Tag: چڑیا گھر

  • کراچی: چڑیا گھر کی ہتھنیاں نور جہاں اور مدھو بالا کہاں جائیں گی؟

    کراچی: چڑیا گھر کی ہتھنیاں نور جہاں اور مدھو بالا کہاں جائیں گی؟

    کراچی: سفاری پارک نے ہتھنیوں کی منتقلی اور ان کے انتظامات سے انتظامیہ نے معذرت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق چڑیا گھر کی ہتھنیوں کو سفاری پارک منتقل کرنا تھا، چڑیا گھر کے سینئر ڈائریکٹر نے ہتھنیوں کو سفاری پارک منتقل کرنے کیلئےخط لکھا تھا۔

    تاہم ڈائریکٹر سفاری پارک نے جوابی خط میں ہتھنیوں کی منتقلی سےمنع کردیا، سفاری پارک کے ڈائریکٹر نے انتظامیہ سے ہتھنیوں کی رہائش کے انتظامات کیلئے ٹینڈر دینے کا مشورہ دیا ہے۔

    واضح رہے کہ کراچی چڑیا گھر میں ہھتنی نورجہاں کی طبیعت دن بدن خراب ہونے لگی۔

    ہھتنی نورجہاں کو جوڑوں میں تکلیف پر دی جانے والی ادویات نے حالت مزید خراب کردی۔

    ذرائع نے بتایا کہ چڑیا گھر انتظامیہ نے ہتھنی کو درد کش دواؤں پر رکھا ہوا تھا، دردکش ادویات کے باعث ہتھنی کی طبیعت دن بدن مزید خراب ہورہی ہے۔

  • چڑیا گھر میں سفید شیر کی ہلاکت پر انکوائری کے دوران ہٹایا گیا افسر دوبارہ تعینات

    کراچی: چڑیا گھر میں سفید شیر کی ہلاکت پر انکوائری کے دوران ہٹائے گئے افسر خالد ہاشمی کو دوبارہ تعینات کر دیا گیا۔

    ایک طرف ایم کیو ایم کے تجویز کردہ افسران کو ایڈمنسٹریٹرز کے عہدے سے ہٹانے کی تیاری کی جا رہی ہے، دوسری طرف سندھ حکومت اپنے پسندیدہ افسران کو عہدے دینے لگی ہے۔

    تقرری اور تبادلے پر پابندی کے باوجود معطل افسر خالد ہاشمی کو سینئر ڈائریکٹر زو اینڈ سفاری لگا دیا گیا، خالد ہاشمی کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے جاری کیا۔

    الیکشن کمیشن واضح طور پر ایڈمنسٹریٹر کراچی کو کسی بھی قسم کی ٹرانسفر پوسٹنگ نہ کرنے کی ہدایت کر چکا ہے، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد ہاشمی کی تعیناتی سے ایڈمنسٹریٹر کراچی بھی لاعلم نکلے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ خالد ہاشمی کو سابق ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے ڈائریکٹر زو کے عہدے سے ہٹا دیا تھا، چڑیا گھر میں سفید شیر کی ہلاکت پر کارروائی کرتے ہوئے انکوائری شروع کی گئی تھی۔

  • کراچی زو کی ہتھنیاں دانتوں کی تکلیف میں مبتلا، روٹ کینال آپریشن ہوگا

    کراچی زو کی ہتھنیاں دانتوں کی تکلیف میں مبتلا، روٹ کینال آپریشن ہوگا

    کراچی: شہر قائد کے چڑیا گھر کی ہتھنیاں دانتوں کی تکلیف میں مبتلا ہو گئی ہیں، جنھیں اس تکلیف سے نجات دلانے کے لیے روٹ کینال کیا جائے گا۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں ایک انوکھا روٹ کینال آپریشن ہونے جا رہا ہے، کراچی زو کی 16 سالہ مدھو بالا اور 17 سالہ نور جہاں نامی ہتھنیوں کا روٹ کینال ہوگا۔

    دونوں ہتھنیاں دانتوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں، آسٹریا سے آنے والے انٹرنیشنل فور پاز نامی تنظیم کے ڈاکٹرز روٹ کینال آپریشن کریں گے۔

    مدھو بالا کا دانت گل چکا ہے، جس کا آپریشن کل کیا جائے گا، غیر ملکی ڈاکٹرز کی ٹیم نے دونوں ہتھنیوں کا معائنہ کر لیا ہے۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ دونوں ہتھنیوں کے دانتوں کا انفیکشن خطرناک مرحلے تک پہنچ گیا ہے اور وہ مسلسل درد میں مبتلا ہیں۔

