Tag: چولستان

  • پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں کا کینال معاملے پر مریم نواز سے سوال

    پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں کا کینال معاملے پر مریم نواز سے سوال

    لاہور: ’چولستان کو پانی دینے کے لیے پنجاب کی کون سی نہر بند ہوگی؟‘ پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے سوال کیا ہے۔

    پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے پریس کانفرنس میں مریم نواز سے سوال کیا ہے انہوں نے کہا کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(ارسا) کے مطابق پہلے ہی پانی کی قلت ہے۔

    پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے پوچھا کہ چولستان کے لیے سرگودھا، فیصل آباد، قصور، اوکاڑہ یا رحیم یار خان سے کس ضلع کا پانی بند کیا جائے گا؟

    پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ کینالز کے ایشو پر وزیر اعظم سے میرا سوال ہے، حکومت نے ایک بھی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا، صدر نےکینالز منصوبہ کی منظوری نہیں دی اور آبی ماہرین کہتے ہیں یہ منصوبہ نہ قابل عمل ہے۔

    کینالز معاملہ: وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کی ملاقات طے پاگئی

    چوہدری منظور کا کہنا تھا کہ اس وقت سسٹم میں 43 فیصد پانی کی کمی ہے، دریائے ستلج میں پانی نہیں ہے جبکہ نہروں میں پہلے ہی پانی کی کمی ہے، ارسا ایکٹ میں لکھا ہے پانی کے مسئلے پر کوئی ایشو ہوگا تو سی سی آئی بلائی جائے گی۔

    "ایک سال ہوگیا ابھی تک کوئی بھی سی سی آئی کی میٹنگ نہیں بلائی کیوں؟ آبی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ نہر نکالنا ناممکن ہے، کہتے ہیں سیلاب کا پانی لیکر جائیں گے سیلاب 3 ماہ کا ہوگا بعد میں کیا کرینگے، یہ دنیا کی تاریخ کی پہلی نہر ہے جس میں ریورس انجینئرنگ ہورہی ہے”

    دوسری جانب ندیم افضل چن نے کہا کہ چولستان سے محبت نہیں ان کی نیت خراب ہے، نہروں کا ڈراما رچایا، یہ ضیاالحق کے وارث تو ہوسکتے ہیں پنجاب کے نہیں۔

  • 7 ہزار سال قدیم شہر گنویری والا میں کھدائی کا آغاز ہو گیا

    7 ہزار سال قدیم شہر گنویری والا میں کھدائی کا آغاز ہو گیا

    بہاولپور: چولستان میں 7 ہزار سال قدیم شہر گنویری والا میں کھدائی کا آغاز ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق صحرائے چولستان میں سات ہزار سال قدیم سندھ تہذیب کے حامل ہڑپہ سے بڑے شہر گنویری والا کی دریافت کے بعد آخر کار حکومت کی طرف سے فنڈز کی فراہمی کے بعد کھدائی کے کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

    قلعہ دراوڑ سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر گنویری والا کے آثار کا سراغ 1975 میں ڈاکٹر محمد رفیق مغل سابق ڈائریکٹر جنرل پنجاب آرکیالوجی نے لگایا تھا، وسائل کی کمی، سائٹ کے قریب پانی اور افرادی قوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں کھدائی نہیں کی جا سکی تھی۔

    اس قدیم شہر کی ابتدائی کھدائی سے مٹی کے برتن اور نوادرات برآمد ہوئے تھے، جن میں مجسمے اور تانبے کی مہریں شامل ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ گنویری موہنجو داڑو سے چھوٹا اور ہڑپہ سے بڑا شہر ہے۔

    حکومت کی طرف سے فنڈز مہیا ہونے کے بعد یہاں باضابطہ طور پر کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا ہے، چولستان میں قدیم انڈس تہذیب کے شہر گنویری والا کی دریافت سے سیاحت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملکی زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا۔

