Tag: چترال

  • جنتِ ارضی کا سما ہے تو یہیں ہے

    جنتِ ارضی کا سما ہے تو یہیں ہے

    تحریر : وقار احمد


    پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں چند ایسی حیرت انگیز وادیاں موجود ہیں جن کی خوبصورتی الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ مرطوب و سرسبز علاقے، شیشے جیسی شفاف جھیلیں، آسمان سے اترتی آبشاریں اور دیوقامت پہاڑ، یہ سب آپ کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بکثرت ملتے ہیں لیکن ان کا زیادہ چرچا نہ ہونے کی وجہ سے جب کہیں بھی خوبصورت علاقوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ہمارے اذہان میں پاکستان سے ہٹ کر ان ممالک کے نام آتے ہیں جن کا ہم چرچا سن چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے شمالی علاقہ جات جو کسی جنت سے کم نہیں، کا ذکر اس قدر نہیں کیا جاتا جتنا ان خوبصورت علاقوں کا حق ہے۔

    اسی مناسبت سے آج کی اس تحریر بھی ایک ایسے علاقے کا ذکر کیا جارہا ہے جو یقیناً کسی جنت سے کم نہیں۔ یہ علاقہ مارخوروں کا بسیرا ہے جس کی وجہ یہاں میٹھے پانی کی 30 جھیلوں کی موجودگی ہے۔ سطح سمندر سے 13600 فٹ بلند اس مقام کا نام وادی بروغل ہے جو چترال سے 250 کلومیٹر دور افغان صوبے بدخشاں کے ضلع واخان کے بارڈر پر واقع ہے۔

    چترال کے علاقہ مستوج سے اس کا فاصلہ 10 گھنٹے کی مسافت پر ہے اور یہاں تک پہنچنے کے لیے انتہائی پرپیچ اور پہاڑی علاقے کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ یہ وادی گلیشیرز کے دامن میں آباد ہےجو اب تک سیاحوں کی نظروں سے اوجھل تھی حالانکہ ہرسال یہاں دنیا کا منفرد کھیل یاک پولو کھیلا جاتا ہے جو دنیا میں کسی اور جگہ نہیں کھیلا جاتا لیکن پھر بھی اسے شندور میلے جتنی شہرت نصیب نہیں ہوسکی ۔

    یاک کو مقامی زبان میں خوشگاؤ کہا جاتا ہے. ہرسال یہاں مقامی افراد کے جمع ہونے اور فیسٹیول منعقد کرنے پر 2010 میں خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے بروغل نیشنل پارک قائم کردیا گیا اور خوشی کی بات ہے کہ اس بار محکمہ سیاحت نے بروغل فیسٹیول کو اجاگر کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کیا اور نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاحوں نے بھی اس سال منفرد یاک پولو میچ اور یاک دوڑ دیکھی۔

    بروغل میں ہرسال شندور میلے کی طرزپر دو روزہ فیسٹیول منعقد کرنے کیلئے یہاں خیمہ بستی آباد کردی جاتی ہے مقامی افراد یہاں یاک پولو، بزکشی، گدھا پولو، رسہ کشی ،یاک دوڑ اور دیگر کھیلوں کے مقابلے کرتے ہیں۔ لیکن سب سے منفرد چیز یہاں کے روایتی مقامی ساز ہیں جنہیں سن کر انسان ان وادیوں کی خوبصورتی میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔

    خیمہ بستی سجتے ہی یاک پولو میچ کے لیے یاک بیچنے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی بروغل پہنچ جاتی ہے، یہاں میلہ سجتا ہے، مقابلے ہوتے ہیں ،یاک ریس کرائی جاتی ہےاور تقسیم انعامات کے بعد یہ عارضی خیمہ بستی خالی ہوجاتی ہے۔

    یہ تو تھی کہانی فیسیٹیول کی لیکن اس تحریر کو لکھنے کا میرا اصل مقصد اس حسین وادی کی خوبصورتی بیان کرنا ہے ۔ وادی بروغل کی خوبصورتی کی بڑی وجہ کرمبر جھیل ہے جو اس خوبصورت وادی کے ماتھے کا جھومر ہے، 14121 فٹ بلند یہ جھیل پاکستان کی دوسری اور دنیا کی 31 ویں بلند ترین جھیل ہے۔ خیمہ بستی کے ختم ہونے کے فوراً بعد یہاں قومی جانور مارخوروں کا بسیرا ہوجاتا ہے کیونکہ یہ مقام جنگلی حیات کا خزانہ ہے۔