    روٹ کینال پروسیجر کے لیے طبی آلات خاص طور پر ڈیزائن کیے گئے ہیں، جن میں بڑے سائز کے ایکسکویٹرز، ڈرلز، انڈوڈونٹک برس اور دیگر آلات شامل ہیں۔

    تنظیم فور پاز کی ٹیم ڈاکٹر مرینا ایوانووا، ڈاکٹر فرینک گورتز، ڈاکٹر تھامس ہلڈربرانت، سی ای او جوزف فابیگان، ڈائریکٹر عامر خلیل، ہاتھی ٹرینر میتھیئس اوٹو اور ان کے اسسٹنٹ ایگنیزکا پر مشتمل ہے۔

  • 10 سال سے تنہائی کا شکار زیبرا چل بسا

    10 سال سے تنہائی کا شکار زیبرا چل بسا

    کراچی: شہر قائد کے چڑیا گھر میں 10 سال سے تنہائی کا شکار زیبرا چل بسا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی زو کا واحد زیبرا بھی اب نہ رہا، اس نے اپنے انکلوژر میں دس سال تنہائی کے عالم میں گزارے۔

    کراچی چڑیا گھر کی انتظامیہ نے پھرتی دکھاتے ہوئے صبح سویرے ہی زیبرے کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا، امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کی موت دل کے دورے کے باعث ہوئی ہے۔

    تاہم ڈائریکٹر ریکریشن بلدیہ عظمیٰ کراچی منصور قاضی کا کہنا ہے کہ زیبرے کی موت کی وجہ کا حتمی تعین پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوگا، اور اس کی رپورٹ کل موصول ہوگی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زیبرے کی طبعی عمر 20 سے 25 سال ہوتی ہے، جب کہ مرنے والے زیبرے کی عمر 23 سال تھی، یہ زیبرا کراچی کے چڑیا گھر ہی میں تئیس برس قبل پیدا ہوا تھا، تاہم یہ صحت مند تھا۔

    ڈائریکٹر ریکریشن منصور قاضی نے بتایا کہ جلد ہی زیبرے کا متبادل چڑیا گھر لایا جائے گا۔

  • فلوریڈا: چڑیا گھر کے ملازم کے ساتھ دل دہلا دینے والا حادثہ

    فلوریڈا: چڑیا گھر کے ملازم کے ساتھ دل دہلا دینے والا حادثہ

    امریکی ریاست فلوریڈا کے چڑیا گھر میں ایک ملازم پر شیر کے ہولناک حملے کے بعد شیر کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا، ملازم شدید زخمی حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہے۔

    فلوریڈا کے شہر نیپلز کے چڑیا گھر میں یہ خوفناک واقعہ چند روز قبل پیش آیا تھا جس کے بعد چڑیا گھر کو عارضی طور پر بند کردیا گیا۔

    مقامی میڈیا کے مطابق رات کے وقت ریسٹ رومز کی صفائی کرنے والا ایک ملازم ممنوعہ حصے میں جا پہنچا جہاں شیر کا انکلوژر موجود تھا۔

    ملازم نے کچھ کھلانے یا پیار کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جو جنگلے میں پھنس گیا اور اسی وقت شیر نے حملہ کر کے اس کا بازو دبوچ لیا۔

    پولیس کی جانب سے جاری کردہ دل دہلا دینے والی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے ملازم خون میں لت پت ہے اور مدد کے لیے چلا اور کراہ رہا ہے۔

    انتظامیہ کی جانب سے فوری طور پر پولیس کو اطلاع کیے جانے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی تو اس نے شیر کو وہاں سے بھگانے کی کوشش کی، جب وہ پیچھے نہیں ہٹا تو مجبوراً پولیس نے شیر کو گولی مار کر ملازم کی جان بچائی۔

    ملازم کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق 26 سالہ شخص کو مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔

    واقعے کے بعد چڑیا گھر کو عارضی طور پر بند کردیا گیا اور اسے گزشتہ روز دوبارہ کھولا گیا۔

    مذکورہ شیر نایاب نسل کا ملائین ٹائیگر تھا جو دنیا بھر میں معدومی کے خطرے سے دو چار ہے، شیر کو مارنے پر چڑیا گھر انتظامیہ اور پولیس کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