  • چولستان میں نوادرات چوری ہونے لگے

    چولستان میں نوادرات چوری ہونے لگے

    احمد پورشرقیہ: پولیس نے قدیمی شہروں کی کھدائی کر کے نوادرات چوری کرنے والے 3 ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق چولستان میں نوادرات چوری ہونے لگے ، قدیمی غرق شدہ شہروں کی غیر قانونی طور پر کھدائی کا سلسلہ جاری ہے۔

    پولیس نے قدیمی بستی عظیم والی اورسدھو والا میں کھدائی کے دوران چھاپہ مارا، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ڈوب کر غائب ہو گئے ہیں۔

    حکام کے مطابق چھاپے کے دوران قدیمی شہروں کی غیر قانونی کھدائی کرنے والے 3 ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

    مقدمہ آثار قدیمہ کےافسرکی مدعیت میں تھانہ ڈراورمیں درج کیا گیا ، ایس ڈی او اثار قدیمہ نے بتایا کہ غیر قانونی کھدائی کا کام کئی دنوں سے جاری تھا ،چولستان میں 400کےقریب قدیمی مقامات موجود ہیں۔

    چولستان جو کبھی ایک نفیس اور پھلتی پھولتی تہذیب کا مرکز تھا اب صحرا میں کھنڈرات کی صورت میں موجود ہے، یہ صحرائی علاقہ 26,300 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

  • صحرائے چولستان میں خشک سالی، پاک فوج کا امدادی کیمپ سرگرم عمل

    صحرائے چولستان میں خشک سالی، پاک فوج کا امدادی کیمپ سرگرم عمل

    بہاولپور: صحرائے چولستان میں خشک سالی کی صورتحال کے باعث پاک فوج کا امدادی کیمپ سرگرم عمل ہے، پاک فوج کے دستے لوگوں کو پینے کا پانی اور ضروری طبی سامان فراہم کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صحرائے چولستان میں پاک فوج اور سول انتظامیہ کی جانب سے طبی اور خشک سالی ریلیف کیمپ قائم کیا گیا، امدادی کیمپ میں عوام اور لائیو اسٹاک کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

    بہاولپور کے علاقوں دراوڑ، بجنوٹ، مصری والا، پنواراں، احمد والا، نواں کوٹ، کہری والا، چنن پیر، دھوری، کالے پار اور موج گڑھ میں کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔

    پاک فوج کے دستے لوگوں کو پینے کا پانی اور ضروری طبی سامان فراہم کر رہے ہیں، متاثرہ علاقے کے ساڑھے 4 ہزار مریضوں کا علاج کیا گیا اور 1 ہزار کٹس تقسیم کی گئیں۔

    1 ہزار راشن پیکج اور 3 ہزار فوڈ پیکج بھی لوگوں میں تقسیم کیے گئے۔

  • چیف آف آرمی اسٹاف کی ہدایت پر چولستان میں امدادی کیمپ قائم

    چیف آف آرمی اسٹاف کی ہدایت پر چولستان میں امدادی کیمپ قائم

    راولپنڈی: چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر چولستان میں امدادی کیمپ قائم کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بہاولپور کور نے آرمی چیف کی ہدایت پر چولستان کے خشک سالی سے متاثرہ افراد کے لیے منصوبہ تیار کر لیا۔

    چولستان میں 42 بستروں کی گنجائش والا کیمپ لگایا گیا، اور 70 دیہاتوں کو پانی بھی فراہم کیا گیا، 5 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا اور انھیں مفت ادویات فراہم کی گئیں۔

    چولستان کےدور دراز علاقوں میں مفت راشن اور پکا ہوا کھانا بھی فراہم کیا گیا، بیس کیمپ کی جگہوں پر مویشیوں کے علاج معالجے کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

    کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل خالد ضیا نے چنن پیر میں میڈیکل کیمپ کا دورہ کیا، واضح رہے کہ پاک فوج کی جانب سے امدادی سرگرمیاں موسم گرما میں جاری رہیں گی۔