    ہرسال یہاں سائبیریا سے ہجرت کرنیوالے پرندوں کی بڑی تعداد آتی ہے جو یہاں کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کردیتے ہیں۔اس کے علاوہ جنگلی جڑی بوٹیوں کیلئے بھی یہ وادی بہت مشہور ہے۔ایک مقامی شخص کے مطابق یہاں جو گھاس اگتی ہے وہ دنیا میں کسی اور جگہ نہیں اگائی جاسکتی ۔ الغرض یہ وادی کسی جنت سے کم نہیں، یہاں ذہنی اور جسمانی سکون کیلئے قدرت نے ہر شے مہیا کررکھی ہے جو نہ صرف دل و دماغ بلکہ روح تک کو تروتازہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

  • چترال میں سیلاب، متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے: آئی ایس پی آر

    چترال میں سیلاب، متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے: آئی ایس پی آر

    چترال: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پاک فوج چترال میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد میں مصروف ہے۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق چترال کے علاقے گولین میں شدید سیلاب سے مقامی آبادی بری طرح متاثر ہو چکی ہے، پاک فوج سِول انتظامیہ کے ساتھ ریسکیو اور ریلیف آپریشن کر رہی ہے۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔

    ٹویٹر پر آئی ایس پی آر کے آفیشل اکاؤنٹ کے مطابق سیلاب متاثرین کو خیموں اور راشن کی فراہمی بھی جاری ہے، میڈیکل ٹیمیں بھی متاثرین کے علاج میں مصروف ہیں۔

    خیال رہے کہ ضلع چترال کے علاقے گولین گول میں گلیشیئر پھٹنے سے سیلاب آ گیا تھا جس کی وجہ سے جنگل کے قریب واقع دیہات کو جزوی نقصان پہنچا، مقامی آبادی کے لوگ مکانات خالی کر کے قریبی پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے۔

    گلیشئر پھٹنے کے بعد آنے والے سیلاب کی وجہ سے علاقے میں سیاح بھی پھنس گئے تھے، وزیر اعظم عمران خان کی ہم شیرہ علیمہ خان بھی سیلاب میں پھنس گئی تھیں جن کے لیے ہیلی کاپٹر طلب کر لیا گیا تھا۔

    زمینی رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے، متاثرین کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکالا جا رہا ہے۔

  • شندور پولو فیسٹیول کا شاندار افتتاح، غذر کی ٹیم نے چترال کو شکست دے دی

    شندور پولو فیسٹیول کا شاندار افتتاح، غذر کی ٹیم نے چترال کو شکست دے دی

    چترال : دنیا کے بلند ترین گراؤنڈ پر شندور پولو فیسٹیول سج گیا، رنگارنگ میلہ تین دن جاری رہے گا, ابتدائی روز غذر کی ٹیم نے چترال کو شکست دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق چترال کے دلکش موسم، حسین نظارے اور بلند و بالا پہاڑ کی بلندی پر شندور پولو فیسٹیول سج گیا۔ وزیراعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان شندور پولو فیسٹیول کا افتتاح کیا، رنگارنگ میلہ3دن جاری رہے گا، فیسٹول کی اختتامی تقریب 9 جولائی کو منعقد ہوگی۔

    دنیا کے بلند ترین پولوگراؤنڈ میں مقابلے دیکھنے کیلئے ہزاروں سیاح شندور پہنچ گئے، فیسٹیول کا پہلا میچ غذر اور چترال کی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا اور دلچسپ مقابلے کے بعد غذر کی ٹیم نے چترال کو شکست دے دی۔

    سہ روزہ فیسٹیول میں مجموعی طور پر چھ میچز کھیلیں جائیں گے، میلے میں چترال اور گلگت بلتستان کا کلچرل شو بھی پیش کیا جائے گا۔

