Tag: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ

  • نجی اسکولوں میں مغربی ماحول کی شکایت پر چیف جسٹس کا دو ٹوک جواب

    نجی اسکولوں میں مغربی ماحول کی شکایت پر چیف جسٹس کا دو ٹوک جواب

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران والدین نے اسکولوں میں مغربی ماحول کی شکایت کر دی جس پر چیف جسٹس نے دو ٹوک جواب دے کر انھیں خاموش کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق نجی اسکولز فیس اضافے کے کیس کی سماعت کے دوران والدین نے چیف جسٹس سے شکایت کی کہ نجی اسکولوں میں مغربی طرز زندگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

    والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ نجی اسکولوں میں ڈسپلن کا فقدان ہے جس کی وجہ سے بچے منشیات کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔

    تاہم چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے شکایت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو ماحول پسند نہیں تو بچوں کا اسکول بدل لیں، کسی نے زبردستی نجی اسکول میں پڑھانے کا نہیں کہا۔

    چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ عدالت نے اسکولوں کے نظام کو نہیں بلکہ قانون کو دیکھنا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پرائیوٹ اسکولز میں مستحق طالب علموں‌ کا کوٹہ مقرر ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ

    دریں اثنا، کیس کی سماعت کے دوران فیس اسٹرکچر پر بحث کی گئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نجی اسکول ہالوین پارٹی کے الگ پیسے لیتے ہیں؟ جس پر وکیل اسکولز نے بتایا کہ ٹیوشن فیس کے ساتھ فیس اسٹرکچر میں سب کچھ شامل ہوتا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ ٹرپ اور مختلف دن منانے کے الگ چارجز لیے جاتے ہیں، کیک ڈے کے نام پر سب بچوں سے کیک منگوائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے بھی کہا کہ منگوائی گئی اشیا ٹیچرز گھر لے جاتی ہیں، آج تک بچوں کو وہ اشیا واپس نہیں ملیں جو ان سے منگوائی گئیں۔  وکیل اسکولز نے کہا کہ ٹرپ کے چارجز ہمیشہ سے ہی الگ لیے جاتے ہیں۔

    فیسوں میں اضافے سے متعلق والدین کا کہنا تھا کہ فیس میں سالانہ 5 فی صد اضافہ مناسب ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ والدین سمیت سب کے مفاد کو مد نظر رکھ کر اس کیس کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق واپس نہیں ریگولیٹ کیے جا سکتے ہیں، تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، نجی اسکولز کو ریگولیٹ کرنا بھی ریاست کا کام ہے۔ اسکولوں کے وکیل نے کہا کہ ریاست کی تعلیم کی فراہمی میں نا کامی کے خلا کو نجی اسکولوں نے پورا کیا، یہاں معیاری تعلیم کے لیے پروگرامز مرتب کیے جاتے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اسکولوں کو سالانہ 5 فی صد سے زائد اضافہ چاہیے تو لائسنس سرنڈر کر دے، چیف جسٹس نے کہا نجی اسکولوں کا کاروبار نہیں چل رہا تو چھوڑ کر اور بزنس کر لیں، اسکولوں میں جو ہوتا ہے سب معلوم ہے، یونیفارمز اور کتابوں پر الگ سے کمائی کی جاتی ہے، اسکولوں کا منافع اربوں میں ہے، نقصان صرف نفع میں ہوتا ہے، اسکولوں کو فیس میں غیر معمولی اضافے کے لیے 3 سال انتظار کرنا پڑے گا۔

    سپریم کورٹ میں اسکول فیس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کل 12 بجے اسپیشل بینچ کرے گا۔

