Tag: چوہدری شوگر ملز

  • چوہدری شوگر ملز کے ذریعے کرپشن کے طریقے نے ماہرین کو حیران کر دیا

    چوہدری شوگر ملز کے ذریعے کرپشن کے طریقے نے ماہرین کو حیران کر دیا

    لاہور: چوہدری شوگر ملز اور حدیبیہ پیپر ملز کے ذریعے ہونے والی کرپشن کے طریقے نے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں نئے انکشافات سامنے آ گئے ہیں، تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چوہدری شوگر مل اور حدیبیہ پیپر ملز کے سلسلے میں اسٹیٹ بینک کے مشکوک ٹرانزیکشن الرٹ کے بعد انکوائری کا آغاز ہوا تھا۔

    چوہدری شوگر ملز کی انکوائری نیب کی جانب سے شروع کی گئی تھی، پرویز مشرف نے ایک ڈیل کے ساتھ انکوائری کو بند کر دیا تھا، بقول نیب جہاں حدیبیہ ختم ہوتا ہے وہاں چوہدری شوگر مل کی کہانی شروع ہوتی ہے، شریف خاندان نے اپنے ہی کزنز کو مل سے جعل سازی سے باہر کیا، فرنٹ کمپنیوں جیسا کہ پنجاب کارپوریٹ وغیرہ کو استعمال کیا گیا، سرکاری قرضے حاصل کر کے غبن اور بعد میں قرضے معاف کرائے گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شوگر مل میں غیر ملکیوں کو سرمایہ کار ظاہر کیا گیا، آف شور کمپنی شیدرون جرسی کو سامنے لا کر قرضہ لینے کا ڈراما رچایا گیا، جب کہ قرض کو واپس کرنے کے بہانے 20 ملین ڈالر ملک سے باہر آف شور کمپنی کو بھیجے گئے، بینکوں نے بھی تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قرضے فراہم کیے۔

    کرپشن اور منی لانڈرنگ سے کارپیٹنگ تک چوہدری شوگر ملز سے متعلق نئے انکشافات

    رپورٹ کے مطابق دستاویزات اشارہ کرتے ہیں کہ اسکینڈل کے مرکزی ملزم نواز شریف ہیں، اینکس اے نیب نے 24 نومبر 2018 کو مل کی انکوائری شروع کی، ایک سال 2 ماہ میں ہزاروں دستاویزات نیب تحویل میں آ چکے ہیں، نیب کے مطابق ہر صفحہ ایک نئی داستان کا سرورق ثابت ہو رہا ہے، جب چوہدری شوگر مل بنائی گئی تو اس میں میاں شریف کے بھائی حصہ دار تھے، مل لگنے کے بعد انھیں زبردستی مل کی حصہ داری سے نکال دیا گیا، سراج خاندان نے ایس ای سی پی کو اس بارے میں خط بھی لکھا، اور کہا کہ چوہدری شوگر ملز میں غیر قانونی کام ہو رہا ہے، اور ایک غیر ملکی کے نام سے سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

    نیب دستاویزات کے مطابق چوہدری شوگر مل نے نواز شریف دور میں غیر معمولی ترقی کی، بیرون ملک سے مشکوک سرمایہ کاری بھی نواز دور میں آئی، 1991 میں نواز شریف نے 1.3 ملین کے اثاثہ جات ظاہر کیے تھے، مریم نواز نے 1.4 ملین کے اثاثہ جات ظاہر کیے، جب کہ حسن، حسین، شہباز اور یوسف عباس نے اثاثہ جات ظاہر نہیں کیے تھے، دوسری طرف حقیقت یہ تھی کہ1991 میں شریف خاندان کی مالی حیثیت ایسی نہ تھی کہ مل لگائی جاتی، 5 اگست 1991 کو 0.5 ملین کی قلیل رقم سے چوہدری شوگر مل لگائی گئی، مل میں اس وقت زیادہ حصص شریف خاندان کے کزنز کے تھے، 30 ستمبر 1991 کو شہباز شریف مل کے سی ای او بن چکے تھے حالاں کہ ان کا نام شیئر ہولڈرز کی فہرست میں نہیں تھا۔

