Tag: چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

  • چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس : کون کون سے ججز شریک نہیں ہوئے؟

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس : کون کون سے ججز شریک نہیں ہوئے؟

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس میں کون کون سے ججز شریک نہیں ہوئے ، ان کے نام سامنے آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس ہوا، فل کورٹ ریفرنس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیاگیا۔

    چیف جسٹس چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ آج ریٹائر ہورہے ہیں ، فل کورٹ ریفرنس میں چھ ججز نے شرکت نہیں کی۔

    جسٹس منصور علی شاہ بیرون ملک ہونے کے باعث فل کورٹ میں شریک نہیں ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک،جسٹس شاہد وحید ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد بھی اجلاس میں شریک نہیں

    اس ریفرنس میں روایتی طور پر سپریم کورٹ کے ججوں نے رخصت ہونے والے چیف جسٹس کو الوداع کہا۔

    واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ایک سال سے زائد عرصہ خدمات انجام دینے کے بعد آج ریٹائر ہو رہے ہیں۔

    نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تقریب حلف برداری کل ہو گی، جس میں صدر آصف علی زرداری نئے چیف جسٹس سے حلف لیں گے۔

    گذشتہ رات سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ دیا گیا۔

    تقریب میں نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، سپریم کورٹ کے ججز اور تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز نے شرکت کی۔

    رواں ہفتے کے اغاز میں صدر آصف علی زرداری نے 25 اکتوبر (آج) کو قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس تقرری کی باضابطہ منظوری دی۔

  • غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا،  چیف جسٹس برہم

    غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا، چیف جسٹس برہم

    اسلام آباد :چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے  سیکرٹری کابینہ کی جانب سے وزیراعظم کو صاحب کہنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مارگلہ نیشنل پارک میں کمرشل سرگرمیوں سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ کوعلم ہی نہیں کہ چیزیں کیسےہو رہی ہیں، دوران سماعت سیکرٹری کابینہ کی جانب سے وزیراعظم کو صاحب کہنے پر چیف جسٹس برہم ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، وزیراعظم صاحب نہیں ہوتا، شہباز شریف صاحب کہیں توسمجھ آتی ہے۔

    سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے بتایا کہ نیشنل پارک وزارت داخلہ کودینےکی سمری میں نےنہیں بھیجی تھی، وزیراعظم نےخودحکم جاری کیاتھاجو مجھ تک پہنچا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے وزیراعظم کو کہا نہیں کہ یہ رولز کیخلاف ہے؟ وزیراعظم کااختیارنہیں کہ کچھ بھی کردیں، رولز بیوروکریٹس نے ہی بتانےہوتے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے وزارتِ داخلہ کو وزارت موسمیاتی تبدیلی کیوں دی گئی، موسمیاتی تبدیلی وزارت داخلہ کو دیناکیا اچھی طرزحکمرانی ہے، ہم عوامی ووٹوں سےمنتخب ہونیوالے نمائندوں کا احترام کرتے ہیں، منتخب لوگ ووٹ لے کر آتے ہیں اور پھر انہی پرچڑھائی کر دی جاتی ہےْ

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے باہر سے لے کر میرے گھر تک ہاؤسنگ منصوبےکےبینر لگے ہیں، بینرز پر منصوبے کے حوالے سے سی ڈی اے سپانسرڈ لکھا ہوا ہے، آپ کو علم ہی نہیں ہے چیزیں کیسے چل رہی ہیں، یہ بیوروکریٹس عوام کی نہیں کسی اور کی خدمت کر رہے ہیں، یہ ملک عوام کے لیے بنا ہے صاحبوں کے لیے نہیں بنایا تھا۔

    توہین عدالت درخواست نہ آتی تو سب کچھ خاموشی سےہوجاتا،ملک ایسے نہیں چلے گا، ہم ریسٹورنٹ ہٹانے نکلے تھے یہاں توہاؤسنگ سوسائٹیاں نکل آئیں۔

    چیف جسٹس نے سیکرٹری کابینہ سے استفسار کیا وزیراعظم کسی کو گولی مارنے کا حکم دےتومار دینگے؟ اٹارنی جنرل آفس لااینڈ جسٹس کمیشن سے منسلک ہے ، اسے وزارت صحت سے منسلک کر دیں توکیایہ درست منطق ہوگی؟ ذاتی طور پر توہین عدالت کی کارروائی کے حق میں نہیں ہوں۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ فیصلے کے بعد آپ کو چیمبر میں تفصیلات سے آگاہ کر دوں گا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم چیمبر میں کچھ نہیں کرتے، میری عدالت میں جو بھی ہوتا ہے کھلی عدالت میں ہوتا ہے، آپ ہمیں کھلی عدالت میں ہی تمام تفصیلات پیش کریں گے،ہم ناچیمبر میں تفصیلات لیں گے اور نہ ہی بات سنیں گے، وزارت داخلہ اتنی ہی اچھی ہے تو ساری وزارتیں انہیں دے دیں۔

