Tag: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ

  • تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں، جو رسک لینے کو تیار ہوتے ہیں، چیف جسٹس

    تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں، جو رسک لینے کو تیار ہوتے ہیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں، جو رسک لینے کو تیار ہوتے ہیں، جو کرنا ہے، بس کرجاؤ، نیت ٹھیک ہونی چاہیے، لوگ تنقید کرتے رہیں گے،جوسمت چل رہی ہے اسے چلنے دیں۔

    تفصلات کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ لاہورواقعہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے، واقعہ زیرسماعت ہے، زیادہ بات نہیں کرناچاہتا، ڈاکٹرز اور وکالت دونوں معاشرے کے باوقار پیشے ہیں، دونوں پیشوں کے ساتھ گرانقدر روایات منسلک ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماڈل کورٹس نے شاندارکارکردگی کامظاہرہ کیا، ماڈل کورٹس کےذریعےتیزتر انصاف کو یقینی بنایا گیا ہے، معزز پیشے سے تعلق رکھنے والوں کوخود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا، نظام میں رہتے ہوئے انصاف میں تاخیر کے عمل کو مختصرکیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ریاست میں گواہوں کولانےکی ذمہ داری مدعی پر ڈال دی گئی، ہم نے فیصلہ کیا گواہوں کولاناریاست اورپولیس کی ذمہ داری ہوگی، ریاست وپولیس کوگواہوں کو لانے کی ذمہ داری دینے سے انقلابی تبدیلی آئی، ایسا سسٹم بنایا ہے17دن کے اندر چاہے نامکمل چالان ہو لیکن پیش ہوجائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ وکلا کے مختلف عدالتوں میں پیش ہونے کا شیڈولنگ سسٹم بنایا، سینئر وکیل کے ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں بیک وقت کیس لگے ہوتے تھے، درخواستیں آنا شروع ہوگئیں کہ ہمارے کیسزماڈل کورٹس منتقل کئے جائیں، ماڈل کورٹس نے یہ تاثر پیدا کردیا کہ 2دن میں فیصلہ آنا ہے تو ضمانت کیا لینی۔

    چیف جسٹس نے کہا جج صاحبان کیس کی کارروائی پہلے دن سے لکھنا شروع کردیتے ہیں، پہلےدن سےکیس لکھنےسےفیصلہ سنانےمیں آسانی ہوتی ہے، 5 سال سےمیرےبینچ میں کسی کیس کی سماعت ملتوی نہیں ہوئی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں208دن میں1لاکھ15ہزارٹرائل مکمل کئےگئے، ایسی ٹیم بن گئی ہےہرمعاملےپرچیف جسٹس کومداخلت کی ضرورت نہیں پڑے ، جہلم جیسےضلع میں زیرالتواکیسزکی شرح صفر ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ 6 ماہ پہلےآج تک ایک بھی شکایت کسی طرف سے نہیں آئی، شکایت نہیں آئی کہ جج صاحب کی مووجدگی میں کوئی شہادت ریکارڈ کی گئی ہو، سپریم کورٹ کے جج صاحبان نےکہاماڈل کورٹس پرچھاپہ ماریں گے، بذریعہ ویڈیولنک ماڈل کورٹس کی کارروائی دیکھیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نےدیکھا ماڈل کورٹس کےججزہائیکورٹ کےججزلگ رہے تھے، ماڈل کورٹ سے متعلق کوئی بھی شکایت موصول نہیں ہوئی، بےجاتنقید سےدل شکنی ہوتی ہے لیکن حوصلے پست نہیں ہوتے، 1994 کی کچھ کرمنل کیسزکی اپیلیں تھیں جو ختم کردی گئیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو رسک لینےکوتیارہوتےہیں، جو کرنا ہے بس کر جاؤ،نیت ٹھیک ہونی چاہیے، لوگ تنقید کرتے رہیں گے، جو سمت چل رہی ہے اسے چلنے دیں، تضحیک کےباعث بنےادارےکوآپ نےعزت کےقابل بنادیا، 1.6بلین روپےکےجرمانےلگائے، 120 بلین کےجرمانے ریاست کو جائیں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پولیس کےساتھ لیویزنےبھی بہت تعاون کیا، اسلام آبادمیں بیٹھ کرکوئی بھی بلوچستان کےحالات کااندازہ نہیں کرسکتا، لیویز اہلکاروں سے امید ہے ، وہ آئندہ بھی تعاون جاری رکھیں گے، ماڈل کورٹس کے ججز کا طریقہ سماعت ہائیکورٹ کی سطح کا ہے، ماڈل کورٹس نے مردہ سسٹم میں جان ڈال دی ہے۔

  • اللہ کے لیے سچے گواہ بن جاؤ، چیف جسٹس

    اللہ کے لیے سچے گواہ بن جاؤ، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم ممتاز کو بری کردیا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نےجھوٹی گواہی پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا نہ اسلام جھوٹ کی اجازت دیتا ہے اور نہ قانون تو عدالت کیسےجھوٹ کی اجازت دے سکتی ہے، اللہ کے لئے سچے گواہ بن جاؤ چاہے والدین، بہن بھائیوں یا رشتے داروں کے خلاف گواہی کیوں نا دینا پڑے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سرگودھا کے رہائشی نصر اللہ قتل کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے محمد ممتاز کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی، ہائی کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا۔