    چوہدری شوگر مل میں شریف خاندان کی کرپشن کی غضب کہانی منکشف

    30 ستمبر 1991 کو کمپنی کے اثاثہ جات 19.8 ملین روپے ظاہر کیے گئے، اس وقت مل کے 40 فی صد حصص عباس شریف کے نام پر تھے، 60 فی صد مل میاں شریف کے مختلف بھائیوں اور اولاد کے نام تھی، مل سراج خاندان نے لگائی مگر شریف خاندان کے حصص میں اضافہ ہوا، سراج خاندان کو ہی اس مل کے حصص سے محروم کر دیا گیا، سراج خاندان کی جانب سے ایف آئی اے میں بھی درخواست دی گئی تھی، جس کے مطابق انھیں مل کی ڈائریکٹرشپ سے جعل سازی کے ذریعے راتوں رات محروم کیا گیا۔

    30 مارچ 1995 کو مریم نواز چوہدری شوگر ملز کی سی ای او بن گئیں، مریم نواز کے مطابق چوہدری شوگر ملز کے معاملے سے آگاہ نہیں لیکن سی ای او رہیں، ان کے بعد حسین نواز چوہدری شوگر ملز کے سی ای او بن گئے، حسین نواز کے بعد 2003 میں مل کی باگ ڈور حمزہ شہباز نے سنبھالی۔

  • حکومت کا ایک بار پھر اپوزیشن کے خلاف جارحانہ حکمت عملی کا فیصلہ

    حکومت کا ایک بار پھر اپوزیشن کے خلاف جارحانہ حکمت عملی کا فیصلہ

    اسلام آباد: حکومت نے ایک بار پھر اپوزیشن کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اہم اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف اپنی پہلی والی جارحانہ حکمت عملی اپنائی جائے۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں شہباز شریف، مریم نواز کے چوہدری شوگر ملز سے متعلق نئے انکشافات کا جائزہ لیا گیا اور لیگی قیادت کے خلاف کرپشن کے الزامات اور اس کے خلاف حکومتی بیانیے پر مشاورت کی گئی۔

    حکومت نے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ چوہدری شوگر مل کیس میں بے ضابطگیوں کے شواہد منظر عام لائے جائیں گے، وزیر اعظم عمران خان نے اجلاس میں کہا کہ وائٹ کالر کرائم کا سراغ لگانا آسان کام نہیں ہے، اس قسم کے جرائم کے خلاف اداروں کی استعداد مزید بڑھائیں گے۔

    کرپشن اور منی لانڈرنگ سے کارپیٹنگ تک چوہدری شوگر ملز سے متعلق نئے انکشافات

    وزیر اعظم نے اپنا مؤقف دہرایا کہ حکومت کرپشن کے خلاف کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی، بلا تفریق اور منصفانہ احتسابی عمل کو یقینی بنائیں گے، ملکی معیشت کی تباہی کے ذمہ داروں کا تعین ضروری ہے، قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ موجودہ معاشی صورت حال کا ذمہ دار کون ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں چوہدری شوگر ملز سے متعلق کرپشن کے نئے انکشافات سامنے آئے ہیں، چوہدری شوگر مل کے گورکھ دھندے نے حدیبیہ ملز اسکینڈل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ذرایع نے انکشاف کیا ہے کہ چوہدری شوگر مل لگاتے وقت شریف فیملی کے پاس ساڑھے 6 ارب روپے کی مل لگانے کی حیثیت نہیں تھی، کرپشن، کک بیکس اور منی لانڈرنگ سے چوہدری شوگر مل لگائی گئی، شریف فیملی کی کرپشن میں بڑے کاروباری اور با رسوخ افراد کا گٹھ جوڑ تھا، چینی کی مل کے لیے چند بڑے بینکر، قالین بیچنے والوں کا گٹھ جوڑ تھا، چوہدری شوگر ملز کو قالین فروخت کرنے والی کمپنی نے مشکوک ادائیگیاں کیں۔

