Tag: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

  • چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ آج چیمبر ورک پر چلے گئے

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج چیمبر ورک پر چلے گئے

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ آج چیمبر ورک پر چلے گئے، اس دوران وہ فیصلے لکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ آج چیمبر ورک پر چلے گئے، ذرائع نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ چیمبر ورک کےدوران فیصلے لکھیں گے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مدت ملازمت مکمل ہونے پر پچیس اکتوبر کوریٹائرہوجائیں گے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ جسٹس منصورعلی شاہ کا بنچ کمرہ عدالت نمبر ایک میں منتقل کردیا گیا ہے۔

    دوسری جانب نئے چیف جسٹس کے تقرر کیلئے 3 سینئر ججز کے ناموں پر پارلیمانی کمیٹی آج غور کرے گی، پہلے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی مقرر کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس کیلئے وزارت قانون کے ذریعے تین سینیئر موسٹ ججوں کا پینل مانگا جائے گا، بارہ رکنی کمیٹی تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گی۔

    یاد رہے چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے بطور چیف جسٹس پاکستان آخری ہفتے کا ججزروسٹر جاری کیا تھا۔

    جس کے مطابق رواں ہفتے 6 ریگولربنچز سماعت کریں گے، کورٹ روم نمبر ون میں چیف جسٹس تین رکنی بنچ کی سربراہی کرینگے۔بنچ میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

    بنچ ٹو کی سربراہی جسٹس منصور علی شاہ کریں گے ،۔ جس میں جسٹس عائشہ ملک اورجسٹس عقیل بلال عباسی شامل ہیں۔

    بنچ 3جسٹس منیب اختر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل ہوگا جبکہ بنچ 4میں جسٹس یحییٰ ٰآفریدی،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بنچ 5میں جسٹس امین الدین،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں جبکہ بنچ 6میں جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس ملک شہزاد احمد شامل ہیں۔

  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی آرڈیننس  سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا۔

    ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا، اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ کر انہوں نے صدارتی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس منیب اختر کے کمیٹی سے اخراج پر سوال اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ کے خط پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوابی خط لکھا۔

    ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط کے جواب میں لکھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو ججز کمیٹی میں شامل ہونے کا کہا گیا تھا لیکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے میٹی میں شامل ہونے سے معذرت کی، جسٹس یحییٰ کی معذرت پر جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس نے جسٹس منصور کو خط میں لکھا کہ سینئر ججز سے جسٹس منیب اختر کا رویہ انتہائی درشت تھا، ایسا جسٹس منصور آپ کے اصرار پر کیا گیا، میں ہمیشہ احتساب اور شفافیت کی حمایت کرتا رہا ہوں، میں وجوہات فراہم کروں گا کہ جسٹس منیب اختر کو کیوں تبدیل کیا گیا، جسٹس منصور یاد رہے وجوہات آپکے اصرار پر دے رہا ہوں ایسا نہ ہو کہ کوئی ناراض ہوجائے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں شامل نہ کرنےکی 11 وجوہات بتائیں، انہوں نے کہا کہ قانوناً آپ اس بات پر سوال نہیں اٹھا سکتے کہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کرے، آپ یہ نہیں پوچھ سکتے میں کمیٹی کے تیسرے رکن کے طور پر کس کو نامزد کروں۔

    چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ جسٹس منیب اختر نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سخت مخالفت کی تھی، جسٹس منیب دو ججز میں سے تھے جنہوں نے مقدمات کے بوجھ سے لاپرواہ تعطیلات کیں، جسٹس منیب تعطیلات میں عدالت کا کام کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھے، تعطیلات پر ہونے کے باوجود انہوں نے کمیٹی میٹنگز میں شرکت پر اصرار کیا۔

    چیف جسٹس نے جوابی خط میں لکھا کہ اگلے سینئر جج جسٹس یحییٰ پر ان کا عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کہتا ہے ارجنٹ مقدمات 14 روز میں سماعت کیلئے مقرر ہونگے، جسٹس منیب اختر نے ارجنٹ آئینی مقدمات سننے سے انکار کیا اور چھٹیوں کو فوقیت دی۔