    اس موقع پر وزیر سیاحت عاطف خان کا کہنا ہے کہ ہمیں دنیا کو پیغام دینا ہے کہ پاکستان پرامن ملک ہےم، فیسٹیول میں پولو کا فائنل نو جولائی کو کھیلا جائے گا۔

    یاد رہے کہ چترال میں ہونے والا یہ فیسٹیول یہاں کی صدیوں قدیم روایات کاامین ہے جس میں یہاں کی مقامی آبادی بھرپور حصہ لیتے ہیں۔

    فری اسٹائل پولو میں گلگت اور چترال کی ٹیمیں شرکت کرتی ہیں اور یہ کھیل اتنا دلچسپ ہوتا ہے جیسے بھارت اور پاکستان کے مابین کرکٹ ورلڈکپ کا کوئی مقابلہ ہورہا ہو۔

  • کالاش میں بہار کی آمد، جوشی تہوار کے رنگ بکھر گئے

    کالاش میں بہار کی آمد، جوشی تہوار کے رنگ بکھر گئے

    ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع چترال کی انتہائی خوبصورت اور رومانوی وادی کالاش میں موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی’جوشی‘تہوار جسے ’چیلم جوشٹ‘ بھی کہا جاتا ہے کا آغاز ہوچکا ہے۔

    ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اس تہوار میں کالاش مرد و خواتین اپنے مخصوص ثقافتی لباس زیب تن کرکے موسم بہار کے آمد کی خوشی مناتے ہیں ۔ اس موقع پر ایک ہفتے تک وادی رقص و سرور اور موسیقی کی دھنوں سے گونج اٹھتی ہے۔

    کالاش مرد

    کالاش

    کالاش چترال کے سب سے قدیم نسل کے لوگ ہیں جو اس وادی میں ہزاروں برسوں سے مقیم ہے ۔ یہاں کی مقامی لوک روایات کے مطابق پرانے زمانے میں پورے چترال بلکہ گلگت بلتستان اور کنڑو نورستان پر کالاشوں کی حکومت تھی ۔ چترال میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی یہاں کالاش قبائل دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگیں ۔ کالاش قوم کا المیہ یہ ہے کہ وہ تبدیلی مذہب کے ساتھ اپنی زبان، رسم و رواج اور ثقافت کو بھی خیر باد کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی چترال کے کالاش قبائل اپنی صدیو کی شناخت کو خیر باد کہتے رہے ، جس کے نتیجے میں وہ سکڑ کر موجودہ وادی کالاش کے تین گاؤں یعنی بمبوریت، رمبور اور بریر تک محدود ہو گئے ہیں۔

    کالاش کا روایتی رقص

    چترال میں کالاش کمیونٹی ہر دور میں مخالفین کے ٹارگٹ میں رہی یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں پورے چترال اور گلگت بلتستان پر حکومت کرنے والی یہ قوم اب صرف بمبوریت، رمبور اور بریر کے تین گاؤں میں صرف چند ہزار نفوس تک محد ود ہوگئی ہے اور ان کی آبادی میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے چند برسوں میں کالاش تمدن صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے اور یوں دنیا کا یہ قدیم ترین تہذیب بھی تاریخ کی کتابوں تک محدود ہونے کا امکان ہے ۔

    کالاش لڑکی دودھ کی بالٹی ہاتھ میں لیے

    کالاش کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔؟

    تاریخ میں کالاش کمیونٹی کے متعلق مختلف روایات پائی جاتی ہے ۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ سکندر اعظم کی اولاد ہے جب وہ دنیا کو فتح کرتے ہوئے افغانستان سے ہوکر ہندوستان داخل ہورہے تھے تو ان کی فوج کے کچھ لوگ یہاں رہ گئے یا وہ سکندر کو چھوڑ کر ان وادیوں میں فرار ہوگئے اور کالاش سکندر اعظم کے انہی یونانی فوجیوں کی اولاد ہے۔ جبکہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ قدیم ترین انڈو آرین نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور جب سکندراعظم اس خطے میں آیا یہ اس وقت بھی یہاں موجود تھے۔ کالاش کا جدامجد جو بھی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی تاریخ کم و بیش تین ہزار سالوں سے زائد عرصے پر محیط ہے اور یہ ہزارہا برس تک ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان رہائش پزیر رہے اور یہاں حکومت کی۔ اگر انہیں خطہ ہندوکش کی قدیم ترین نسل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

    ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے لوگ حد سے زیادہ رنگارنگ ثقافتی و ادبی روایات کے پرستار ہے اور کالاش کمیونٹی کے ہاں تو کم و بیش سال کے چاروں موسم کوئی نہ کوئی تہوار ضرورت منعقد ہوتے ہیں ،جس میں مر د وخواتین سب شریک ہوتے ہیں ، بکریاں پالنا اور موسیقی اس قو م کے رگ رگ میں پیوست ہے ، یہی وجہ ہےکہ ان کے ہر تہوار میں مختلف علامات بالخصوص بکریوں وغیرہ کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے جبکہ موسیقی ہر تہوار میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ موسیقی کے دھنوں میں مر د او رخواتین مل کر رقص کرتے ہیں ۔

    باہر سے آئے ہوئے سیاح

     

    کالاش کمیونٹی کے بارے میں بہت سارے غلط اور نامناسب پروپیگنڈوں کے برعکس یہ لوگ حد سے زیادہ قدامت پسند اور سادہ لوح واقع ہوئے ہیں مگر چترال اورباہر سے آنے والے سیاحوں نے اپنے سفر ناموں میں اس قوم کے متعلق من گھڑت کہانیاں گھڑ رکھی ہے جن کا حقیقت سے دور دور کا بھی تک کا بھی تعلق نہیں۔

  • کیا ہوا جب تیزرفتارموٹر سائیکل گہری کھائی میں جا گری

    کیا ہوا جب تیزرفتارموٹر سائیکل گہری کھائی میں جا گری

    چترال: ریشن کے مقام پر ایک تیز رفتار موٹر سائیکل حفاظتی دیوار توڑتی ہوئی سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں جا گری ۔ مقامی آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت بائیک سواروں کو کھائی سے نکالا۔

    تفصیلات کے مطابق یہ یہ واقعہ چترال کے علاقے بونی روڈ پر ریشن کے مقام پر پیش آیا، جس میں ایک نوجوان جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوا۔ دو موٹر سائیکل سوار ریشن سے بونی کی طرف جارہے تھے، دومون گول کے مقام پر خطرناک موڑ سے گزرتے ہوئے موٹر سائکل بے قابو ہوکر سڑک کے کنارے نصب حفاظتی دیوار سے ٹکرا گئی۔

    اے آروائی نیوز کے نمائندے کے مطابق یہ دیوار اتنی کمزور اور ناقص معیار کی تھی کہ وہ ایک موٹر سائیکل کی ٹکر کو بھی برداشت نہ کرسکا اور دونوں سینکڑوں فٹ نیچے گہرے کھائی میں گر گئے۔

    سانحہ دیکھ موقع پر موجود افراد اکھٹے ہوئے اور ان میں سے کچھ بہادر جوان اس گہری کھائی میں ایک برساتی نالے کے ذریعے اتر گئے جس کے اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔مقامی لوگوں نے دونوں کو وہاں سے اٹھایا مگر اس نالے سے ان کو سڑک پر لانے کیلئے کوئی راستہ کوئی جگہہ نہیں تھی۔ ایک مسافر سے چادر لیکر اس چادر میں ان کو باندھ کر اوپر کھڑے لوگوں نے ان کو کھینچا اور سڑک تک لانے میں کامیاب ہوئے۔

    اس حادثے میں مہیب ولد حبیب الرحمان سکنہ ریشن موقع پر جاں بحق ہوا جبکہ برہان الدین ولد اسرار الدین شدید زخمی ہوا ۔ مقامی لوگوں نے حادثے کی وجہ ایک تو تیز رفتاری بتائی دوسرا کم عمر لڑکوں کا موٹر سائیکل بغیر لائسنس کے چلانا ہے ۔

    دوسری جانب جائے حادثہ پر کھڑے ایک شحص نے شکایت کی کہ محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس (مواصلات) کا کام اتنی ناقص ہے کہ ان کی بنائی ہوئی سڑک کے کنارے حفاظتی دیوار ایک موٹر سائیکل کو نہیں روک سکا تو بھاری گاڑی کا کیا ہوگا۔