  • کرپشن اور منی لانڈرنگ سے کارپیٹنگ تک چوہدری شوگر ملز سے متعلق نئے انکشافات

    کرپشن اور منی لانڈرنگ سے کارپیٹنگ تک چوہدری شوگر ملز سے متعلق نئے انکشافات

    کراچی: کرپشن، کک بیکس اور منی لانڈرنگ سے کارپیٹنگ تک چوہدری شوگر ملز کے ذریعے کیا کیا گل کھلائے گئے، نئے تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں چوہدری شوگر ملز سے متعلق کرپشن کے نئے انکشافات ہوئے ہیں، چوہدری شوگر مل کے گورکھ دھندے نے حدیبیہ ملز اسکینڈل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

    ذرایع نے انکشاف کیا ہے کہ چوہدری شوگر مل لگاتے وقت شریف فیملی کے پاس ساڑھے 6 ارب روپے کی مل لگانے کی حیثیت نہیں تھی، کرپشن، کک بیکس اور منی لانڈرنگ سے چوہدری شوگر مل لگائی گئی، شریف فیملی کی کرپشن میں بڑے کاروباری اور با رسوخ افراد کا گٹھ جوڑ تھا، چینی کی مل کے لیے چند بڑے بینکر، قالین بیچنے والوں کا گٹھ جوڑ تھا، چوہدری شوگر ملز کو قالین فروخت کرنے والی کمپنی نے مشکوک ادائیگیاں کیں۔

    نیب ذرایع نے بتایا کہ قالین فروخت کرنے والے کیا چینی بھی فروخت کر رہے تھے؟ پنجاب کارپٹ نے چوہدری شوگر مل کو مشکوک ادائیگیاں کیں، پنجاب کارپٹ نے 1991 میں سرکاری بینکوں سے 31 ملین کا قرضہ لیا، 1992 میں 64 ملین کا قرضہ لیا، تمام قرضہ معاف کرا دیا گیا، پنجاب کارپٹ نے 1992 میں ایف بی آر ریٹرن میں بینک بیلنس سوا 2 لاکھ بتایا، سوا 2 لاکھ بینک بیلنس والی کمپنی نے شوگر مل کو سوا کروڑ کا قرضہ کیسے دیا، یہ قرضے نواز شریف کے اثر و رسوخ کی وجہ سے دیے گئے، خواجہ خالد سلطان اس کمپنی کے سربراہ تھے۔

    چوہدری شوگر مل میں شریف خاندان کی کرپشن کی غضب کہانی منکشف

    نیب ذرایع نے مزید بتایا کہ چوہدری شوگر مل بننے کے بعد منی لانڈرنگ کا سلسلہ بڑھ گیا، 1999 میں غیر ملکی سعید سیف بن جابر نے شوگر مل کے 310 ملین کے شیئرز خریدے، 2001 میں غیر ملکی ہانی احمد نے 80 ملین روپے کے برابر ڈالرز بھجوائے، اور مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز کے 37 فی صد شیئرز خریدے، پنجاب کارپٹ، ای ایس ایس انٹرپرائز بظاہر شریف فیملی کی فرنٹ کمپنیاں تھیں، 2007 مہران رمضان کو چوہدری شوگر ملز میں ضم کیا گیا، کمپنی کے 42 فی صد حصص منتقل کیے گئے تو ایس ای سی پی میں درخواست دائر کی گئی، کمپنی میں جو رقم سرمایہ کاری کے لیے ڈالی گئی وہ پیڈ اپ کیپٹل کا 42 فی صد ہے۔

    بتایا گیا کہ چوہدری شوگر مل میں اپنے ہی رشتہ داروں کے ساتھ فراڈ بھی کیا گیا، 2007 میں سراج خاندان نے ایس ای سی پی کو اس سلسلے میں شکایت کی تھی۔

  • چوہدری شوگر ملز کیس ، نواز شریف اور مریم نواز کو  حاضری سے استثنیٰ مل گیا

    چوہدری شوگر ملز کیس ، نواز شریف اور مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ مل گیا

    لاہور : احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کو ریفرنس جلد دائر کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی احتساب عدالت میں چوہدری شوگر ملز اور منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی ، جج امیر محمد خان نے سماعت کی ، سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز احتساب عدالت میں پیش ہوگئیں جبکہ بھتیجے یوسف عباس کو جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر پیش کیا گیا۔