    چیف جسٹس نے لکھا کہ سپریم کورٹ کی روایت کے برعکس اپنے سینئر ججز (ایڈہاک ججز) کا احترام نہ کیا، سینئر ججز (ایڈہاک ججز) کو ایسے 1100 مقدمات کی سماعت تک ہی محدود کردیا، ایڈہاک ججز کو شریعت اپیلٹ بینچ کے مقدمات بھی سننے نہیں دیئے گئے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط کے جواب میں لکھا کہ جسٹس منیب اختر نے کمیٹی کے معزز رکن سے غیر شائستہ درشت اور نامناسب رویہ اختیار کیا، جسٹس منیب اختر محض عبوری حکم جاری کر کے 11 بجے تک کام کرتے ہیں، جسٹس منیب اختر کے ساتھی ججز نے ان کے رویے کی شکایت کی۔

    چیف جسٹس نے جوابی خط میں لکھا کہ آڈیولیک کیس پر حکم امتناع جاری کر کے وہ کیس سماعت کیلئے مقرر ہی نہ کرنے دیا گیا، جسٹس منیب اختر کا کمیٹی میں رویہ مناسب نہیں تھا، واک آؤٹ کر گئے تھے۔

  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مدت ملازمت میں توسیع لینے سے صاف انکار

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مدت ملازمت میں توسیع لینے سے صاف انکار

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کردیا اور کہا باقی تمام ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کر بھی دیں تب بھی میں قبول نہیں کروں گا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے نئے عدالتی سال کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کی ، صحافی نے سوال کیا راناثنانےکہاتمام ججزکی عمربڑھا دی جائےتوآپ بھی توسیع لینےپرمتفق ہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ راناثنااللہ صاحب کومیرےسامنےلےآئیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے بتایا کہ ایک میٹنگ میں اعظم نذیرتارڑسےبات ہوئی تھی، میٹنگ میں جسٹس منصور علی شاہ اور اٹارنی جنرل بھی موجودتھے، اس میٹنگ میں راناثنااللہ نہیں تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میٹنگ میں وزیرقانون نےکہا تمام چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کررہےہیں تو میں نے کہا باقی تمام ججزکی مدت ملازمت بڑھا دیں میں قبول نہیں کروں گا، مجھے تو یہ نہیں پتہ کہ کل میں زندہ رہوں گابھی یانہیں۔

    صحافی نے سوال کیا کہ 6ججزکےخط کامعاملہ سماعت کےلئےمقررکیوں نہیں ہورہا؟ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ  6ججزکاخط سماعت کےلئےکمیٹی نےمقررکرناہے، جسٹس مسرت ہلالی کی طبیعت خراب تھی اس وجہ سےبینچ نہیں بن پارہاتھا۔

  • جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے، چیف جسٹس کا تنقید کرنے والوں کو جواب

    جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے، چیف جسٹس کا تنقید کرنے والوں کو جواب

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنمانے آپکے اورچیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ کیخلاف پریس کانفرنس کی۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا بولا انہوں نے ؟ اٹارنی جنرل نے بتایا پی ٹی آئی کے رؤف حسن نے پریس کانفرنس میں ایسے الفاظ استعمال کیے جو میں دہرا نہیں سکتا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا وہ الفاظ اتنے خوبصورت ہیں؟

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے اور استفسار کیا یہ فواد حسن کے بھائی ہیں؟ ہم نے تو فواد حسن فواد کو ریلیف دیا تھا، کیا ان کو اس بات سے تکلیف ہے کہ ان کے بھائی کو ریلیف کیوں دیا۔؟

  • ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکےجاؤ، چیف جسٹس برہم

    ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکےجاؤ، چیف جسٹس برہم

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس میں ریمارکس دیئے پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا ، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھرپھینکے جاؤ۔

    تفصیلات کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے کےخلاف سپریم کورٹ میں ازخودنوٹس پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    چکوال سے تعلق رکھنے والے راجہ شیر بلال،ابرار احمد، ایم آصف ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے ، دوران سماعت چکوال سےتعلق رکھنےوالے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائرکرنے سے مکر گئے۔

    سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی 2022 میں دائر کی گئی تھی، درخواست گزاروں نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کئے، کیا بغیر اجازت درخواست دائر کرنیوالوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے تو ،درخواست گزار ایم آصف کا کہنا تھا کہ آپ کی سر پرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا ہم کیوں سرپرستی کریں؟ تو ایڈووکیٹ رفاق شاہ نے کہا کہ جس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے درخواست دائر ہوئی انکا انتقال ہو چکا۔

    چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کےوکیل حیدر وحید سے چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا کہ آپ کو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں، ٹی وی پر بیٹھ کرہمیں درس دیا جاتا ہے کہ عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا، ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کون سا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہواہے، گالیاں دینا ہوں تو ہر کوئی شروع ہوجاتا ہے، کوئی سچ نہیں بولتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا کہ ہمارےذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھرپھینکےجاؤ، باہر کے ملک میں ایسا ہوتاتو ہتک عزت کیس میں جیبیں خالی ہوجاتیں۔

  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آج کا بینچ ڈی لسٹ کردیا گیا

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آج کا بینچ ڈی لسٹ کردیا گیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آج کا بینچ ڈی لسٹ کردیا گیا، وہ آج مقدمات کی سماعت نہیں کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں بینچز کی تشکیل تبدیل کردی گئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آج کا بینچ ڈی لسٹ کردیا گیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی آج مقدمات کی سماعت نہیں کر رہے ، اس حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ نے ججز کا آج کیلئےترمیم شدہ روسٹر جاری کر دیا ہے۔

    رجسٹرارسپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بینچ ون میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس محمدعلی مظہر،جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی چیمبر ورک کریں گے۔

  • ججز کے خط کا معاملہ:  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فل کورٹ بنانے کا عندیہ

    ججز کے خط کا معاملہ: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فل کورٹ بنانے کا عندیہ

    اسلام آباد : ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دے دیا اور کہا روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے اس کو نمٹائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کےججز کے خط پر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میں کسی کے دباؤ میں نہیں آتا ہوں،فیصلوں کو دیکھ کر ہرآدمی اپنی رائے دیتا ہے ، جو وکیل کہے کہ ازخود نوٹس لیا جائے اسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے، اکثر دیکھتا ہوں کہ وکیل ازخود نوٹس کے مطالبے کر رہے ہیں ، وکیلوں کے نمائندے موجود ہیں تو آجائیں سامنے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو مچھلی بازار نہیں بنانا چاہیے، پاکستان میں درجنوں بار ایسوسی ایشنز ہیں ہم سپریم کورٹ سے ہیں، ہمارا تعلق سپریم کورٹ بار سے ہوتا ہے ، بار کونسل کے لوگ بھی منتخب لوگ ہیں، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ اس کو بھی مان لیں جو آپ کا مخالف ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس میں کہا کہ میں کسی وکیل سے انفرادی طورپر ملتاہی نہیں ہوں،پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں سے بات ہوئی ہے، سماعت کا ابھی آغاز کیا ہے سب چیزوں کو دیکھیں گے۔

    اٹارنی جنرل اور پی ٹی آئی وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے، وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نے کل ایک درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ سے بہتر کون قانون جانتا ہے، آپکی درخواست ابھی ہمارے پاس نہیں آئی، جب درخواست آجائے تو انتظامی کمیٹی اس پر فیصلہ کرتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد چیف جسٹس اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔

    حامد خان نے مزید کہا کہ ہمیں بھی کیس میں سناجائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ سینئر وکیل ہیں، اب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی طےکرتی ہے، کمیٹی ناعدالت کا اختیار استعمال کر سکتی ہے نہ عدالت کمیٹی کا، چیف جسٹس

    ججز کو موصول ہونے والے خطوں پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 26تاریخ کو اسلام آبادہائیکورٹ کے ججز کا خط موصول ہوا، اسی دن افطاری کے بعد چیف جسٹس سمیت تمام ججز سے ملاقات ہوئی، اس ڈھائی گھنٹےکی ملاقات میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ بھی موجود تھے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے جوڈیشری کی آزادی کے معاملے پر زیرو ٹالرنس ہے ،ہمیں اپنا کام تو کرنے دیں ،یہ دیکھنا ہے کس رفتار سے کام ہورہاہے، سماعت کا آغاز کیسے کریں، پہلے پریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں، اب وہ زمانے گئے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی ہے، کیسز فکس کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ میرے آنے کے بعد  18دسمبر 2023کو فل کورٹ کی پہلی میٹنگ کی ، اس سے قبل 4 سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی ،کہاں تھے سارے وکیل ، ادارےکی اہمیت چیف جسٹس سے نہیں بلکہ تمام ججز سے ہوتی ہے، آزاد عدلیہ پر کوئی بھی حملہ ہوگا تو سب سے آگے میں کھڑاہوں گا، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو صدر سپریم کورٹ بار بن جائےیا چیف جسٹس ، ہم کوئی دباؤ برداشت نہیں کرتے۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل معاملے میں اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں، اس وقت وکلاکے جمہوری نمائندے وہی ہیں۔