    سپریم کورٹ نے سرگودھا کے رہائشی نصر اللہ کے قتل کیس میں جھوٹی گواہی دینے پر ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم محمد ممتازکو بری کردیا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے جھوٹی گواہی کے حوالے سے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا جب سے جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی ہے گواہان بھاگنا شروع ہو گئے گواہ جھوٹ بولتے ہیں تو قانون کا بھی سامنا کریں۔

    1951چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1951میں چیف جسٹس منیرکےجھوٹی گواہی پرفیصلےسےمعاملہ خراب ہوا، فیصلےمیں تھاگواہ کوجھوٹ بولنےدیں،سچ جھوٹ کاخودپتہ لگالیں گے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا نہ اسلام جھوٹ کی اجازت دیتا ہے اور نہ قانون تو عدالت کیسےجھوٹ کی اجازت دے سکتی ہے، کتنےلوگ جھوٹے گواہوں کی وجہ سےمصیبت برداشت کرتے ہیں، جسٹس قاضی محمد امین کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ قرآن پاک میں ہے کہ جھوٹ کو سچ سےمت ملاؤ۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے گواہ اللہ کا نام لے کر اور حاضر ناظر جان کو جھوٹ بولتے ہیں، اللہ کے لئے سچے گواہ بن جاؤ چاہے والدین، بہن بھائیوں یا رشتے داروں کے خلاف گواہی کیوں نا دینا پڑے۔

  • کرپشن کے مقدمے میں 3سال کی سزا مذاق ہے، چیف جسٹس

    کرپشن کے مقدمے میں 3سال کی سزا مذاق ہے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کرپشن کے مقدمے میں تین سال کی سزامذاق قرار دیتے ہوئے کہا تین سال کی سزا تو چھڑی مارنے کے جرم میں ہوجاتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق سربراہ ظاہرکی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت کی، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید بھی بینچ کا حصہ تھے۔

    دور ان سپریم کورٹ نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی اور ظاہر شاہ پر 3سال قید ،2 کروڑ 15لاکھ جرمانہ اور جائیداد ضبطگی کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    وکیل ظاہرشاہ نے کہا احتساب عدالت نے جائیدادضبط کرنےکاحکم نہیں دیا اور ہائی کورٹ نے نیب اپیل کے بغیر جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کرپشن کے مقدمےمیں 3سال کی سزامذاق ہے، چھڑی مارنے کے جرم مین تین سال سزا دی جاتی ہے، بطور سرکاری ملازم ظاہرشاہ نے کروڑوں کی جائیداد کیسے بنالی۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ ملزم کی تنخواہ اس وقت 1275 تھی پھر کروڑوں کی جائیداد کیسے کہاں سے آئی ؟ اس وقت گھر کا کرایہ بھی 3 سو روپے ہواہو گا، 3 سال کی سزاکرپشن کےمقدمےمیں بہت کم ہے، سوچ رہے ہیں کیوں نہ سزا بڑھا دیں۔

    وکیل ملزم نے بتایا کہ ظاہر شاہ نے 1974 میں 4گھر فروخت کیے ان سے جو رقم ملی اس سے جائیداد بنائی، چار گھر ظاہر شاہ نے سروس سے پہلے 1974 میں خریدے تھے۔یہ ساری جائیدادیں ظاہر شاہ کے سروس میں آنے سے پہلے کی ہیں ، وہ1975 میں سروس میں آیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا اثاثے 1988میں بنائےگئے،وسائل1998 کے ہیں، ظاہر شاہ نے کروڑوں کے اثاثے بنالیے، جس پر وکیل نے کہا میں سزا کے خلاف موکل کی اپیل واپس لیتا ہوں۔

    جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے ملزم سید ظاہر شاہ کو 3 سال قید اور دو کروڑ 15 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی، ہائی کورٹ نے ملزم کی تین سال قید کو برقرار رکھا اور جرمانہ کم کر کے ایک کروڑ 15 لاکھ کر دیا۔

    خیال رہے کہ ملزم ظاہر شاہ پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام تھا۔

    مزید پڑھیں : کرپشن کی رقم مرکر بھی ادا کرنا ہوگی ، چیف جسٹس نے واضح کردیا

    یاد رہے چند روز قبل چیف جسٹس آصف کھوسہ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا تھا کرپشن کی رقم موت کے بعد بھی جمع کرانی ہوگی اور مرحوم ڈی ایس پی جمیل اختر اور اہلیہ کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے خورد برد کیےگئے تین کروڑ روپےادا کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • چیف جسٹس نے "دہشت گردی کی تعریف” کے تعین کے لیے لارجر بنچ تشکیل دے دیا

