Tag: چڑیا

  • بسنت کے دوران قاتل ڈور نے درجنوں پرندوں کی بھی جان لے لی

    بسنت کے دوران قاتل ڈور نے درجنوں پرندوں کی بھی جان لے لی

    لاہور: صوبہ پنجاب میں بسنت کے تہوار کے دوران پتنگ کی تیز دھار ڈور انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں کے لیے بھی ہلاکت خیز بن گئی، درجنوں جانور اور پرندے ڈور پھرنے سے شدید زخمی اور ہلاک ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب میں بسنت کے تہوار کے دوران پتنگ بازی سے انسانوں کے ساتھ ساتھ بے زبان پرندے بھی محفوظ نہیں، ٹیپو روڈ پر پتنگ کی قاتل ڈور پھرنے سے ننھی چڑیا بے حس و حرکت نیچے آن گری۔

    بسنت کے تہوار کے دوران پتنگ کی تیز دھار ڈور سے متعدد جانور اور پرندے بھی ہلاک ہوتے ہیں۔

    اکثر پرندے ڈور میں پھنسنے سے شدید زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔

    راولپنڈی میں 24 فروری کو بسنت کے دوران ہوائی فائرنگ سے 3 افراد بھی جاں بحق ہوگئے تھے۔

  • انڈے کی آدھی خدمت

    انڈے کی آدھی خدمت

    ایک چڑے چڑیا نے ایک اونچی کوٹھی میں اپنا گھونسلا بنایا تھا۔ اس کوٹھی میں ولایت سے بیرسٹری پاس کر کے آنے والے رہتے تھے اور ایک میم کو ساتھ لے کر آئے تھے۔

    ان کی بیرسٹری کچھ چلتی نہ تھی مگرا میر زمیں دار تھے، گزارہ خوبی سے ہو جاتا تھا۔ ولایت سے آنے کے بعد خدا نےان کو ایک لڑکی بھی عنایت کی تھی۔

    چڑے چڑیا نے کھپریل کے اندر ایک سوراخ میں گھر بنایا۔ تنکوں اور سوت کا فرش بچھایا۔ یہ سوت پڑوس کی ایک بڑھیا کے گھر سے چڑیا لائی تھی۔ وہ بیچاری چرخا کاتا کرتی تھی۔ الجھا ہوا سوت پھینک دیتی، تو چڑیا اٹھا لاتی اور اپنے گھر میں اس کو بچھا دیتی۔ خدا کی قدرت ایک دن انڈا پھسل کر گر پڑا اور ٹوٹ گیا۔ ایک ہی باقی رہ گیا۔ چڑے چڑیا کو اس انڈے کا بڑا صدمہ ہوا، جس دن انڈا گرا تو چڑیا گھونسلے میں ہی تھی۔ چڑا باہر دانہ چگنے گیا ہوا تھا۔ وہ گھر میں آیا تو چڑیا کو چپ چپ اور مغموم دیکھ کر سمجھا میرے دیر سے آنے کے سبب خفا ہوگئی ہے۔

    لگا پھدک پھدک کر چوں چوں۔ چیں، چڑچوں، چڑچوں، چیں چڑچوں، چوں کرنے۔ کبھی چونچ مار کر گدگدی کرتا۔ کبھی خود اپنے پروں کو پھیلاتا مٹکتا، ناچتا، مگر چڑیا اسی طرح پھولی اپھری خاموش بیٹھی رہی۔ اس نے چڑے کی خوشامد کا کوئی جواب نہ دیا۔ چڑا سمجھا بہت ہی خفگی ہے۔ مزاج حد سے زیادہ بگڑ گیا ہے۔ خوشامد سے کام نہ چلے گا۔ میری کتنی بڑی توہین ہے کہ اتنی دیر خوشامد درآمد کی، بیگم صاحبہ نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔

    یہ خیال کر کے چڑا بھی منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔ اور چڑیا سے بے رخ ہو کر نیچے بیرسٹر صاحب کو تاکنے لگا جو اپنی لیڈی کے سامنے آرام کرسی پر لیٹے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ چڑے نے خیال کیا یہ کیسے خوش نصیب ہیں۔ دونوں کا جوڑا خوش بشاش زندگی کاٹ رہا ہے۔ ایک میں بدنصیب ہوں، سویرے کا گیا دانہ چگ کر اب گھر میں گھسا ہوں، مگر چڑیا صاحبہ کا مزاج ٹھکانے میں نہیں ہے۔ کاش میں چڑا نہ ہوتا، کم سے کم آدمی بنا دیا جاتا۔

    چڑا اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ چڑیا نےغم ناک آواز نکالی۔ ’’چوں‘‘ چڑے نے جلدی سے مڑ کر چڑیا کو دیکھا اور کہا چوں چوں چڑچوں چوں کیا ہے، آج تم ایسی چپ کیوں ہو؟ چڑیا بولی انڈا گر کے ٹوٹ گیا۔ انڈا گرنے کی خبر سے چڑے کو رنج ہوا، مگر اس نے صدمہ کو دبا کر کہا، تم کہاں چلی گئیں تھیں۔ انڈا کیوں کر گر پڑا۔ چڑیا نے کہا میں اُڑ کر ذرا چمن کی ہوا کھانے چلی گئی تھی۔ انڈا پھسل گیا۔

    یہ سن کر چڑا آپے سے باہر ہو گیا۔ اس کے مردانہ جوش میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کڑک دار گرجتی ہوئی چوں چوں میں کہا۔ پھوہڑ، بدسلیقہ، بے تمیز تو کیوں اُڑی تھی۔ تجھ کو چمن کی ہوا کے بغیر کیا ہوا جاتا تھا۔ کیا تُو نے بھی اس گوری عورت کی خصلت سیکھ لی ہے جو گھر کا کام نوکروں پر چھوڑ کر ہوا خوری کرتی پھرتی ہے۔ تُو ایک چڑیا ہے۔ تیرا کوئی حق نہیں ہے کہ بغیر میری مرضی کے باہر نکلے۔ تجھ کو میرے ساتھ اُڑنے اور ہوا خوری کرنے کا حق ہے۔ آج کل تُو انڈوں کی نوکر تھی۔ تجھے یہاں سے ہٹنے کا اختیار نہ تھا، تُو نے ایک انڈے کا نقصان کر کے اتنا بڑا قصور کیا ہے کہ اس کا بدلہ کچھ نہیں ہوسکتا، تُو نے خدا کی امانت کی قدر نہ کی، جو اس نے ہم کو نسل بڑھانے کی خاطر دی تھی۔ میں نے تو پہلے دن منع کیا تھا کہ اری کم بخت اس کوٹھی میں گھونسلہ نہ بنا، ایسا نہ ہو اُن لوگوں کا اثر ہم پر بھی پڑ جائے۔ ہم بیچارے پرانے زمانے کے دیسی چڑے ہیں۔ خدا ہم کو نئے زمانے کے چڑیا چڑے سے بھی بچائے رکھے، کیوں کہ پھر گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے، مگر تُو نہ مانی، کہتی رہی ’’کوٹھی میں رہوں گی، کوٹھی میں گھر بناؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر میراناک میں دَم کر دیا۔

    چڑیا پہلے تو اپنےغم میں چپ چاپ چڑے کی باتیں سنتی رہی لیکن جب چڑا حد سے بڑھا تو اس نے زبان کھولی اور کہا۔