    عدالت نے مارگلہ ہلزنیشنل پارک کی وزارت داخلہ کومنتقلی پرحکومت سےجواب مانگ لیا اورمارگلہ ہلزپر قائم ہاؤسنگ منصوبےکی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔

    اٹارنی جنرل کی رعناسعیدکی برطرفی ،نیشنل پارک کی منتقلی کامعاملہ وزیراعظم کےنوٹس میں لانےکی یقین دہانی کرادی ، جس پر سپریم کورٹ نےسماعت 15اگست تک ملتوی کر دی گئی۔

  • چیف جسٹس اور ان کے خاندان نے 31 ہزار 680 مربع فٹ   زمین حکومت کو وقف کردی

    چیف جسٹس اور ان کے خاندان نے 31 ہزار 680 مربع فٹ زمین حکومت کو وقف کردی

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور ان کے خاندان نے 77ویں جشن آزادی کے موقع ہزاروں فٹ زمین حکومت کووقف کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اوران کےخاندان نے 31 ہزار 680 مربع فٹ زمین حکومت کووقف کردی۔

    77ویں جشن آزادی کے موقع پر قاضی فیملی نے اپنی زمین قوم کے لیے دی ، زیارت کوئٹہ میں قائداعظم ریزیڈنسی سے منسلک آراضی انوائرمنٹل سنٹر کو دے دی گئی ہے، جسے ماحولیاتی مرکز کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    قاضی خاندان نے اراضی حکومت کو دینے کے لیے بلوچستان حکومت کوخط لکھ دیا ہے۔

  • مونال ریسٹورنٹ کیس میں سی ڈی اے کی رپورٹ مسترد

    مونال ریسٹورنٹ کیس میں سی ڈی اے کی رپورٹ مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ کیس میں سی ڈی اے کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے چیئرمین سی ڈی اے کو فوری طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مونال ریسٹورنٹ کیس کی سماعت ہوئی ،سی ڈی اے نے ریسٹورنٹ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

    عدالت نے مونال ریسٹورنٹ کیس میں سی ڈی اے کی رپورٹ مسترد کردی اور چیئرمین سی ڈی اے کوفوری طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا سی ڈی اے کےاعلیٰ افسران کوانگریزی کی کلاسزکرانا پڑیں گی؟ سی ڈی اے سے مونال اوردیگر ریسٹورنٹس کی تفصیل مانگی تھی اور سی ڈی اےنےاسپورٹس کلب، پاک چائنا سینٹر، آرٹ کونسل، نیشنل مونومنٹ کا نام بھی شامل کردیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیشنل مونومنٹ اسپورٹس کمپلیکس کو گرانے کا حکم دے دیں؟ سپریم کورٹ کی عمارت بھی نیشنل پارک میں آتی ہے، دنیا کومعلوم ہےمونال کےساتھ کتنےریسٹورنٹس ہیں، مگر سی ڈی اے کومعلوم نہیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے برہم ہوتے ہوئے سوال کیا کیا سی ڈی اےکا دفتربھی نیشنل پارک میں ہے؟ وہ بھی گرانے کا حکم دیدیں؟

    جس پر وکیل سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے مارگلہ نیشنل پارک میں تعمیرات کی تفصیلات پر رپورٹ دی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا اب تک کتنی بارمارگلہ کےپہاڑوں پرآگ لگ چکی ہے؟ چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ اس سیزن میں 21 بار مارگلہ کے پہاڑوں پر آگ لگی تو جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات مارگلہ کےپہاڑوں پررات گئےتک آگ لگی رہی۔

    چیف جسٹس نے مزید سوال کیا کہ کیا مارگلہ کے پہاڑوں پرسی ڈی اے والے خود آگ لگاتے ہیں، جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ کچھ کالی بھیڑیں بھی موجودہیں، مون سون سیزن میں مارگلہ کےپہاڑوں پرنئےدرخت لگائیں گے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پوچھا کہ آگ بجھانے کیلئےہیلی کاپٹر کہاں سےآتے ہیں تو چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کابینہ کی منظوری کے بعد این ڈی ایم اے سے ہیلی کاپٹر لیے گئے۔

    سپریم کورٹ نے مونال کے اطراف دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیل طلب کرلیں۔

