Tag: چنگیز خان

  • ہلاکو خان نے اُمُّ البلاد کے ساتھ وہی سلوک کیا جس کے لیے اس کے دادا بھی مشہور تھے

    ہلاکو خان نے اُمُّ البلاد کے ساتھ وہی سلوک کیا جس کے لیے اس کے دادا بھی مشہور تھے

    بغداد کا لاتعداد فوج سے محاصرہ کر لیا گیا۔ چاروں طرف بلندیوں پر سے پتّھر اور مشتعل رال کے گولے شہر والوں پر برسنے لگے اور چالیس روز کے سخت محاصرے کے بعد یہ طے ہوا کہ ہلاکو خاں سے صلح کی جائے۔

    ہلاکو خاں نے دھوکہ دے کر خلیفہ کے خاص افسران کو اپنے کیمپ میں بلایا اور ذرا سے بہانے پر سب کو قتل کر ڈالا۔ آخر کو یہ طے ہوا کہ شہر کو بچانے کے لیے صلح کی جائے۔ چناں چہ خود خلیفہ مع اپنے بھائی اور دونوں بیٹوں اور قریب تین ہزار آدمیوں کے ہلاکو خاں کے خیمے میں گئے۔

    یہ تین ہزار آدمی شہر کے بڑے بڑے قاضی، شیخ، امام اور دوسرے بڑے لوگ تھے۔ ہلاکو خاں نے سب کا بڑی خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ خلیفہ اور تینوں شہزادوں کو شرفِ باریابی بھی بخشا۔

    جب خلیفہ کو ہر طرح کا اطمینان دلا دیا تو ہلاکو خاں نے خلیفہ سے کہا کہ مجھ کو بغداد شہر خاص کی ذرا مردم شماری کرنا ہے لہٰذا حکم بھیج دیجیے کہ تمام مسلح آدمی اور باشندے شہر سے باہر آجائیں۔ چناں چہ جب سب آگئے تو گرفتار کر لیے گئے اور دوسرے روز ہلاکو خاں نے سب کو قتل کر کے خاص بغداد شہر کی تباہی کا حکم دے دیا۔

    شاہی محل کے ایک ہال میں ایک سونے کا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سنہری پرندے بنے ہوئے تھے اور اس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ دوسرے ہال میں جس کا نام ایوانِ فردوسی تھا، نہایت عالی شان جھاڑو فانوس لٹک رہے تھے۔ دیواروں اور چھتوں پر لعل و گوہر کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور ان کا نہایت خوش نما رنگ اس کی زیبائش میں اور بھی چار چاند لگا رہا تھا۔ غرض یہ کہ ایوانِ فردوسی کیا تھا ایک قابلِ دید نظارہ۔

    دریا کے ہر دو کناروں پر میلوں تک آمنے سامنے محل بنے ہوئے تھے اور علاوہ محلات کے باغات بھی تھے۔ دریا کے کنارے کنارے پانی کی سطح تک سنگِ مرمر کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ دریا میں ہزار کشتیاں پڑی ہوئی تھیں جو ذواک کہلاتی تھیں۔ جن پر خوب صورت جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں جو شعاعوں کی طرح سطحِ آب پر لہرا لہرا کر ایک عجیب نظارہ پیدا کر رہی تھیں، جنہوں نے گویا اس سین میں جان ڈال دی تھی۔ اعلیٰ طبقے کے بغدادی انہیں کشتیوں میں بیٹھ کر شہر کے ایک حصہ سے دوسرے میں بغرض سیر و تفریح جاتے تھے۔

    بہت سے گھاٹ دریا کے کنارے میلوں تک پھیلے ہوئے تھے اور ان پر تمام بیڑا لنگر ڈالے رہتا تھا، جس میں بڑی چھوٹی اور جنگی کشتیاں و جہاز ہر قسم کے تھے۔ اس میں اونچے اونچے بلند جنگی جہاز اور ان کے آس پاس پولیس کی کشتیاں تھیں۔

