Tag: چراغ حسن حسرت

  • حسرت سے پہلی ملاقات کا قصّہ

    حسرت سے پہلی ملاقات کا قصّہ

    حقیقت یہ ہے کہ اس گنہگار نے ان کو سرشاری کے عالم میں تو کئی بار دیکھا، لیکن جام بکف کبھی نہیں دیکھا۔ اختر شیرانی اور منٹو کی طرح وہ بھی ایک رنِد بلا نوش تھے اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں نے انہیں دیکھا ہی نہیں۔ بلکہ ان سے پہلی ملاقات پُرانی کتابوں کی ایک دکان پر ہوئی جو ایک پہلو سے غور کریں تو حسرت کا دوسرا روپ تھا۔

    یہ دکان اس جگہ واقع تھی جہاں مال پر ”کلاسیک“ کی بغل میں ایک چھوٹی سی گلی روڈ پر جا نکلتی ہے۔ میں وہاں پہلے سے موجود تھا کہ ایک جرنیلی قامت کے بزرگ کرنیلی مونچھیں لگائے داخل ہوئے۔

    ارے، میں نے سوچا، یہ تو اپنے حسرت صاحب ہیں۔ سلام کیا تو اشارے سے جواب ملا جیسے کوئی ناگوارِ خاطر خطا سرزد ہو گئی ہو۔ دکان دار سے انہوں نے پوچھا: کیوں مولانا کوئی اردو فارسی کی نایاب، پرانی کتاب بھی آئی؟ کسی گاہک کی طرف سے یہ سوال گویا بلینک چیک دینے کے برابر تھا۔

    اس نے کہا کہ چھاپے کی کتاب تو نہیں ایک قلمی کتاب ہاتھ لگی ہے۔ بس آپ جیسے شوق والوں کے لیے۔ کہا کہ مولانا، ہم تو مطبوعہ کے مشتاق ہیں، مخطوطہ ہو تو اورینٹل کالج لے جائیے۔ میں اس فقرے کا مزہ لینے لگا: مطبوعہ کے دوسرے معنے ہوئے دل پسند عورت اور مخطوطہ گویا وہ عورت جس کے ڈاڑھی مونچھ نکل آئی ہو۔ دکان دار کے تو یہ فقرہ سر سے گزر گیا، سیدھا سا جواب دیا کہ کالج والے تو ادھر آتے ہی نہیں، بس آپ جیسے ایک دو مہربان کبھی آ جاتے ہیں۔ ایک یہ لڑکا ہے، بی اے میں پڑھتا ہے اور یہ ہمارا وطنی ہے۔ حسرت صاحب نے مجھے نظر انداز کرتے ہوئے کہا: تو مولانا وہی کتاب دکھائیے۔ کھول کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔

    میں نے کنکیھوں سے جھانکا تو شیفتہ کا ”تذکرہ گلشنِ بے خار“ تھا۔ خیال آیا کہ 1857ء سے پہلے کی چھپی ہوئی کتابیں دیکھنے میں کتابت شدہ مسوّدے کی طرح لگتی ہیں۔ اجازت لے کر اسے دیکھا تو شروع سے آخر میں مطبع کا حوالہ موجود تھا۔ دکان دار کو بتایا تو کہنے لگا کہ تم اچھے ہمارے وطنی ہو، ہمارے مال کی قیمت کم کرتے ہو۔ حسرت نے کہا: مولانا، پیسے تو آپ کو اتنے ہی ملیں گے جتنے میری جیب میں بچے ہیں اور فوراً ہی دس دس کے پانچ نوٹ نکال کر میز پر دھر دیے۔

    میں نے دکان دار سے کہا کہ آج تو ہمارے وطن کی آبرو رکھو اور دو نوٹ اٹھا کر حسرت صاحب کو واپس کر دیے۔ بولے کہ یہ کتاب میں آج تیسری مرتبہ خرید رہا ہوں۔ ایک جنگ میں جاتی رہی اور ایک سرحد پار کرنے سے پہلے لیکن یہ نسخہ زیادہ پرانا ہے اور بے حد صاف ستھرا، تیس روپے میں تو سمجھو مفت ہے اور ہاں، مجھ سے مخاطب ہوئے، آپ کا وطن مالوف؟ کہا کہ امرتسر شہر تھا عالم میں انتخاب۔