    بس، بس سن لیا، بگڑ چکے، زبان کو روکو۔ انڈے بچّے پالنے کا مجھی کا ٹھیکہ نہیں ہے، تم بھی برابر کے شریک ہو۔ سویرے کے گئے یہ وقت آگیا، خبر نہیں اپنی کس سگی کے ساتھ گلچھرے اڑاتے پھرتے رہے ہو گے۔ دوپہر میں گھر کےاندر گھسے ہیں اور آئے تو مزاج دکھانےآئے۔ انڈا گر پڑا۔ مرے پنجہ کی نوک سے، میں کیا کروں۔ میں کیا انڈوں کی خاطر اپنی جان کو گھن لگا لوں، دو گھڑی باہر کی ہوا بھی نہ کھاؤں۔ صبح سے یہ وقت آگیا، ایک دانہ حلق سے نیچے نہیں گیا۔ تم نے پھوٹے منہ سے یہ بھی نہ پوچھا کہ کیا تُو نے کچھ تھوڑا نگلا۔ مزاج ہی دکھانا آتا ہے، اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ اکیلی چڑیا یہ سب بوجھ اُٹھائے، اب آزادی اور برابری کا وقت ہے۔ آدھا کام تم کرو آدھا میں کروں۔ دیکھتے نہیں میم صاحبہ کو وہ تو کچھ بھی کام نہیں کرتیں۔ صاحب کو سارا کام کرنا پڑتا ہے۔ اور بچّے کو آیا کھلاتی ہے۔ تم نے ایک آیا رکھی ہوتی۔ میں تمہارےانڈے بچّوں کی آیا نہیں ہوں۔

    چڑیا کی اس تقریر سے چڑا سُن ہوگیا اور کچھ جواب نہ بن پڑا۔ بےچارہ غصّہ کو پی کر پھر خوشامد کرنے لگا اور اس دن سے چڑیا کے ساتھ انڈے کی آدھی خدمت بانٹ کر اپنے ذمہ لے لی۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، انشا پرداز اور طنز و مزاح نگاری کے لیے مشہور خواجہ حسن نظامی کی ایک شگفتہ تحریر، جس کا اصل عنوان "مس چڑیا کی کہانی” ہے)

  • یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    ہم انسانوں نے اس زمین پر اس طرح ترقی کی ہے کہ ہم دوسرے جانداروں کی موجودگی بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ زمین کے وسائل کا بے دریغ استعمال اور چیزوں کو ایک بار استعمال کر کے بے دردی سے پھینک دینا ہماری عادت بن چکا ہے۔

    اس معمول میں ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری یہ عادتیں اس زمین پر بسنے والے دیگر جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ہمارے پھینکے گئے کچرے نے جانوروں اور پرندوں کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

    سب سے زیادہ بے رحمانہ رویہ ہمارا پلاسٹک کی طرف ہے جسے ہم ایک بار استعال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ پلاسٹک ہزاروں سال تک یونہی زمین پر رہنے والی چیز ہے اور اس کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے زمین اب ایک پلاسٹک کا کچرا گھر معلوم ہوتی ہے۔

    یہ پلاسٹک جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ اکثر سمندری و زمینی جانور اور پرندے انہیں کھانے کی اشیا سمجھ کر کھا لیتے ہیں جس کے بعد یہ اشیا ان کے جسم کے اندر پھنس جاتی ہیں۔

    اس کے بعد یہ زہریلا پلاسٹک آہستہ آہستہ اس جاندار کو اس طرح موت کے گھاٹ اتارتا ہے کہ وہ بھوک سے مرتے ہیں تاہم ان کا پیٹ پلاسٹک سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔

    زیر نظرویڈیو بھی ایک ایسی ہی ننھی سی معصوم چڑیا کی ہے جسے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کچھ افراد نے بغور دیکھا۔ یہ چڑیا بے چینی کا شکار تھی جبکہ کچھ کھا بھی نہیں پا رہی تھی۔

    جب اس ننھی چڑیا کے جسم کا ایکسرے کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس کے اندر پلاسٹک کی بے شمار اشیا موجود تھیں۔ اس کے بعد اس چڑیا کے جسم میں نلکی ڈال کر ابکائی کے ذریعے وہ اشیا باہر نکالی گئیں۔

    زیر نظر ویڈیو اسی پروسس کی ہے جو اتنی دردناک اور تکلیف دہ ہے جسے دیکھ کر ہر حساس شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ ہمای خود غرضی نے ان معصوم بے زبانوں کو کس حال میں پہنچا دیا۔