    مقامی لوگوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ جگہہ موت کا کنواں بن چکا ہے یہاں پر کئی حادثات پیش آئے جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس جگہ پر ایک آر سی سی پُل تعمیر کی جائے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات میں انسانی جانیں ضائع نہ ہو۔

  • چترال میں چار روزہ تاریخی ققلشت میلے کا اختتام

    چترال میں چار روزہ تاریخی ققلشت میلے کا اختتام

    چترال: خیبر پختون خوا کے ضلع چترال میں تاریخی جشن ققلشت اختتام کو پہنچ گیا، ہزاروں مقامی اور علاقائی سیاحوں نے چار روز پر مشتمل میلے میں شرکت کی۔

    تفصیلات کے مطابق چترال میں ہر سال منعقد ہونے والے چار روزہ ققلشت میلے کا اختتام ہو گیا ہے، کے پی حکومت کا کہنا ہے کہ اگلے سال اس میلے کو زیادہ وسیع سطح پر منعقد کیا جائے گا۔

    ققلشت فیسٹیول بلند ترین اور خوب صورت ترین علاقے چترال میں دو ہزار سال سے زائد عرصے سے منعقد ہوتا آ رہا ہے۔

    میلے میں مختلف قسم کے کھیلوں پر مبنی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، ملک بھر سے اور غیر ملکی سیاح بھی اس میلے کو دیکھنے آتے ہیں۔

    خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان کی خوب صورتی کے پیش نظر سیاحتی مقامات پر خصوصی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔

    چترال میں ققلشت میلا خیبر پختون خوا حکومت کے تحت 18 سے 21 اپریل کو منعقد کیا گیا۔

    اس میلے میں پولو، خصوصی افراد کے کھیل، ثقافتی کھانوں کے اسٹالز، ثقافتی شوز، رسہ کشی، شوٹنگ، میراتھن ریس، والی بال، راک کلمبنگ، کرکٹ، فٹ بال، تیر اندازی، باز شکار، ہاکی اور موسیقی نائٹ سمیت پیرا گلائیڈنگ، زِپ لائننگ، مشاعرہ اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

  • چترال میں پہاڑی تودہ مکان پر آگرا، تین جاں بحق

    چترال میں پہاڑی تودہ مکان پر آگرا، تین جاں بحق

    چترال : مضافاتی علاقے دنین میں مکان پر پہاڑی تودہ گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق ہوگئے، مرنے والوں میں اہل خانہ کے ایک فردکے علاوہ دو مہمان بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چترال کے مضافاتی علاقے دنین میں گجان گاؤں میں مکان پر پہاڑی تودہ گر گیا۔ جس کے نتیجے میں خاتون سمیت تین افراد جاں بحق ہوئے۔ مرنے والوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ز ہسپتال منتقل کیا گیا۔

    ریسکیو 1122 کے مطابق پیر کے دن علی الصبح 5.45 بجے دنین کے گجان گاؤں میں سلیم خان نامی شحص کے گھر پر پہاڑی تودہ گر گیا جس کے نتیجے میں تین افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
    مرنے والوں میں وسیم خان ولد شکور خان 35 سال، تنویر خان ولد قربان خان عمر 33 سال اور اس کی والدہ عمر 65 سال سکنہ بروز گول دیہہ جاں بحق ہوئے۔

    ریسکیو عملہ کو جونہی اطلاع ملی تو ان کا ٹیم فوری طور پر جائے حادثہ روانہ ہوئے اور ان تینوں کی لاشیں ملبے سے برآمد کرکے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال منتقل کئے ۔

    مرنے والوں میں دو مہمان تھے۔ تنویر خان اور اس کی والدہ بروز سے سلیم خان کے ہاں بچے کی مبارک باد کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے،جہاں موت ان کا انتظار کررہی تھی ۔

  • دوہزارسال قدیم جشن کی تیاری شروع

    دوہزارسال قدیم جشن کی تیاری شروع

    چترال: خیبر پختونخوا کے خوبصورت ضلع چترال میں جشنِ قاقلشٹ (جشنِ بہاراں) کا آغاز اپریل کے آغاز ہونے جارہا ہے، اس موقع پر سیاحوں کی کثیر تعداد چترال کا رخ کرتی ہے۔

