Tag: چراغ حسن حسرت کی تحریریں

  • بھاٹ اور سوانگی

    بھاٹ اور سوانگی

    ہندوستان کی سرزمین پر کبھی ان بادشاہوں، راجاؤں اور نوابوں کی حکومت تھی جو علم و فنون کے رسیا بھی تھے اور شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق بھی رکھتے تھے۔ ان کے دربار میں موسیقار، گویّے، اہلِ قلم شخصیات کے ساتھ بھانڈ اور مسخرے بھی حاضر رہتے تھے۔ ان بھانڈ اور مسخروں کی روزی روٹی ان درباروں سے جڑی ہوئی تھی، لیکن محلّات کے اجڑنے کے ساتھ کئی پیشے اور فن کار بھی مٹ گئے ہیں۔

    مشاہیرِ‌ ادب کے بارے میں تحریریں اور ادبی مضامین پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    یہ چراغ حسن حسرت کا ایک مضمون ہے جس میں انہی کرداروں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اردو کے بلند پایہ ادیب، انشا پرداز، جیّد صحافی اور شاعر چراغ حسن حسرت کی تحریر پڑھیے:

    بھاٹ اور سوانگی کا نام سنتے ہی ایک پرانا مرقع میری نظر کے سامنے آگیا، جس کے نقوش مدھم پڑگئے ہیں۔ رنگ پھیکے پھیکے، لکیریں دھندلائی ہوئی۔ اس مرقع کی کچھ تصویریں اجنبی معلوم ہوتی ہیں، کچھ جانی پہچانی۔

    کیونکہ ہر چند میرے اور اس کاروانِ رفتہ کے درمیان سیکڑوں برس کی مدت حائل ہے۔ زمانے نے غبار کا ایک پردہ سا تان رکھا ہے۔ جس نے میری نظروں کو دھندلا دیا ہے، تاہم میں نے ہندوستان کے ماضی کے متعلق جو کچھ پڑھا ہے، بزرگوں کی زبانی جو کچھ سنا ہے اس نے بیگانگی اور نا آشنائی کی شدت کو کس قدر کم کر دیا ہے۔

    میں ان تصویروں کے پھیکے پھیکے نقوش، مبہم خد و خال پر غور کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یکایک ان کے دھندلے خطوط ابھر آئے۔ رنگ شوخ ہوگئے۔ ان کے لب ہلنے لگے۔ یعنی ان تصویروں میں جان سی پڑ گئی۔ اب جو سوچتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مٹی مٹی سنہری لکیریں راج محل کے ستون ہیں جو ایک عظیم الشان عمارت کو سہارا دیے کھڑے ہیں۔ یہ آڑے ترچھے خط، یہ مدھم مدھم نقش و نگار، راج سنگھاسن، جڑاؤ مکٹ، سنہری مسندیں، پٹکوں کے حاشیے اور تلواروں کے قبضے ہیں۔ راج محل میں دربار لگا ہے۔ راجہ سر پر مکٹ رکھے سنہری تاج پہنے چھپر تلے بیٹھا ہے۔ بڑی بڑی مونچھیں، کھلتا ہوا گیہواں رنگ، کھلی پیشانی، سڈول جسم، تلوار کے قبضے پر ہاتھ، دونوں طرف درباریوں کی قطار، یکبارگی ایک شخص آگے بڑھتا ہے اور پراکرت کی ایک نظم پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔

    الفاظ کی شوکت، مصرعوں کے در و بست سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی رزمیہ نظم ہے۔ لفظ لفظ میں تلواروں کی بجلیاں کوندتی اور سنانیں چمکتی نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ رزمیہ نظم نہیں قصیدہ ہے، جس میں موقع کی مناسبت سے راجہ کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کے اور اس کے باپ دادا کے کارنامے بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن نظم میں بلا کی روانی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک غضب ناک دریا پہاڑوں کو چیرتا، درختوں کو جڑ سے اکھیڑتا، چٹانوں کو توڑتا پھوڑتا اپنی رو میں بہاتا لیے جارہا ہے۔ جگہ جگہ دیو مالا کی پر لطف تلمیحیں ہیں، جنہوں نے کلام میں زیادہ زور پیدا کر دیا ہے۔ کہیں شوخی کے جلال و غضب کا ذکر جس کی آگ نے کام دیو کو جلا کر راکھ کر ڈالا تھا، کہیں سورگ کے راجہ اندر کے جنگی ہتھیاروں یعنی اس کے بجر اور دھنش اور اس کی سواری کے ہاتھی ایراوت کی طرف اشارے ہیں، جو سیہ مست بادلوں کی طرح جھوم جھوم کے چلتا ہے۔