  • کراچی چڑیا گھر اور سفاری پارک میں موجود افریقی ہاتھی سخت تکلیف کا شکار

    کراچی چڑیا گھر اور سفاری پارک میں موجود افریقی ہاتھی سخت تکلیف کا شکار

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے چڑیا گھر اور سفاری پارک میں رکھے گئے 4 افریقی ہاتھیوں کی طبی رپورٹ عدالت کو پیش کردی گئی، رپورٹ کے مطابق ہاتھی تکلیف میں ہیں اور انہیں فوری علاج کی ضرورت ہے، علاج میں تاخیر سے ہاتھیوں کی زندگی کو خطرات ہوسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں کراچی چڑیا گھر اور سفاری پارک میں رکھے گئے 4 افریقی ہاتھیوں سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، جرمن ڈاکٹر فرینک گورٹز کی جانب سے تیار کی گئی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی چڑیا گھر اور سفاری پارک میں رکھے گئے ہاتھیوں کا معائنہ کیا گیا، سفاری پارک میں رکھے ہاتھیوں کو خوراک کے مسائل درپیش ہیں، چڑیا گھر میں 2 ہاتھیوں کو دانتوں اور مسوڑھوں کے مسائل ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ چاروں ہاتھیوں کو فوری طبی امداد کی اشد ضرورت ہے، ہاتھیوں کو فوری طبی تربیت اور اچھی صحت بخش خوراک کی ضرورت ہے۔ ہاتھیوں کے ٹوٹے دانت نکالنے، سرجری کرنے، انہیں ٹیٹنس اور بیکٹریا پوش ادویات دینے کی ضرورت ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اگر علاج میں تاخیر کی گئی تو ہاتھیوں کی زندگی کو خطرات ہوسکتے ہیں، تمام ہاتھیوں کو مستقل طور پر اچھا ماحول دیا جائے۔ روٹین کی بنیاد پر علاج اور بنیادی میڈیکل چیک اپ کروایا جائے۔

    جرمن ڈاکٹر کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہاتھیوں کا معائنہ کرنے والی ٹیم 4 بین الاقوامی ڈاکٹرز اور ماہرین پر مشتمل تھی۔ ہاتھیوں کا جسمانی معائنہ، رویے، غذا اور پاؤں کا معائنہ کیا گیا۔

    جرمن ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہاتھیوں کی ہلاکت کی ایک بڑی وجہ پاؤں کی تکلیف ہے، چاروں ہاتھیوں کے الٹرا ساؤنڈ بھی کیے گئے ہیں، ہاتھی موٹاپے کا شکار ہیں اور ان کا وزن بڑھا ہوا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کراچی چڑیا گھر میں رکھے گئے 2 ہاتھیوں کا ہیمو گلوبن کم ہے، ہاتھیوں کے ناخن کاٹے گئے اور دانتوں کی بھی سرجری کی گئی ہے تاہم ہاتھی ابھی بھی تکلیف میں ہیں۔

    سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس ظفر راجپوت کا کہنا تھا کہ تشخیص ہوگئی ہے، اب بتایا جائے کہ علاج کیسے ہوگا۔ کے ایم سی کے وکیل نے کہا کہ جتنا ممکن ہے ہاتھیوں کا خیال رکھا جا رہا ہے۔

    این جی او کے وکیل نے کہا کہ علاج کی مناسب سہولیات دستیاب نہیں ہیں، اگر کے ایم سی ہم سے رجوع کرے تو علاج کروا سکتے ہیں۔

    عدالت نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ کاون کی طرح ان ہاتھیوں کو بھی کمبوڈیا بھیج دیا جائے، کے ایم سی علاج کی درخواست دے تو عدالت اس پر حکم جاری کردے گی۔

    کے ایم سی کی جانب سے کہا گیا کہ ہمیں تفصیلی رپورٹ کی نقل فراہم کی جائے جس کا جائزہ لے کر فیصلہ کریں گے۔

    عدالت نے رپورٹ کی نقل فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 13 جنوری تک ملتوی کردی۔

  • شیر کی ہلاکت پر اہم افسر برطرف، سابق میئر نے تحقیقات کا مطالبہ کر دیا

    شیر کی ہلاکت پر اہم افسر برطرف، سابق میئر نے تحقیقات کا مطالبہ کر دیا

    کراچی: نایاب سفید شیر کی ہلاکت پر سینئر ڈائریکٹر زو اور سفاری خالد ہاشمی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، سابق میئر کراچی وسیم اختر نے شیر کی ہلاکت پر تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چڑیا گھر میں نایاب سفید شیر کی موت پر چڑیا گھر اور سفاری پارک کے سینئر ڈائریکٹر خالد ہاشمی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کی عہدے سے برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے، اور ان کی جگہ منصور قاضی کو سینئر ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا۔