    پاکستان کو قدرت نے بے شمار رنگوں اور نعمتوں سے نوازا ہے اور انہی میں سے ایک خطہ چترال بھی ہے۔جشنِ قاقلشٹ اپر چترال میں واقع قدرت کے حسین رنگوں سے مزین میدان قاقلشٹ میں منعقد ہوتا ہے، جہاں کے سر سبز مناظر دیکھ کر انسان فطرت کی رونقوں کا مداح بن جاتا ہے۔

    جشنِ قاقلشٹ میں مختلف مقامی کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں جن میں فری اسٹائل پولو، نشانہ بازی، رسہ کشی، ہاکی وغیرہ شامل ہیں اور کرکٹ، فٹ بال و دیگر کھیلوں کے علاوہ پیرا گلائیڈنگ اور کار ریس کا بھی شاندار مظاہرہ کیا جاتا ہے، جبکہ چترالی موسیقی، مشاعرہ اور ثقافتی ملبوسات کی نمائش سے بھی سیاحوں کو لطف اندوز کیا جاتا ہے۔

    فیسٹول میں کلچر نائٹ، بون فائر، فائر ورکس کے علاوہ ملکی تاریخ میں پہلی بار فلڈ لائٹس میں پولو کھیلا گیا تھا اور اس سال بھی ا س کا اہتمام ہوگا، اس کے علاوہ ہاکی، فٹبال اور کرکٹ کے مقابلے بھی منعقد کیے جائیں گے۔

    جشنِ قاقلشٹ مجوعی طور پر تین دنوں پر محیط ہوتا ہے جہاں دن رات مختلف سرگرمیاں منعقد ہوتی ہیں جن سے مقامی، ملکی اور غیر ملکی سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    سیاحوں کے ٹھرنے کے لیے کیمپنگ کی سہولیات کے ساتھ ساتھ گیسٹ ہاؤس بھی موجود ہیں جہاں مناسب قیمت پر لذیز کھانے اور دیگر سہولیات میسر ہیں۔تو پھر دیر کس بات کی، بیگ پیک کیجئے اور جشنِ قاقلشٹ میں شرکت کرکے قدرت کے حسین مناظر اور منفرد ثقافت سے بھر پور خطے کی خوبصورتی سے لطف اٹھائیں۔

    دو ہزار سالہ تاریخ پر مشتمل جشن قاقلشٹ فیسٹول اپنے روایتی انداز سے ہرسال منایا جاتا ہے، تاہم 2017 میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسے منسوخ کردیا گیا تھا۔

    قاقلشٹ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں شرکاء کے لیے چترال کے خصوصی کھانے فروخت کے لیے پیش کیے جائیں گے جن میں اخروٹ کی روٹی، چاول کی چٹنی و دیگر شامل ہیں۔

  • پاکستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟

    پاکستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟

    اسلام آباد: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟ آپ کا جواب یقیناً اندازوں پر مشتمل ہوگا۔

    ماہر لسانیات ڈاکٹر طارق عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ ڈاکٹر آتش درانی کا خیال ہے کہ یہ تعداد 76 ہے۔ تاہم دنیا بھر کی زبانوں پر تحقیق کرنے والی ایک ویب سائٹ ایتھنالوگ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کل 73 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

    ویب سائٹ کی جانب سے سنہ 2016 میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 7 ہزار 4 سو 57 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 360 مردہ یا متروک ہوچکی ہیں۔

    بقیہ 7 ہزار 97 زبانیں جیتی جاگتی یا فعال زبانیں ہیں تاہم ان میں سے کئی متروک ہونے کے خطرے کا شکار ہیں۔

    اس ویب سائٹ پر پاکستان کی زبانوں کی درجہ بندی کرنے کے لیے جرمنی اور ناروے کے ماہرین لسانیات نے کام کیا۔

    ایتھنا لوگ کے مطابق پاکستان کا لسانی تنوع نہایت حیرت انگیز ہے اور صرف شمالی علاقہ جات میں 30 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

    ان میں سے ایک زبان بروشسکی کو ماہرین لسانیات نے باقاعدہ زبان کا درجہ نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر زبانوں کے برعکس اس زبان کے الفاظ کسی دوسری زبان میں نہیں ملتے۔