  • زمانے کی کج روی، فلک کی نامہربانیوں‌ کا شاہد، قلعہ مروٹ

    زمانے کی کج روی، فلک کی نامہربانیوں‌ کا شاہد، قلعہ مروٹ

    اگر آپ کبھی پاکستان کے مشہور صحرائی علاقے چولستان کی سیر کو گئے ہیں، تو وہاں موجود قلعے اور قدیم آثار میں قلعہ مروٹ بھی ضرور دیکھا ہو گا۔

    اس قدیم قلعے کی خستہ حالی اور بوسیدگی اور اس کے آثار کئی نسلوں کی کہانیاں اور راز اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ یہ آثار زمانے کی کج روی، فلک کی نامہربانی اور موسموں کی سختی کے گواہ ہیں۔

    قلعہ مروٹ کے دروازے پر کبھی ایک کتبہ دیکھا گیا تھا جس پر مروٹ پاتھا، ملک جام سومرا، کوٹ پکی کھیل پھیرائی تحریر تھا۔ تاریخ نویسوں اور ماہرینِ آثار نے اس کتبے سے جانا کہ اس قلعے کو کسی زمانے میں جام سومرا نے بھی استعمال کیا اور 1941 میں اس کی مرمت کا کام بھی کروایا تھا۔

    تاریخی تذکروں میں لکھا ہے کہ اسے چتوڑ کے مہروٹ نے تعمیر کرایا تھا اور اسی کی راجا چچ سے جنگ بھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہی قلعے کا نام قلعہ مہروٹ رکھا گیا جسے بعد میں مروٹ بولا جانے لگا۔

    یہ قلعہ چوں کہ ایک بلند ٹیلے پر تعمیر کیا گیا تھا، اس لیے دور ہی سے اس کے آثار نظر آجاتے ہیں۔ قلعہ مروٹ کی فصیل کے ساتھ بڑے برج بنائے گئے تھے جب کہ اس قلعے کے مغربی جانب بڑھیں تو وہاں ایک محل کے آثار بھی ملتے ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بیکانیر کے مہاراجا کا قصر تھا۔

  • راجا نے زندگی اور پھلڑا نے اپنی شان و شوکت کھو دی

    راجا نے زندگی اور پھلڑا نے اپنی شان و شوکت کھو دی

    پاکستان کے قدیم آثار اور تاریخی مقامات کے حوالے سے چولستان بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    یہاں مختلف شہروں اور مضافات میں کئی قدیم اور تاریخی عمارتیں موجود ہیں جب کہ بہاول نگر، چولستان کی طرف جائیں تو بہت سے قلعے اور آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان میں قلعہ پھلڑا بھی شامل ہے۔

    قلعہ پھلڑا کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ اسے بیکا نیر کے راجا نے کسی زمانے میں تعمیر کروایا تھا۔ اس راجا کا نام بیکا لکھا ہے اور یہ قلعہ کسی زمانے میں‌ راجا اور افواج کا اہم دفاعی حصار رہا ہو گا۔

    1750 تک یہ قلعہ بالکل کھنڈر بن گیا اور کرم خان اربائی نے اس کی تعمیر و مرمت کروائی۔ یہ قلعہ جنگ اور دشمن کے حملے سے بچنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ اس قلعے کی بیرونی دیواروں کو پکی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔

    ماہرین ثقافت اور آثار سے متعلق محققین کے مطابق اس کی دو طرفہ دیواروں کے درمیان مٹی بھری گئی تھی جو دفاعی اعتبار سے نہایت کارگر تھی۔ اسے دشمن کی گولہ باری آسانی سے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ اسے دھوڑا کہا جاتا تھا۔

    قلعے کے چاروں کونوں پر مینار قائم کیے گئے تھے جب کہ قلعے کے اندر 118 فٹ گہرا ایک کنواں بھی ہے۔ درمیان میں رہائشی کمرے اور قلعے کے جنوبی حصے کی طرف ایک سہ منزلہ اقامت گاہ موجود ہے جو کبھی خوب صورت اور طرزِ تعمیر کا شاہ کار رہی ہو گی۔