    شیر کی ہلاکت کے معاملے پر سابق مئیر وسیم اختر ایڈمنسٹریٹر کراچی پر پھٹ پڑے ہیں، انھوں نے کہا جو نایاب شیر میں اپنے دور نظامت میں صحت مند چھوڑ کر آیا تھا، چار مہینے میں انھوں نے اس کو مار دیا، وزیر اعلیٰ سندھ فوری طور پر شیر کی ہلاکت کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی بنائیں۔

    کراچی چڑیا گھر میں موجود نایاب نسل کا سفید شیر ہلاک

    انھوں نے کہا تحقیقاتی کمیٹی میں ایڈمنسٹریٹر کو شامل تفتیش کیا جائے، پی پی چیئرمین بلاول بھی ایڈمنسٹریٹر سے پوچھیں وہ چار مہینے سے کیا کر رہا ہے، پیپلز پارٹی نے پہلے یہاں کے شہریوں کو ہلاک کیا اب جانوروں کی باری آ چکی ہے، زو کا ٹھیکے دار ان کو بار بار لکھ رہا ہے میرے بلز کلیئر کرو، بلز کلیئر نہ ہونے کے باعث گوشت، اور کھانے کی دیگر اشیا میں رکاوٹ آتی رہی، لیکن انھوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔

    وسیم اختر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کراچی میں ہیں، وہ اس معاملے کا نوٹس لیں، بہت پیارا اور اچھا شیر تھا، 13 دن سے بیمار تھا، لیکن کوئی اس کے پاس نہیں گیا، کوئی ڈاکٹر نہیں آیا، کوئی علاج نہیں ہوا، اس حوالے سے سب خبریں جھوٹی ہیں۔

  • سینٹ لوئیس چڑیا گھر: جس کی گزرگاہوں میں کھو جانے کی تمنا ہو

    سینٹ لوئیس چڑیا گھر: جس کی گزرگاہوں میں کھو جانے کی تمنا ہو

    جانوروں سے محبت ہونے کے باوجود پاکستانی چڑیا گھروں کی سیر کرنا مجھے ہرگز پسند نہیں جس کی وجہ وہاں رکھے گئے جانوروں کی حالت زار ہے، لیکن بیرون ملک سفر کے دوران میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ جس شہر میں بھی جاؤں وہاں کے چڑیا گھر ضرور جاؤں اور وہاں کے مقامی جانور اور انہیں چڑیا گھر میں رکھے جانے کا انداز دیکھوں۔

    سنہ 2019 میں ایک فیلو شپ کے سلسلے میں امریکا جانا ہوا تو میں نے پہلے ہی گوگل پر سرچ کرلیا کہ جن شہروں میں ہم جائیں گے وہاں کے چڑیا گھروں میں کون کون سے جانور موجود ہیں۔ ایک چڑیا گھر میں دنیا کے نایاب ترین جاندار پینگوئن کی موجودگی نے مجھے پرجوش کردیا اور میں نے طے کرلیا کہ زندگی کبھی کسی برفانی خطے میں جا کر پینگوئن سے ملاقات کا موقع تو شاید نہ دے، لہٰذا امریکا کے چڑیا گھر میں ہی اسے دیکھ لیا جائے۔

    سینٹ لوئیس زولوجیکل پارک

    پاکستانی صحافیوں کے لیے منعقدہ اس فیلو شپ میں مجھ سمیت ملک بھر سے تقریباً 10 صحافیوں کو منتخب کیا گیا تھا۔ ہمارے دورے میں واشنگٹن ڈی سی سمیت امریکا کے 3 شہر شامل تھے۔ نومبر کی ایک صبح جب ہم ریاست میزوری کے شہر سینٹ لوئیس میں اترے تو درجہ حرارت منفی 1 تک گر چکا تھا۔ اس سے قبل ہم ریاست اوکلوہاما میں تھے جہاں درمیان کے تین دن موسلا دھار بارش رہی اور شروع اور آخر کے 2 دن میں تیز دھوپ نے ہمیں جھلسا دیا تھا۔

    اس کے بعد سینٹ لوئیس کا منفی ڈگری سینٹی گریڈ ہم سب کو ٹھٹھرا دینے کے لیے کافی تھا۔ سردی اس قدر شدید تھی کہ پنجاب اور بالائی علاقوں کی سخت سردیوں کے عادی صحافی دوست بھی ٹھٹھر رہے تھے، ہم کراچی والوں کا تو حال ہی برا تھا جنہیں سردیاں کم ہی نصیب ہوتی تھیں۔

    ایک روز جب ہمارے طے شدہ پروگرام میں سینٹ لوئیس کے تاریخی گیٹ وے آرچ اور بوٹینکل گارڈن کی سیر شامل تھی، منتظمین نے ہماری ٹھٹھرتی حالت پر ترس کھاتے ہوئے گارڈن کا دورہ منسوخ کردیا اور ہمیں واپس ہوٹل جا کر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔

    سینٹ لوئیس کا تاریخی گیٹ وے آرچ

    آرام کس کافر کو کرنا تھا۔ ہوٹل کے قریب ایک ریستوران میں لنچ کرتے ہوئے سب نے پروگرام بنایا کہ وقت مل گیا ہے تو وال مارٹ جا کر تحفے تحائف کی ادھوری شاپنگ مکمل کی جائے۔ میں نے صاف انکار کردیا کہ ایسے موسم میں مجھے ہوٹل کا گرم کمرا اور بستر زیادہ پرکشش لگ رہا ہے۔ اس دوران سینٹ لوئیس زو ذہن میں تھا۔

    میں نے دبے لفظوں میں کہا کہ کیوں نا چڑیا گھر چلا جائے لیکن شاپنگ کی زور و شور سے ہونے والی بحث میں میری آواز دب گئی چانچہ میں کان لپیٹ کر کھانے میں مصروف ہوگئی۔ تاحال میرا ارادہ اکیلے کہیں نہ جانے اور ہوٹل واپس جا کر سونے کا ہی تھا۔

    ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر سردی سے جما ہوا دماغ کچھ بحال ہوا تو چڑیا گھر کی ویب سائٹ اور تصاویر کھول کر دیکھیں۔ تصاویر دیکھ کر یاد آگیا کہ مجھے پینگوئن دیکھنا تھا۔ استقبالیہ پر کال کر کے راستے کی معلومات لینی چاہیں تو ریسیپشن پر بیٹھی خاتون نے جاں فزا خبر سنائی کہ ہوٹل کی مفت شٹل سروس مجھے چڑیا گھر تک چھوڑ اور واپس لے سکتی ہے۔

    بس پھر کیا تھا، میں نے سونے کا ارادہ واپس کراچی جانے تک مؤخر کیا، موٹی جیکٹ چڑھائی، اپنے پاس موجود تمام ڈالرز بیگ میں ڈالے کہ کہیں پینگوئن پر لگے مہنگے ٹکٹ کی وجہ سے مجھے نامراد نہ لوٹنا پڑے اور نیچے آگئی۔

    شٹل کے لمبے چوڑے سیاہ فام ڈرائیور نے بتایا کہ مجھ سے پہلے اسے ایک گروپ نے وال مارٹ کے لیے بک کرلیا ہے، وہ مجھے چڑیا گھر چھوڑ تو آئے گا لیکن واپسی میں پہلے اس گروپ کو ہوٹل پہنچائے گا اور پھر مجھے لینے آئے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ میرے ہی دوست ہیں اور انہیں ہرگز اعتراض نہ ہوگا اگر وہ انہیں وال مارٹ سے لینے کے بعد چڑیا گھر پہنچے اور پھر مجھے وہاں سے لے کر سب کو ایک ساتھ ہوٹل پر اتارے، وہ مان گیا۔

    کم آن لیڈی کہہ کر وہ وین میں بیٹھ گیا اور میں بھی اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی، اگلے دو منٹ کے اندر جب گاڑی ہوٹل چھوڑ کر خزاں رسیدہ درختوں سے بھرے نہایت سنسان راستوں سے گزرنے لگی تو مجھے ایک لمحے کو خوف بھی محسوس ہوا۔ راستہ نہایت خوبصورت تھا، دو رویہ درختوں سے ڈھکا ہوا، خزاں نے ان درختوں کو بے رنگ کر کے گویا عجب خوبصورتی عطا کردی تھی۔ 10 منٹ طویل راستہ اختتام پذیر ہوا اور چڑیا گھر کے سائن بورڈز نظر آئے تو میں خوش ہوگئی۔

    نیک طنیت شٹل ڈرائیور نے چڑیا گھر کے مرکزی دروازے پر چھوڑا اور مسکراتے ہوئے ’انجوائے یور وزٹ‘ کہہ کر ہاتھ ہلا کر واپس چلا گیا۔

    چڑیا گھر کے استقبالیہ پر مجھے زو کا نقشہ تھمایا گیا اور بتایا گیا کہ زو 4 بجے بند ہوجائے گا یعنی میرے پاس صرف 1 گھنٹہ تھا۔ انٹری اور پورے چڑیا گھر کی سیر بالکل مفت تھی۔ مجھے کراچی کے تفریحی مقامات یاد آئے جہاں داخلے کی فیس الگ لی جاتی ہے جبکہ اندر موجود تفریحی سہولیات پر الگ ٹکٹ ہیں۔ تقشہ تھام کر چڑیا گھر کے اندر چلنا شروع کیا۔

