Tag: چیف جسٹس آصف کھوسہ

  • ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ طاقتوروں کا طعنہ ہمیں مت دیا جائے ، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے ، سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ججز پر اعتراض کرنیوالے تھوڑی احتیاط کریں اور طاقتوروں کا طعنہ ہمیں مت دیں، وزیراعظم نے جس کیس کا طعنہ دیا اس پر بات نہیں کرناچاہتا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں باہرجانے کی اجازت وزیر اعظم نے خود دی، ہائی کورٹ نے صرف جزئیات طے کی ہیں، اس معاملے کا اصول محترم وزیراعظم نے خود طے کیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ آج کی عدلیہ کا تقابلی جائزہ 2009 سے پہلے والی عدلیہ سے نہ کریں، 2 وزرائے اعظم کو ہم نے نااہل کیا اور ایک کو سزا بھی دی، یہ مثالیں آپ کے سامنے ہیں ہم صرف قانون کے تابع ہیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے ، مختصر وسائل کیساتھ مثالی کام کئے ہیں، ایک آرمی چیف کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں اصلاحات کیلئے اندرونی وسائل استعمال کئے ، اصلاحات کیلئے کسی سے پیسہ نہیں مانگا ، وزیراعظم کا انصاف کے سیکٹر میں  تبدیلی کا اعلان خوش آئند ہے، انھوں نےوسائل کی فراہمی کی بات کی، جس کا خیرمقدم کرتاہوں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ کو اب وسائل کی کمی کا سامنا تھا ، عدلیہ نےپچھلے3سال میں 36لاکھ کیسز کا فیصلہ کیا ، ان کیسز میں شائد ایک یا دو طاقتور لوگ ہوں گے، کوئی شخص طاقتور کہلاتا ہے تو یہ تاثر غلط ہے کہ 36لاکھ کیسز کو بھول جائیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ وسائل کے بغیر جو عدلیہ کی کارکردگی ہے اس کامعاشرے کو شائد علم نہیں، 25 سال کا کریمنل بیک لاگ ختم کردیا ہے ، ہم نےماڈل کورٹس کا ڈھنڈوراپیٹا نہ اس کاکوئی اشتہار لگایا اسی سسٹم کیساتھ صرف چند پہلوؤں کےذریعےماڈل کورٹس چلائیں۔

    انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے عدلیہ کو وسائل دینے کی بات کی ہے ، وہ وسائل دیں گے تو نتائج اس سے کئی گنا بڑھ جائیں گے، سرکار سے ایک پیسہ نہیں مانگا ،عدلیہ جانفشانی سے کام کررہی ہے، 187 دن میں 73ہزار303ٹرائل مکمل کئے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاشرے کے طبقے عدلیہ پر اعتراض میں احتیاط کریں ، ججز دن رات کام کررہےہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں ، ہمارے سامنے کوئی طاقتور نہیں ہیں طاقتور صرف قانون ہے، وزیراعظم کو معلوم ہوگا اجازت انھوں نےخود دی تھی ، وزیراعظم بھی بیان دینےسے احتیاط کریں ، کوئی بھی ادارہ یا انسان پرفیکٹ نہیں ہے۔

  • جھوٹے گواہوں کو نہیں چھوڑیں گے، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    جھوٹے گواہوں کو نہیں چھوڑیں گے، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا جھوٹے گواہوں کو نہیں چھوڑیں گے ،انھوں نے نظام عدل کو خراب کردیا ہے، قانون میں قتل کے مقدمے میں جھوٹی گواہی کی سزا عمرقید ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ‌ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے ضلع سرگودھامیں قتل کیس کی سماعت کی ، جھوٹے گواہوں کے خلاف عدالت نے بڑا اقدام کرتے ہوئے جھوٹی گواہی کی بنا پرظفر عباس اور مقصود حسین کو 28 اکتوبر کو طلب کرلیا۔