    سماعت میں مریم نواز نے چوہدری شوگر ملز ریفرنس دائر ہونے تک حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کردی ، جس میں کہا گیا نیب نے چوہدری شوگرملز کا ابھی تک ریفرنس دائر نہیں کیا، علیم خان، سبطین خان کو بھی ریفرنس دائر ہونے تک استثنیٰ دیا گیا، ،مجھے بھی ریفرنس دائر ہونے تک حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔

    جج امیر محمد خان نے استفسار کیا نواز شریف آج عدالت کیوں نہیں آئے، جس پر وکیل نے بتایا ہائی کورٹ سے اجازت پرنوازشریف علاج کیلئے بیرون ملک چلے گئے، نواز شریف کو حاضری سےاستثنیٰ دیاجائے۔

    جس پر عدالت نے کہا ہائی کورٹ نے انہیں جانےکی اجازت دی ہےتومدت کابھی تعین کیاہوگا، وکیل کا کہنا تھا ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں مدت سے متعلق طریقہ کار وضح کیا ہے۔

    وکیل مریم نواز کا کہنا تھا کہ ابھی تک نیب نےچوہدری شوگر ملزکاریفرنس دائر نہیں کیا، کیس میں اور بھی ملزم ہیں جوپیش نہیں ہو رہے ، ابھی تک اور ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ نیب نے حتمی رپورٹ یاضمنی ریفرنس پیش نہیں کیا۔

    مریم نوازکی درخواست پر نیب پراسیکیوٹر حافظ اسداللہ کی جانب سے جواب داخل کرانےکےلئےمہلت کی استدعا کی گئی اور کہا گیا درخواست پڑھ کراس کاجواب دیں گے، عدالت نےاستدعا مسترد کرکے دلائل دینے کی ہدایت کردی۔

    چوہدری شوگرملزکیس میں احتساب عدالت نے مریم نواز کوآئندہ عدالتی حکم تک جبکہ نواز شریف کو 4 ہفتے کے لئے حاضری سے استثنیٰ دے دیا، نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں مریم نواز کی حاضری سےاستثنیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا قانون کے مطابق ضمانت کے بعد بھی ملزم کو پیش ہونا پڑتا ہے۔

    عدالت کا نیب پراسیکیوٹر کو ریفرنس جلد دائر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

    مزید پڑھیں : چوہدری شوگرملز کیس : نوازشریف کی آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست منظور

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے معافی کی درخواست پیش کی تھی، جس پر عدالت نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی تھی۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کا حکم ہو اور ہم پیش نہ ہوں، نواز شریف کو چھوڑ کر آنا بہت مشکل تھا مگر عدالتی حکم پر آئی ہوں، وکیل نے کہا جب تک ریفرنس نہ آئے اس وقت تک ملزم کو استثنیٰ دیا جاسکتا ہے، اس وقت انکوائری ہورہی ہے، ٹرائل شروع نہیں ہوا، ضمانت کے بعد نیب کیسز میں ریفرنس آنے تک ملزم کو استثنیٰ دیا جاتا ہے۔

    خیال رہے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز چوہدری شوگرملزکیس میں ضمانت پر ہیں۔

    واضح رہے 11 اکتوبر کو قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے چوہدری شوگرملز کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کوگرفتار کیا تھا، جس کے بعد احتساب عدالت نے نواز شریف کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

  • پی پی اور ن لیگ میں میثاق کرپشن کی وجہ سے کیسز التوا کا شکار ہوئے: شہزاد اکبر

    پی پی اور ن لیگ میں میثاق کرپشن کی وجہ سے کیسز التوا کا شکار ہوئے: شہزاد اکبر

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ پی پی اور ن لیگ میں میثاق کرپشن کی وجہ سے کیسز التوا کا شکار ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق شہزاد اکبر نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کو اپنی جماعت کی تاریخ کا ہی نہیں پتا، پی پی دور میں ایس ای سی پی نے چوہدری شوگر ملز کا کیس اٹھایا تھا۔

    انھوں نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز کیس میں ملین ڈالرز کا معاملہ ہے، اس میں شروعات ہی سے بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، پوری شریف فیملی ہی اس میں شیئر ہولڈر ہے، مریم نواز کو نیب کا نوٹس دیا گیا تھا جو بہت اہم ہوتا ہے، ان سے سوال پوچھے گئے کہ شیئرز کے پیسے کیسے ادا کیے۔