  • ننھی چڑیا اپنے محسن کو نہ بھولی، موسم بدلنے پر ہر سال ملنے آتی ہے

    ننھی چڑیا اپنے محسن کو نہ بھولی، موسم بدلنے پر ہر سال ملنے آتی ہے

    امریکی ریاست جارجیا میں ایک سیکیورٹی افسر ہر سال ایک ننھے سے مہمان کا استقبال کرتا ہے، یہ مہمان کوئی اور نہیں ننھا سا ہمنگ برڈ ہے جو ہر سال اپنے اس محسن سے ملنے آتا ہے۔

    دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہمنگ برڈ جو نصف انسانی انگلی سے بھی چھوٹا ہے، ہر سال اپنے اس دوست سے ملنے کے لیے آتا ہے۔

    مائیکل کارڈنز نامی یہ سیکیورٹی افسر بتاتا ہے کہ 4 سال قبل اپنے گارڈن میں اسے یہ پرندہ اس حالت میں ملا تھا کہ اس کے پر ٹوٹے ہوئے تھا، یہ زخمی تھا اور اڑ نہیں سکتا تھا۔

    مائیکل نے اس پرندے کی دیکھ بھال کی اور اس کی غذا کا خیال رکھا، 8 ہفتوں بعد جب پرندے کے پر دوبارہ اگ آئے اور وہ اڑنے کے قابل ہوگیا تو وہ واپس اپنے گھر کی طرف لوٹ گیا۔

    اس کے اگلے برس مائیکل نے دیکھا کہ وہ پرندہ پھر اس کی کھڑکی پر موجود تھا۔ یہ پرندہ اس علاقے سے دور جنوب کی طرف رہتا ہے اور مائیکل کے مطابق یہ خاصا لمبا سفر کر کے اس سے ملنے آیا تھا۔

    اس کے بعد یہ ہر برس کا معمول بن گیا۔ ہر سال جب پرندے ہجرت کرنا شروع ہوتے ہیں تو یہ پرندہ اپنے دوسرے گھر جانے سے قبل اپنے محسن سے ملنے ضرور آتا ہے جس نے اس کی جان بچائی تھی۔

    مائیکل کہتا ہے کہ اپنے اس دوست سے ملاقات کر کے اسے بے حد خوشی ملتی ہے اور اب وہ ہر سال شدت سے اس کا انتظار کرتا ہے۔

  • کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے آخری بار چڑیا کب دیکھی تھی؟ ننھی منی سی بھورے رنگ کی چڑیا اکثر و بیشتر ہمارے گھروں کی کھڑکیوں پر آ کر چہچہاتی تھی مگر اب ایک طویل عرصے سے جیسے یہ چڑیائیں غائب ہوگئی ہیں۔

    آج ان چڑیاؤں کو یاد کرنے کے لیے ان کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین ماحولیات اور جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ تیزی سے ہوتی اربنائزیشن اور شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ نے اس معصوم پرندے کی نسل کو خطرے کا شکار بنا دیا ہے۔

    sparrow-3

    ان چڑیاؤں کی معدومی کی وجہ وہی انسانوں کی خود غرضانہ ترقی ہے جو ماحول اور جنگلی حیات کو داؤ پر لگا کر کی جارہی ہے۔

    ہاؤس اسپیرو کہلانے والی ان چڑیاؤں کی پہلی آماجگاہ انسانی آبادی ہے تاہم یہ نسبتاً پرسکون آبادیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اگر یہاں شور شرابہ، ہجوم اور آلودگی میں اضافہ ہوجائے تو یہ چڑیائیں وہاں سے چلی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    جنوبی امریکی بریڈنگ برڈ سروے کے مطابق سنہ 1966 سے 2012 تک ان چڑیاؤں کی آبادی میں خاصی کمی آچکی ہے۔ صرف برطانوی دارالحکومت لندن میں سنہ 1994 سے 2001 کے دوران ان چڑیاؤں کی آبادی میں 70 فیصد کمی ہوئی۔

    اس عرصے میں کئی ممالک میں ان چڑیاؤں کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی اس معصوم پرندے کے لیے نقصان دہ ہے۔