    وزیراعظم سے ملاقات کے حوالے  سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات انتظامی نوعیت کی تھی، آفیشل انتظامی میٹنگ کا درجہ دینا چاہتے تھے، وزیراعظم سے ملاقات جوڈیشل نوعیت کی نہ تھی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ سے رجوع کیا تو آپ نے اچھا کردار ادا کیا ، اب اس معاملے کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے عدالتی فیصلہ ہائیکورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے، ہائیکورٹ ججز نے خط میں لکھا کہ بہنوئی داماد وغیرہ پر دباؤ ڈالا گیا، خط میں یہ نہیں بتایا گیا کس نے براہ راست ججز پر دباؤ ڈالا،ہائیکورٹ ججز کے پاس توہین عدالت کا اختیار ہے وہ بھی استعمال ہوسکتا تھا، آئین پاکستان ججز کو توہین عدالت کا اختیار دیتا ہے، کسی اور عدالت کی توہین عدالت کی پاور میں استعمال نہیں کرسکتا۔

    چیف جسٹس نے بتایا سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ججز پر دباؤکا خط آیا، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نہ مجھ سے مشاورت کی نہ بتایا گیا، میرے سیکرٹری نے کہا ہائیکورٹ ججز آئے ہیں تو میں نے فوری ملاقات کی، میں ایگزیکٹو نہیں مگر پھر بھی ملاقات کر کے ججز کی بات سنی ، ججز توہین عدالت کا نوٹس کریں تو وضاحت کیلئے سب کو پیش ہونا ہوتا ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ  نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے مرزا افتخار کی بات کی ، آپ نے کہا مرزا افتخار نے چیف جسٹس کو دھمکیاں دیں، کیا آپ نے یہ دیکھا کہ منطقی انجام تک پہنچا کہ نہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا بھی کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک ریفرنس دائر ہوا جس پراسوقت کےوزیراعظم نے تسلیم کیا ، اس وقت کے وزیراعظم نے تسلیم کہ غلطی تھی، اس پرکیا کارروائی ہو۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں، ہم نے اپنا احتساب کر کے دکھایا ہے۔

    سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت روسٹرم پر آئے اور کہا ہم انکوائری کمیشن کی حمایت کر رہے تھے، انکوائری کمیشن ہی بہترین طریقہ ہے ، کوئی انکوائری کمیشن سے بہتر راستہ نہیں بتا رہا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیا ججز کے خط کے معاملے پر ایگزیکٹو نامزد ہیں، کیا خط کی انکوائری بھی ایگزیکٹو کریں گے ؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے دوران سماعت کہا کہ چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس آیا تھا سابق وزیراعظم نے کہا غلطی ہوئی تھی، کیا یہ بھی عدالتی کام میں مداخلت نہیں تھی؟ اس پر حکومت نے کیا کیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے آیا تھا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ہم نے اپنا احتساب کیا حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورے کرے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے  شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کرنہیں بیٹھ سکتے، سول جج سے سپریم کورٹ تک اس معاملے پر پورا نظام بنایا ہوگا، عدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کےلئے بند کرنا ہوگا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور ریمارکس دیے سپریم کورٹ نے ضمانت دی اوراس فیصلے کو ہوا میں اڑے دیا گیا، چھہتر سال سے یہی ہورہا ہے، چھ ججوں کے خطوط بھی اسی طرز کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ، جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیے حکومت ایم پی اوکا سہارا لے کر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کررہی ہے