    عدالت کی جانب سےدونوں جھوٹےگواہوں کونوٹسز جاری کئے گئے اور کہا گیا ڈی پی او دونوں کےساتھ28اکتوبرکوسپریم کورٹ میں پیش ہوں، جھوٹے گواہوں کےخلاف قانون کےمطابق کارروائی کی جائے گی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس میں کہا قانون میں قتل کے مقدمے میں جھوٹی گواہی کی سزا عمرقید ہے، جھوٹے گواہوں کو نہیں چھوڑیں گے، انھوں نے نظام عدل کو خراب کردیا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا گواہان نےعدالت کوگمراہ کیا،دونوں موقع پرموجود نہیں تھے، گواہان کو خود سے کہانی بنا کر پیش کیا گیا، عدالت نے جھوٹی گواہی کی بنا پر ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے ملزم ذوالفقار حسین شاہ بری کردیا ۔

    مزید پڑھیں : انصاف پر مبنی معاشرہ چاہتے ہیں تو جھوٹی گواہی کا خاتمہ کرنا ہوگا، چیف جسٹس

    خیال رہے ٹرائل کورٹ نےذوالفقارحسین کوسزائےموت دی جبکہ جعفرشاہ کوبری کیاتھا اور ہائی کورٹ نےذوالفقارحسین شاہ کی سزائےموت عمرقید میں تبدیل کی تھی۔

    یاد رہےچیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ انصاف پر مبنی معاشرہ چاہتے ہیں تو جھوٹی گواہی کا خاتمہ کرنا ہوگا، پولیس نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، انصاف کی فراہمی میں جھوٹے گواہ بڑا مسئلہ ہیں، پہلا مسئلہ جھوٹی گواہی دوسرا مسئلہ تاخیری حربے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایسے جھوٹے گواہ کو عدالت ڈیکلیئر کرے یہ جھوٹا ہے، جو شخص کیس میں جھوٹی گواہی دے تو اسے مجرم کے برابر سمجھنا چاہئے، جھوٹے گواہوں کے ساتھ ملے ہوئے تحقیقاتی افسر کو بھی مجرم تصور کرنا چاہئے، جھوٹے گواہ کو کسی صورت برداشت نہیں کرنا چاہئے۔

  • کس قانون کے تحت عمر قید کا مطلب 25سال لکھا گیا ہے؟ چیف جسٹس

    کس قانون کے تحت عمر قید کا مطلب 25سال لکھا گیا ہے؟ چیف جسٹس

    اسلام آباد : عمر قید کی مدت کے تعین سے متعلق کیس میں پاکستان بار کونسل کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی استدعا کردی، چیف جسٹس نے کہا کس قانون کے تحت عمر قید کا مطلب 25سال لکھا گیا ہے؟ رحم دلی اور قانون الگ چیزیں ہیں ،عدالت نے قانون پر فیصلہ دینا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بنچ نے عمر قید کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت
    کی ، سماعت میں پاکستان بار کونسل کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی استدعا کی ، جس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کیاپاکستان بار کونسل کو عمرقید ہوئی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ہزاروں لوگ عمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں، آپ طے کر لیں کس کس نے اس حوالے سے بحث کرنی ہے، کیس کو بغیر وقفے کے سنیں گے، اس کیس میں ایک ہفتہ بھی لگ سکتا ہے، پاکستان بار کونسل دلائل کے لیے 2سے 3 افراد نامزد کرے۔

    وکیل ذوالفقارخالد نے بتایا اس کیس میں2 ایف آئی آرہیں، تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزم نے پہلے دو قتل کیے پھر دس قتل کیے، درخواست گزارکے کیس میں تو نظر ثانی بھی خارج ہو چکی ، نظر ثانی خارج ہونے کے بعد دوبارہ جائزہ نہیں لیا جاسکتا ، جائزہ لیا تو ہزاروں کیس آئیں گے ،مقدمے بازی ختم نہیں ہوگی۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا صرف عدالت خود سے اپنے فیصلے پر دوبارہ جائزے کا اختیار رکھتی ہے، درخواست گزار نظر ثانی کی بجائے عمر قید کی تعریف پردرخواست دے سکتا ہے۔