  • پاپوش نگر میں بس ٹرمینل کی زمین نیلام ہوگی یا نہیں؟ عدالتی فیصلہ آگیا

    پاپوش نگر میں بس ٹرمینل کی زمین نیلام ہوگی یا نہیں؟ عدالتی فیصلہ آگیا

    کراچی: پاپوش نگر میں بس ٹرمینل کی زمین کی نیلامی منسوخ کرنے کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق پرائیویٹ کنٹریکٹر کی نیلامی منسوخ کرنے کیخلاف حکم نامے پر نظر ثانی کی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ بس ٹرمینل کی زمین کراچی کے عوام کی ملکیت ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ رفاعی پلاٹ صرف عوامی مفاد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، آپ لوگوں کی ملی بھگت سے ہیر پھیر ہوجاتے ہیں۔ سرکاری افسران تک آپ لوگوں کی جیب میں ہوتے ہیں۔

    حکومت کے پاس اختیار ہے وہ نیلامی کا فیصلہ واپس لے سکتی ہے، حکومت اپنے اختیارات لوگوں کے لیے استعمال کررہی ہے تو ٹھیک ہے۔

    اس موقع پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پاپوش نگر میں 2 ہزار گز کا پلاٹ نیلام کرنے کا فیصلہ کیا گیا، درخواست گزار نے سب سے زیادہ بولی دی اور پلاٹ کی 25 فیصد رقم جمع کرادی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ پلاٹ ابھی کس کے پاس ہے؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ پلاٹ درخواست گزار کے پاس ہے، دکانیں بنائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 10 سال تک 25 فیصد رقم ادا کرکے کہتے ہیں پلاٹ آپ کے حوالے کردیا جائے؟

    محکمہ ٹرانسپورٹ کے لاافسر نے بتایا کہ سندھ حکومت پاپوش نگر میں بڑا بس ٹرمینل بنانا چاہتی ہے، ٹرمینل نہ ہونے کی وجہ سے الیکٹرک بسیں سڑکوں پر کھڑی کرنی پڑرہی ہیں۔ پاپوش نگر میں بڑا بس ٹرمینل بنانے کا منصوبہ بنایا جائے گا۔

  • ہر کیس سپریم کورٹ لانے کی سوچ ختم ہونی چاہیے، چیف جسٹس

    ہر کیس سپریم کورٹ لانے کی سوچ ختم ہونی چاہیے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا ہے کہ ہر کیس سپریم کورٹ لانے کی سوچ ختم ہونی چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس بناتوپتہ چلاکہ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کاچیئرمین بھی ہوں، بورڈکےاراکین میں تمام اہم شخصیات شامل ہیں، فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی مضبوط بورڈ کے تحت کام کررہی ہے، جسٹس منصورعلی شاہ نےاپنی تعیناتی کے بعد اکیڈمی میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے کورٹ اسٹاف کوپہلے کبھی اہمیت نہیں دی، یہ پہلی بارہےکہ ہم کورٹ اسٹاف کو بھی جوڈیشل اکیڈمی میں تربیت دیں گے، جوڈیشل اکیڈمی مختلف علاقوں،صوبوں سےآئےججزکواکٹھاکرنےکاذریعہ ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ملک بھر میں32 سو ججز اہم فرائض انجام دے رہے ہیں، درخواست گزاروں کاپہلاواسطہ سول ججز سےپڑتا ہے، سول ججزتربیت یافتہ ہوں گے تواعلیٰ عدلیہ پرکیسز کا دباؤ کم ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اکیڈمی میں کامیابی کے لیے نیک خواہشات ہیں، فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی رابطے کابہترین ذریعہ ہے، عدالتی عملے کو وہ اہمیت نہیں ملتی جو ملنی چاہیے، ہائیکورٹس کےچیف جسٹس بھی اکیڈمیزمیں عملےکی تربیت کا اہتمام کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کیس سپریم کورٹ لانے کی سوچ ختم ہونی چاہیے ، عام لوگوں میں یہ اعتماد بحال کراناضروری ہے کہ انصاف ہورہا ہے، انصاف کا بہتر نظام مقدمات کا دباؤ کم کرے گا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ٹیکنالوجی کے استعمال پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں بھی ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے، بطورچیف جسٹس پہلے پریکٹس اینڈپروسیجرکیس کو براہ راست نشرکیا، سماعت براہ راست ہونے سےعام شہری بھی انصاف ہوتا دیکھے گا، یہ عمل انصاف کے نظام میں مزید شفافیت لائےگا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی نے دنیا کو سمیٹ لیا ہے، صوبائی جوڈیشری سےرابطےمیں رہ کرججزبھی ٹیکنالوجی کافائدہ اٹھا سکتے ہیں، کہیں جاکر کتبہ لگانےکوبھی آلودگی کا حصہ سمجھتاہوں، کہیں بھی جاتاہوں کتبہ لگانےسےمنع کرتاہوں،یہ وسائل کا ضیاع ہے۔