  • عدلیہ مخالف نعرے، چیف جسٹس نے ن لیگی رہنماؤں کی معافی مسترد کردی

    عدلیہ مخالف نعرے، چیف جسٹس نے ن لیگی رہنماؤں کی معافی مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کیس میں ن لیگ کے سابق ایم این اے شیخ وسیم اختر اور مقامی رہنما احمد لطیف کی غیر مشروط معافی مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے کہا یہ وتیرہ بن گیا ہے پہلے گالیاں دوپھرمعافی مانگ لو۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور عدلیہ کے خلاف نعرے لگانے سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کی ۔

    عدالت نے سپریم کورٹ نے (ن )لیگ کے سابق ایم این اے شیخ وسیم اختر کی توہین عدالت سزا کے خلاف اپیل اور قصور کے مقامی لیگی رہنما احمد لطیف کی اپیل خارج کر دی ۔

    دونوں لیگی رہنما عدالت سے معافی مانگتے رہے، عدالت نے دونوں رہنماؤں کی غیر مشروط معافی مسترد کردی اور توہین عدالت کی سزا اور نااہلی برقرار رکھی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غیر مشروط معافی پر سزا 6 ماہ سے ایک ماہ کردی، ججز اور عدلیہ کے خلاف نعرے لگائے گئے، دونوں رہنما ان پڑھ نہیں، بڑی ذمہ دار شخصیات تھیں، کیوں نہ دونوں شخصیات کی سزا بڑھا دیں ؟

    چیف جسٹس نے کہاکہہ وطیرہ بن گیا ہے پہلے گالیاں دو پھر معافی مانگ لو۔

    دونوں رہنما ان پڑھ نہیں، بڑی ذمہ دار شخصیات تھیں، کیوں نہ دونوں  کی سزا بڑھا دیں، چیف جسٹس

    کیل نے کہاکہ ہم نے پہلے بھی معافی مانگی اب بھی غیر مشروط معافی مانگتے ہیں، عدالت نے غیر مشروط معافی قبول کرنے کی استدعا مسترد کردی، دونوں رہنما اپنی ایک ماہ قید کی سزا پوری کرچکے ہیں۔

    عدالت نے کہاکہ سیاسی جماعت کے لیڈر کی نااہلی پر عدلیہ اور ججز کے خلاف نعرے لگائے گئے، ہائی کورٹ نے معافی کی وجہ سے ایک ماہ کی سزا دی ، ہائی کورٹ کے فیصلے میں ہماری مداخلت کی ضرورت نہیں۔

    واضح رہے کہ قصور میں مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی اور کارکنان کی جانب سے عدلیہ مخالف ریلی نکالی اور ٹائر جلائے، ریلی میں اعلیٰ عدلیہ اور ججوں کے اہل خانہ کے خلاف نازیبا اور غیراخلاقی زبان کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لے کر گالیاں دی گئیں۔

    اس ریلی کی قیادت مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی وسیم اختر، رکن پنجاب اسمبلی نعیم صفدر اور ناصر محمود نے کی تھی۔

  • چیف جسٹس کا ماڈل کورٹس کو خراج تحسین، رمضان کے بعد ماڈل سِول کورٹس بھی کام شروع کر دیں گی

    چیف جسٹس کا ماڈل کورٹس کو خراج تحسین، رمضان کے بعد ماڈل سِول کورٹس بھی کام شروع کر دیں گی

    اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ماڈل کورٹس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا، رمضان کے بعد ماڈل دیوانی عدالتیں بھی کام شروع کر دیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ماڈل عدالتوں کی یکم اپریل سے 27 اپریل تک کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔

    رپورٹ میں بتایا کہ قتل کے 888، منشیات کے 1413 مقدمات پر فیصلہ سنایا گیا، 67 مجرمان کو سزائے موت اور 195 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق 520 دیگر مجرمان کو کل 1639 سال 8 ماہ اور 2 دن قید کی سزا دی گئی، مجموعی طور پر 8 کروڑ 70 لاکھ 75 ہزار سے زائد جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  ماڈل کورٹس کی تیز ترین سماعت جاری، ایک دن میں 71 مقدمات کا فیصلہ