    یہ بھی پڑھیں:  چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کو آج احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا

    شہزاد اکبر نے کہا کہ ملک میں پہلی بار تمام ادارے آزادی سے کام کر رہے ہیں، ناصر لوتھا نے نیب میں بیان ریکارڈ کرا دیا اور اہم دستاویزات دی ہیں، ان کے بیان کے مطابق شریف فیملی نے دبئی میں ریئل انویسٹمنٹ کے لیے پیسا دیا۔

    معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ شریف فیملی نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے لیے ناصر لوتھا کو استعمال کیا، 2016 میں 11 ملین ڈالرز کے شیئرز یوسف عباس کو منتقل کیے گئے، مریم نواز کے 2010 کے بعد سے شیئرز کم تھے، 2016 کے بعد یوسف عباس کو پھنسا کر ان کے نام شیئرز منتقل کیے گئے۔

    انھوں نے کہا کہ پاناما کیس کی طرح چوہدری شوگر ملز کیس میں بھی منی ٹریل کا سوال ہوگا، چوہدری شوگر ملز کیس میں ناصر لوتھا کا کردار بہ طور گواہ کا ہے، پاناما اسکینڈل آیا تو شریف خاندان نے شوگر ملیں بیچنا شروع کر دی تھیں۔

  • چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کو کل احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا

    چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کو کل احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا

    لاہور: سابق سزا یافتہ وزیر اعظم نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کو کل چوہدری شوگر ملز کیس میں احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق چوہدری شوگر ملز کیس میں ایک ملزم یوسف عباس کو گرفتار کیا جا چکا ہے، کل احتساب عدالت میں یوسف عباس کو مریم نواز کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔

    چوہدری شوگر ملز کیس میں چند دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، ملزمان آفتاب محمود اور شاہد شفیق نے وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست دے دی ہے۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ ان ملزمان کو کل بیان کے لیے چیئرمین نیب کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ادھر نیب نے احتساب عدالت سے ملزمان کا راہ داری ریمانڈ بھی حاصل کر لیا ہے۔

    گزشتہ روز وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ کرنے کا ایک گڑھ رہا، جس کے بنانے کے لیے 15 ملین ڈالر قرض لیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ کرنے کا ایک گڑھ رہا: شہزاد اکبر

    شہزاد اکبر نے کہا کہ 1991 میں چوہدری شوگر ملز بنانے کے لیے 15 ملین ڈالر قرض لیا گیا لیکن قرض لینے سے قبل ہی شوگر مل کھل گئی اور مشینیں بھی لگ گئیں، اسٹیٹ بینک کو بتایا گیا کہ قرض بیرون ملک سے آ رہا ہے لہٰذا رقم اکاؤنٹ میں ڈالی جائے، لیکن اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے پتا چلا کہ کمپنی کا قرض پاکستان پہنچا ہی نہیں، یہ قرض ایل سی کھولنے اور مشینری خریدنے کے لیے لیا گیا تھا۔

    معاون خصوصی کے مطابق مریم نواز کو 2008 میں ساڑھے 7 ملین سے زاید شیئر ٹرانسفر کیے گئے تھے، انھوں نے 2010 میں یہ شیئرز یوسف عباس کو ٹرانسفر کر دیے۔

    شہزاد اکبر نے کہا کہ اس کیس سے جڑے کردار ناصر لوتھا کے نام پر بریک تھرو ہوا ہے، یہ کیس ابھی انویسٹی گیشن انکوائری پر ہے، ناصر لوتھا گواہ کے طور پر تحقیقات میں شامل ہوئے کہ فراڈ ہوا ہے۔

  • چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ کرنے کا ایک گڑھ رہا: شہزاد اکبر

    چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ کرنے کا ایک گڑھ رہا: شہزاد اکبر

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا ہے کہ چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ کرنے کا ایک گڑھ رہا، جس کے بنانے کے لیے 15 ملین ڈالر قرض لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں شہزاد اکبر نے کہا کہ 1991 میں چوہدری شوگر ملز بنانے کے لیے 15 ملین ڈالر قرض لیا گیا لیکن قرض لینے سے قبل ہی شوگر مل کھل گئی اور مشینیں بھی لگ گئیں، یہ مل منی لانڈرنگ کا گڑھ تھا۔