    خوب، صاحبِ دکان کو کیسے جانتے ہیں؟ کہا کہ وہاں ایک افغانی پریس ہُوا کرتا تھا، یہ بڑے خان صاحب کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ کہا کہ ارے اُن سے تو باری صاحب کے ساتھ ایک بار ملا تھا۔ اب کہاں ہیں؟ جی وہ بھی لوہاری دروازے کے باہر پرانی کتابوں کی ایک دکان کرتے ہیں۔ بولے کہ اس وقت تو دفتر جانے کی جلدی ہے، آپ چلیں تو چائے وہاں پئیں اور گورو کی نگری کو یاد کریں۔

    مجھے معلوم تھا کہ سڑکوں پر پیدل مارچ کیا کرتے ہیں، کہا کہ تانگالے لیتے ہیں۔ ذرا کی ذرا ان سے ملا کر دفتر واپس پہنچا دے گا۔ وہاں مسلم مسجد کے پہلو میں شمس الدین کے یہاں بھی جھانکنا چاہیے۔ پہلے دست فروش تھے، اب دکان کر لی ہے۔

    تانگے میں بیٹھتے ہوئے کہا: مولانا یہ دست فروش کس زبان کا کلمہ ہے اور کیا معنے دیتا ہے؟ سمجھ گیا کہ امتحان لیتے ہیں، ایک سعادت مند شاگرد کی طرح جواب دیا کہ ایرانی محاورے میں پھیری والے کو کہتے ہیں۔ خوب، تو گویا دست بدست بیچنے والا مگر آپ کہاں پڑھتے ہیں؟ بتایا کہ گورنمنٹ کالج میں، فارسی آنرز لے رکھی ہے۔ کہنے لگے: یہ فارسی صوفی تبسم سے تو نہ سیکھی ہو گی، ہاں عابد صاحب نے (عابد علی عابد) تھوڑی سی رٹ رکھی ہے اگرچہ بولتے زیادہ ہیں۔ سمجھ گیا کہ یہ تو بزرگانہ چشمکیں اور چونچلے ہیں، طلبہ ان میں کیا دخل دیں۔

    پوچھا کہ آپ تو کلکتہ میں رہے ہیں وہاں سنا ہے کہ خاصے ایرانی موجود ہیں۔ کہنے لگے: ہاں مگر ان کا محاورہ ہمیں اجنبی لگتا ہے۔ میں نے ایک بار محمد علی جمال زادے کا ایک افسانہ ترجمہ کرنا چاہا ”مرزا جعفر حلّاج لیڈر کیسے بنا“ تو اصفہانی چائے والوں کے یہاں جو ایرانی ملازم ہیں اور اُردو بھی جانتے ہیں، ان سے جا جا کے پوچھنا پڑا۔ سبحان اللہ، روزمرہ بول چال میں کیسی بلاغت پیدا کی ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے جان نکل گئی۔

    دونوں دکانوں کا ایک چکر لگوا کر انہیں ”امروز“ پر چھوڑا کہ مجھے کہیں اور جانا تھا۔ بولے کہ آئیے کبھی۔ جانے کا موقع تو دیر تک نہ ملا البتہ سیکنڈ ہینڈ بک شاپس پر کبھی کبھار ملنا ہوتا رہا اور ایک مرتبہ وہیں چھوٹے خان صاحب کی دکان پر چائے منگا کر پی گئی کہ اس دن کہیں سے لُوٹ کے مال میں مشہور کائستھ استادِ تاریخ آشیربادی لال سریواستو کی فارسی کتابیں بکنے کو آئی تھیں۔

    (مظفر علی سید نے اردو کے صف اوّل کے طنز نگار، ممتاز ادیب، شاعر اور مترجم چراغ حسن حسرت سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال اپنی کتاب "یادوں کی سرگم” میں شامل کیا ہے)‌

  • ‘‘ کون آغا حشر؟’’

    ‘‘ کون آغا حشر؟’’

    ایک دن آغا عصرِ جدید کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ کچھ اور لوگ بھی جمع تھے۔ آغا باتیں کر رہے تھے۔ ہم سب بُت بنے بیٹھے سن رہے تھے۔ اتنے میں سید ذاکر علی جو ان دنوں کلکتہ خلافت کمیٹی کے سکریٹری تھے اور آج کل مسلم لیگ کے جائنٹ سکریٹری ہیں، پھرتے پھراتے آ نکلے۔

