Tag: چکھنے کی حس

  • کرونا وائرس سونگھنے اور چکھنے کی حس کیوں ختم کردیتا ہے؟

    کرونا وائرس سونگھنے اور چکھنے کی حس کیوں ختم کردیتا ہے؟

    سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کووڈ 19کی چند عام ترین علامات میں سے ایک ہے اور اب ماہرین نے اس حوالے سے ایک نئی تحقیق کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس ممکنہ طور پر دماغ پر طویل المعیاد اثرات مرتب کرسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کووڈ کے کچھ مریض سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔

    تحقیق میں کرونا وائرس کی وبا سے قبل 40 ہزار افراد کے دماغی امیج ٹیسٹنگ کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی گئی۔ اگلے برس ان میں سے سیکڑوں افراد کو ایک بار پھر دماغی اسکینز کے لیے مدعو کیا گیا اور 800 نے اسے قبول کرلیا۔

    ان میں سے 404 افرد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے 394 افراد کے وبا سے قبل اور بعد کے دماغی اسکینز قابل استعمال تھے۔

    پہلے اور بعد کے دماغی اسکینز کے موازنے سے کووڈ 19 کے متاثرین کے دماغ کے گرے میٹر کے ان حصوں پر نمایاں اثرات کو دریافت کیا گیا جو سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے دماغ کو منسلک کرتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق نتائج سے دماغ کے بائیں حصے میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں والے حصوں میں نقصانات کو دریافت کیا گیا۔

    سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کووڈ کی چند عام ترین علامات میں سے ایک ہے اور اب تک کی تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ مریضوں میں اس کا دورانیہ 5 ماہ تک بھی برقرار رہ سکتا ہے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کی معمولی شدت بھی دماغ کے گرے میٹر کے مختلف حصوں کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ تعین کیا جاسکے کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے مریضوں میں ہونے والا دماغی نقصان دیگر حصوں تک تو نہیں پہنچتا اور کیا یہ واقعی وائرس کا نتیجہ ہے یا اس کی وجہ کوئی اور ہے۔

  • کرونا مریضوں میں ذائقے اور سونگھنے کی حس کتنے عرصے میں بحال ہوگی؟

    کرونا مریضوں میں ذائقے اور سونگھنے کی حس کتنے عرصے میں بحال ہوگی؟

    روم: محققین نے انکشاف کیا ہے کہ کو وِڈ نائٹین کے 10 فی صد مریضوں میں ممکن ہے کہ ایک ماہ بعد بھی ذائقے اور سونگھنے کی حس بحال نہ ہو۔

    اس سلسلے میں اطالوی شہریوں کے ایک چھوٹے سے گروپ پر ریسرچرز نے تحقیق کی جنھیں کرونا وائرس کی بیماری لگ چکی تھی تاہم اتنی شدید نہیں تھی کہ انھیں اسپتال میں داخل کیا جاتا، معلوم ہوا کہ ان میں سے چند مریض بیماری کے ایک ماہ بعد بھی سونگھنے اور ذائقے کے مسائل سے دوچار تھے۔

    اسٹڈی میں کہا گیا کہ کرونا وائرس میں متبلا 10 میں سے ایک فرد کو ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر بھی ذائقے اور سونگھنے کی حس واپس نہ پا سکے۔ خیال رہے کہ مسلسل کھانسی اور بخار کے ساتھ ساتھ اب کو وِڈ 19 کی علامات میں ذائقے اور سونگھنے کی حس میں تبدیلی بھی اہم علامت کے طور پر شامل ہو چکی ہے۔

    یہ تحقیقی مطالعہ امریکی طبی جریدے JAMA Otolaryngology – Head and Neck Surgery میں شایع ہوا، جس میں کرونا وائرس میں مبتلا 187 اطالویوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ محققین نے انھیں کرونا کی تشخیص کے فوراً بعد کہا کہ وہ سونگھنے اور ذائقے کی حس کے بارے میں ریٹنگ کریں، اور پھر ایک ماہ بعد پھر ان سے یہی کرنے کے لیے کہا گیا۔

    گروپ میں سے 60 فی صد یعنی 113 افراد نے کہا کہ ان کے سونگھنے اور چکھنے کی حس میں تبدیلی آ چکی ہے، ان میں سے 55 نے کہا کہ وہ پوری طرح صحت یاب ہو گئے ہیں، 46 نے کہا علامات میں بہتری آئی ہے، جب کہ 12 نے کہا کہ علامات تبدیل نہیں ہوئیں یا بڑھ گئیں۔

    اس مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ ایک ماہ میں صرف نصف تعداد کی چکھنے اور سونگھنے کی حس بحال ہو سکی، 40 فی صد کی علامات میں بہتری آئی جب کہ 10 فی صد کی علامات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

    اٹلی کی پاڈوا یونی ورسٹی کے ڈاکٹر پاؤلو باسکولو ریزو نے بتایا کہ جن لوگوں کو شدید علامات لاحق تھیں انھیں بہتر ہونے میں زیادہ وقت لگا۔ ڈاکٹر پاؤلو اور ان کی ٹیم نے اپنے مقالے میں لکھا کہ عالمی سطح پر کرونا وائرس کیسز کی جتنی بڑی تعداد ہے اس کے پیش نظر یہ امکان ہے کہ بڑی تعداد میں مریض مذکورہ حسیات کی عدم بحالی کا شکار ہوں۔

    یاد رہے کہ مئی کے مہینے میں ڈاکٹرز کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے برطانوی قومی ادارہ صحت (NHS) نے کو وِڈ 19 کی علامات کی فہرست میں سونگھنے اور چکھنے کی حس میں تبدیلی کو بھی بہ طور علامت شامل کیا تھا، بتایا گیا کہ 4 میں سے ایک کرونا مریض کھانسی اور بخار کی علامتیں نہ ہونے کے سبب اپنی بیماری سے لاعلم رہے، تاہم انھیں سونگھنے یا چکھنے کی حس میں تبدیلی لاحق ہو چکی تھی۔

    این ایچ ایس کے مطابق سونگھنے یا ذائقے کی حس میں تبدیلی یا ان کا خاتمہ طبی طور پر anosmia کہلاتا ہے، اور یہ حسیات چند دن، یا ہفتوں یا چند ماہ میں بحال ہو جاتی ہیں۔ ایک برطانوی ڈاکٹر کلیر ہاپکنز نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے وائرل بیماریوں سے متعلق اور حالیہ وبا کا ڈیٹا جمع کیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کی مذکورہ علامات ٹھیک ہو جائیں گی تاہم چند لوگوں میں بحالی کا عمل بہت سست رفتار ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ وائرس نے صرف ان کی ناک کے اندر کی سطح کے خلیات کو متاثر کیا ہے، جب کہ وہ لوگ جو آہستگی سے ٹھیک ہوتے ہیں، ان میں وائرس بو سے متعلق اعصاب کو متاثر کر دیتا ہے۔