    اجلاس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور دیگر ججز نے ماڈل کورٹس کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کیا، اور ماڈل کورٹس کے تمام ججز کو تعریفی اسناد دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

    اجلاس میں سول ماڈل کورٹس کے لیے تجاویز کو حتمی شکل دینے کے لیے بھی مشاورت کی گئی، بتایا گیا کہ رمضان کے بعد ماڈل دیوانی عدالتیں بھی کام شروع کر دیں گی۔

    خیال رہے کہ سائلین کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی کے لیے پاکستان کی ماڈل کورٹس میں مقدمات کی تیز ترین سماعت کا سلسلہ جاری ہے، اس سلسلے میں 116 ماڈل عدالتوں نے 24 اپریل کو مجموعی طور پر 71 مقدمات نمٹائے۔

  • قاضی محمد امین احمد نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

    قاضی محمد امین احمد نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

    اسلام آباد: جسٹس قاضی محمد امین احمد نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان سے حلف لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی محمد امین احمد کی بطور سپریم کورٹ جج کی تقریب حلف برداری ہوئی جس میں سپریم کورٹ کے ججز، بار کے نمائندے اور سینئر وکلا شریک ہوئے۔

    جسٹس قاضی محمد امین احمد نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جسٹس قاضی محمد امین سے حلف لیا۔

    جسٹس قاضی محمد امین احمد نومبر 2014 سے مارچ 2019 تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں۔ ان کی تعیناتی سے سپریم کورٹ میں جج صاحبان کی تعداد 17 ہوگئی ہے۔

    جسٹس قاضی محمد امین احمد کی تقرری کی سفارش سپریم کی جوڈیشل کونسل نے کی تھی۔ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد صدر ڈاکٹرعارف علوی نے تقرری کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔

  • قابل ضمانت مقدمے میں عدالت ضمانت مسترد نہیں کرسکتی‘ چیف جسٹس

    قابل ضمانت مقدمے میں عدالت ضمانت مسترد نہیں کرسکتی‘ چیف جسٹس

    لاہور: سپریم کورٹ میں قابل ضمانت مقدمے میں ملزمان کی ضمانت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون دیکھنا صرف سپریم کورٹ کا کام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے قابل ضمانت مقدمے میں ملزمان کی ضمانت سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ قابل ضمانت مقدمے میں عدالت ضمانت مسترد نہیں کرسکتی۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ حیرت ہے ٹرائل کورٹ، ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے کونہیں دیکھا، ہائی کورٹ ، ٹرائل کورٹ نے اسے کیسے نظراندازکردیا۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ قانون ہے قابل ضمانت مقدمات میں ملزم کی ضمانت مسترد نہیں ہوسکتی، ایسے معاملات توعدالت آنے ہی نہیں چاہئیں، مگریہ معاملہ تیسری عدالت تک آگیا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون دیکھنا صرف سپریم کورٹ کا کام ہے، معاملے میں توآئی جی پنجاب نے بھی ایس ایچ اوزکو ہدایات دے دی ہیں۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آئی جی کی ہدایت کے تحت ایسے مقدمات میں ایس ایچ او خود ضمانت دے سکے گا۔

    سپریم کورٹ لاہور رجسٹر نے لڑائی جھگڑے میں ملوث ملزمان کی عبوری ضمانتیں منظورکرلیں، عدالت نے 2 ملزمان کو50ہزارروپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

    یاد رہے کہ ملزمان کے خلاف لاہورکے تھانہ ڈیفنس اے میں مقدمہ درج ہے، ملزمان نے ضمانت قبل ازگرفتاری کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

  • نوازشریف کی درخواست ضمانت پرسماعت 26 مارچ تک ملتوی

    نوازشریف کی درخواست ضمانت پرسماعت 26 مارچ تک ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت 26 مارچ تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران خواجہ حارث نے نوازشریف کی طبی رپورٹس عدالت میں پیش کردیں۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام رپورٹس میں ڈاکٹرزنے نوازشریف کی طبیعت خراب بتائی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کے طبی معائنے کے لیے 4 ڈاکٹرز پر مشتمل بورڈ بنا جس میں پی آئی اور آر آئی سی کے ڈاکٹرز شامل تھے۔

    انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 16 جنوری اور 5 فروری کی رپورٹس کے مطابق نواز شریف کی صحت درست نہیں ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کے لیے 5 مختلف میڈیکل بورڈ بنائے گئے، پہلا میڈیکل بورڈ 17 جنوری کو بنا، پی آئی سی کے ڈاکٹرز پر مشتمل بورڈ نے رپورٹ دی تھی۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ دوسری میڈیکل ابتدائی رپورٹ جناح اسپتال کے ڈاکٹرز کی آئی، انہوں نے کہا کہ قیدی کا علاج اس کی تسلی کے مطابق ہونا اس کا بنیادی حق ہے۔

    خواجہ حارث نے عدالت عظمیٰ میں لندن کے ڈاکٹرکے خط کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ڈیوڈ آرم لارنس ان کاعلاج کررہے تھے۔

    سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہم جانتے ہیں نوازشریف کاعلاج لندن میں ہوا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ نے بائی پاس کی رپورٹ بھی منسلک کی۔

    عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ 29 جولائی کی میڈیکل رپورٹس سے جائزہ لینا شروع کرتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام رپورٹس کا جائزہ لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار ان بیماریوں میں مبتلا ہے توصورت حال مختلف ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ تیسری میڈیکل رپورٹ 30 جنوری2019 کوآئی، چوتھی رپورٹ سروسز اسپتال کی 5 فروری کو آئی اور پانچویں میڈیکل رپورٹ بھی جناح اسپتال کی طرف سے آئی۔

    انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 7رکنی بورڈ نے 18 فروری کو اپنی رپورٹ دی، عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ میں میرٹ پرسزا معطلی کی دراخواست واپس لی گئی تھی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ 15جنوری کو نوازشریف نے بازو اورسینے میں درد کی شکایت کی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 15جنوری سے پہلے نواز شریف کی صحت کیسی تھی۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت درد سے پہلے اوربعد کی رپورٹس کا موازنہ کرے گی، خواجہ حارث نے کہا کہ 29 جولائی 2018 پمز کی رپورٹ ریکارڈ کا حصہ ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ 25 جنوری کو ڈاکٹرلارنس نے میڈیکل ہسٹری فراہم کی، عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل بورڈ کو لندن کےعلاج کی تفصیلی رپورٹ کیوں نہیں دی۔

    جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا میڈیکل بورڈ کو دستاویزدی گئی تھیں؟، چیف جسٹس نے کہا کہ پہلی میڈیکل رپورٹ میں کیا سامنے آیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ پہلی رپورٹ میں نواز شریف کے گردے میں پتھری آئی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ دوسرے میڈیکل بورڈ میں کارڈیالوجسٹ شامل نہیں تھے۔

    نوازشریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تیسرا میڈیکل بورڈ کا رڈیالوجسٹ پر ہی مشتمل تھا، تیسرے بورڈ نے رپورٹ میں خون کی روانگی ٹھیک نہ ہونے کا ذکرکیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بورڈ نے کسی شریان کے بند ہونے کا ذکررپورٹ میں نہیں کیا، خواجہ حارث نے کہا کہ تیسرے بورڈ نے سینئر ڈاکٹرزکا بڑا بورڈ بنانے کی سفارش کی۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریض اہم ہوتو ڈاکٹرزایک جگہ 10،10 ٹیسٹ کراتے ہیں، شاید اس لیے ڈاکٹرز نے بڑا بورڈ بنانے کا کہہ دیا۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اہم شخصیات پرزیادہ احتیاط سے کام لیا جانا چاہیے، خواجہ حارث نے کہا کہ ڈاکٹرزکوعلاج کے دوران ماضی کی میڈیکل ہسٹری کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ نوازشریف نے تمام بیماریوں کے ساتھ بڑی مصروف زندگی گزاری، انہوں نے انتخابی مہم چلائی۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف نے جلسے اورریلیوں کے ساتھ ٹرائل کا بھی سامنا کیا، دیکھنا ہے مرض پہلے جیسا ہے یا بگڑگیا ہے۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوازشریف کی ضمانت کے معاملے پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ نوازشریف نے اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف طبی بنیادوں پرضمانت دینے کی درخواست کی تھی، جو 25 فروری کو مسترد کردی گئی تھی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی

    بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں عدالت عظمیٰ سے العزیزیہ ریفرنس میں 7 برس قید کی سزا ختم کرتے ہوئے ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔

    عدالت عظمیٰ میں درخواست ضمانت کی جلد سماعت کی الگ درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ نوازشریف کی صحت پہلے سے خراب ہوچکی ہے۔

    سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا تھا درخواست ضمانت کو اپنی باری پر سماعت کے لیے مقرر کیا جائےگا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں جہاں ان کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

    واضح رہے گزشتہ سال 24 دسمبر کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

  • چیف جسٹس کے جھوٹے گواہوں کوسزا کے بیان کی حمایت کرتا ہوں‘ وزیراعظم

    چیف جسٹس کے جھوٹے گواہوں کوسزا کے بیان کی حمایت کرتا ہوں‘ وزیراعظم

    اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ سچ کی جانب سفر نئے پاکستان کی جانب سے سفر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پروزیراعظم عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ قومیں اپنے اعلیٰ اقدارکے باعث عظیم بنتی ہیں۔

    وزیراعظ‌م پاکستان نے کہا کہ مسلم امہ کی بنیاد ریاست مدینہ ہے جس کا اہم ستون سچائی ہے۔

    انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے جھوٹے گواہوں کو سزا کے بیان کی حمایت کرتا ہوں، سچ کی جانب سفر نئے پاکستان کی جانب سے سفر ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جھوٹی گواہی دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی۔

    چار مارچ 2019 آج سے سچ کا سفر شروع کررہے ہیں‘ چیف جسٹس

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، تمام گواہوں کو خبر ہوجائے، بیان کا کچھ حصہ جھوٹ ہوا تو سارا بیان مسترد ہوگا۔

    چیف جسٹس نے سیشن جج نارووال کو جھوٹے گواہ اے ایس آئی خضر حیات کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ 4 مارچ 2019 سے سچ کا سفر شروع کر رہے ہیں۔

  • چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ  کراچی پہنچ  گئے

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کراچی پہنچ گئے

    کراچی : چیف جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ کراچی پہنچ گئے ، وہ 25 اور 26 فروری کوکراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کریں گے اور سندھ ہائی کورٹ میں اہم اجلاس کی صدارت کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ سندھ ہائی کورٹ پہنچ گئے، ان کااستقبال سندھ ہائی کورٹ کےچیف جسٹس احمدعلی شیخ نےکیا، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے ہمراہ دیگر ججز بھی شریک ہیں، چیف جسٹس آصف سعید نے سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور دیگرججز سے ملاقات کی۔

    دورے کے دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ میں اہم اجلاس ہوگا ، اجلاس میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور دیگر ججز شریک ہوں گے، اجلاس میں پرانے مقدمات کو جلد نمٹانے اور عدالتی اصلاحات سے متعلق امور زیرغور آئیں گے۔

    دورے کے دوران چیف جسٹس 25 اور 26 فروری کوکراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کریں گے ، جس کے لیے چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیاگیا ہے، 3 رکنی بینچ میں جسٹس مظہرعالم اور جسٹس سجادعلی شاہ شامل ہیں۔

    خیال رہے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے بعدجسٹس آصف سعید کھوسہ کا پہلا دورہ کراچی ہے۔