    عدالت نے درخواست گزار کو پرانی درخواست واپس لےکرنئی جمع کرانے کی اجازت دے دی، چیف جسٹس نے کہا اس کیس میں ہم نے بہت محنت کی تھی ، کل رات 6 ممالک کے فیصلے پڑھ کر 3بجے سویا تھا، رحم دلی اور قانون الگ چیزیں ہیں ،عدالت نے قانون پر فیصلہ دینا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا وکیل آ ئندہ جیل رولز کی شق 140 پڑھ کر آ ئیں ، جیل رولز بناتے ہوئے پینل کوڈ کو تبدیل کردیا گیا ، کس قانون کے تحت عمر قید کا مطلب 25سال لکھا گیا ہے؟ آ ج سزا کی معیاد سے متعلق کوئی درخواست نہیں۔

    عدالت نے عمر قید کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

  • عمر قید کی سزا 25 سال جیل یا پوری عمر ؟ مدت کے تعین کیلئے لارجربنچ تشکیل

    عمر قید کی سزا 25 سال جیل یا پوری عمر ؟ مدت کے تعین کیلئے لارجربنچ تشکیل

    اسلام آباد :چیف جسٹس آصف کھوسہ نے نے عمر قید کی سزا کی مدت کے تعین کانوٹس لیتے ہوئے معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا اور اٹارنی جنرل، صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور پراسیکیوٹرز جنرل کو نوٹسز جاری کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کور ٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھوسہ نے عمر قید کی سزا کی مدت کےتعین کانوٹس لے لیا، نوٹس ہارون الرشید بنام اسٹیٹ مقدمہ کی سماعت کے دوران لیا۔

    وکیل ذوالفقار ملوکا کاکہناتھا کہ ہارون الرشید کو قتل کے مختلف 12 مقدمات میں 12 مرتبہ عمر قید کی سزا ہوئی، مجرم 1997سے جیل میں ہے،22 سال سزا کاٹ چکا ہے ، عدالت عمر قید کی 12 سزاؤں کو ایک ساتھ شمار کرنے کا حکم دے ۔

    جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ کیا یہ غلط فہمی نہیں عمر قید کی سزا کی مدت 25 سال ہے جب یہ پتہ نہیں زندہ کتنا رہنا ہے تو اسکو آدھا کیسے کردیں بڑے عرصے ایسے کسی کیس کا انتظار تھا جس میں عمر قید سزا کی مدمت کا فیصلہ کریں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھ کہ جیل کی سزا میں دن رات شمار کیے جاتے ہیں، اس طریقے سے مجرم پانچ سال بعد باہر آجاتا ہے، بہت سی غلط فہمیاں درست کرنے کا وقت آ گیا، عمر قید سزا کی مدت کا تعین عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

    مزید پڑھیں : عمر قید کا مطلب تا حیات قید ہوتا ہے، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    عدالت نے رجسٹرار آفس کو معاملہ اکتوبر کے پہلے ہفتے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

    یاد رہے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے قتل کے ملزم کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر ریمارکس دیئے تھے عمر قید کا یہ مطلب نکال لیا گیا 25 سال قید ہے، عمر قید کی غلط مطلب لیا جاتا ہے، عمر قید کا مطلب ہوتا ہے تا حیات قید۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کسی موقع پر عمر قید کی درست تشریع کریں گے، ایسا ہوا تو اس کے بعد ملزم عمر قید کی جگہ سزائے موت مانگے گا۔

  • سپریم کورٹ ہائی کورٹ کےمعاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، چیف جسٹس

    سپریم کورٹ ہائی کورٹ کےمعاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ ،ہائی کورٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی تاہم نچلی عدالتوں میں بہت زیادہ ناانصافی پر مداخلت کاسوچ سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھوسہ نے گرانٹ کی رقم ادا ئیگی مہلت میں توسیع کی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کےمعاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی ، ستر سالہ تاریخ ہے نچلی عدالتوں کے معاملات میں دخل نہیں دیتے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا نچلی عدالتوں میں بہت زیادہ ناانصافی پر سپریم کورٹ مداخلت کا سوچ سکتی ہے۔

    کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی ، پندرہ لاکھ کی ریکوری کے ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف وارث مسیح نے درخواست دائر کی تھی۔

    درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ عدالت رقم کی ادائیگی مہلت میں توسیع کرے، سات لاکھ کی ادائیگی آج ہی کرنے کو تیار ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے کوئی حکم نہیں دے سکتے، جسٹس گلزار کا کہنا تھا درخواست گزارصرف معاملےکولٹکاناچاہتاہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے وارث مسیح کی درخواست خارج کردی۔

  • نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے؟ چیف جسٹس

    نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے؟ چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایڈیشنل کلکٹرانکم ٹیکس لاہور کی بریت پرنیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے، ہم نے پہلے بھی کہا آپ کےکام نہیں آئیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایڈیشنل کلکٹر انکم ٹیکس لاہور محمد اقبال کی بریت پر نیب اپیل پر سماعت کی۔

    نیب پراسیکوٹرنے عدالت عظمی کوبتایا کہ محمد اقبال احمد نے آٹھ غیر قانونی اور بے نامی جائیدادیں خریدکر آگے فروخت کر دیں، چیف جسٹس نے نیب پراسیکوٹر سے کہا کہ الزام ثابت کرناآپ کاکام ہے، نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے،چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے کہا آپ کی اپنی حکومت ہے اپنے کام خود کریں، ہم نےپہلے بھی کہا آپ کےکام نہیں آئیں گے، اگر مالک اور بے نامی دار خود کہہ رہے ہیں کہ جائیداد ہماری نہیں تو آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ آپ کی غلطی کی ہے کہ 342 کے درست سوالات عدالت میں پیش نہیں کیے۔

    عدالت نے ایڈیشنل کلکٹر انکم ٹیکس لاہور محمد اقبال احمد کی بریت کیخلاف نیب کی اپیل مسترد کر دی اور کہا استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا، ملزم کیخلاف اورکوئی مقدمہ ہوتو نیب تحقیقات جاری رکھے۔

    خیال رہے ٹرائل کورٹ نے محمد اقبال احمد کو 2006 میں 10 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ کیا جبکہ ہائی کورٹ نے ملزم کو بری کر دیا تھا۔

    بعد ازاں ملزم کی بریت کےخلاف نیب نےسپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    یاد رہے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو گائیڈ لائن دے دی اور کہا ملزم خاموش بھی رہےتو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے، شک وشبہ سے بالاتر کیس کو ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

  • کرپشن کی رقم مرکر بھی ادا کرنا ہوگی ، چیف جسٹس  نے واضح کردیا

    کرپشن کی رقم مرکر بھی ادا کرنا ہوگی ، چیف جسٹس نے واضح کردیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کرپشن کی رقم موت کے بعد بھی جمع کرانی ہوگی اور مرحوم ڈی ایس پی جمیل اختر اور اہلیہ کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے خورد برد کیےگئے تین کروڑ روپےادا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس نے مرحوم ڈی ایس پی جمیل اختر اور اہلیہ کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے خورد برد کیےگئے تین کروڑ روپےادا کرنے کا حکم دیا۔

    کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس میں کہا کرپشن کہ رقم تو واپس کرنا ہوگی جرمانہ کی رقم کی گئی کرپشن سے بہت کم ہے، ڈھائی کروڑ کا پلاٹ لیا گیا اب اس پلاٹ کی موجودہ مالیت ڈھائی ارب سے زیادہ ہوگی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دو ہزار تین میں کہا گیا کہ 3 کروڑ جرمانہ آج کے حساب سے انتہائی کم ہے۔

    وکیل نیب نے عدالت کو بتایا کہ جمیل اختر کیانی 1959 بھرتی اور 1995 میں ڈی ایس پی پولیس ریٹائرڈ ہوئے، وکیل مسمات ریاض بی بی نے عدالت کے روبرو بتایا کہ جرمانہ کی تین کروڑ رقم ادا نہیں کر سکتے۔

    مزید پڑھیں : کرپشن کیس میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کا بڑا فیصلہ

    وکیل مجرمان کا کہنا تھا کہ نیب نے ہمارے 1995 کے بعد کے اکاونٹ بھی ضبط کر لیے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جرمانہ کم نہیں زیادہ ہو سکتا ہے کرپشن کا ساری عمر لوگ استعمال کرتے ہیں، ایشو یہ نہیں کہ اثاثوں پر مزے کئے، ایشو یہ ہے نو کروڑ کے اثاثے کب اور کیسے بنے؟۔