    جامع مسجد نہایت ہی خوب صورت اور عالی شان عمارت تھی۔ ایوان جو کہ قصرُ الخلد کہلاتا تھا، اس کے بیچ میں ایک بڑا زبردست ہرے رنگ کا گنبد بنا ہوا تھا۔ جو قریب اسّی ہاتھ (112 فٹ) اونچا تھا۔ گنبد کی چوٹی پر ایک گھوڑے سوار کا پتلا بنا ہوا تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک بھالا تھا۔ غرض بغداد کیا تھا کہ شہروں میں دلہن۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس قدر زبردست سلطنت کا دارالخلافہ برسوں رہا، جہاں دنیا کی دولت سمٹ کر آگئی تھی۔ غرض یہ تھا وہ جس کی تباہی کا حکم دیا گیا۔

    بغداد کی تباہی کے حالات کا حال قلم بند کرنے کے لیے کسی استاد کے قلم کی ضرورت ہے۔ صنعتی اور علمی خزانے جو کہ بڑی محنت اور جاں فشانی اور بڑی مدت سے بادشاہوں نے اکٹھے کیے تھے، تلف کر دیے گئے اور عرب و عجم کی جو کچھ بھی بچی کھچی تہذیب تھی وہ سب چند گھنٹوں میں تہس نہس کردی گئی۔

    تین روز تک کشت و خون جاری رہا اور تمام گلی کوچوں میں خون کے نالے بہتے رہے اور دریائے دجلہ کا پانی میلوں تک سرخ ہو گیا۔ محلاّت، مساجد اور روضہ جات، سنہری گنبدوں کی وجہ سے جلا کر خاک کر دیے گئے۔ شفا خانوں میں مریض، کالجوں میں طالبِ علم اور استاد تہِ تیغ کر دیے گئے۔ مقبروں میں شیخوں اور اماموں کی لاشیں جلا کر خاک کردی گئیں۔ کتابیں یا تو آگ میں پھینک دی گئیں اور یا دجلہ میں ڈبو دی گئیں۔ اس طرح سے ہزاروں برس کے اکٹھے کیے ہوئے علمی خزانے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دیے گئے اور یہ قوم کی قوم ہمیشہ کے لیے برباد کر دی گئی۔

    چار روز تک مسلسل قتل عام جاری رہا۔ اس کے بعد خلیفہ مستعصم کو بھی مع اس کے لڑکوں اور خاندان والوں کے قتل کردیا گیا۔ کچھ افراد خاندانِ عباسیہ کے البتہ اس غارت گری سے بچ گئے۔ بغداد جو علم اور تہذیب کا مرکز تھا، تہ و بالا کر دیا گیا۔

    (اردو کے مشہور ادیب اور ممتاز طنز و مزاح نگار مرزا عظیم بیگ چغتائی کے مضمون سے انتخاب)

  • منگول باشندے چنگیز خان کا مدفن کیوں‌ دریافت نہیں‌ کرنا چاہتے؟

    منگول باشندے چنگیز خان کا مدفن کیوں‌ دریافت نہیں‌ کرنا چاہتے؟

    چنگیز خان کو تاریخ میں بہادر اور فاتح ہی نہیں‌ ظالم اور سفاک حکم راں بھی لکھا گیا ہے جس کی بہادری کے قصّے اور ظلم کی کئی داستانیں مشہور ہیں۔

    اس منگول سردار کا اصل نام تموجن تھا جو اپنی لیاقت، شجاعت اور سوجھ بوجھ میں مقامی قبائل کے سورماؤں اور سرداروں میں ممتاز ہوا۔ اپنے قبیلے کا سردار بننے کے بعد اس نے دیگر منگول قبائل کی مکمل حمایت اور ہر طرح سے مدد حاصل کرلی اور یوں ایک مضبوط ریاست قائم کرنے میں‌ کام یاب ہوا۔ منگول قبائل نے تموجن کو چنگیز خان کا خطاب دے دیا۔

    چنگیز خان نے ایشیا کا ایک بڑا حصہ فتح کرلیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ طاقت اور تلوار کے زور پر عظیم فاتح بننا چاہتا تھا اور اس کے لیے ہر قسم کا ظلم اور جبر اس کے نزدیک جائز تھا، مگر منگول اسے ایک عظیم حکم راں مانتے ہیں جس نے انھیں‌ عزت اور پہچان دی۔