    چڑیا گھر کی گزرگاہیں دیکھ کر اردو شاعروں کی حزنیہ شاعری یاد آگئی جنہیں خزاں میں درختوں کے گرتے پتے اور سنسان راستے دیکھ کر محبوب کی یاد آجاتی تھی۔

    سینٹ لوئیس زو جس کا مکمل نام سینٹ لوئیس زولوجیکل پارک ہے سنہ 1910 میں قائم کیا گیا۔ اس کے پہلے ڈائریکٹر جارج ولہرل تھے جو کہا کرتے تھے، ایک زندہ دل شہر کو 2 چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک اچھا چڑیا گھر، اور ایک اچھی بیس بال ٹیم۔

    سینٹ لوئیس کے چڑیا گھر میں موجود کئی جانوروں کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ جیسے فل نامی گوریلا کو لائف میگزین کے سرورق پر جگہ ملی۔ چڑیا گھر کا پہلا ہاتھی سنہ 1992 میں پیدا ہوا جس کے والدین ایشیائی تھے اور اس کا نام راجہ رکھا گیا۔

    اس چڑیا گھر کا شمار اینیمل مینجمنٹ، ریسرچ اور تحفظ جنگلی حیات کے اقدامات کے حوالے سے دنیا کے اہم اداروں میں کیا جاتا ہے اور یہاں موجود جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو دنیا کے مختلف خطوں سے لائی اور نہایت حفاظت و خیال سے رکھی گئی ہیں۔

    میں نے جب اس چڑیا گھر کی سیر کی تب سخت سردی تھی اور زو کے بند ہونے کا ٹائم قریب تھا لہٰذا وہاں لوگ نہ ہونے کے برابر تھے۔ میرا اصل مقصد پینگوئن دیکھنا تھا چنانچہ میں راستے میں مختلف جانوروں کو سرسری نظر سے دیکھتی ہوئی گزری۔

    تمام جانداروں کے انکلوژز بڑے اور کھلے ہوئے تھے اور شیشے کی دیواروں سے ان کی حد بندی کی گئی تھی۔ گو کہ یہ کھلے انکلوژر بھی ان جانوروں اور پرندوں کے لیے ناکافی تھے کہ وہ جنگلوں اور فضاؤں کی وسعتوں کے لیے پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کی حالت پاکستانی چڑیا گھروں سے خاصی مختلف اور بہتر تھی۔

    مختلف راستوں سے گزر کر میں اس انکلوژر میں پہنچی جہاں پینگوئن موجود تھے۔ یہاں ان کی مختلف اقسام موجود تھیں، ان کے لیے دو تالاب بھی بنائے گئے تھے جس کے سرد پانی میں ڈبکیاں لگاتے پینگوئن نہال تھے۔

    دنیا بھر میں پینگوئن کی 18 اقسام پائی جاتی ہیں جو زمین کے سرد ترین علاقوں میں رہتی ہیں۔ سنہ 1959 میں 12 ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت برفانی خطوں میں موجود جانداروں کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں نقصان پہنچانے یا کسی بھی طرح ان کے قریب جانے کو غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے۔

    معاہدے کے تحت پینگوئن کے شکار یا اس کے انڈے جمع کرنے پر بھی پابندی عائد ہے، یہی وجہ ہے کہ زمین کا نایاب ترین جانور ہونے کے باوجود اسے معدومی کا کوئی خطرہ نہیں اور اس کی نسل مستحکم ہے۔

    اچھلتے کودتے پینگوئنز کی تصاویر اور ان کے ساتھ سیلفیاں بنا کر میں واپس ہوئی تو نقشے میں ایک جگہ جانے پہچانے زرافے دکھائی دیے۔ اپنے صحافتی سفر میں وائلڈ لائف کو کور کرتے کرتے ان جانوروں سے بھی واقفیت ہوگئی تھی جن کا پاکستان میں نام و نشان بھی نہ تھا اور سوچتی تھی کہ کیا کبھی ان جانوروں کو دیکھنے، انہیں چھونے اور پیار کرنے کا موقع ملے گا؟ اب زرافے کا پتہ چلا تو دل دھڑک اٹھا کہ یہاں تک آ ہی گئے تو یہ خواہش بھی پوری کرلی جائے۔

    گھڑی دیکھی تو وقت کم تھا اور راستہ طویل۔ لیکن سوچا کہ زرافہ نہ دیکھنے کے پچھتاوے سے بہتر ہے ایک رات کے لیے چڑیا گھر میں بند ہوجانا۔ سو باہر نکل کر زرافے کے انکلوژر کی جانب چلنے لگی۔