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالت میں نہیں بلاسکتے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا آج آئین کی کتاب کھول کر لوگوں کو بتائیں، حکومت کو نوٹس دینگے تو اٹارنی جنرل یا سیکرٹری قانون آ جائیں گے، جب سے عہدے پر آیا ہوں کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا نہ کروں گا، کسی کو بے عزت کرنا ہمارا کام نہیں، پارلیمان، صدر اور حکومت سب کی عزت کرتے ہیں بدلے میں احترام چاہتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا  عدالتی فیصلوں پرعملدرآمد میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہیں ہوئی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روک دیا اور کہا یہ بات نہ کریں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا موجودہ حکومت کی بات کر رہا ہوں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے لوگ شرط لگا رہے تھے کہ الیکشن نہیں ہونگے، الیکشن کا کیس سنا اور بارہ دن میں تاریخ کا اعلان ہوگیا، سب سے ان کا کام کرائیں گے، کسی کا کام خود نہیں کرینگے۔

    چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا تصدق جیلانی پر ذاتی حملے کیے گئے، ایسا ماحول بنایا گیا کہ کون شریف آدمی خدمت کرے گا، ان کا نام تجویز کرکے افسوس اور شرمندگی ہوئی، اگر کسی وکیل کو اعتراض تھا تو متعلقہ فورم کو لکھتا، سرکار یا چیف جسٹس کو وجوہات لکھتا، شریف آدمی پر حملے ہوں تووہ تو چلا جائے گا، وہ کہے گا آپ سنبھالیں۔

    سٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل سےمکالمے میں سخت ریمارکس دیے اور  کہا باتیں سب کرتے ہیں کام کوئی کرنا نہیں چاہتا ، آپ کی حکومت کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی توآپ بات کرتے ، سب جانتے ہیں کیا ہورہا ہے لیکن تاثر دے رہے ہیں جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا، یہاں کھڑے ہو کر کیسے بیان دے سکتے ہیں؟ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  یہ بات میرے متعلق ہے، نہیں چاہتا تاثر جائے کہ دباؤڈال رہا ہوں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا مجھے بات پوری کرنےدیں ، اٹارنی جنرل آپ نے درست کہا سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے، ججوں کا خط بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا سپریم کورٹ خودکسی مسڑ ایکس کو مداخلت کاذمہ دار قرار دے سکتی ہے؟ ہم کیسے تفتیش کریں گے کسی نہ کسی سے انکوائری کرانا ہوگی، تو صدر سپریم کورٹ بار  نے بتایا اسی لئے سپریم کورٹ بار انکوائری کمیشن کی حامی تھی،کسی اور نے کوئی متبادل راستہ بھی نہیں بتایا۔

    چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ اسلام آباد میں دستیاب  7ججز کو بینچ میں شامل کیا، کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں موجود ہیں ، عید کے بعد تمام ججز دستیاب ہوسکتے ہیں، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ بنا دیں، فل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججز کی عدم دستیابی تھی، ججز کی دستیابی دیکھ کر  29یا 30 اپریل سےروزانہ سماعت کر سکتے ہیں۔

    سپریم کورٹ نے معاونت کے لئے تحریری معروضات مانگ لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ  روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے اس کو نمٹائیں گے، بعد ازاں کیس کی سماعت ملتوی دی گئی۔

  • چیف جسٹس نے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کردی

    چیف جسٹس نے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کردی

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کی 8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 8 فروری کےعام انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں3رکنی بینچ کیس کی سماعت کی۔

    درخواست گزارمحمدعلی عدالت پیش نہ ہوئے تاہم درخواست گزارمحمد علی نے الیکشن کالعدم قرار دینے کی درخواست واپس لینے کی درخواست دے دی۔

    جس کے بعد چیف جسٹس نے درخواست پر سماعت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ درخواست سنیں گے، درخواست گزار کو لے کر آئیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ درخواست گزارنے13فروری کوہی پٹیشن واپس لینے کی درخواست دی، درخواست گزار سے دیے گئے پتہ یاواٹس ایپ پربھی رابطہ نہ ہوا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیایہ درخواست صرف پبلسٹی کےلیےفائل کرتےہیں؟ سب دنیاکودرخواست دکھا دی، میڈیا پر آگیا ہے، اب آئیے آپ کا کیس سنیں گے، اب نہ پتہ ہےدرخواست گزار نےپٹیشن فائل کی نہ پتہ ہےواپس اسی نےلی، ان کو لے کر آئیں،کیس سنیں گے۔