    بعض مؤرخین کے نزدیک چنگیز خان وہ حکم راں‌ تھا جس نے منگولیا کو مہذب معاشرہ دیا اور ان کا وقار بلند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منگولیا میں چنگیز خان کا نام بڑی عزت اور فخر سے لیا جاتا ہے۔

    کیا آپ نے منگولوں کے اس ہیرو اور تاریخ‌ کے مشہور کردار کے مقبرے کا ذکر سنا ہے؟

    کوئی نہیں‌ جانتا کہ چنگیز خان کہاں‌ دفن ہے اور منگولیا کے باشندے تو یہ جاننا ہی نہیں‌ چاہتے کہ ان کے محبوب حکم راں کی قبر کہاں ہے۔

    شاید یہ بات آپ کے لیے تعجب خیز ہو، مگر اس کی بھی ایک وجہ ہے۔

    منگولیا کے لوگ سمجھتے ہیں‌ کہ چنگیز خان بعد از مرگ بے نشاں رہنا چاہتا تھا اور اگر وہ یہ خواہش رکھتا کہ مرنے کے بعد لوگ اس کی قبر پر‌ آئیں اور اسے یاد کیا جائے تو ایک حکم راں‌ کی حیثیت سے اپنی آخری آرام کے لیے ضرور کوئی وصیت چھوڑتا جس پر عمل کیا جاتا، مگر ایسا نہیں‌ ہے اور اسی لیے کوئی نہیں‌ چاہتا کہ چنگیز خان کی قبر تلاش کی جائے۔

    دنیا کے مختلف ممالک میں شاہان و سلاطین، راجاؤں اور امرائے وقت کے نہایت شان دار اور قابلِ ذکر طرزِ تعمیر کے حامل مقبرے دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن چنگیز خان جیسے نام ور کا کوئی نشان نہیں‌ ملتا جو حیرت انگیز ہے۔

    کہتے ہیں‌ کہ اس بادشاہ نے وصیت کی تھی کہ اس کی تدفین خاموشی سے کی جائے اور قبر کا نشان باقی نہ رہے اور ایسا ہی کیا گیا۔

    چنگیز خان کی موت کو آٹھ صدیاں گزر چکی ہیں، لیکن منگولیا میں‌ کسی کو اس کی قبر تلاش کرنے میں‌ کوئی دل چسپی نہیں‌ ہے۔

    بادشاہ کی وصیت کے علاوہ مقامی لوگوں‌ میں‌ یہ بھی مشہور ہے کہ اگر چنگیز خان کی قبر دریافت کر لی گئی اور اسے کھودا گیا تو یہ دنیا تباہ ہو جائے گی۔

    منگولیائی قدامت پسند ہیں اور مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کا بہت احترام کرتے ہیں اور ان کی حکم عدولی کو اخلاقی جرم تصور کرتے ہیں، اور اس لیے بھی وہ چنگیز خان کی قبر تلاش نہیں‌ کرنا چاہتے۔

    عام لوگ سمجھتے ہیں‌ کہ چنگیز خان کو ‘كھینتی’ پہاڑیوں میں برخان خالدون نامی چوٹی پر دفنایا گیا تھا۔

  • منگول سلطنت کے بانی چنگیزخان کا مقبرہ دریافت

    منگول سلطنت کے بانی چنگیزخان کا مقبرہ دریافت

    بیجنگ: منگولیا میں دریائے آنون کے نزدیک کام کرنے والے مزدوروں نے منگولوں کے سب سے طاقت ور باد شاہ چنگیز خان کا مقبرہ دریافت کرلیا۔

    بیجنگ یونی ورسٹی کی ماہرین آثارقدیمہ کے مطابق دریائے آنون کے نزدیک مزدوروں کو سڑک کی تعمیر کے دوران متعدد ڈھانچے ملے، جن سے اس عہد ساز دریافت کا آغاز ہوا۔

    مقبرے سے کل 68 ڈھانچے ملے ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہےہے کہ یہ مقبرے کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کے ہیں جنہیں اس مقام کو خفیہ رکھنے کے لیے زندہ دفن کردیا گیا ہوگا۔