    یہ عشق و وفا کی شاعری نہیں جس میں ساون کی راتوں، آم کے بور، کوئل کی کوک، پپیہے کی پکار، کنول، بھونرا اور مالتی کی جھاڑیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ درباری شاعری ہے جن میں رزمیہ شاعری نے مدحیہ شاعری کے ساتھ مل کے عجب شان پیدا کر دی ہے اور یہ شخص راجہ کے دربار کا بھاٹ ہے جو ایک خاص تقریب پر اپنی زبان آوری کا کمال دکھانے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔

    بھاٹ اور کوی میں بڑا فرق یہ تھا کہ کوی کے لیے کسی دربار سے تعلق رکھنا اور مدحیہ قصیدے کہنا ضروری نہیں ہوتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض گویوں کو بھی درباروں سے تعلق رہا ہے لیکن دربار میں بھی وہ بھاٹوں سے اونچی حیثیت رکھتے تھے۔ بعض کوی ایسے تھے جن کی زبان راجاؤں کی مدح سے آلود نہیں ہوئی۔ بعض گویوں نے بادشاہوں کی تعریف بھی کی ہے لیکن ان کا انداز الگ تھا۔ بھاٹوں کو دراصل ان کی شاعری کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی زبان آوری کی وجہ سے قابلِ قدر سمجھا جاتا تھا اور بعض بھاٹ تو خود شعر کہنا نہیں جانتے تھے بلکہ پرانے شاعروں کا رزمیہ کلام پڑھ کے سنا دیتے تھے۔ یا شاعروں کے کلام میں تھوڑی سی قطع و برید کر کے اسے موقع کے مناسب بنا لیتے تھے۔

    پرانی کتابوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوی عام طور پر ترنم سے شعر پڑھتے تھے اور بھاٹ تحت اللفظ میں اپنا کمال دکھاتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں راجاؤں کے نسب نامے اور ان کے بزرگوں کے کارنامے بھی یاد ہوتے تھے، جنہیں وہ بڑے مبالغے کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ عربوں میں بھی نسب نامے یاد رکھنا بڑا کمال سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ جو لوگ نسب نامے یاد رکھتے تھے وہ نساب کہلاتے تھے اور بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن ہندوستان کے بھاٹوں کو عرب کے نسابوں سے کوئی نسبت نہیں۔

    غرض بھاٹ اور کوی کے فرق کو چند لفظوں میں بیان کرنا ہو تو یہ کہنا چاہیے کہ کوی اپنے تأثرات بیان کرتا ہے اور بھاٹ کو ذاتی تأثرات سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ ایک مقررہ فرض بجا لاتا ہے اور بس۔

    بھاٹوں نے اور کچھ کیا کیا نہ کیا، کم از کم راجاؤں اور بڑے امیروں کے دل میں جوشِ سماعت ضرور زندہ رکھا۔ وہ ان لوگوں کے بڑوں کے قابلِ فخر کارنامے اس انداز میں بیان کرتے تھے کہ سننے والوں کی رگوں میں خون موج مارنے لگتا تھا۔ کڑکیت بھی انہیں بھاٹوں کے بھائی بند تھے جو جنگ کے موقع پر سپاہیوں کو لڑائی کے لیے ابھارتے تھے۔ پرانے زمانے کی لڑائیوں میں یہ دستور تھا کہ جب دو فوجیں آمنے سامنے ہوتی تھیں تو پہلے دونوں کے کڑکیت اپنی اپنی فوجوں کے سامنے کھڑے ہو کر کڑکا کہتے تھے۔ یہ کچھ اشعار ہوتے تھے جن میں دنیا کی بے ثباتی کے ذکر کے ساتھ ساتھ اپنی طرف کے سپاہیوں کی بہادری کی تعریف کی جاتی تھی۔ یہ رسم عرب میں بھی تھی۔ اسلام سے پہلے شاعر بھی یہ خدمت انجام دیتے تھے۔ پھر لڑائیوں میں عورتیں بھی دف بجا بجا کے گیت گاتیں اور اپنی طرف سے شہ سواروں کو لڑائی پر ابھارتی تھیں۔ عربوں کے اسلام لانے کے بعد یہ رسم مٹ گئی۔