    تھوڑی دیر وہ چپکے بیٹھے آغا کی باتیں سنا کیے، لیکن پھر ان کے چہرے سے بے چینی کے آثار ظاہر ہونےلگے۔ کچھ تو انھیں یہ بات ناگوار گزری کہ ایک شخص بیٹھا باتیں کیے جارہا ہے اور کسی دوسرے کو بات نہیں کرنے دیتا کیوں کہ سید صاحب خود بھی بڑے بذلہ سنج اور لطیفہ گو بزرگوار ہیں اور انھوں نے اگلے پچھلے ہزاروں لطیفے یاد کر رکھے ہیں اور غالباً اس وقت انہیں کوئی نیا لطیفہ یاد آگیا جسے سنانے کے لیے وہ بے قرار تھے۔ دوسرے آغا کی گفتگو میں خود ستائی کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ اور وہ اپنی شاعری کا تذکرہ کر رہے تھے اور اپنے بعض ہم عصر شعرا پر چوٹیں بھی کرتے جاتے تھے۔

    سید ذاکر علی کو ان کی باتوں پر غصہ بھی تھا اور حیرت بھی۔ جی ہی جی میں کہہ رہے تھے کہ خدا جانے یہ کون شخص ہے جو اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں کا ذکر اس انداز میں کر رہا ہے گویا سب ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست اور بچپن کے رفیق ہیں۔ آخر ان سے ضبط نہ ہوسکا اور کہنے لگے۔ ‘‘یہ کون بزرگوار ہیں، ذرا ان سے میرا تعارف تو کرادیجیے۔’’

    مولانا شائق بولے۔ ‘‘آپ ان کو نہیں جانتے۔ آغا حشر یہی ہیں، آغا صاحب یہ سید ذاکر علی ہیں کلکتہ خلافت کمیٹی کے نئے سکریٹری۔ مولانا شوکت علی نے ان کو بمبئی سے بھیجا ہے۔’’

    ہم سمجھتے تھے کہ اس معرفی کے بعد سید ذاکر علی کا استعجاب دور ہوجائے گا، لیکن وہ بڑی سادگی سے کہنے لگے۔ ‘‘آغا حشر! کون آغا حشر؟’’ بس ان کا یہ کہنا قیامت ہوگیا۔

    آغا صاحب کڑک کر بولے: ‘‘آپ نے آغا حشر کا نام نہیں سنا۔’’ سید ذاکر علی نے جواب دیا ‘‘نہیں صاحب! میں نے آج پہلی مرتبہ جناب کا نام سنا ہے۔’’ پھر پلٹ کے مولانا شائق سے پوچھنے لگے:

    ‘‘آغا صاحب کا شغل کیا ہے؟ ’’مولانا شائق نے فرمایا: ‘‘ہائیں سید ذاکر علی صاحب! آپ نے واقعی آغا حشر کا نام نہیں سنا۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟’’ انہوں نے بڑی مسمی صورت بنا کے کہا:

    ‘‘مجھ سے قسم لے لیجیے، میں نے آج تک یہ نام نہیں سنا۔’’ خدا جانے وہ بَن رہے تھے یا واقعی انہوں نے آغا کا نام نہیں سنا تھا۔ ہم سب کو حیرت تھی کہ یہ شخص کلکتہ خلافت کمیٹی کا سکریٹری، مدتوں اہلِ ذوق کی صحبت میں رہ چکا ہے۔ شعر و شاعری کا بھی مذاق رکھتا ہے، لیکن آغا حشر کو نہیں جانتا۔

    خیر مولانا شائق احمد نے انہیں سمجھایا کہ دیکھیے یہ آغا حشر ہیں۔ بہت بڑے شاعر، بہت بڑے ڈراماٹسٹ، لوگ انھیں ہندوستان کا شیکسپیئر کہتے ہیں۔ تو ان کی سمجھ میں بات آگئی اور کہنے لگے:

    ‘‘اچھا تو آپ شاعر ہیں۔ میں اب سمجھا۔ خیر اب اس بحث کو جانے دیجیے، اپنا کوئی شعر سنائیے۔’’ آغا بھرے بیٹھے تھے۔ یہ سن کے آگ بگولا ہوگئے، اور کہنے لگے:

    ‘‘سنیے جناب! آپ کو شعر سننا ہے تو خلافت کمیٹی کے لونڈوں سے سنیے۔ میں ایسا ویسا شاعر نہیں کہ ہر ایرے غیرے پچ کلیان کو شعر سناتا پھروں۔’’ پھر جو انھوں نے تقریر شروع کی تو اللہ دے اور بندہ لے۔