  • سیاحت کا عالمی دن: پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقامات

    سیاحت کا عالمی دن: پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقامات

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    سیاحت کا عالمی دن ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد سے 1970 سے ہر سال 27 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد سیاحت کے فروغ، نئے سیاحتی مقامات کی تلاش، آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے، سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اور جدید سہولیات پیدا کرنے، سیاحوں کے تحفظ ، نئے سیاحتی مقامات تک آسان رسائی سمیت دیگر متعلقہ امور کو فروغ دینا ہے۔

    پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ملک ہے۔ا گر یہاں سیاحت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو صرف سیاحت ہماری معیشت میں ایک بڑے اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ دہشت گردی کے باوجود اب بھی پاکستان کے شمالی علاقوں میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد جاری ہے جو پاکستان کے سحر انگیز اور دیو مالائی قدرتی حسن کا ثبوت ہے۔

    یہاں ہم آپ کو پاکستان کے چند خوبصورت سیاحتی مقامات کی سیر کروا رہے ہیں۔


    :کے ٹو

    k2-1

    بیرونی کوہ پیماؤں کی کشش کا باعث بننے والی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں موجود ہے۔ 8 ہزار 611 میٹر کی بلندی رکھنے والی اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے ہر سال بے شمار ملکی و غیر ملکی کوہ پیما رخت سفر باندھتے ہیں لیکن کامیاب کم ہی ہو پاتے ہیں۔


    :چترال

    chitral-1

    ضلع چترال پاکستان کے انتہائی شمالی کونے پر واقع ہے۔ یہ ضلع ترچ میر کے دامن میں واقع ہے جو کہ سلسلہ کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ہے جو اسے وسط ایشیا کے ممالک سے جدا کرتی ہے۔ اپنے منفرد جغرافیائی محل وقع کی وجہ سے اس ضلع کا رابطہ ملک کے دیگر علاقوں سے تقریباً 5 ماہ تک منقطع رہتا ہے۔

    chitral-2

    اپنی مخصوص پرکشش ثقافت اور پراسرار ماضی کے حوالے سے چترال نے سیاحت کے نقطہ نظر سے کافی اہمیت اختیار کرلی ہے۔


    :گورکھ ہل

    gorakh-hill-1

    سندھ کے شہر دادو کے شمال مغرب کوہ کیر تھر پر گورکھ ہل اسٹیشن واقع ہے۔ یہ صوبہ سندھ کا بلند ترین مقام ہے اور سطح سمندر سے 5 ہزار 688 فٹ بلند ہے جو کہ پاکستان کے مشہور ترین ہل اسٹیشن مری کا ہم پلہ ہے۔

    gorakh-hill-2

    کراچی سے گورکھ ہل اسٹیشن کا فاصلہ 400 کلو میٹر ہے۔


    :ہنگول نیشنل پارک

    hingol-1

    بلوچستان میں واقع ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو 6 لاکھ 19 ہزار 43 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلو میٹر دور یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہندوؤں کا معروف ہنگلاج مندر بھی اس پارک میں‌ واقع ہے۔

    hingol-3

    یہ پارک کئی اقسام کے جنگلی درندوں، چرندوں، آبی پرندوں، حشرات الارض، دریائی اور سمندری جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔ بلوچستان کا مشہور امید کی دیوی یا پرنسز آف ہوپ کہلایا جانے والا 850 سالہ قدیم تاریخی مجسمہ بھی اسی نیشنل پارک کی زینت ہے۔


