق کار اور اہلِ قلم سامنے آئے۔ اس مجلّے کو شروع ہی سے صف اوّل کے ادیبوں اور شاعروں کا تعاون حاصل رہا اور قاسمی صاحب نے بڑی فراخ دلی سے نئے لکھنے والوں کو بھی اس میں جگہ دی۔

    محمد خالد اختر اردو کے معروف ادیب ہیں‌ جو اپنے ناول چاکیواڑہ میں وصال کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں ہم احمد ندیم قاسمی سے ان کی رفاقت اور اپنے تخلیقی سفر سے متعلق محمد خالد اختر کی یادوں سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ’’1962ء میں ایک روح فرسا ملازمت کی بیڑیاں پہنے جن کے لیے میں بالکل نااہل تھا۔ صحّت، امنگ اور ذوقِ زیست میں لٹا ہوا، شدید خود رحمی اور خوف کا شکار، زندگی کے پُر تموج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک، میں لاہور آیا۔

    ندیم سے ملاقاتیں ہونے لگیں، گو آغازِ دوستی کا وہ پہلا والہانہ شعلہ پھر نہ جلا۔ ندیم اپنی معاش کی کٹھن آزمائشوں کے باوجود میرے بارے میں حقیقتاً مُشَوَّش تھا۔ وہ ہر ممکن طور پر میرے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتا۔ وہ میری حالت پر افسوس کرتا اور رحم کا اظہار کرتا۔ کوئی آدمی کتنا ہی تباہ و برباد ہو، رحم کھایا جانا پسند نہیں کرتا اور اپنے اس ہمدرد، حوصلہ مند اور خلیق دوست کا میرے لیے تردّد مجھے بعض اوقات ناگوار گزرتا۔ ایسا رحم، میں سمجھتا ہوں، ایک طرح کی بے رحمی ہے۔

    یہاں میرے بھارت بلڈنگ کے دفتر میں ایک دن ندیم میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک ادبی مجلّہ ”فنون“ نکالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا ڈیکلریشن لے لیا گیا ہے۔ دفتر کے کمرے کا بندوبست بھی ہو گیا ہے اور اس کا پہلا نمبر دو مہینے کے اندر اندر اشاعت پذیر ہو جائے گا۔ اس نے مجھ سے ”فنون“ کے لیے کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ میں کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ پچھلے پانچ چھے سال اپنی گھونٹ دینے والی مایوسی میں، میں نے اردو کی ایک سطر نہیں لکھی تھی۔ خط تک نہیں۔ اپنے فیک (fake) ہونے کو جانتے ہوئے میں نے مصنّف بننے کی خواہش کسی افسوس کے بغیر ترک کر دی تھی، لیکن اتنے اچھے ہمدم سے میں کیونکر انکار کرتا، جب کہ یہ اس کی دلی خواہش تھی کہ میں ”فنون“ کے لیے لکھوں۔

    میں نے اس سے کچھ لکھنے کا وعدہ کرلیا۔ اس وقت سے میں باقاعدگی سے ”فنون“ میں لکھتا رہا ہوں۔ تبصرے، مزاحیہ مضمون، کہانیاں، اور اس مجلّے کے چند ہی شمارے ایسے ہوں گے جن میں میرا نام نہ چھپا ہو۔ ندیم نے ہمیشہ اپنی تعریف سے میری ہمّت بندھائی اور جو چیز بھی میں نے ”فنون“ کے لیے بھجوائی، اس میں شائع ہوئی۔ ان تبصروں اور مضامین کو کوئی دوسرا ایڈیٹر آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا، وہ ایک مربیانہ انداز اختیار کرتا اور زبان و بیان کی خامیوں کی طرف میری توجہ دلاتے ہوئے انہیں لوٹا دیتا۔ ”فنون“ میں میں جو چاہتا تھا لکھتا تھا۔ میرے بعض تبصرے ندیم کو اچھے اور متوازن نہیں لگے ہوں گے۔ تاہم وہ کسی قطع و برید اور ایک لفظ کے حذف کے بغیر چھپے۔ اس طرح میرے ادبی کیریئر کا پھر سے آغاز ہوا۔ میں اپنے فیک ہونے کی دل شکستگی کو بھول گیا۔ اپنے نام کو چھپا ہوا دیکھنے کی مسرّت کافی تھی۔

    میری صحت اسی طرح خراب تھی، میرے معدے کا نظامِ ہضم درست نہ ہوا۔ مگر ندیم کے ”فنون“ نے مجھے منزل بہ منزل گرنے اور اپنے فطری ملکے (instinct) کی مکمل معدومی سے بچا لیا۔‘‘

  • اردو زبان کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کا یومِ وفات

    اردو زبان کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کا یومِ وفات

    2 فروری 2002ء اردو کے نام وَر ادیب محمد خالد اختر کا یومِ وفات ہے۔ ناول، افسانہ، سفر نامے کے علاوہ انھوں نے مزاح نگاری میں نام و مقام بنایا۔ محمد خالد اختر کو ان کے ناول ‘چاکیواڑہ میں وصال’ سے بہت شہرت ملی۔

    23 جنوری 1920ء کو الہ آباد تحصیل لیاقت پور، ضلع بہاولپور میں پیدا ہونے والے محمد خالد اختر نے اوائلِ عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔ ان کے چند مضامین پہلی مرتبہ ایک ماہنامہ میں شایع ہوئے تھے جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی اور یوں انھوں نے باقاعدہ ادبی سفر کا آغاز کیا۔

    ان کی تصانیف میں ان کا ناول چاکیواڑہ میں وصال سرِفہرست ہے جسے اس کے اسلوب کے باعث نام ور شاعر فیض احمد فیض نے اردو کا اہم ترین ناول قرار دیا تھا۔

    محمد خالد اختر کی تصانیف میں کھویا ہوا افق، مکاتبِ خضر، چچا عبدالباقی، لالٹین اور دوسری کہانیاں سمیت سفر نامے، مضامین اور ترجمے شامل ہیں۔ 2001ء میں انہیں دوحہ قطر میں عالمی اردو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    وہ کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