    مقبرے سے سونے کے سکوں اور چاندی کی اشیا کے اک ڈھیر کے ساتھ ایک طویل القامت مرد کا ڈھانچہ ملا ہے جس کےبارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ چنگیز خان کا ہے۔

    khan-post-1

    مقبرے سے 12 گھوڑوں کی باقیات جبکہ 16 عورتوں کے ڈھانچے بھی ملے ہیں جن کے بارے میں یقین کیا جارہا کہ انہیں منگولوں کے اس عظیم رہنما کی حیات بعد از موت میں آسانیاں فراہم کرنے کے لئے اس کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔

    ماہرین آثار قدیمہ نے کئی قسم کے ٹیسٹ اور تجزیے کرنے کے بات اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مقبرے سے برآمد ہونے والے طویل القامت شخص کی عمر 60 سے 75 سال کے درمیان تھی، اس کا انتقال1215 سے 1235 کے درمیان ہوا تھا اور وہ چنگیز خان ہے۔

    مقبرہ سینکڑوں سال تک دریا کے ساحل کے نیچے رہا تھا یہاں تک کہ دریائے آنون نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور مقبرے کی جگہ پانی سے باہرآگئی۔ سینکڑوں سال تک زیر آب رہنے والے اس مقبرے کی حالت انتہائی خستہ ہے۔

    khan-post-2

    تموجن یعنی لوہے کے نام سے پیدا ہونے والے اس بادشاہ نے اپنی بکھرے ہوئے منگول قبیلوں کو یکجا کرکے بیرونی دنیا پر حملے شروع کیے اوراپنی زندگی میں 31 ملین مربع کلومیٹر سے زائد کا علاقہ قبضہ کیا۔ چنگیز خان کےزیرنگوں چین، سنٹرل ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی یورپ کے علاقے تھے اوران کا نام پوری دنیا کے لیے دہشت کی علامت تھا۔

    KHAN 3

    چنگیز خان نے سنٹرل ایشیا میں قائم خوارزم شاہی اسلامی سلطنت کو تہہ تیغ کرکے رکھ دیا تھا اور اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس کے پوتے ہلاکو خان نے مسلم عظمت کے شاہکار بغداد کو راکھ کا ڈھیر بنا کررکھ دیا تھا۔

    منگولیا سے اٹھنے والی آندھی بلاشبہ اسلام کے مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیا میں زوال کا سبب بنی اور اس کا سہرا منگول سلطنت کے روح رواں چنگیز خان کے سر جاتا ہے جس کی دہشت سے ایشیا ، افریقہ اور یورپ لرزہ براندام تھے اور آج وہ محض ہڈیوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔

  • منگول سردار کو چنگیز خان کا خطاب کیسے ملا

    منگول سردار کو چنگیز خان کا خطاب کیسے ملا

    کراچی: (ویب ڈیسک) چنگیز خان تاریخ ِعالم میں دہشت ، خوف اور بربریت کا ایک بھیانک باب تھا، منگول سردار، دریائے آنان کے علاقے میں پیدا ہوا۔ اصلی نام تموجن تھا جس کا مطلب ہے "لوہے کا کام کرنے والا”۔

    سن 1175ء میں تیرہ برس کی عمر اس کے باپ نے اس کی شادی کر دی، چونکہ شروع ہی سے چنگیز خان نہایت شاہانہ مزاج کا آدمی تھا اس لئے اپنی لیاقت کی بنا پر اسی سال تخت پر متمکن ہوا۔

    جب 1175ء کو جب وہ اپنے قبیلے کا سردار بنا تو دیگر قبائل سے اس کی چپقلش شروع ہو گئی، اس نے تمام قبائل اور حلقوں کو اپنے زیر اثر کرنے کی بھر پور کوشش کی کیونکہ اس وقت منگولیا پر کئی قبائل کی حکومت تھی۔

     پھر صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اس نے سب سرداروں کو اکٹھا کیا اور مل کر دیگر علاقوں کو فتح کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔

     اس مشورے کے بعد وہ بہت مقبول ہو گیا اور دیگر سب سرداروں نے اسے متفقہ طور پر اپنا سردار تسلیم کرلیا اور متفقہ طور پر دریائے آنان کے قریب ایک مجلس میں اسے چنگیز خان کا خطاب بھی دیا۔