Tag: چوہدری رحمت علی

  • 28 جنوری: "اب یا پھر کبھی نہیں…”

    28 جنوری: "اب یا پھر کبھی نہیں…”

    آج وہ یادگار دن ہے جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض‌ میں‌ "اب یا پھر کبھی نہیں (Now OR Never)” کے عنوان سے ایک کتابچے کی گونج سنائی دی اور اس کتابچے نے تحریکِ پاکستان کے لیے آہنی دیوار کا کام انجام دیا۔

    مشہور ہے کہ اسی روز برِّصغیر کے مسلمان اور ہندوستان میں‌ بسنے والی دیگر اقوام لفظ "پاکستان” سے آشنا ہوئے۔ یہ چار صفحات پر مشتمل کتابچہ تھا جس کے مصنّف چودھری رحمت علی ہیں۔ انھیں لفظ "پاكستان” کا خالق بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ایک مخلص سیاست دان، مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ اور راہ نما تھے جو سیاست، قانون اور قلم کے میدانوں میں آزادی کے حوالے سے متحرک رہے۔

    28 جنوری 1933ء کو ان کا یہ کتابچہ کیمبرج سے شایع ہوا جس میں چودھری رحمت علی نے مسلمانوں کے لیے آزاد وطن کا نام پاکستان تجویز کیا تھا۔ اگرچہ اس لفظ اور خود چودھری رحمت علی کے حوالے سے کئی تنازع اور مباحث سامنے آئے اور مؤرخین و محققین میں اس پر اختلاف بھی ہے، لیکن اس سے Now or Never کی اہمیت کسی طور کم نہیں‌ ہوتی۔ اس کتابچے کی پاکستان کی تاریخ میں وہی اہمیت جو امریکا کی تاریخ میں ٹامس پین کے مشہور کتابچے کامن سینس کی ہے۔

    اسی تاریخی کتابچے کی اشاعت کے 15 سال بعد پاکستان ایک آزاد مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔

  • چوہدری رحمت علی کی آج 64ویں برسی منائی جارہی ہے

    چوہدری رحمت علی کی آج 64ویں برسی منائی جارہی ہے

    کراچی: لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی کی آج 64ویں برسی ہے ۔

    پاكستان كا نام تجويز كرنے والے سیاستدان اور دنیا کے پہلے پاکستانی چو ہدری رحمت علی سو لہ نو مبر اٹھارہ سو ستانوےکوضلع ہوشیار پور کےگاؤں مو ہراں میں پیدا ہو ئے۔

     ابتدائی تعلیم آبائی ضلع میں حاصل کی، انیس سو چودہ میں اسلامیہ کالج لا ہور میں داخلہ لیا، جہاں سے بی اے کرنے کے بعد اخبار کشمیر گزٹ سےکیئریر کا آغاز کیا، انیس سو اٹھا ئیس میں ایچی سن کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔کچھ عرصہ بعد انگلستان تشریف لےگئےجہاں کیمبرج اور ڈبلن یونورسٹیز سےقانون وسیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔

     انیس سو تینتیس میں دوسری گول میز کانفرنس کےموقع پر اپنا مشہور کتابچہ ناؤ اور نیور اب یا کبھی نہیں شائع کیاجس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان روشناس کیا انیس سو پینتیس میں کیمبرج سے ہفت روزہ پاکستان کا اجرا کیا، انیس چالیس میں قرارداد پاکستان میں شرکت کیلئے آئے، لیکن انہیں صو بہ بدر کردیا گیا۔

     انیس سو اڑتالیس میں پاکستان آئے لیکن پاکستانی سیاستدانوں اور بیورکریسی نے انہیں واپس جانے پر مجبور کردیا، چناچہ تین فروری انیس سو اکیاون کو لفظ پا کستان کا خالق ‘خالق حقیقی سےجا ملے، ان کا جسد خاکی آج بھی انگلستان کےشہر کیمبرج کےقبرستان میں امانتاً دفن ہے۔