    اشعار کے ذریعے فوج کو برانگیختہ کرنے کا کام صرف شاعروں کے ذمہ رہ گیا۔ لیکن اس غرض کے لیے خاص طور پر شاعر نہیں رکھے جاتے تھے کیونکہ جس زمانے کا یہ ذکر ہے اس زمانے میں عربوں میں شاعروں کی کثرت تھی۔ ہر فوج میں سیکڑوں شاعر ہوتے تھے اور اکثر اوقات تو خود سردار لشکر کو شاعری میں خاصا درک ہوتا تھا۔

    ہندوستان کی بعض ریاستوں میں اب بھی بھاٹ موجود ہیں۔ جو دسہرہ اور بسنت کے درباروں میں شادی بیاہ کے موقع پر گیت سناتے ہیں۔ کوئی بیس سال ہوئے مجھے ایک بھاٹ سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا۔ بڑا ذہین شخص تھا اگرچہ پڑھنا لکھنا واجبی سا ہی جانتا تھا لیکن برج بھاشا پر بڑا عبور رکھتا تھا اور حسبِ موقع فوراً شعر جوڑ لیتا تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اس کا اپنا کلام تھا۔ وہ پرانے شاعروں کے کلام میں موقع کی مناسبت سے ترمیم کر کے شعر گڑھ لیتا تھا۔

    اس مرقع میں ایک اور تصویر بھی ہے۔ شیشم کے پیڑ تلے گاؤں کے لوگ اکٹھے ہیں۔ بیچ میں کچھ آدمی ناٹک کر رہے ہیں لیکن نہ پردے ہیں نہ خاص لباس۔ ایک آدمی سارنگی بجا رہا ہے، دوسرا ڈھولک پر تال دے رہا ہے اور تیسرا اونچی لے میں کچھ گا رہا ہے۔ یہ ایک لمبی نظم ہے جس کے مطلب کو یہ شخص ایکٹنگ کے ذریعے واضح کر رہا ہے۔ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب دیتا ہے، لیکن موقع کے لحاظ سے لب و لہجہ بدل جاتا ہے۔ یہ سوانگیوں کی منڈلی ہے اور نل دمینتی کی کہانی ان کا موضوع ہے۔

    سو انگیوں کی منڈلی میں زیادہ آدمی بھی ہوتے تھے۔ جو مختلف پارٹ ادا کرتے تھے۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق بھیس بدلنے کا سامان بھی رکھتے تھے۔ لیکن اکثر منڈلیاں سامان کے بغیر بھی کام چلا لیتی تھیں۔ دیہات میں اب بھی ان لوگوں کی منڈلیاں نظر آجاتی ہیں، لیکن ان کی اگلی سی قدر نہیں رہی۔

    سوانگوں اور رہس دھاریوں میں بہت تھوڑا فرق ہے۔ رہس دھاریوں کا موضوع دھارمک ڈرامے ہیں۔ خصوصاً سری کرشن جی کی زندگی۔ ان کا اصل وطن برج اور متھرا کا علاقہ ہے جہاں کرشن جی کی زندگی کا ابتدائی زمانہ گزرا۔ سوانگی ہر طرح کے کھیل دکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوانگیوں کی سرگرمیاں صرف دیہات تک محدود رہ گئیں۔ رہس دھاری شہروں تک پہنچے اور جہاں تک گئے ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ اودھ کے آخری بادشاہ واجد علی شاہ مرحوم کو رہس کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ شاہی محلوں میں رہس ہوتی تھی، بادشاہ کنھیا بن کے چھپ جاتے تھے اور گوپیاں انہیں ڈھونڈنے نکلتی تھیں۔ ہندوستان میں تھیٹر کی بنیاد بھی رہس ہی سے پڑی۔ یعنی رہس کو سامنے رکھ کر اندر سبھا کا ناٹک کھیلا گیا جو ہندوستان میں تھیٹر کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