    اونچے نیچے بل کھاتے راستے، دونوں طرف سرخ اور زرد پتوں سے لدے درخت، زمین پر گرے زرد پتے اور انسان کا نام و نشان نہیں۔ یہ وہ راستے تھے جن پر کھو جانے کی آرزو کی جاتی ہے۔ صرف راستے ہی نہیں جانوروں کے لیے مخصوص کردہ احاطے بھی خالی تھے جس کی وجہ بعد میں پتہ چلی۔

    میں چونکہ راستوں اور سمتوں کے معاملے میں خاصی بھلکڑ واقع ہوئی ہوں سو رک رک کر ایک ایک موڑ کی نشانی ذہن نشین کرتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔ جب دائیں یا بائیں مڑنا ہوتا تو پلٹ کر دیکھتی اور سوچتی کہ واپسی کے وقت دایاں بائیں میں تبدیل ہوچکا ہوگا، راستہ بتانے والا آس پاس کوئی نہیں ہے لہٰذا خود ہی یاد رکھ کر واپس آنا ہوگا۔

    خاصا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب اس جگہ پہنچی جہاں زرافوں کا سائن بورڈ لگا تھا تو لکڑی کی باڑھ سے ارد گرد سبز قطعہ، جہاں زرافوں کو ہونا چاہیئے تھا، خالی تھا۔ آس پاس کچھ اجنبی قسم کے بندر اپنے محدود کردہ حصے میں اچھلتے دکھائی دیے لیکن زرافہ غائب تھا۔ میں مایوس ہو کر پلٹنے کو تھی کہ اندر سبز قطعے کے ساتھ موجود بند جگہ سے ایک شخص باہر آتا دکھائی دیا۔

    میں نے اس سے زرافوں کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ ویسے تو چڑیا گھر کے بند ہونے کا وقت 4 بجے ہے جس کے بعد جانوروں کو کھلے حصے سے اندر بند جگہ لے جایا جاتا ہے، لیکن آج چونکہ سردی بہت زیادہ ہے لہٰذا مقررہ وقت سے پہلے ہی جانوروں کو اندر بند کیا جاچکا ہے۔ میرے چہرے پر مایوسی دیکھ کر اس نے کہا کہ چونکہ میں ٹورسٹ لگتی ہوں تو وہ خصوصی طور پر مجھے اندر لے جا کر زرافے دکھا سکتا ہے۔

    میں اس کے پیچھے ایک تاریک کمرے کی طرف چل پڑی۔ اندر ہیٹر کے درجہ حرارت سے گرم ایک طویل کمرہ تھا جس کے دونوں طرف  پنجرے تھے جن کی سلاخیں چھت تک جارہی تھیں۔ ان پنجروں میں زرافے، شتر مرغ، ایک قسم کا ہرن اور دیگر کئی جانور تھے۔

    بقیہ جانور تو آرام سے ان پنجروں میں بند تھے لیکن زرافوں کی طویل گردنیں چھت سے ٹکرا رہی تھی۔ وہ بیچارے اپنی گردن جھکاتے تو وہ سلاخوں سے لگتیں۔ غرض وہ نہایت غیر آرام دہ حالت میں پنجرے میں موجود تھے اور ان کو دیکھ کر میری خوشی ماند پڑ گئی۔ قریب سے دیکھنے پر ان کے چہرے کا نرم فر نہایت بھلا محسوس ہوا۔

    زرافہ جسے افریقی ممالیہ کہا جاتا ہے، زمین پر پایا جانے والا طویل ترین جانور ہے۔ 21 جون کو جب زمین کے ایک حصے پر سال کا طویل ترین دن، اور دوسرے حصے پر سال کی طویل ترین رات ہوتی ہے، اس طویل القامت جانور کا دن بھی منایا جاتا ہے۔

    زرافے کو عالمی اداروں نے معدومی کے خطرے سے دو چار جانداروں میں سے ایک قرار دے رکھا ہے جس کی وجہ افریقہ میں ہونے والی خانہ جنگیاں اور ان کے باعث جنگلات کا اجڑ جانا شامل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موجود زرافوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہے اور ماہرین تحفظ جنگلی حیات اس کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں۔

    سینٹ لوئیس زو میں انکلوژر کے نگران نے زرافوں کے ساتھ خوشدلی سے میری تصاویر کھینچیں۔ تمام جانوروں کو دیکھتے ہوئے میں باہر نکل آئی اور اس بھلے آدمی کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ واپسی میں درختوں سے گھرے وہی سنسان راستے اور سناٹا تھا۔ ہیلووین کی مناسبت سے زو میں جگہ جگہ جنوں بھوتوں کی ڈیکوریشن کی گئی تھی اور چمکتا ہوا دن اب جب آہستہ آہستہ اندھیرے میں ڈھل رہا تھا تو یہ ڈیکوریشنز خوفناک ثابت ہوسکتی تھیں۔