    ہمارا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں اور سید ذاکر علی پر تو سیکڑوں گھڑے پانی کے پڑ گئے۔

    (اردو کے نام وَر ڈراما نویس اور شاعر آغا حشر سے متعلق چراغ حسن حسرت کے ایک مضمون سے انتخاب)

  • منٹو  کی "بکواس” پر حسرت کی برہمی

    منٹو کی "بکواس” پر حسرت کی برہمی

    میں نے صبح اخباروں میں دیکھا کہ حسرت صاحب (چراغ حسن حسرت) کے صحت یاب ہونے کی خوشی میں اردو ادب کے اور مولانا کے دوست وائی۔ ایم۔ سی۔ اے میں ایک جلسہ کررہے تھے۔ حسرت صاحب سے چوں کہ مجھے عقیدت ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے اپنا عزیز سمجھتے ہیں، اس لیے میں نے اپنا فرض سمجھا کہ ان کے بارے میں جو میرے احساسات ہیں، قلم بند کروں اور اس جلسے میں حاضرین کو پڑھ کر سناؤں۔

    ریڈیو اسٹیشن سے میں سیدھا وائی، ایم، سی، اے پہنچا۔ ہال میں سو ڈیڑھ سو آدمی تھے۔

    میں نے ایک نظر حسرت صاحب کی طرف دیکھا۔ ان کی بڑی بڑی مونچھیں ویسی کی ویسی تھیں، مگر بے حد لاغر تھے۔ پھولوں کے ہاروں سے لدے پھندے ایک ایسے بوڑھے دولھا دکھائی دے رہے تھے جنہیں پانچویں، چھٹی شادی کرانے کا شوق چڑھ آیا ہو۔

    بہرحال میں نے دل ہی دل میں اس بات کا افسوس کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کی شدید علالت کے دوران میں عیادت کے لیے نہ گیا، اپنا مضمون پڑھنا شروع کیا۔

    حسرت صاحب اپنے موڈ میں نہیں تھے، شاید تعریفوں کی بھرمار اور پھولوں کے بوجھ سے ان کی طبیعت مکدر ہو چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس سعادت مند کے احساسات کو بھی جو کافی بے تکلف تھے، گوارا نہ کیا۔ جب میں ایک صفحہ پڑھ چکا تھا تو انہوں نے مجھے اور صاحبِ صدر کو مخاطب کرکے کہنا شروع کیا کہ یہ کیا بکواس ہے؟؟؟

    بکواس تو میں عام کرتا ہوں، لیکن جہاں تک حسرت صاحب کا تعلق ہے، ان کے متعلق میں کبھی بکواس نہیں کرتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ میں نے ان کے کردار و اطوار کے متعلق چند ایسی باتیں اپنے ٹھیٹ افسانوی مگر صاف گو انداز میں بیان کردی ہیں جو ان کی طبعِ نازک پر بار گزری ہوں لیکن میرے پھکڑ پن کے پیشِ نظر اور اس محبت کو سامنے رکھتے ہوئے جو مجھے ان سے ہے اور یقیناً ان کو بھی ہے، مجھے معاف کر دینا چاہیے تھا۔

    جب میں نے دیکھا کہ ان کی خفگی زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے تو میں نے صاحبِ صدر سے کہا۔

    ’’اگر حسرت صاحب چاہیں تو اپنا مضمون پڑھنا بند کر دیتا ہوں۔‘‘ مگر انہوں نے ارشاد فرمایا کہ’’نہیں مضمون پڑھنا جاری رکھو۔‘‘

    سخت گرمی تھی، کچھ حسرت صاحب کے مزاج کی بھی۔ میں پسینے میں شرابور تھا۔ مضمون ختم ہوا تو میں نے حسرت صاحب کے پاس فرش پر بیٹھ کر معذرت چاہی، لیکن اس وقت وہ در گزر کرنے یا میرے احساسات کے خلوص کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ میں نے کہا، ہٹاؤ یہ شخص اگر نہیں مانتا تو نہ مانے اور اسٹیج سے اتر کر مصور پاکستان جناب عبدالرحمن چغتائی صاحب کے پاس بیٹھ گیا۔ انہوں نے کمال شفقت سے میرا تکدر دور کیا۔ اس کے بعد میں وہاں سے چلا گیا۔