    سوانگیوں اور رہس دھاریوں کے آغاز کے متعلق تحقیق کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستانی ڈرامہ جو بڑے عروج پر پہنچ چکا تھا، جب راجوں مہاراجوں کی سرپرستی سے محروم ہوگیا تو اس کی جگہ سوانگ اور رہس نے لے لی۔ لیکن یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی، ممکن ہے کہ سوانگ ہندوستانی ڈرامے کی ابتدائی صورت ہو۔ جب ڈرامے نے ترقی کی تو کالی داس، بھوبھوتی، شدرک بھاش، ہرش وغیرہ جیسے مصنف مل گئے تو وہ حکومتوں کے مرکزوں اور بڑے بڑے شہروں میں تو بہت اونچے درجے پر جا پہنچا۔ لیکن دیہات میں اس کی حالت جوں کی توں رہی۔ یعنی اس نے سوانگ کے دائرے سے قدم باہر نہیں نکالا۔

    باقی رہے رہس دھاری، تو ان کا معاملہ ہی الگ ہے کیونکہ رہس کا موضوع کرشن جی کی زندگی ہے، اور یہ اور بات ہے کہ بعض رہس دھاریوں نے اپنے موضوع کو محدود نہیں رکھا اور آگے چل کر مختلف قسم کے ناٹک دکھانے شروع کر دیے۔ رہس دھاری بھی اگرچہ سوانگیوں ہی کا ایک گروہ ہیں لیکن انہیں جو عروج حاصل ہوا وہ سوانگیوں کو کبھی نصیب نہیں ہو سکا۔ اکثر رہس دھاری بھیس بدلنے میں خاص اہتمام کرتے ہیں، پھر انہیں راگ ودیا میں بھی کسی قدر مہارت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سوانگی صرف دیہاتیوں کے ڈھب کی سیدھی سادی دھنیں یاد کرلینا کافی سمجھتے ہیں۔ رہس دھاریوں کے قدر دان اب صرف چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں رہ گئے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔

    بہروپیے بھی سوانگیوں کے بھائی بند ہیں۔ سوانگیوں کی منڈلیاں ہوتی ہیں۔ بہروپیا اپنے ہنر کی بدولت کماتا کھاتا ہے۔ بہروپیے طرح طرح کے بہروپ بھرتے ہیں اور جو لوگ ان کے بہروپ سے دھوکا کھا جاتے ہیں ان سے انعام کے طالب ہوتے ہیں۔ سوانگ اور بہروپ صرف ہندوستان پر ہی موقوف نہیں۔ ایشیا کے اکثر ملکوں خصوصاً چین میں اب تک ایسی ناٹک منڈلیاں موجود ہیں جو سوانگیوں اور رہس دھاریوں سے بہت ملتی جلتی ہیں اور تو اور یورپ کے دیہات میں جو راہ باٹ سے کٹے ہوئے ہیں ایسی منڈلیاں مل جائیں گی جو پرانے انداز کے چھوٹے چھوٹے ڈرامے دکھاتی ہیں۔

    غرض بھاٹ، سوانگی، رہس دھاری، بہروپیے کہنے کو اب بھی موجود ہیں، لیکن اصل میں ان کا زمانہ ختم ہو گیا۔ وہ ہندوستان کی پرانی تہذیب کی آخری یادگار ہیں جو چاہے ملک کے کسی گوشے میں بیس تیس بلکہ سو پچاس تک یوں ہی پڑی رہیں۔ لیکن نئے زمانے میں ان کے لیے کہیں بھی گنجائش نہیں نکل سکتی۔ آج ان کی حیثیت مدھم نقوش کی ہے۔ کل دیکھیے گا کہ یہ پھیکے پھیکے نقوش بھی بالکل مٹ گئے اور سادہ ورق باقی رہ گیا۔

  • مانگے کی چیز برتنا!

    مانگے کی چیز برتنا!