    چیف جسٹس نے درخواست گزار کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو نوٹس کی تعمیل کرانے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایسےسپریم کورٹ کےساتھ مذاق نہیں ہو سکتا،درخواست گزارکو کہیں سےبھی لا کر پیش کریں، یہ کیس ہم سنیں گے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلےدرخواست دائر کرتےہیں پھر غائب ہوجاتے ہیں، کیا یہ مذاق چل رہا ہے؟

    عام انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ عملے کی جانب سے درخواست گزار سے رابطہ کی کوشش کی جاری ہے ، سپریم کورٹ عملے نے درخواست گزار کے دیے گئے نمبر پر رابطہ کیا تاہ، درخواست گزار سےتاحال رابطہ نہ ہو سکا۔

  • عدلیہ پر اعتبار نہیں اور  ریلیف بھی مانگتے ہیں، چیف جسٹس اور سردارلطیف کھوسہ پھر آمنے سامنے

    عدلیہ پر اعتبار نہیں اور ریلیف بھی مانگتے ہیں، چیف جسٹس اور سردارلطیف کھوسہ پھر آمنے سامنے

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں ملازمت سے متعلق کیس چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سردار لطیف کھوسہ پھر آمنے سامنے آئے ، چیف جسٹس نے کہا ایک طرف عدلیہ پراعتبار نہیں کرتے دوسری طرف ریلیف بھی مانگتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سردار لطیف کھوسہ ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے۔

    چیف جسٹس اور لطیف کھوسہ کے درمیان مکالمہ ملازمت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ہوا، وکیل سردار لطیف کھوسہ نے بانی پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں نااہلی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا کردی۔

    جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا لطیف کھوسہ صاحب آپ باہرجاکر الزامات لگاتے ہیں، ایک طرف عدلیہ پراعتبار نہیں کرتے دوسری طرف ریلیف بھی مانگتے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جلد سماعت کی درخواست دائر کریں۔۔ قانون کے مطابق جو ریلیف ہوگا دیں گے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان نے لطیف کھوسہ سے مکالمے میں کہا تھا کہ ہمارا فیصلہ ماننا ہے نہیں ماننا تو یہ آپ کی مرضی ہے تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم اب کیا توقع کریں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی.

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ نے عدالتی فیصلہ تسلیم کرنا ہے کریں نہیں کرنا نہ کریں تو لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ نے تو پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی، تحریک انصاف کا شیرازہ ہی بکھیر دیا گیا ہے،الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے،ایک جماعت کو پارلیمان سے باہر کرکے بین کیا جا رہا ہے،پی ٹی آئی امیدوار آزاد انتخابات لڑیں گےاورکنفیوژن کاشکار ہوں گے۔

  • سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ چیف جسٹس کا وکیل علی ظفر سے سوال

    سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ چیف جسٹس کا وکیل علی ظفر سے سوال

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انتخابی نشان کیس کی سماعت وکیل علی ظفر سے سوال کیا سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا میڈیا پر اعلان کیا تھا، کوئی خط نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟ علی ظفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے،عمران خان سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی، جس پر وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے سابق سربراہ نے نہیں.

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کے وقت پارٹی چیئرمین کون تھا؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین عمران خان تھے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کسی کوانٹراپارٹی الیکشن پراعتراض ہےتووہ سول کورٹ جاسکتاہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوادیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا، بلا مقابلہ ہے تو قانونی ہی لیکن عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے، یعنی پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ کھیلے بغیر سرٹیفکیٹ آگیا کہ پاکستان جیت گیا، ہم پوری جمہوریت پر چلیں گے بہت ہو گیالولی لنگڑی والا کام۔

    وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ اکبر ایس بابرپارٹی ممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا گیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں دکھائیں ریکارڈ سے وہ ممبر نہیں، وکیل نے کہا میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں، میرا بیان یہ ہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں،مجھے ہدایات یہی ملی ہیں کہ اکبرایس بابر ممبر نہیں۔

    جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ علی ظفر نے بتایا کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جنہوں نے خود 2 سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہدایات دے رہے ہیں؟

    دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ آپ کامطلب ہےالیکشن کمیشن کو حق نہیں کہ دیکھےالیکشن مروجہ طریقہ کارسےہوئے یا نہیں؟ تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ یہ تشریح نہیں نکلتی کہ 2لاکھ دیکرکبھی انٹراپارٹی الیکشن نہیں کرائیں۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کئے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذات نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانے ہیں؟

    دوران سماعت چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر کاغذات نامزدگی چیک کرنے کا کہہ دیا اور کہا جس کے پاس لیپ ٹاپ ہے وہ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کھولیں، علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ اور رابطہ ایپ پر تمام ممبرز کی تفصیل موجود ہے تو چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ جب الیکشن ہو گیا تو کاغذات نامزدگی ہٹا دئیے گئے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں ہمارے تو انتخابات نہیں ہوتے، ہماری ویب سائٹ پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں تو موجود ہو گا۔

    چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس یا کاغذات نامزدگی کا، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا فیس کیش میں وصول کی گئی تو چیف جسٹس نے سوال کیا کونسی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے؟

    جسٹس مسرت ہلال نے ریمارکس دیئے 50ہزار کی رسید دیں،آپ دوسروں سے بھی رسیدیں مانگنے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے بڑےعہدوں پرسب پارٹی سربراہ ہوتےہیں،ان کےخلاف الیکشن کی کوئی ہمت نہیں کرتا، پارٹی کے چھوٹے عہدوں پرتوکم سےکم جنگ ہوتی ہے، صرف کہنے سے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوجاتی، آمریت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے، کسی بڑے کی ناجائز بات سنی جائے تو باہر سے جمہوریت اندر آمریت ہونے لگتی ہے، انگلینڈ میں اگر انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر وزیراعظم تبدیل ہوتا تو کوئی نہ مانتا۔

    چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کے کاغذات نامزدگی دکھا دیں، سب کچھ چھوڑیں صرف یہ بتا دیں کہ الیکشن ہوا یا نہیں،پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر کوئی کاغذات نامزدگی نہیں ہے، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ انٹراپارٹی انتخابات کے بعد ویب سائٹ سے کاغذات نامزدگی ہٹا دیے گئے، کاغذات نامزدگی چاروں صوبائی دفاتر میں دستیاب تھے۔

    وکیل پی ٹی آئی نے مزید بتایا کہ تمام پارٹی ارکان کو معلوم تھا کہ فارم کہاں سے ملے گا اور جمع کہاں ہوگا،کاغذات نامزدگی جمع کرانے کیلئے 3 دن کا وقت دیا گیا تھا، کاغذات نامزدگی کیساتھ 50 ہزار روپے فیس بھی تھی،جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا 50ہزار کس بینک میں گئے وہ دکھا دیں، علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی فیس کیش کی صورت میں لی گئی تھی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سیاسی جماعت کیش کیسے لے سکتی ہے؟ پیسے کہاں گئے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اگرکسی عام انتخابات میں 326ارکان قومی اسمبلی بلامقابلہ منتخب ہوجائیں تومیں تونہیں مانوں گا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن میں چھوٹی سی چھوٹی نشست پربھی بلامقابلہ انتخاب ہوا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن قابل اعتبارنظرنہیں آرہے ، آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے، لیکن نظر نہیں آ رہا،جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کیا آپ نے اپنے لوگوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی، بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کیلئے 20 دن کا وقت دیا گیا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکیل پی ٹی آئی سے کہنا تھا کہ ساڑھے 3 سال پہلے کی بات ہے الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ الیکشن کرائیں ، آپ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ کورونا ہے ایک سال کا ٹائم دیا گیا، الیکشن کمیشن نے تو بہادری دیکھائی کہ حکومت میں ہی نوٹس دیا،تو بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صرف ہمیں نہیں الیکشن کمیشن نے سب کو نوٹس بھیجا۔

    دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جو شیڈول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا،اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے،الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کسی اور پارٹی کے انتخابات پر اعتراض نہیں آیا۔

    وکیل پی ٹی آئی علی ظفر کا کہنا تھا کہ پارٹی الیکشن شیڈول پر اعتراض کا جواب دوں گا، چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے تو علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کی پارٹی کا نعرہ ہی لوگوں کو جرأت اور اختیار دینا ہے، پی ٹی آئی کے اپنے انتخابات میں ہی اتنی بے ضابطگی ہوئی ہے۔

    چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کب پارٹی میں آئے، علی ظفر نے بتایا کہ میں نےتقریباً2سال قبل ہی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی ہے، چیف جسٹس نے مزید پوچھا مسٹرگوہرنےکب پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکی،پہلےکس جماعت میں تھے؟ تو وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہبیرسٹرگوہرایک زمانےمیں پیپلزپارٹی میں تھے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید پوچھا تواکبرایس بابرنےکوئی اورجماعت میں شمولیت اختیارکی توبتادیں؟ تو وکیل نے بتایا کہ 2018 میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر اکبرایس بابرکونکال دیاگیاتھا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اکبرایس بابرکوپارٹی سےنکالاہےتووہ ٹرمینیشن لیٹر دکھا دیں،آپ کاکیس مضبوط ہوجائےگا،اگرواضح جواب نہیں دیں گےتومیں سمجھوں گااکبرایس بابراوردیگر13افرادپارٹی ممبران ہیں، ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ مطلوبہ دستاویز نہ دے سکوں توآپ فرض کرلیں کہ وہ افراد ممبران ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات کالعدم قرارنہیں دے سکتا، علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات میں ٹریبونل کا کردار ادا نہیں کر سکتا،پارلیمان نے انٹراپارٹی انتخابات کا جائزہ لینے کا اختیار دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتی، قانون کے مطابق انٹرپارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دینا لازمی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی بات سرٹیفکیٹ نہیں الیکشن ہونا ہیں، سرٹیفکیٹ نہ ہونا مسئلہ نہیں الیکشن نہ ہونا مسئلہ ہے،پی ٹی آئی پارٹی انتخابات سے گھبرا کیوں رہی ہے؟ ہمیں کوئی دستاویزات دکھا دیں کہ انتخابات ہوئے ہیں، سرٹیفکیٹ تو الیکشن کے بغیر بھی آ سکتا ہے، 50ہزار کے حساب سے فیس کہاں جمع ہوئی یہ بھی دکھا دیں، اگر پی ٹی آئی کو زیادہ وقت چاہیے تو پہلے کہا تھا کہ فیصلہ معطل کرنا پڑے گا،عدالت کو جو تشویش ہے پہلے اسے دور کریں،پھر گلہ نہ کیجئے گا کہ فیصلہ کیوں معطل کیا۔

    دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اکبرایس بابر کہتے ہیں وہ فارم اور معلومات لینے گئے، علی ظفر نے بتایا کہ اکبرایس بابر اگر فارم لینا چاہتے تو ضرور لیکر جاتے، کبرایس بابر نہ انتخابات کیلئے اہل ہیں نہ ہی انہوں نے فیس ادا کی، کبر بابر اگر ممبر ہیں تو رکنیت کارڈ دکھا دیں، 20نومبر کو انٹراپارٹی انتخابات کا اعلان ہوا جو میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا، سابق چیئرمین نے کس کو چیئرمین نامزد کیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ تو وکیل نے بتایا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے میڈیا پر اعلان کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟ کل عمران خان کہ دیں میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا۔

    چیف جسٹس نے مکالمے میں مزید کہا کہ وہ خط دکھائیں جس کے تحت سابق چیئرمین نے گوہر علی خان کو چیئرمین نامزد کیا، تو بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ وہ خط میڈیا میں آیا تھا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا اس طرح تو ہم نہیں مان سکتے،کاغذ پر تو کچھ تو دکھا دیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا نیاز اللہ نیازی کب پی ٹی آئی کا حصہ بنے؟ علی ظفر نے بتایا کہ نیاز اللہ نیازی 2009 سے پی ٹی آئی کے رکن ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اچانک نئے نئے چہرے سامنے آنے سے ایلیٹ کیپچر کا تاثر مل رہا ہے تو وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق کوئی اکیلا شخص الیکشن نہیں لڑسکتا پینل بنانا ضروری ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ جمہوریت کیخلاف نہیں ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہونا تو ایسے ہی چاہیے لیکن پارٹی آئین میں یہی لکھا ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی تو کاغذ دکھا دیں، جسٹس مسرت ہلالی نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمے میں کہا لگتاہےآپ کی پارٹی دستاویزات کےمعاملےمیں تھوڑی کمزورہے۔