    دوسرے روز سننے میں آیا کہ سعادت حسن منٹو کی وائی، ایم سی، اے میں حجامت ہوتے ہوتے رہ گئی کیوں کہ حسرت صاحب کے مداحوں کو میری ہرزہ سرائی بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ ایک بیان یہ بھی ہے کہ وہاں کچھ مداح میرے بھی تھے جو ہر اس شخص کی حجامت کرنے کے لیے تھے جو میری حجامت پر آمادہ ہوتا۔ اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں تو مزہ آجاتا ہے۔ اس جلسے میں جتنے بھی اصحاب تھے، ان کی مفت میں حجامت ہو جاتی اور میں تو چچا غالب کا یہ شعر پڑھ کر ان تمام حجاموں کو سناتا۔

    ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
    عجب آرام دیا اس بے پر و بالی نے مجھے

    یہ ایک ایسی بات ہے جس کے متعلق بہت کچھ کہا سُنا جاسکتا ہے۔ حسرت صاحب کی تقدیس کسی ولی یا پیغمیر کی تقدیس نہیں ہوسکتی۔ ان کی شخصیت سے ان کی صحافت نگاری اور مزاح نویسی ہی سے کسی کو عقیدت ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح مجھے کئی لوگ محض باتیں بنانے والا سمجھتے ہیں اور افسانہ نگار نہیں مانتے، ان کو بھی چند لوگ محض ایک کالم نگار سمجھتے ہوں مگر اس میں خفا ہونے کیا بات ہے۔

    (سعادت حسن منٹو کے مضمون سے اقتباس)

  • "جانے دیجیے، یہ تصوف کا معاملہ ہے!”

    "جانے دیجیے، یہ تصوف کا معاملہ ہے!”

    ریڈیو پاکستان کے رائٹرز یونٹ میں چراغ حسن حسرت کی سربراہی میں احمد فراز بھی کام کرتے تھے۔

    حسرت صاحب نے احمد فراز سے کہا کہ مولانا، داتا گنج بخش پر فیچر تیار کیجیے۔

    احمد فراز نے فیچر لکھنے کی تیاری شروع کی۔ دوسرے دن حسرت صاحب نے پوچھا۔ مولانا، کچھ ہوا؟

    احمد فراز بولے کہ جی ہاں کچھ ہوا تو ہے۔

    یہ سن کر حسرت صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ سگریٹ کا لمبا کش لیا اور بولے۔

    ”مولانا جانے دیجیے۔ یہ تصوف کا معاملہ ہے اور آپ ٹھہرے ترقی پسند، آپ کا کیا اعتبار خدا کو خدا صاحب لکھ دیں گے۔

    احمد فراز نے اس فیچر میں تو خدا کو خدا صاحب نہیں لکھا تھا، مگر اپنی شاعری میں وہ کچھ نہ کچھ تو کرتے ہوں گے کہ لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔

    مولانا چراغ حسن حسرت عالم آدمی تھے۔ فارسی و اردو کلاسیکی ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ لفظوں کے پارکھ ۔ اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ ماضی میں اسم خدا اور اللہ کے ساتھ صاحب کا لفظ مستعمل رہا ہے۔ بس ان کا خیال ہوگا کہ اب اس لفظ کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے۔

    (ممتاز ادیب انتظار حسین کی کتاب ”ملاقاتیں“ سے انتخاب)

  • بزمِ اقبال میں چند لمحے

    بزمِ اقبال میں چند لمحے

    چراغ حسن حسرت

    میں نے علامہ اقبال کو جلسوں میں بھی دیکھا ہے، پارٹیوں، دعوتوں اور پنجاب کونسل کے اجلاسوں میں بھی، لیکن جب ان کا ذکر آتا ہے تو میرے تصور کے پردے پر سب سے پہلے ان کی جو تمثال ابھرتی ہے وہ ان کی نج کی صحبتوں کی تصویر ہے۔

    شام کا وقت ہے، وہ کوٹھی کے صحن میں چارپائی پر ململ کا کرتا پہنے بیٹھے ہیں۔ چوڑا چکلا سینہ، سرخ و سپید رنگت، زیادہ سوچنے کی وجہ سے آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں۔ چارپائی کے سامنے کرسیاں بچھی ہوئی ہیں، لوگ آتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں ہر قسم کے لوگ ہیں، شاعر، لیڈر، اخبار نویس اسمبلی کے ممبر، وزیر، پارلیمنٹری سیکرٹری، طالب علم، پروفیسر، مولوی۔ کوئی آدھ گھنٹے سے بیٹھا، کوئی گھنٹا بھر، لیکن بعض نیاز مند ایسے ہیں جو گھنٹوں بیٹھیں گے۔ اور خاصی رات گئے گھر جائیں گے۔