    چراغ حسن حسرت کا یہ مضمون اُن کے قلم کی شوخی و ظرافت اور مزاح کی طاقت سے ایک نہایت دل پذیر تحریر کے ساتھ ہمارے سماجی رویوں پر گہری چوٹ ہے۔ حسرت نے یہ شگفتہ پارے کئی سال پہلے تحریر کیے تھے، مگر اس کی افادیت آج بھی وہی ہے، جو اس دور میں رہی ہوگی۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد کے مقبول ترین قلم کاروں میں سے ایک تھے۔

    حسرت اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں۔

    پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔

    اصل مضمون تو بیری پین کا ہے، اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ماحصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے، نہیں تو دل پر جبر کیجیے، لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔ بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھیے۔

    ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجیے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ اور کہتے چلے آئیں ہیں کہ معنی کہتے چلے جائیں گے۔

    میں نے عہد جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو، لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار، دیار، شمار قافیہ ہو تو حیات مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو جائے تو اور بات ہے۔۔۔ لیکن اس بحث کو چھوڑیے اور ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنی ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔

    غرض زندگی مستعار ہے۔ اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں لیکن مجھے تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔ مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا لیکن جیب میں دیا سلائی نہیں۔ یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آیا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگایا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہو کے رہ گیا۔

    یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے اور ہمیشہ بہت موثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہے کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے۔ پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس داد و ستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا، برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔ چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقعہ سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔

    آخر زندگی کا مقصد اس کے سوا اور ہے بھی کیا کہ خوش ہونے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اگر مانگے کی چیز برتنا زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے اور اللہ کی مخلوق کو خوش رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے تو اسے برا کون کہتا ہے۔ وہ تو ایک طرح کی عبادت ہے عبادت۔

    اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادوں کی مانگے تانگے کی چیزوں سے اللہ کی مخلوق کو خوش کرنے کا کام کیسے لیا جائے یا لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے پڑوس میں کوئی کوٹھی ہے اور کوٹی میں کوئی مالی ہے تو اس سے گھاس چھیننے کا کھرپا مانگ لائیے۔ اس بات پر چونک نہ پڑیے۔ حاشا و کلا میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ میں آپ کو گھسیارا یا مالی سمجھتا ہوں یا میرے نزدیک کھرپا آپ کے مصرف کی کوئی چیز ہے۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہو کہ جب آپ مالی سے کھرپا مانگیں تو اسے اس خیال سے کتنی طمانیت حاصل ہوگی کہ اس کا کھرپا بھی بڑے کام کی چیز ہے یعنی وہ اپنے پڑوسی سے عاریتاً کھرپا دے کے اس کی گردن اپنے بار احسان سے جھکا سکتا ہے۔

    آپ کو مالی کھرپا دینے سے ہر گز انکار نہیں کرے گا۔ اور انکار کرنے کی وجہ بھی کیا ہو سکتی ہے۔ وہ تو الٹا آپ کا احسان مند ہوگا کہ احسان اٹھانا گوارا کر لینا بیچارے مالی کے لئے کتنا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے۔ وہ مہینوں لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر کرتا رہے گا۔ برسوں اس کے گن گائے گا۔ جس سے کہے گا کہ یہ صاحب جو پڑوس میں آکے ٹکے ہیں بہت شریف آدمی ہیں، ابھی کچھ دن ہوئے کہ مجھ سے کھرپا مانگ کر لے گئے تھے، جانے کیا ضرورت تھی، چاہتے تو نوکر کو بھیج دیتے، لیکن وہ خود آئے اور کھرپا مانگ کر لیے گئے اور یہ نہیں بلکہ چلتے وقت اس طرح میرا شکریہ ادا کیا کہ جیسے میں کہیں کا نواب ہوں اور جب بچے رات کو سوتے وقت کہانی کے لیے ضد کریں گے تو مالی اپنے پڑوسی بابو صاحب اور اپنے کھرپے کا قصہ لے بیٹھے، اور خدا جانے کتنی نسلوں تک یہی واقعہ کس قدر تغیر و تبدل کے ساتھ روتے بچوں کو بہلانے اور منانے کے کام آتا رہے گا۔