    خیال رہے جمیل اختر کیانی پر کرپشن اور اختیار کے ناجائز استعمال کا الزام تھا، ٹرائل کورٹ نے جمیل اختر اور اسکی اہلیہ کو دس اور پانچ سال سزا کیساتھ 30 ملین جرمانہ کیا تھا اور ہائی کورٹ نے بھی فیصلہ برقرار رکھا

    یاد رہے چند روز قبل کرپشن کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھسہ نے کا بڑا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کے ورثاء کوجرمانہ اداکرنے کاحکم دیا تھا اور ریمارکس دیئے تھے کہ بے شک سب کیا دھرا والد کا ہو، مجرم کے بعد اس کی اولادوں سے رقم وصولی کا قانون ہے۔

  • پہلا کیس دیکھ رہا ہوں جس میں کسی خاتون پر کرپشن کا اتنا بڑا الزام ہے،  چیف جسٹس

    پہلا کیس دیکھ رہا ہوں جس میں کسی خاتون پر کرپشن کا اتنا بڑا الزام ہے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کرپشن کیس میں خاتون کلرک کی بقایا 10سال کی سزا ختم کرتے ہوئے جرمانے کی سزا برقرار رکھی ،چیف جسٹس نے کہا  پہلا کیس دیکھ رہا ہوں جس میں کسی خاتون پر کرپشن کا اتنا بڑا الزام ہے، خاتون اگر 20سال سروس کرتی تو سارا ملک لے جاتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں پنشن فنڈزمیں خاتون کلرک کی کرپشن سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں چیف جسٹس نے کہا خاتون پنشن ڈیپارٹمنٹ میں اپر ڈویژن کلرک ہے، خاتون کی جانب سے کرپشن کا پہلا کیس دیکھا ہے، ٹرائل کورٹ نے خاتون کو 14سال سزا سنائی ، خاتون 4سال سزا کے بعد ضمانت پر باہر آ گئی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا ایک کروڑ 39 لاکھ روپے احتساب عدالت نےجرمانہ کیا ، 50 لاکھ روپے اکاونٹ سے برآمد ہونے کا کوئی جواز نہیں دیا ، پہلا کیس دیکھ رہا ہوں جس میں کسی خاتون پر کرپشن کا اتنا بڑا الزام ہے۔

    وکیل صفائی نے کہا منگنی کےوقت بطورحق مہر ایک کروڑ، 100تولے سونا اور گھر دیاگیا، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا ان کی شادی تو 2005 میں ہوئی ، دستاویزات کے مطابق تو شادی کے وقت حق مہر دینے کا کہا گیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا شوہرایک پوسٹ ماسٹر تھااس کے پاس اتنی رقم کہا ں سے آئی؟ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا ان کا نکاح نامہ بھی مشکوک لگ  رہا ہے۔

    جس پر  جسٹس آصف کھوسہ نے کہا نکاح رجسٹرار نے بھی اپنے دستخط سے انکار کیا ہے، خاتون اگر 20سال سروس کرتی تو سارا ملک لے جاتی، چیف جسٹس نے ملزمہ کی بہن سے مکالمے میں کہا لگتا ہے ساری کرتا دھرتا آپ ہیں، کیوں نہ اس کی سزا آپ دونوں میں تقسیم کر دیں۔

    عدالت نے خاتون کلرک کی بقایا 10سال کی سزا ختم کرتے ہوئے جرمانے کی سزا برقرار رکھی اور کہا ملزمہ کو ایک کروڑ 39 لاکھ 16ہزار 300روپےخرچ دینا ہوگا۔

    خیال رہے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نےنزہت بی بی کو 14 سال اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

  • ملزم خاموش بھی رہے تو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے  ، چیف جسٹس

    ملزم خاموش بھی رہے تو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے ، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو گائیڈ لائن دے دی اور کہا ملزم خاموش بھی رہےتو جرم کو نیب نے ثابت کرناہے، شک وشبہ سے بالاتر کیس کو ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے محکمہ خوراک بلوچستان کے گندم خوربرد میں ملوث ملازمین کی اپیلوں پر سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم خاموش بھی رہے تو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا گندم خوردبرد میں ملوث ٹھیکیداروں نے پلی بارگین کرلی، حکومت کا نقصان پلی بارگین سے ریکور ہو گیا۔