    حقہ کا دور چل رہا ہے۔ علمی ادبی اور سیاسی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقبال سب کی باتیں سنتے ہیں اور بیچ میں ایک آدھ فقرہ کہہ دیتے ہیں۔ جو خود اس موضوع پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیلاب اندر چلا آ رہا ہے۔ اردو میں باتیں کرتے کرتے پنجابی کی طرف جھک پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی انگریزی کا ایک آدھ فقرہ زبان پر آجاتا ہے، لیکن بات میں الجھاؤ بالکل نہیں۔ جو کہتے ہیں دل میں اتر جاتا ہے۔

    میں نے کبھی ان کی صحبتوں میں اپنے آپ کو ان کے بہت قریب پایا ہے، لیکن مجھے بارہا ایسا محسوس ہوا ہے کہ مجھ سے دور ہیں۔ بہت دور شاذ و نادر ہی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے کہ جو انہیں ہم دنیا والوں کے قریب لے آتا ہے۔

    ان کی گفتگو علم و حکمت اور فلسفہ و سیاست کے متعلق ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ لطیفے اور پھبتیاں بھی کہتے تھے۔ میں نے انہیں موسیقی اور پتنگ بازی کے متعلق بھی باتیں کرتے سنا ہے۔ ان کے ہاں آنے والوں میں صرف اہلِ علم ہی نہیں تھے ایسے لوگ بھی تھے جنہیں علم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

  • آپ دونوں کا وزن میں نہیں کھینچ سکتا!

    آپ دونوں کا وزن میں نہیں کھینچ سکتا!

    نمک دان کے روحِ رواں عبدالمجید لاہوری چوہان اور حضرت چراغ حسن حسرت بھاری بھرکم تھے۔

    وہ سائیکل رکشا کا دور تھا۔ ایک مرتبہ دونوں کو کسی ضروری کام سے صدر جانا پڑا۔ ریڈیو پاکستان کے سامنے تاج محل سنیما ہوا کرتا تھا، دونوں نے وہاں سے رکشا کیا اور کسی طرح پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے۔

    ابھی ریگل سنیما سے دور تھے کہ عبدالمجید لاہوری کو پان یاد آگئے۔ انہوں نے ایک جگہ رکشا رکوایا اور اتر کر سامنے فٹ پاتھ پر موجود پان کے کیبن کی طرف بڑھے۔ اتنے میں حسرت کو یاد آیا کہ اپنے لیے سگریٹ بھی لے لینا چاہیے۔

    انھوں نے رکشے والے سے کہا کہ اتر کر میرے ساتھی کو سگریٹ کے لیے کہہ دو، لیکن اس نے بہانہ کر دیا کہ تھکا ہوا ہوں، آپ خود ہی جائیں۔ مجبوراً حسرت کو رکشے سے اترنا پڑا۔ ادھر وہ نیچے اترے اور اُدھر رکشے والا چل پڑا۔ حسرت نے یہ دیکھا تو آواز لگائی۔

    ارے کہاں بھائی، ٹھہرو ہمیں تو صدر جانا ہے۔

    رکشے والے نے ہاتھ جوڑتے ہوئے زور سے کہا، بابا معاف کرو، آپ دونوں کا وزن میں نہیں کھینچ سکتا، کوئی اور رکشا دیکھ لو۔

    اچھا یہ کرایا تو لے لو۔ رکشے والے نے اس پیش کش کے جواب میں کہا، کرایا بھی آپ رکھیں، آپ اتر گئے یہی بڑی بات ہے۔

    اتنے میں مجید لاہوری واپس آگئے اور رکشے والے کی بابت استفسار کیا تو حسرت مرحوم نے جواب دیا، اوّل تو رکشے والے اٹھاتے نہیں، آج اس نے بٹھا لیا تھا، اور اب ہاتھ جوڑ کر بھاگ نکلا ہے، کرایا بھی چھوڑ گیا۔ یہ سب ہم دونوں کے وزن کی مہربانی ہے۔