    :کھیوڑہ کی نمک کی کانیں

    پاکستان کے ضلع جہلم میں کھیوڑہ نمک کی کان واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریباً 250 کلومیٹر فاصلہ پر ہے۔

    khewra-1

    کھیوڑہ میں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیا میں قدیم ترین کان ہے اور یہ دنیا کا دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم 322 ق م میں اس علاقے میں آیا تو اس کے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایک فوجی نے پتھر کو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا۔ یوں اس علاقے میں نمک کی کان دریافت ہوئی۔

    kehwra-2

    اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجہ نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔


    :ایوبیہ

    ayubia-1

    ایوبیہ نیشنل پارک مری سے 26 کلومیٹر دور صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہے۔ سابق صدر پاکستان ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔

    ayubia-2

    چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور خانسپور کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔


    :ٹھنڈیانی

    thandiani-1

    ٹھنڈیانی ضلع ایبٹ آباد کے جنوب میں واقع ہے۔ ایبٹ آباد شہر سے اس کا فاصلہ تقریباً 31 کلو میٹر ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے کنہار اور کشمیر کا پیر پنجال سلسلہ کوہ واقع ہے۔

    thandiani-2

    شمال اور شمال مشرق میں کوہستان اور کاغان کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ شمال مغرب میں سوات اور چترال کے برف پوش پہاڑ ہیں۔ ٹھنڈیانی سطح سمندر سے 9 ہزار فٹ بلند ہے۔


    :جھیل سیف الملوک

    saif-ul-malook

    جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے علاقے ناران میں 10 ہزار 578 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ صبح کے وقت ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

    saif-ul-malook-2

    جھیل سے انتہائی دلچسپ لوک کہانیاں بھی منسوب ہیں جو یہاں موجود افراد کچھ روپے لے کر سناتے ہیں اور اگر آپ جھیل سے منسوب سب سے دلچسپ کہانی سننا چاہتے ہیں تو جھیل پر کالے خان نامی نوے سالہ بزرگ کو تلاش کیجیئے گا۔


    :دیوسائی

    deosai-1

    دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے 13 ہزار 500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ پارک 3 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے مئی تک پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔

    دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ دیو اور سائی یعنی دیو کا سایہ۔ ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں، آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔

    doesai-2

    یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواﺅں، طوفانوں اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔


    :پائے میڈوز

    paye-1

    paye-2

    صوبہ خیبر پختونخوا کے پائے نامی علاقہ سے ذرا آگے پائے میڈوز واقع ہے جہاں کا طلسماتی حسن آپ کو سحر انگیز کردے گا۔


    :قلعہ دراوڑ

    derawar-2

    derawar-1

    بہاولپور کے قریب صحرائے چولستان میں قلعہ دراوڑ گو کہ وقت کے ہاتھوں شکست و ریخت کا شکار ہے تاہم یہ اب بھی سیاحوں اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے باعث کشش ہے۔


    :صحرائے تھر

    thar-1

    صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ 2 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے صحرا کے طور پر کیا جاتا ہے۔

    thar-2

    صحرا میں ہندوؤں کے قدیم مندروں سمیت کئی قابل دید مقامات موجود ہیں۔ یہاں یوں تو سارا سال قحط کی صورتحال ہوتی ہے تاہم بارشوں کے بعد اس صحرا کا حسن نرالا ہوتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صحرائے چولستان میں 500 تلور فضا میں آزاد کردیے گئے

    صحرائے چولستان میں 500 تلور فضا میں آزاد کردیے گئے

    بہاولپور: صوبہ پنجاب کے صحرائے چولستان میں 500 تلوروں کو پنجروں سے نکال کر آزاد فضا میں چھوڑ دیا گیا۔

    معدومی کے خطرے کا شکار نایاب 500 تلوروں کو انٹرنیشنل فنڈ برائے ہوبارہ کنزرویشن اور ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کے باہمی اشتراک سے چولستان میں سلو والی کے مقام پر آزاد کیا گیا۔