    یہ جو کچھ میں نے کہا ہے مثال کے طور پر کہا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ صرف مالی سے مانگیے اور کھرپا ہی مانگیے۔ مالی ہی سے نہیں اڑوس پڑوس میں جتنے لوگ ہیں سب سے مانگیے۔ راستہ چلتوں سے مانگیے۔ دوکانداروں پر اعتماد کریں تو ان سے مانگیے۔ درزی سے انگشتانہ قینچی، سوئی یا ہو سکے تو کپڑے سینے کی مشین مانگ لائیے۔ بڑھئی سے بسولا، لوہار سے ہتھوڑا، سقے سے مشک غرض کہ جس گھر پر اداسی چھائی ہوئی نظر آئے وہاں سے کوئی نہ کوئی چیز مانگ لائیے۔ اکثر لوگوں کی زندگی تو اس خیال نے تلخ کر رکھی ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے۔ نہ مال ہے نہ دولت، نہ اثاثہ نہ جائیداد، نہ وہ کسی پر احسان کرنے کے قابل ہیں نہ کوئی احسان اٹھانے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی چیز مانگنا ان پر احسان کرنا ہے کیونکہ اس طرح ان کا بھی کوئی مصرف ہے۔ وہ بھی دوسرے انسانوں پر احسان کر سکتے ہیں۔ غرض مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے تو آپ بھی خوش دوسرے بھی خوش۔ دوسروں کو یہ احساس کہ وہ احسان کرنے کے قابل ہیں اور آ پ کو یہ احساس کہ آپ لوگوں کے احسان اٹھا کے ان کی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

    اب فرمائیے دنیا میں اس سے بڑھ کر نیکی اور کیا ہوگی کہ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مانگے کی چیز برتنے میں اپنی سبکی سمجھتے ہیں۔ کیسی ہی ضرورت کیوں نہ آپڑے کسی سے مانگیں گے نہیں۔ اس عادت نے ان کی طبیعت میں اکل کھرا پن پیدا کردیا ہے۔ مزاج میں شگفتگی نام کو نہیں۔ بات کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس رو ہی دیں گے۔ گھر میں بیوی سے چخ چلتی ہے، باہر ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان سے ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ ایسے لوگ چاہے مالی لحاظ سے کتنے ہی آسودہ کیوں نہ ہوں ان کی زندگی ہمیشہ تلخ رہے گی۔

    مجھے ایک شخص نے بتایا ہے کہ ان کا بچپن سے یہی حال ہے۔ اسکول میں تھے، جب بھی مانگے تانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اس میں کچھ زیادہ قصور نہیں۔ تربیت ہی ناقص ہوئی ہے ورنہ کون ہے جو اسکول میں مانگے کی چیز برتنے کو معیوب سمجھے۔ ہمارے ملک کے اسکولوں میں جہاں اور بہت سی باتیں سکھائی جاتی ہیں وہاں مانگے کی چیزیں برتنا بھی سکھایا جاتا ہے اور سکھایا کیا جاتا ہے خود آجاتا ہے۔ لڑکے ایک دوسرے سے قلم، دوات، کتاب، پنسل، ربڑ مانگ کر برتتے ہیں اور اس طرح ان کی زندگی ہنسی خوشی گزر جاتی ہے۔ لیکن اسکولوں میں چیزیں مانگنا محض اختیاری مضمون ہے لازمی مضمون قرار دے کر اسکول کے نصاب میں شامل کر لیا جائے اور یہی نہیں بلکہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کو تربیت دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں۔

    مانگے کی چیزیں برتنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چیزوں کو احتیاط سے برتنے کا ڈھنگ آجاتا ہے۔ اپنی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن دوسرے کی چیز کو برتتے وقت انسان بڑی احتیاط کرتا ہے اور جو لوگ بچپن ہی سے مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈال لیتے ہیں وہ اپنی چیزیں بھی احتیاط سے برتنے لگتے ہیں۔

    غرض یہ کہ اگر آپ چیزیں برتنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہتے ہیں تو مانگے تانگے کی چیزیں استعمال کیجیے اور اگر آپ نے بہت سی ضرورت کی چیزیں خرید لی ہیں اور انہیں برتنے کا سلیقہ نہیں آیا تو جو کوئی مانگنے آئے اسے بے تکلف دے ڈالیے۔ اس طرح آپ کی چیزیں محفوظ رہیں گی۔ اور اس زمانے میں تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ نئی چیز یں نہ خریدی جائیں اور پرانی چیزوں ہی سے کام لیا جائے اور اگر کوئی صاحب اپنی چیزوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی طریقہ نہیں سوجھتا تو میری خدمات حاصل کریں۔

  • آغا حشر مرتے مر گئے، شراب نہ پی!