    سورج ڈھلتے ہی روشنیوں کا سیلاب، جسے اب ماہرین روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں، نہ صرف رات کے قدرتی اور خوبصورت نظاروں کو ہم سے چھین رہی ہے بلکہ یہ پرندوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    sparrow-2

    ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    چلتے چلتے آپ کو امریکی یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک اور دلچسپ تحقیق سے آگاہ کرتے چلیں جس کے مطابق پرندوں کی موجودگی کسی گھر کی مالیت میں اضافہ کردیتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق گھر خریدنے والے بلبل، چڑیا یا دیگر پرندوں کی چہچاہٹ سننا بہت پسند کرتے ہیں اور جتنے زیادہ پرندے آپ کے گھر میں ہوں گے، اتنی ہی زیادہ آپ کے گھر کی مالیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

  • کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کھڑکیوں پر چہچہانے والی چڑیا کہاں غائب ہوگئی؟

    کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے آخری بار چڑیا کب دیکھی تھی؟ ننھی منی سی بھورے رنگ کی چڑیا اکثر و بیشتر ہمارے گھروں کی کھڑکیوں پر آ کر چہچہاتی تھی مگر اب ایک طویل عرصے سے جیسے یہ چڑیائیں غائب ہوگئی ہیں۔

    آج ان چڑیاؤں کو یاد کرنے کے لیے ان کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    ماہرین ماحولیات اور جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ تیزی سے ہوتی اربنائزیشن اور شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ نے اس معصوم پرندے کی نسل کو خطرے کا شکار بنا دیا ہے۔

    sparrow-3

    ان چڑیاؤں کی معدومی کی وجہ وہی انسانوں کی خود غرضانہ ترقی ہے جو ماحول اور جنگلی حیات کو داؤ پر لگا کر کی جارہی ہے۔

    ہاؤس اسپیرو کہلانے والی ان چڑیاؤں کی پہلی آماجگاہ انسانی آبادی ہے تاہم یہ نسبتاً پرسکون آبادیوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اگر یہاں شور شرابہ، ہجوم اور آلودگی میں اضافہ ہوجائے تو یہ چڑیائیں وہاں سے چلی جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    جنوبی امریکی بریڈنگ برڈ سروے کے مطابق سنہ 1966 سے 2012 تک ان چڑیاؤں کی آبادی میں خاصی کمی آچکی ہے۔ صرف برطانوی دارالحکومت لندن میں سنہ 1994 سے 2001 کے دوران ان چڑیاؤں کی آبادی میں 70 فیصد کمی ہوئی۔

    sparrow-4

    اس عرصے میں کئی ممالک میں ان چڑیاؤں کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی اس معصوم پرندے کے لیے نقصان دہ ہے۔

    سورج ڈھلتے ہی روشنیوں کا سیلاب، جسے اب ماہرین روشنی کی آلودگی کا نام دیتے ہیں، نہ صرف رات کے قدرتی اور خوبصورت نظاروں کو ہم سے چھین رہی ہے بلکہ یہ پرندوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    sparrow-2

    ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی روشنیاں پرندوں کی تولیدی صحت پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے ان کی آبادی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    چلتے چلتے آپ کو امریکی یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک اور دلچسپ تحقیق سے آگاہ کرتے چلیں جس کے مطابق پرندوں کی موجودگی کسی گھر کی مالیت میں اضافہ کردیتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق گھر خریدنے والے بلبل، چڑیا یا دیگر پرندوں کی چہچاہٹ سننا بہت پسند کرتے ہیں اور جتنے زیادہ پرندے آپ کے گھر میں ہوں گے، اتنی ہی زیادہ آپ کے گھر کی مالیت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اپنے ساتھی کی جدائی پر افسردہ جانور

    اپنے ساتھی کی جدائی پر افسردہ جانور

    کیا آپ جانتے ہیں جس طرح انسانوں کے جذبات ہوتے ہیں اسی طرح جانوروں اور درختوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں۔ جیسے انسان غم، خوشی، تکلیف اور راحت محسوس کر سکتا ہے اسی طرح درخت اور جانور بھی ان تمام کیفیات کو محسوس کر سکتے ہیں۔

    ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جب ہم کسی درخت یا پودے کے قریب بیٹھ کر خوشگوار گفتگو کریں اور انہیں پیار سے چھوئیں تو ان کی افزائش کی رفتار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ نہایت صحت مند ہوتے ہیں۔

    اس کے برعکس اگر پودوں اور درختوں کا خیال نہ رکھا جائے، یا ان کے سامنے منفی اور نفرت انگیز گفتگو کی جائے تو ان پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور وہ مرجھا جاتے ہیں۔

    اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جب ہم کسی بچے کی حوصلہ افزائی اور تعریف کریں تو وہ اپنی استعداد سے بڑھ کر کام سر انجام دیتا ہے جبکہ جن بچوں کو ہر وقت سخت سست سننی پڑیں، برے بھلے الفاظ کا سامنا کرنا پڑے ان کے کام کرنے صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔

    اب بات کرتے ہیں جانوروں کی۔ جانوروں کو اپنے مالک کی جانب سے پیار اور نفرت کے رویے کا احساس تو ہوتا ہی ہے، اور وہ اکثر خوش ہو کر ہنستے اور تکلیف کا شکار ہو کر روتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں یہ جانور بھی پالتو ہیں؟ *

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی جدائی کو بھی ایسے ہی محسوس کرتے ہیں جیسے انسان اپنے قریبی عزیز کے بچھڑنے پر دکھ کا شکار ہوتے ہیں۔

    یہاں ہم نے جانوروں کی کچھ ایسی ہی تصاویر جمع کی ہیں جن میں وہ اپنے ساتھی، اولاد یا ماں کی جدائی پر افسردہ اور غمگین نظر آرہے ہیں۔ ان تصاویر کو دکھانے کا مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ جانوروں کے بھی نازک جذبات ہوتے ہیں اور انہیں ان کے پیاروں سے جدا کر کے قید کرنا ہرگز انسانی عمل نہیں۔

    یہ تصاویر دیکھ کر یقیناً آئندہ آپ بھی جانوروں کا خیال رکھیں گے۔

    2

    اس کتے کی غیر موجودگی میں اس کے بچوں پر کسی شکاری جانور نے حملہ کردیا اور انہیں مار ڈالا۔ کتے کا دکھ ہر صاحب دل کو رونے پر مجبور کردے گا۔

    3

    4

    بھارت کی ایک سڑک پر ایک کتا اپنے ساتھی کی موت پر اس قدر افسردہ ہے کہ اسے یہ احساس بھی نہیں کہ سڑک سے گزرنے والی کوئی گاڑی اس کے اوپر سے بھی گزر سکتی ہے۔

    5

    ایک چڑیا اپنے چڑے کی موت پر رو رہی ہے۔

    6

    ننھے معصوم سے اس کتے کو یقیناً شدید تکلیف پہنچی ہے جو اس کی آنکھوں میں آنسو لانے کا باعث بنی۔

    7

    8

    ہاتھی کا ننھا بچہ اپنی ماں کی موت پر شدید دکھ کا شکار ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔

    9

    ایک چڑیا گھر میں موجود بن مانس اپنے ساتھی کی موت پر اداس بیٹھا ہے۔ اس کے پیچھے کھڑے ننھے بچے بھی اس کی توجہ حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

    10

    نہایت ظالمانہ طریقے سے قید کیے گئے اس بندر کی تکلیف اور اداسی اس کے انداز سے عیاں ہے۔

    1

    گدھے کو عموماً ایک بوجھ ڈھونے والا جانور خیال کیا جاتا ہے اور اسے بغیر کسی احساس کے شدید تکالیف سے دو چار کیا جاتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ جو بوجھ اس پر لادا جارہا ہے کیا وہ اسے اٹھانے کی سکت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔

    اور ایک پالتو کتا جب اپنے مالک کی قبر پر گیا تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اسے یاد کر کے رونے لگا۔