Tag: چوتھی برسی

  • انکیتا لوکھنڈے نے سشانت کی چوتھی برسی پر یادگار پوسٹ شیئر کردی

    انکیتا لوکھنڈے نے سشانت کی چوتھی برسی پر یادگار پوسٹ شیئر کردی

    بھارتی اداکارہ انکیتا لوکھنڈے نے سشانت سنگھ راجپوت کی چوتھی برسی پر ان کی ایک یادگار تصویر شیئر کردی۔

    فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام اسٹوری پر انکیتا لوکھنڈے نے سشانت سنگھ اور ان کے کتے فج کی ایک یادگار تصویر شیئر کی ہے۔

    تصویر میں سشانت سنگھ کو گرے رنگ کی سلیو لیس ٹی شرٹ اور شارٹس پہنے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ ان کا کتا بھی تصویر میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

    اداکارہ کی جانب سے شیئر کی گئی تصویر کے ساتھ کوئی کیپشن تو نہیں لکھا گیا، تصویر کے ساتھ انہوں نے ’کل ہو نہ ہو‘ کے میوزک کو شامل کیا ہے۔

    یاد رہے کہ  بالی ووڈ اداکار سوشانت سنگھ 14 جون 2020 کو ممبئی میں اپنے گھر میں مردہ پائے گئے تھے۔

    انکیتا لوکھنڈے نے سشانت سنگھ راجپوت کی دوستی 2010 میں ڈرامے کے سیٹ پر ہوئی تھی جو محبت میں بدل گئی تھی تاہم 2016 میں دونوں کا بریک اپ ہوگیا تھا، جس کے بعد انکیتا نے وکی جین سے دسمبر 2021 میں شادی کی تھی۔

  • نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر خراج تحسین

    نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر خراج تحسین

    جوہانسبرگ : جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا اور ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا.

    تفصیلات کے مطابق نسلی تعصب کےخلاف جدوجہد کی علامت آنجہانی نیلسن منڈیلا کی آج چوتھی برسی جنوبی افریقہ سے دنیا بھر میں منائی گئی اور ذبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے محسن انسانیت کے فکر و فلسفہ کے فروغ کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا.

    سرکاری سطح پر مرکزی تقریب میں افکار نیلسن منڈیلا سے سجی محفل میں ان کی زندگی اور جدوجہد پر سیر ھاصل گفتگو کی گئی اور مرحوم کی جدوجہد کو نسلی تعصب کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا گیا.

    جنوبی افریقہ کے عوام نے اپنے ہر دلعزیز قائد اور مسیحا کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا اور نیلسن منڈیلا کی قد آور تصاویر کے سامنے شمعیں روشن کیں اور انہیں خراج تحسین پیش کیا.

    مخالف، عظیم انقلابی، بابائے جمہوریت آنجہانی نیلسن منڈیلا 1918 میں جنوبی افریقہ میں پیداہوئے اور سیاہ فام لوگوں کوغلامی سے نجات دلانے کیلئے جدو جہد کا آغاز کیا اس وقت سیاہ فام قوم کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ان سے تیسرے درجے کے شہری سے بھی برتر سلوک کیا جاتا تھا.

    نیلسن منڈیلا نے اپنی قوم کے خلاف نسلی تعصب اور ناروا سلوک کے خلاف اور جائز حقوق کے لیے کم سنی سے ہی جدوجہد شروع کی اور کچھ عرصہ مسلح جدوجہد بھی کی بعد ازاں انہوں نے سیاسی محاز سنبھالا جس کی پاداش میں انہوں نے مسلسل اٹھائیس سال جیل میں گزارے لیکن اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے.

    بلآخر نیلسن منڈیلا کی جدو جہد رنگ لے آئی اور نیلسن منڈیلا کی طویل پرامن جدوجہد کے نتیجے میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کا خاتمہ ہوا اور سیاہ فام کو سفید فام لوگوں کے برابر حقوق حاصل ہوئے اور انہیں غلامی کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل گئی جس کا سہرہ صرف اور صرف نیلسن منڈیلا کو جاتا ہے.

    نیلسن منڈیلا کی انہی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا چنانچہ 1993 میں انہیں سب سے بڑے ایوارڈ امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا وہ 95 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اور اس درخشان عہد کا اختتام ہوا جس کی روشنی رہتی دنیا تک جگمگاتی رہے گی.