    واپسی میں ایک تالاب میں پانی کی بلیوں (سیل) کو کھانا کھلایا جارہا تھا جہاں رکنا لازم تھا۔

    اس کے بعد میں تقریباً بھاگتی ہوئی واپس مرکزی دروازے تک پہنچی۔ ڈرائیور میرے دوستوں کو وال مارٹ سے لے کر راستے میں تھا۔ سووینیئر شاپ سے میں نے یادگار کے طور پر چند منی ایچر جانور خریدے جنہیں آج تک کامیابی سے گھر کے بچوں سے چھپا رکھا ہے۔

    تھوڑی دیر بعد واپسی کے لیے وین موجود تھی۔ میں وین میں داخل ہوئی تو خفا دوستوں نے پوچھا، اکیلے ہی پروگرام بنا لیا؟ میں نے جواب دیا کہ پوچھا تو تھا، تم سب نے دلچسپی ہی نہ دکھائی۔ ہوٹل واپس پہنچ کر ہم سب نے ڈرائیور کا ٹپ جار ایک اور دو ڈالرز کے نوٹوں اور سکوں سے بھردیا اور اس کا شکریہ ادا کر کے گاڑی سے اتر گئے۔ سیاہ فام ڈرائیور کی آنکھیں بھرا ہوا ٹپ جار دیکھ کر چمک رہی تھیں۔

  • چڑیا گھر سے درجنوں بندر فرار

    چڑیا گھر سے درجنوں بندر فرار

    جرمنی کے ایک چڑیا گھر سے درجنوں بندر فرار ہوگئے جس کے بعد پولیس نے عوام سے ان کے بارے میں اطلاع دینے کی اپیل کردی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جرمنی کے قصبے لوفنگن کے چڑیا گھر سے 20 سے 25 بندروں کے فرار ہونے کی اطلاع ملی ہے، انتظامیہ کے مطابق تمام بندر بربری مکاؤ نسل کے ہیں۔

    انتظامیہ کی اب تک کی انہیں ڈھونڈنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

    مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ چڑیا گھر میں تعمیراتی کام جاری تھا ہوسکتا ہے اسی وجہ سے بندروں کو بھاگنے کا موقع ملا ہو، تاہم اس حوالے سے مزید تحقیق بھی کی جارہی ہے۔

    دوسری جانب انتظامیہ نے کہا ہے کہ یہ بندر انسانوں کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوں گے اور انسانوں کو دیکھ ان سے لڑنے کے بجائے وہاں سے فرار ہونے میں اپنی عافیت سمجھیں گے۔

    تاہم یہ بھی اپیل کی گئی ہے کہ عوام اگر کہیں بندروں کو دیکھے تو ان کے قریب جانے سے گریز کرے اور فوری طور پر پولیس کو اطلاع دے۔

  • چڑیا گھر کی انتظامیہ کو فرار کوے کی تلاش، ہاۓ، ہیلو کرسکتا ہے!

    چڑیا گھر کی انتظامیہ کو فرار کوے کی تلاش، ہاۓ، ہیلو کرسکتا ہے!

    چڑیا گھر کی انتظامیہ کو فرار کوے کی تلاش، ہاۓ، ہیلو کرسکتا ہے!

    امریکا کے چڑیا گھر سے ایک کوا ٹریننگ سیشن کے دوران فرار ہوگیا، چڑیا گھر انتظامیہ نے عوام سے اسے ڈھونڈنے میں مدد کی اپیل کی ہے۔

    امریکی ریاست ٹیکسس کے ڈلاس چڑیا گھر سے یہ کوا دوران ٹریننگ فرار ہوا، ڈلاس زو کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اونکس نامی کوے کو ایک برڈ شو کے لیے تربیت دی جارہی تھی جس کے دوران وہ اڑ گیا۔

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کوے کو پہچاننا آسان ہے کیونکہ یہ دوسرے کووں سے مختلف ہے اور اس کے سینے پر سفید فر ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Dallas Zoo (@dallaszoo)

    بیان کے مطابق کوا انسانوں سے دوستانہ رویہ رکھتا ہے، اور ہائی ہیلو کہنے اور اپنا نام پکارنے کے قابل ہے۔

    انتظامیہ نے اپیل کی ہے کہ اگر یہ کوا کہیں نظر آئے تو اسے خود سے پکڑنے کے بجائے چڑیا گھر میں اطلاع دی جائے۔