    چیف جسٹس نے زور دیا کہ ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے ماحولیات کےتحفظ پر خاطر خواہ توجہ دینی ہوگی، عوام کے عدلیہ پراعتمادمیں اضافے کے لیےاعلیٰ عدلیہ ضلعی عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے، انصاف صرف کیا نہ جائے بلکہ ہوتا نظر بھی آئے۔

  • ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ، ہمارے کام مسلمانوں والے  نہیں،  چیف جسٹس کے بچیوں کی حوالگی کیس میں ریمارکس

    ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ، ہمارے کام مسلمانوں والے نہیں، چیف جسٹس کے بچیوں کی حوالگی کیس میں ریمارکس

    اسلام آباد :چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے دو کم سن بچیوں کی حوالگی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم صرف نام کےمسلمان رہ گئے ہیں ہمارےکام مسلمانوں والے نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں دو کم سن بچیوں کی حوالگی کے کیس کی سماعت ہوئی ،چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    وکیل والد نے عدالت کو بتایا کہ بچیاں والد کےپاس ہونی چاہئیں کیونکہ ماں رات کی نوکری کرتی ہے، بچیوں کی ماں کے پاس دیکھ بھال کا وقت ہی نہیں ہوتا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وکیل صاحب شریعت کے مطابق بچے ماں کے پاس رہتےہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم صرف نام کےمسلمان رہ گئے ہیں ہمارےکام مسلمانوں والےنہیں، صرف داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان نہیں ہوتاعمل بھی ہوناچاہیے، نماز، روزہ اور حج کرنا کافی نہیں انسانیت ،اخلاق بھی لازم ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ طلاق نہیں ہوئی والدین کی آپس کی ناراضی بچوں کا مستقبل خراب کردے گی۔

    چیف جسٹس نے بچوں کے والد سے استفسار کیا کہ آپ نے پسند کی شادی کی یاارینج میرج تھی، والد تیمور نے بتایا کہ میری پسند کی شادی تھی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خود محبت کی شادیاں کرلیتے ہیں پھر مسائل عدالت کیلئے بن جاتے ہیں۔

    عدالت نے دونوں بچیوں کو ماں کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا اور کہا بچیوں کا باپ اتوار کو صبح 10 سے شام5 بجے تک بچیوں سے ملاقات کرسکے گا اور والد کی جانب سے عدالتی حکم عدولی پرتوہین عدالت کارروائی ہوگی، بعد ازاں سپریم کورٹ نے والدین کی رضامندی سے کیس نمٹا دیا۔

  • چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سپریم کورٹ آمد ،  گارڈ آف آنر لینے سے انکار

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سپریم کورٹ آمد ، گارڈ آف آنر لینے سے انکار

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے گارڈ آف آنر لینے سے منع کردیا اور کہا مجھے سب ساتھیوں کا تعاون چاہیے، لوگ عدالت انصاف کے حصول کیلئے آتے ہیں کوئی خوشی سے نہیں آتے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ بغیر پروٹوکول سپریم کورٹ پہنچے اور اپنی ذاتی گاڑی میں عدالت آئے، اس موقع پر رجسٹرارسپریم کور ٹ اور دیگر اسٹاف نے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا استقبال کیا۔

    چیف جسٹس نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کردیا اور پولیس کو اپنی ذمہ داری دل جمی سے ادا کرنے کی ہدایت کردی۔

    اسلام آباد پولیس کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان کو گارڈ آف آنرپیش کیا جانا تھا کیونکہ پولیس کی جانب سے سابق چیف جسٹس کو بھی گارڈ آف آنر دیا گیا تھا۔

    اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ عملے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج میری بہت ساری میٹنگ اورفل کورٹ ہے، لوگ عدالت انصاف کے حصول کیلئے آتے ہیں کوئی خوشی سے نہیں آتے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس استقبال کی توقع نہیں تھی، آپ کا شکریہ، آپ سے تفصیلی ملاقات کروں گا ، آپ سےایک گزارش ہے کہ یہ سپریم کورٹ ہے، سائلین یہاں اپنےمسائل لیکر آتے ہیں، سائلین کیساتھ ایسا سلوک رکھیں جیسا ایک میزبان اپنے مہمان سے کرتا ہے۔