    یہ تلور نسلی اور علاقائی طور پر پاکستان کی فضاؤں میں آنے والے پرندوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور انہیں پاکستان میں تلور کی موجودہ نسل کو بڑھانے کے لیے آزاد کیا گیا ہے۔

    houbara-2

    جنگلی آباد کاری کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی تلوروں کو آزاد کیا جارہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے تقریباً 1 لاکھ 37 ہزار 8 سو 31 پرندے جنگلی ماحول میں آزاد کیے گئے ہیں۔

    کچھ منتخب پرندوں کے ساتھ سیٹلائٹ ٹرانسمیٹرز بھی لگائے گئے ہیں تاکہ آزاد کیے جانے والے پرندوں کی نقل و حرکت، رہائش کے بارے میں ان کی ترجیحات، بقا اور افزائش نسل کے لیے صلاحیت کی نگرانی کرسکیں۔

    آزاد کیے جانے کے بعد یہ ڈیٹا ہر پندرہ دن بعد چیک کیا جائے گا اور پرندوں کی اڑان بھرنے اور بسیرا کرنے کے مقامات کی ارضی اطلاع ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کو دی جاتی رہے گی جو مزید تحقیق کے لیے معاون ثابت ہوگی۔

    houbara

    عالمی ادارہ تحفظ برائے فطرت آئی یو سی این کے مطابق تلور معدومی کے خطرے کا شکار حیاتیات کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں ہر سال 30 سے 40 ہزار تلور ہجرت کر کے آتے ہیں جن کا اندھا دھند شکار کیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنہ 2012 میں 19 اگست کو ملک میں جاری تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی تھی جسے بعد ازاں گزشتہ سال کے آغاز پر وفاقی حکومت، صوبوں اور تاجروں کی جانب سے دائر کردہ اپیل کے بعد کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

  • سابق وزیراعظم قطر کی تلور کے شکار کے لیے چولستان آمد

    سابق وزیراعظم قطر کی تلور کے شکار کے لیے چولستان آمد

    ملتان : قطر کے سابق وزیراعظم اپنے چار رفقاء کے ہمراہ تلور کے شکار کے لیے سخت سیکیورٹی کے حصار میں ملتان سے چولستان کے لیے روانہ ہو گئے ہیں جہاں نایاب پرندوں کا شکار کھیلا جائے گا.

    تفصیلات کے مطابق شکار کی غرض سے پاکستان آئے سابق وزیراعظم قطر شیخ حمد بن خلیفہ الثانی و دیگر قطری شہزادے خصوصی طیارے کے ذریعے ملتان ایئر پورٹ پہنچے تھے بعد ازاں قطری شہزادے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ خصوصی اجازت کے ساتھ تلور کے شکار کے لیے ملتان سے چولستان روانہ ہو گئے ہیں.

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ملتان ائر پورٹ پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے اور قطری شہزادوں کو سخت سیکیورٹی حصار میں ملتان سے چولستان کے لیے روانہ کیا گیا ہے اور خصوصی شکار گاہ کے اطراف بھی سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور مقامی افراد کو شکار گاہ کی جانب جانے کی اجازت نہیں ہے.

    وفاقی حکومت، قطری شہزادوں کو 8 مقامات پر شکار کی اجازت*

    چولستان میں موسم سرما کے آغاز سے ہی نایاب پرندوں کی آمد شروع ہوجاتی ہے جو دیگر ممالک سے ہجرت کر کے یہاں پہنچتے ہیں گو کہ محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے نایاب پرندوں کے شکار پر پابندی عائد ہے تاہم غیر ملکی مہمانوں کے لیے خصوصی اجازت ناموں کا اجراء کیا گیا ہے.

    *تلور شکار، قطری شہزادے فصلیں تباہ کردیتے ہیں، مقامی افراد کی شکایت

    خیال رہے نایاب پرندوں کے شکار کے لیے قطری شہزادوں کی آمد پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے، اپوزیشن قطری شہزادوں پر حکومتی مہربانیوں کو پاناما کیس میں قطری شہزادے کے خط کو قرار دیتی ہے.