    جسٹس طارق مسعود نے کہاکہ گندم کے ٹرک راستے میں غائیب ہوئے، دو ملازمین نے ٹرک غائب ہونے کی اطلاع دی دو نے نہیں دی۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ محکمہ فوڈز ملازمین نے کام میں غفلت کی تو محکمانہ کاروائی ہو گی، ادارہ کی غفلت پر نیب قانون کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے،شک و شبہ سے بالاتر کیس کو ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

    اعلی عدالت نے محکمہ خوراک بلوچستان میں گندم خورد بردکیس کے ملزمان کی سزا کوکالعدم قراردے دیا۔

    یاد رہے کہ اکبر، پرویز بیگ، رشید احمد اور محمد حسین پر گندم اسٹاک میں خوردبرد کا الزام تھا ،احتساب عدالت نے ملزمان کو سزا سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے بھی سزا کو برقرار رکھا تھا۔

  • چیف جسٹس  آصف کھوسہ نے جعلی اکاؤنٹس سے ٹرانزیکشنز کو بڑا جرم قرار دے دیا

    چیف جسٹس آصف کھوسہ نے جعلی اکاؤنٹس سے ٹرانزیکشنز کو بڑا جرم قرار دے دیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے جعلی اکاؤنٹس کھلوانے سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ٹرانزیکشنز بڑا جرم ہے، بینک والوں کی شمولیت کے بغیر جعلی اکاؤنٹس نہیں کھل سکتے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں سینیئر اسٹنٹ محمد انور ایوب کے نیشنل بینک میں جعلی اکاؤنٹس کھلوانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    اس موقع پرعدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک کیس میں ٹرائل کورٹ نے ملزم محمد انور ایوب کو تین سال سزا اور آٹھ لاکھ جرمانہ کیا، دوسرے کیس میں ٹرائل کورٹ نے ملزم محمد انور ایوب کو آٹھ سال کی سزا دی، ہائی کورٹ نے دونوں کیسز میں سزا تین سال کر دی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بینک والوں کی شمولیت کے بغیر جعلی اکاؤنٹس نہیں کھل سکتے، ایک لاکھ کا اکاؤنٹ کھول کر اسے 9 لاکھ بنا دیا۔

    بینک کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ ملزم نے بینک کی مختلف برانچوں میں جعلی اکاؤنٹس کھول کر دھوکہ دیا، مظفر آباد برانچ سے بھی پیسے نکلوائے، اس موقع پرچیف جسٹس نے کہا کہ اکاؤنٹ بغیر تصدیق کے تو نہیں کھل سکتے، تین سال قید تو بہت کم دی گئی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ٹرانزیکشنز کرنا تو بڑا جرم ہے، جتنے بھی اکاونٹ کھلے سب کے اوپننگ فارم پر ملزم کے دستخط تھے، آپ چاہتے ہیں کہ ملزم کو بری کردیں تاکہ وہ بینک میں دوبارہ جائے اور جو بچ گیا ہے وہ کام مکمل کرے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کرمنل کیسز سے متعلق ریمارکس میں کہنا تھا کہ کرمنل کیسز تقریباً اب ختم ہو گئے ییں، انشاء اللہ اگلے چند ہفتوں میں صفر رہ جائیں گے، اس ہفتے کے بعد صرف سو اپیلیں رہ جائیں گی اور وکیل نیب سے مکالمے میں کہا تمام کیسوں کی ایک ساتھ تیاری کر لیں کیس ختم ہونے والے ہیں۔

    سپریم کورٹ نےدرخواست واپس لینے کی بنا پر معاملہ نمٹا دیا۔

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس آصف کھوسہ نے قتل کے ملزم کی سزائے موت کے خلاف نظر ثانی کی درخواست خارج کر دی تھی اور ریمارکس میں کہا تھاعمر قید کا مطلب ہوتا ہے تا حیات قید ، کسی موقع پر عمر قید کی درست تشریع کریں گے، ایسا ہوا تو اس کے بعد ملزم عمر قید کی جگہ سزائے موت مانگے گا۔