    چیف جسٹس نے "دہشت گردی کی تعریف” کے تعین کے لیے لارجر بنچ تشکیل دے دیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دہشت گردی کی تعریف کے تعین کے لیے لارجربنچ تشکیل دےدیا اور کہا ، آج سے یہ طےہو جائے گا، جھوٹےگواہ کی پوری گواہی مسترد ہوگی ۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دہشت گردی کی تعریف کے تعین کے لیے لارجربنچ تشکیل دےدیا، چیف جسٹس سات رکنی لارجربینچ کی سر براہی خود کریں گے۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا لارجربینچ دہشت گردی کی حتمی تعریف پر فیصلہ دے گا، انیس سو ستانوے سےاب تک طےنہیں ہواکونسا کیس دہشت گردی کے زمرے میں آتاہے، اس لئے دہشت گردی کی تعریف کے لیے بینچ بنایاہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےمزید کہاجھوٹی گواہی کی قانونی حیثیت پر بھی فیصلہ آج جاری کر دیاجائے گا، آج سے یہ طے ہو جائےگاجھوٹےگواہ کی پوری گواہی مسترد ہوگی ۔

    آج سے جھوٹی گواہی کاخاتمہ ہوتاہے، چیف جسٹس

    یاد رہے 4 مارچ کو چیف جسٹس آصف کھوسہ نے سیشن جج نارووال کو جھوٹےگواہ اے ایس آئی خضر حیات کے خلاف کارروائی کاحکم دیتے ہوئے کہا تھا 4 مارچ 2019 آج سےسچ کا سفر شروع کر رہے ہیں، آج سے جھوٹی گواہی کاخاتمہ ہوتاہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا حلف پر جھوٹا بیان دینا ہی غلط ہے، اگرانسانوں کاخوف نہیں تھاتواللہ کاخوف کرناچاہیےتھا، آپ نے اللہ کا نام لے کر کہہ دیاجھوٹ بولوں تو اللہ کا قہرنازل ہو، شاید اللہ کا قہرنازل ہونے کا وقت آگیاہے۔

    گذشتہ ماہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف کھوسہ نے جھوٹی گواہی پر عمر قید کی سزا کا عندیہ بھی دیا تھا۔

  • چیف جسٹس  آصف سعید کھوسہ نے بیوی کے قتل کے ملزم کو ساڑھے 9سال بعد بری کردیا

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بیوی کے قتل کے ملزم کو ساڑھے 9سال بعد بری کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اہلیہ رخسانہ بی بی کے قتل کیس کے ملزم احمد علی کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دیکر ساڑھے 9سال بعد بری کردیا ، عدالت نے ریمارکس دیئے مقدمے کے گواہ جائے وقوع سے میلوں دور رہتے ہیں، ٹرائل کورٹ میں قتل کے ٹھوس شواہد نہیں آئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بیوی رخسانہ بی بی کے قتل کے مقدمے میں ملزم کی بریت کی درخواست پر سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے اہلیہ رخسانہ بی بی کے قتل کیس کے ملزم احمد علی کی بریت کی اپیل منظور کر لی اور عمر قید کی سزا کالعدم قرار دے کر ملزم کو ساڑھے 9سال بعد بری کردیا۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے مقدمے کے گواہ جائے وقوع سے میلوں دور رہتے ہیں، ٹرائل کورٹ میں قتل کے ٹھوس شواہد نہیں آئے، اہلیہ رخسانہ کے قتل میں بچوں کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا، رخسانہ کے قتل کا مقدمہ دوسرے تھانےکی حدود میں درج کیا گیا۔

    خیال رہے ملزم احمد علی پر 2009 میں اپنی اہلیہ رخسانہ بی بی کو قتل کرنے کا الزام تھا اور ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت کا حکم سنایا تھا تاہم ہائی کورٹ نے سزا عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔

    سپریم کور ٹ نے ایک اور قتل کے ملزم وجاہت حسین شاہ کو بری کردیا


    دوسری جانب سپریم کور ٹ نے اظہرحسین شاہ کےقتل کے ملزم وجاہت حسین شاہ کو بھی بری کردیاگیا، عدالت نے کہا میڈیکل رپورٹ کےمطابق اظہرحسین کی موت زخموں سے نہیں ، ہارٹ اٹیک سے ہوئی۔

    وجاہت حسین پر   2011 منگلہ جہلم میں اظہرحسین کوقتل کرنےکا الزام تھا اور  استغاثہ ملزم کے خلاف قتل کا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

    مزید پڑھیں :  چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 8 سال بعد عمر قید کے 3 ملزمان کو بری کر دیا

    یاد رہے گذشتہ روزسپریم کورٹ نے آٹھ سال بعد عمر قید کے تین ملزمان کو بری کر دیا، چیف جسٹس آصف کھوسہ نےفیصلہ سناتے ہوئے اہم ریمارکس دئیے کہ اگر ڈرتے ہیں تو انصاف نہ مانگیں ، فرمان الہی ہے سچی شہادت کے لیے سامنے آجائیں،اپنے ماں باپ یا عزیزوں کے خلاف بھی شہادت دینے کے لیےگواہ بنو۔