    خوش قسمتی سے کچھ عرصہ قبل جامعہ کراچی کے تعاون سے ایک بروشسکی ۔ اردو لغت مرتب کی گئی ہے جسے نصیر الدین ہنزئی نے مرتب کیا ہے۔

    اسلام آباد کا ایک غیر سرکاری ادارہ بھی یو ایس ایڈ کے تعاون سے گزشتہ 10 سالوں سے شمالی علاقہ جات میں بولی جانے والی زبانوں پر تحقیق کر رہا ہے۔

    فورم فار لینگویج انیشیٹیو نامی یہ ادارہ 5 زبانوں دمیلی، گورباتی، پالولا، یوشوجو اور یدغا کی بنیادی گرامر اور الفاظ کے اردو معنوں پر کتابیں مرتب کرچکا ہے۔

    ان کتابوں پر اپنی رائے دینے والے اسٹاک ہوم یونیورسٹی کے پروفیسر ہنرک للجگرن بھی گزشتہ کئی سال سے ہندوکش قراقرم کے خطے میں بولی جانے والی زبانوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    انہوں نے مذکورہ بالا تمام زبانوں کو شمالی علاقہ جات میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کے مقابلے میں چھوٹی زبانیں قرار دیا ہے۔

    یہ زبانیں کہاں بولی جاتی ہیں؟

    پروفیسر ہنرک کے مطابق دمیلی ایک انڈو آریائی زبان ہے جو چترال کے جنوب مغربی علاقے دمل میں بولی جاتی ہے۔ اسے بولنے والے افراد کی تعداد لگ بھگ 5 ہزار ہے۔

    گورباتی بھی انڈو آریائی زبان ہے جو پاکستان اور افغان کے سرحدی علاقوں جیسے چترال ور افغانستان میں کنڑ میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے افراد کی تعداد لگ بھگ 10 ہزار ہے۔

    یوشوجو بھی انڈو آریائی زبان ہے جو سوات کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان شمالی گلگت میں بولی جانے والی زبان شنا سے مماثل ہے۔

    یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ لسانیاتی لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع چترال نہایت متنوع علاقہ ہے۔ چترال میں 10 سے 12 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

    یدغا بھی انہی میں سے ایک ہے تاہم یہ زبان متروک ہونے کے خطرے کا شکار ہے۔ ضلع چترال کی مرکزی زبان کھووار ہے اور یدغا بھی اسی زبان سے مماثل ہے۔

    زبانوں کے نام

    ایتھنالوگ کی ویب سائٹ پر پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کو انگریزی حرف تہجی کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا ہے جو یہ ہیں۔

    ایر
    بدیشی
    باگری
    بلوچی ۔ مرکزی زبان
    بلوچی ۔ مشرقی
    بلوچی ۔ جنوبی
    بلوچی ۔ مغربی
    بلتی
    بتری
    بھایا
    براہوی
    بروشسکی
    چلیسو
    دمیلی
    دری
    دیہواری
    دھٹکی
    ڈومکی
    گورباتی
    گھیرا
    گوریا
    گورو
    گجراتی
    گجاری
    گرگلا
    ہزارگئی
    ہندکو ۔ شمالی
    ہندکو ۔ جنوبی
    جدگلی
    جندوارا
    جوگی
    کبوترا
    کچھی
    کالامی
    کالاشا
    کلکتی
    کمی ویری ۔ اسے کم کتویری بھی کہا جاتا ہے
    کشمیری
    کٹی
    کھیترانی
    کھووار
    کوہستانی
    کولی ۔ کچھی
    کولی ۔ پرکاری
    کولی ۔ ودیارا
    کنڈل شاہی
    لہنڈا
    لاسی
    لارکئی
    مارواڑی
    میمنی
    اوڈی
    ارماڑی
    پہاڑی ۔ پوٹھو ہاری
    پالولا
    پشتو ۔ مرکزی
    پشتو ۔ وسطی
    پشتو ۔ شمالی
    پشتو ۔ جنوبی
    پنجابی ۔ مغربی
    سانسی
    سرائیکی
    ساوی
    شنا
    شنا ۔ کوہستانی
    سندھی
    سندھی ۔ بھل
    توروالی
    اردو
    یوشوجو
    وگھاری
    وکھی
    ونسی
    یدغا