    آغا حشر مرتے مر گئے، شراب نہ پی!

    یہ آغا حشر کاشمیری کا شخصی خاکہ ہے جس میں مصنّف نے ہندوستان میں تھیٹر کے شیکسپیئر کہلانے والے آغا صاحب کے علمی و ادبی شغف اور معمولات کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری ایّام کی تکالیف کو بیان کیا ہے۔

    آغا حشر برطانوی دور کے ممتاز ڈرامہ نویس اور شاعر تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں تھیٹر کی مقبولیت کو بام‌ِ عروج پر پہنچایا۔ ان کے شخصی خاکے سے یہ سطور پیشِ خدمت ہیں:‌

    وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ادنیٰ قسم کے بازاری ناولوں، اخباروں اور رسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعدالطبیعات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔

    بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی۔ کھڑے ہوگئے۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیاں باندھ کے دی ہیں۔ یکایک آغا صاحب کی نظر پڑ گئی۔ نوکر سے کہہ رہے ہیں کہ پڑیا خالی کر کے لاؤ۔ یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے مجھے اس پر شبلی کا نام لکھا نظر آیا ہے۔

    ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔ طب ہو یا فلسفہ، شاعری ہو یا ادب، کسی موضوع میں بند نہیں تھے۔ بازار سے نئی جوتی منگوائی ہے کسی نے پوچھا آغا صاحب کتنے کو مول لی ہے؟ بس آغا صاحب نے جوتی کے فضائل اور محاسن پر تقریر شروع کر دی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد سننے والوں کو یہ احساس ہوتا تھا کہ اس جوتی کو سچ مچ تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

    آغا جوانی سے شراب کے عادی اور روز کے پینے والے تھے۔ دن ڈھلتے ہی پینا شروع کر دیتے تھے اور بہت مدت گئے تک یہ محفل جمی رہتی تھی۔ وہ چھپ کے پینے کے قائل نہیں تھے۔ سب کے سامنے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بیچ کھیت پیتے تھے اور بوتلوں کی بوتلیں خالی کر دیتے تھے لیکن موت سے کوئی تین سال پیشتر شراب ترک کر دی۔ یوں دفعتاََ شراب چھوڑ دینے سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ رنگت سنولا گئی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ ہڈیاں نکل آئیں اور ایسا روگ لگا جو آخر ان کی جان لے کر ہی ٹلا۔ ڈاکٹروں نے ہر چند کہا کہ تھوڑی مقدار میں روز پی لیا کریں لیکن انہوں نے نہ مانا۔ مرتے مر گئے، شراب نہ پی۔

    ایک صبح میں ان کے پاس جانے کے لئے کپڑے پہن رہا تھا اتنے میں خبر ملی کہ آغا کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں کا خیال تھا جنازہ شہر میں لایا جائے گا۔ اخباروں میں یہ خبر بھی چھپی کہ نیلے گنبد میں نماز جنازہ ہوگی لیکن پھر خدا جانے کیا ہوا کہ یہ ارادہ ترک کر دیا گیا۔ جنازہ کے ساتھ صرف سو سوا سو آدمی تھے۔ انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ہے۔

    (شاعر و ادیب چراغ حسن حسرت کتاب ’مردمِ دیدہ‘ سے اقتباسات)

  • آغا صاحب چومکھی لڑنا جانتے تھے!

    آغا صاحب چومکھی لڑنا جانتے تھے!

    تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کو بامِ عروج پر پہنچانے والے آغا حشر کو ہندوستانی شیکسپیئر کا لقب دیا گیا تھا۔ ان کے فن و شخصیت پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور آغا صاحب کے بعض ہم عصر ادیبوں نے ان سے اپنی ملاقاتوں اور گفتگو کا احوال بھی لکھا ہے۔

    مردم دیدہ چراغ حسن حسرت کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے آغا حشر کی شخصیت پر بھی مضمون شامل کیا ہے۔ اس سے ایک اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے:

    یہ جس زمانے کا ذکر ہے، ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراما آرٹسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب، مائل سب کے سب لنکا کے باون گزے تھے لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔ سنہ 1921ء میں جب مجھے پہلی مرتبہ لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو یہاں آغا حشر کی شاعری کی دھوم تھی۔ان کی نظموں’ موجِ زمزم‘اور ’شکریہ یورپ‘ کے اکثر اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے اور لوگ انہیں آغا کی طرح مٹھیاں بھینچ کر گونجیلی آواز میں پڑھنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ آغا اپنے عروج شباب کے زمانے میں صرف ایک مرتبہ پنجاب آئے لیکن ان کا یہ آنا عوام و خواص، دونوں کے حق میں قیامت تھا۔ انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں ایسی نظم پڑھی کہ روپے پیسے کا مینہ برس گیا اور جو کام بڑے بڑے عالموں سے نہ ہوسکا، آغا نے کر دکھایا۔

    میں سنہ 1925 میں کلکتہ گیا۔ وہاں ان کے ہزاروں مدّاح موجود تھے۔ ان کی زبانی آغا کی زندگی کے اکثر واقعات، ان کے لطیفے، اشعار اور پھبتیاں سنیں۔ کوئی سال بھر کے بعد میں نے ا ن کے ایک مداح سے کہا کہ آغا صاحب سے کب ملوائے گا۔ وہ کہنے لگے’نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ابھی چلو‘۔ ہم بخط مستقیم آغا کے ہاں پہنچے۔صحن سے ملا ہوا ایک وسیع کمرہ تھا۔ اس میں ایک چارپائی اور دو تین کرسیاں پڑی تھیں۔ چارپائی پر آغا صاحب صرف لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے۔ سر پر انگریزی فیشن کے بال، داڑھی منڈی ہوئی،چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم، سرخ و سپید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا۔ محفل میں بیٹھے ہوئے ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ بڑے تپاک سے ملے اور ادبی ذکر و اذکار چھڑ گئے۔ آغا صاحب نے اگرچہ ہزاروں کمائے اور لاکھوں اڑائے لیکن ان کی معاشرت ہمیشہ سیدھی سادی رہی۔ مکان میں نہ نفیس قالین تھے نہ، صوفے نہ کوچ نہ ریشمی پردے نہ غالیچے۔ گھر میں ہیں تو لنگی باندھے، ایک بنیان پہنے کھرّی چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ باہر نکلے تو ریشمی لنگی اور لمبا کرتا پہن لیا۔ میں نے پہلی مرتبہ انہیں اسی وضع میں دیکھا۔

    آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے۔ جس محفل میں جا بیٹھتے، سب پر چھا جاتے۔ جب شام کو صحبت گرم ہوتی، تین تین چار چار آدمی مل کر آغا پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے، لیکن آغا چومکھی لڑنا جانتے تھے۔ حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔ جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا منظور ہوتا اسے اِس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے کہ بیچارا حیران رہ جاتا تھا۔ لیکن آغا کنجڑے قصابوں جیسی گالیاں تھوڑے ہی دیتے تھے۔ انہوں نے گالی کو شعر و ادب سے ترکیب دے کر خوش نما چیز بنا دیا تھا۔

  • مانگے تانگے کی چیزیں

    مانگے تانگے کی چیزیں

    پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔

    اصل مضمون تو بیری پین کا ہے۔ اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ماحصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے، نہیں تو دل پر جبر کیجیے، لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔

    بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھیے۔

    ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجیے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔

    میں نے عہدِ جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو، لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار، دیار، شمار قافیہ ہو تو حیاتِ مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو جائے تو اور بات ہے۔ لیکن اس بحث کو چھوڑیے اور ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنیٰ ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔

    غرض زندگی مستعار ہے۔ اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں لیکن مجھے تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔

    مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا لیکن جیب میں دیا سلائی نہیں۔ یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آیا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگایا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہوکے رہ گیا۔

    یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے اور ہمیشہ بہت مؤثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہے کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے۔ پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس داد و ستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا، برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔

    چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقعہ سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور طنز و مزاح نگار چراغ حسن حسرت کے قلم سے شگفتہ پارہ)