    یاد رہے 18 جنوری چیف جسٹس  آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا اورحلف اٹھاتے ہی عدالت لگا کر ایک گھنٹے کے اندر پہلے مقدمے کا فیصلہ سنادیا تھا۔

    حلف اٹھانے سے قبل  فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ زیر التوا مقدمات کا قرض اتاروں گا، فوج اورحساس اداروں کاسویلین معاملات میں دخل نہیں ہوناچاہیئے، ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ساری دنیامیں غلط سمجھا جاتاہے،کوشش کریں گےسول عدالتوں میں بھی جلدفیصلےہوں۔

  • چیف جسٹس نے جھوٹی گواہی دینے والےپولیس رضاکارکا کیس انسداد دہشت گردی عدالت کو بھجوادیا

    چیف جسٹس نے جھوٹی گواہی دینے والےپولیس رضاکارکا کیس انسداد دہشت گردی عدالت کو بھجوادیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھوسہ نے جھوٹی گواہی پر  سزا  کا عندیہ دیتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے والےپولیس رضاکار ارشدکا کیس انسداد دہشت گردی عدالت کو بھجوادیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جعلی گواہ کے خلاف کارروائی پر سماعت ہوئی ، سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے جھوٹی گواہی پر عمر قید کا عندیہ دیتے ہوئے کہا قانون کےمطابق جھوٹی گواہی پرعمرقیدکی سزادی جاتی ہے۔

    جھوٹا گواہ محمدارشدعدالت میں پیش ہوئے ، محمدارشد نے اے ایس آئی مظہرحسین کےقتل کیس میں مبینہ جھوٹی گواہی دی تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آپ قومی رضاکارہیں،آپ رضاکارانہ گواہ بھی بنتےہیں، آپ کامیڈیکل 3دن بعدکیوں ہوا؟ جس پر محمدارشد نے بتایا مجھے چھرالگاتھا،3دن بعد بازو پرخارش ہوئی تو چھرا باہر نکلا۔

    چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ زیادہ چرب زبانی نہ کریں، یہ کہتا ہے چھرا لگامیڈیکل رپورٹ کے مطابق تیزدھار آلے کا زخم ہے، کہتا ہےملزم کو ٹارچ کی روشنی میں دیکھا، باقی گواہ کہتےہیں گھپ اندھیراتھا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے محمدارشد سے مکالمے میں کہا آپ کےبیان پرکسی شخص کوسزائےموت ہو گئی تو، قومی رضاکارہیں گواہی بھی رضاکارانہ دی، آپ بتائیں آپ کےخلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا حکومت ان کوتنخواہ دیتی ہے، جس پر نمائندہ فیصل آبادپولیس نے بتایا حکومت 2ہزارروپے مہینہ ان کوتنخواہ دیتی ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس والاکسی معاملےمیں قتل ہوگیایہ ساتھ گئےہوں گے، پولیس کی عزت بچانےکےلیےجھوٹی گواہی دےدی۔

    مزید پڑھیں : جھوٹی گواہیاں روکنے کے لیے جلد قانون نافذ کریں‌گے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے پنجاب کے پراسیکیوٹرجنرل سے سوال کیا کہ معاملے پرعدالت کیاکرسکتی ہے، جس پر پراسیکیوٹرجنرل نے جواب میں کہا اس معاملےمیں ریاست کی درخواست پرٹرائل کورٹ انکوائری کرے گی، اس شخص کی گواہی اورمیڈیکل رپورٹ کو دیکھاجائےگا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے والے پولیس رضاکار ارشد کا کیس انسداد دہشت گردی عدالت کو بھجوادیاگیا اور حکم دیاکہ اے ٹی سی جھوٹ بولنے پر سیشن کورٹ میں شکایت دائرکرے اور سیشن کورٹ شکایات پر قانونی کارروائی عمل میں لائے۔