    انھوں نے کہا، اسٹیٹ بینک کو بتایا گیا کہ قرض بیرون ملک سے آ رہا ہے لہٰذا رقم اکاؤنٹ میں ڈالی جائے، لیکن اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے پتا چلا کہ کمپنی کا قرض پاکستان پہنچا ہی نہیں، یہ قرض ایل سی کھولنے اور مشینری خریدنے کے لیے لیا گیا تھا۔

    [bs-quote quote=”ناصر لوتھا کے نام پر بریک تھرو ہوا ہے، یہ کیس ابھی انویسٹی گیشن انکوائری پر ہے، ناصر لوتھا گواہ کے طور پر تحقیقات میں شامل ہوئے کہ فراڈ ہوا ہے۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”شہزاد اکبر”][/bs-quote]

    معاون خصوصی نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز کے لیے قرضہ مشکوک طریقے سے لیا گیا، یہ پیسہ ڈائریکٹ چوہدری شوگر ملز کے اکاؤنٹ میں آیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے جیسے ہم کوئی چیزیں بنا کر لا رہے ہیں، ہم ان کے لیے چیزیں بنا کر نہیں لا رہے، یہ پہلے سے موجود تھیں، یہ ثبوت سامنے آ رہے ہیں، چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کرنے کی جگہ رہی جہاں رقم جاتی تھی۔

    انھوں نے کہا قوم کو بتانا ضروری ہے کس طرح سے منی لانڈرنگ کی گئی، ناصر لوتھا کے نام پر بریک تھرو ہوا ہے، یہ کیس ابھی انویسٹی گیشن انکوائری پر ہے، ناصر لوتھا گواہ کے طور پر تحقیقات میں شامل ہوئے کہ فراڈ ہوا ہے۔

    شہزاد اکبر نے بتایا کہ 2008 سے مریم نواز کیلبری کوئن کے طور پر مشہور ہیں، ان کو 2008 میں ساڑھے 7 ملین سے زاید شیئر ٹرانسفر کیے گئے، انھوں نے 2010 میں یہ شیئرز یوسف عباس کو ٹرانسفر کر دیے، ناصر لوتھا سے یہ شیئرز 3 سال بعد حسین نواز کو ٹرانسفر کر دیے گئے، وہاں سے یوسف عباس کو ٹرانسفر کر دیے گئے، جب اس معاملے کو کھولنا شروع کیا تو سب سے پہلے رابطہ ناصر لوتھا سے کیا گیا، ان کے پچاس فی صد شیئرز تھے، عباس شریف اس پورے معاملے میں بے چارے لگ رہے ہیں۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ ناصر لوتھا نے کہا مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ میرا پاکستان میں شیئر تھا، یہ ناصر لوتھا کے لیے سرپرائز تھا کہ ان کی پاکستان میں شوگر ملز ہیں، ناصر لوتھا سے ایک اور اہم ڈاکومنٹ ملا، ایک اور ٹی ٹی نکل آئی، ٹی ٹی کے ذریعے 2010 میں یوسف عباس کو رقم ٹرانسفر کی گئی، انھوں نے لوتھا کو بھی لوٹا۔

    شہزاد اکبر نے کہا کہ ناصر لوتھا پاکستان آ کر تحقیقات کا حصہ بن گئے ہیں، وہ کہتے ہیں میرے کوئی شیئرز نہیں، تحقیقات میں تعاون کروں گا۔

    معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ سب سڈی کے لیے آف شور کمپنی بنائی گئی، چوہدری شوگر واحد مل تھی جس کو سبسڈی مل رہی تھی لیکن چینی نہیں بن رہی تھی، یہاں بھی وہی حساب ہے جیسے سندھ میں سبسڈی جا رہی تھی، چوہدری شوگر مل پر ایس ای سی پی نے کام شروع کیا تھا، برطانیہ کو لکھ رہے ہیں کہ اس کیس میں اسٹیٹ استعمال ہوا اس لیے انویسٹی گیشن کریں۔