    گو کہ اس فہرست میں پنجابی زبان کی کئی شاخوں کو شامل نہیں کیا گیا تاہم پاکستان کے لسانیاتی تنوع کو جاننے کے لیے یہ فہرست نہایت کارآمد ہے۔

    فہرست میں اردو زبان کو ترقی پذیر زبان کے طور پر لکھا گیا ہے یعنی وہ زبان جو اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہو۔

  • چترال میں ’سنو اسکینگ فیسٹول‘ کا باضابطہ انعقاد

    چترال میں ’سنو اسکینگ فیسٹول‘ کا باضابطہ انعقاد

    چترال: ملک کے خوبصورت شمالی علاقے چترال کی وادی مدگلشت میں پہلی بار سنو سکینگ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، مقابلے میں لڑکیوں سمیت تین سو کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چترال میں ہونے والے پہلے سنو اسکینگ فیسٹیول میں مقامی کھلاڑیوں کے علاوہ سوات، گلگت، اسلام آباد، پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے بھی سنو سکینگ کھلاڑیوں اور چیمپٔنز نے حصہ لیا اور تماشائیوں کو محظوظ کیا۔

    اس خوبصورت کھیل میں چار کیٹیگریوں پر مشتمل کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ آٹھ سے بارہ سال جن میں نذیر احمد نے اول پوزیشن حاصل کی روح الامین نے دوسری اور مرتضےٰ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    تیرہ سے سولہ کے کھلاڑیو ں میں عباد الرحمان نے اول، عماد حسین نے دوسری جبکہ انعام اللہ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    سولہ سے پچیس سال کے عمر کے کھلاڑیوں میں عاشق حسین نے پہلی پوزیشن، واصف علی نے دوسری جبکہ سلطان نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    پچیس سے پچپن سال کے عمر کے کھلاڑیوں میں عبد الحفیظ نے پہلی پوزیشن حاصل کی، برہان نے دوسری اور سید جعفر نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    شہزادہ سکندر الملک جو چترال پولو ایسوسی ایشن کا صدر بھی ہے نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ میں صوبائی ٹورزم تھنک ٹینکر کا رکن بھی ہوں مگر مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ ایک طرف صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سیاحت کو فروغ دیں گے اور چترال سب سے اول نمبر پر ہے مگر دوسری طرف اس دلچسپ کھیل میں کسی نے شرکت بھی نہیں کی اور نہ کوئی فنڈ فراہم کیا۔

    ہندوکش سنو سپورٹس ایسوسی ایشن کے صدر شہزادہ حشا م الملک نے کہا کہ یہ کھیل پچھلے سو سالوں سے یہاں کھیلا جاتا ہے مگر اسے باقاعدہ طور پر ایک تہوار کے طور پر کبھی نہیں منایا گیا تھا، ہم نے پہلی بار اسے منظم طریقے سے منایا جس میں ملک بھر کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور چترال کے جن علاقوں میں بھی سنو سکینگ کی گنجائش موجود ہیں ہم ضرور وہاں یہ کھیل کھیلیں گے اور اسے بین الاقوامی سطح پر بھی روشناس کرایں گے۔

    بریگیڈئیر آفندی کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے سنو سکینگ کھیل رہے ہیں مگر یہاں آکر حیرانی کی انتہاء نہ رہی کہ یہ خطہ قدرتی طور پر اس کھیل کیلئے نہایت موزوں ہے ۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کوئی ہوٹل، ریسٹورنٹ یا گیسٹ ہاؤس نہیں ہے مگر تین سو مہمانوں کو مقامی لوگوں نے اپنے گھروں میں رکھ کر مہمان نوازی کی مثال قائم کی۔

    چند بچیو ں نے بھی اس کھیل میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ ہم بہت خوش ہیں کہ پہلی بار یہاں کی بچیاں بھی سنو سکیگ میں حصہ لے رہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ آئندہ بھی لڑکیوں کے لیے سنو سکینگ کھیلنے کا اہتمام کیا جائے۔