    یاد رہے 15 فروری کو سماعت میں چیف جسٹس آصف کھوسہ نے جھوٹے گواہوں کے خلاف جلد کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا تھا کہ گواہ کےبیان کا ایک حصہ جھوٹا ہو تو سارا بیان مستردہوتاہے، اسلام کےمطابق ایک بارجھوٹا ثابت ہونے پرساری زندگی بیان قبول نہیں ہوتا، جھوٹاگواہ ساری زندگی دوبارہ گواہی نہیں دے پائے گا،جلد اس قانون کا نفاذ کریں گے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اسلام کےمطابق ایک بارجھوٹا ثابت ہونے پرساری زندگی بیان قبول نہیں ہوتا، یہاں ساری ذمےداری عدالتوں پر ڈال دی گئی کہ سچ کوجھوٹ سےالگ کریں، اسلام کاحکم ہےسچ کو جھوٹ کےساتھ نہ ملاؤ۔

  • سپریم کورٹ نےمیموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹادیا

    سپریم کورٹ نےمیموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹادیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےمیموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹادیا ، چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ درخواست گزارنہیں آتےتوہم کیوں اپناوقت ضائع کریں، پاکستان، مسلح افواج، آئین اور عوام اتنے کمزور نہیں کہ ایک میموسے لڑکھڑا جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا 8 سال سے یہ کیس التوا کا شکار ہے، درخواست گزارکہاں ہیں، درخواست گزارنہیں آتےتوہم کیوں اپناوقت ضائع کریں۔

    درخواست گزارنہیں آتےتوہم کیوں اپناوقت ضائع کریں، چیف جسٹس کے ریمارکس

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کیس پڑھ کرحیرت ہوئی،حسین حقانی کی گرفتاری یاحوالگی ریاستی معاملہ ہے، سپریم کورٹ کاکیس سےاب کوئی تعلق نہیں رہا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت نےاس کیس میں ایف آئی آردرج کی تھی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا تواب یہ ریاست کاکام ہے، ایف آئی آر کے مطابق کام کرے، آرٹیکل6 کا مقدمہ چلاناہے تو چلائیں، سپریم کورٹ کیس میں کہاں آتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی کا کہنا تھا کہ عدالت سےاتفاق کرتاہوں ریمارکس کیساتھ کیس نمٹادیں ۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ  قوم، حکومت اورفوج اتنی کمزور نہیں کہ ایک میموسے لڑکھڑا جائیں، افواج پاکستان، جمہوریت اور آئین بہت مضبوط ہیں، اس قسم کے میموز سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    پاکستان، مسلح افواج، آئین اور عوام اتنے کمزور نہیں کہ ایک میموسے لڑکھڑا جائے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میموسےمتعلق درخواستیں عجلت میں دائرکی گئیں، حسین حقانی کی گرفتاری اورٹرائل ریاست کامعاملہ ہے، ریاست چاہے تو حسین حقانی کیخلاف کاروائی کرسکتی ہے، اس معاملےمیں ایف آئی آردرج ہوچکی ہے اور ایک کمیشن2012میں معاملےکی رپورٹ دےچکاہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا کیا ریاست اب بھی میموسے خوف محسوس کرتی ہے، حسین حقانی پر کچھ اور الزامات بھی ہیں ، گزشتہ سماعت پرنیب کو حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئےکہاگیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے میموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹا دیا۔

    یاد رہے 9 فروری کو سپریم کورٹ نے میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا تھا اور اٹارنی جنرل، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کئے گئے تھے۔

    واضح رہے فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس میں ملوث امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے جبکہ حسین حقانی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا

    خیال رہے میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    حسین حقانی میمو گیٹ کے مرکزی ملزم ہیں اور پیپلز پارٹی کر دور حکومت میں امریکن سفیر رہے چکے ہیں۔

    حسین حقانی پرالزام ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔

    اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

    جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا، رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