  • شہنشاہ غزل مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    کراچی : برصغیر کے عالمی شہرت یافتہ گائیک اور شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کی چوتھی برسی آج 13 جون کو منائی جا رہی ہے۔ مہدی حسن کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے، مگر اُن کا فن آج بھی زندہ ہے، مہدی حسن کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

    مہدی حسن 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔ 1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    سال انیس سو پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔  وقت سے لے کرآج تک وہ پچیس ہزار سے زیادہ فلمی غیر فلمی گیت اور غزلیں گا چکے ہیں۔60 اور70کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن گئے۔

    مہدی حسن کی آواز میں ایک خوبصورت فلمی گیت قارئین کی نذر

    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کی آواز میں ایک خوبصورت ملّی نغمہ

    سنجیدہ حلقوں میں اُن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

  • ’’میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا‘‘سپراسٹار راجیش کھنہ کی آج چوتھی برسی

    ’’میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا‘‘سپراسٹار راجیش کھنہ کی آج چوتھی برسی

    ممبئی : بالی ووڈ کے پہلےسپر اسٹار ستر کی دہائی میں فلموں کے لیے کامیابی کی ضمانت سمجھے جانے والے رومانوی ہیرو راجیش کھنہ کو مداحوں سے بچھڑے چار سال بیت گئے.

    تفصیلات کے مطابق راجیش کھنہ کو بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے اور انیس سو ساٹھ اور ستر کےعشرے میں انہوں نے جس فلم میں بھی کام کیا وہ باکس آفس پر ہٹ ہوئی.

    ایسا نہیں کہ ان سے پہلے بڑے اسٹار نہیں تھے، دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کپور،سب نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا لیکن فلمی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ جس جنون کا شکار راجیش کھنہ کے چاہنے والے ہوئے،بالی وڈ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے.

    ان کے کیرئیر کا آغاز 1966 میں چیتن آنند کی فلم ’آخری خط‘ سے ہوا لیکن انیس سو 1969 میں ’آرادھنا‘ کی ریلیز کے بعد وہ راتوں رات اسٹار بن گئے،اس گولڈن جوبلی فلم میں انہوں نے باپ اور بیٹے کا ڈبل رول نبھایا تھا اور ان کا وہ سر کو ایک خاص انداز میں جھٹکنا،وہ منفرد چال،وہ غمگین آنکھیں اور وہ مخصوص ادائیں شائقین کے دلوں میں اتر گئیں.

    POST 1

    اس کے بعد ہٹ فلموں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جس نےتھمنے کا نام ہی نہیں لیا،بالی وڈ میں صرف راجیش کھنہ کی گونج تھی اور پروڈیوسر انہیں سائن کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے.

    POST 4

    راجیش کھنہ اور ممتاز کی جوڑی کو فلم ناظرین نے بے حد پسند کیا،فلم ’دو راستے‘،’خاموشی‘، ’آنند‘ اور ’سفر‘ جیسی فلموں سے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کردار کی گہرائی میں بھی اترسکتے ہیں.

    POST 2

    راجیش کھنہ اور ممتاز کی جوڑی نے ’آپ کی قسم‘، ’دو راستے‘، ’دشمن، ’روٹی‘ اور ’سچا جھوٹا‘ جیسی سپر ہٹ فلمیں دیں.

    انیس سو تہتر میں بالی ووڈ کی مقبول ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ سے شادی کی لیکن انیس سو چوراسی میں ان دونوں کے درمیان علیحدگی ہوگئی.

    POST 7
    POST 5

    انہوں نے پچاس سولو سپرہٹ اور 35 گولڈن جوبلی فلموں کا ریکارڈ قائم کیا جو ابھی تک برقرار ہے،انہوں نے اپنے کیرئیر میں ایک سو اسی سے زائد فلموں میں کام کیا اور تین مرتبہ بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا.

    راجیش کھنہ نے پچاس سولو سپرہٹ اور 35 گولڈن جوبلی فلموں کا ریکارڈ قائم کیا جو ابھی تک برقرار ہے،انہوں نے اپنے کیرئیر میں ایک سو اسی سے زائد فلموں میں کام کیا اور تین مرتبہ بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا.

    راجیش کھنہ نے سیاست کا رخ کیا اور کانگریس کی جانب سےوہ پانچ سال تک بھارتی پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہے.

    اپنے انداز اور کرداروں کو لازوال بنانے والے سپراسٹار راجیش کھنہ خود تو انہتر برس کی عمر میں اس دنیا سے گزر گئے لیکن ان کا بے مثال فن انہیں مدتوں چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رکھے گا.