Tag: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

  • آپ کہتے ہیں اسٹیبشلمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، چیف جسٹس کا وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ

    آپ کہتے ہیں اسٹیبشلمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، چیف جسٹس کا وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتےہیں اسٹیبشلمنٹ کاالیکشن کمیشن پردباؤہےتواسکوثابت کریں، جب بدنیتی کاالزام لگاتے ہیں توبتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتےہیں اسٹیبشلمنٹ کاالیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اصل نام فوج ہے، اسٹیبشلمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالے گی؟

    چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت آئینی اداروں کوکنٹرول تو نہیں کرسکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں توبتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے، یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی اورجماعت میں کوئی ایک کاغذا کا ٹکڑا پیش کر دے اور دوسرا کوئی اور تو فیصلہ کون کرے گا؟ تو وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ اس کافیصلہ سول کورٹ کرےگی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سول کورٹ اس کا فیصلہ کیوں کرے گی۔

    وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کیوں کہ پارٹی ممبران کاآپس میں تنازع ہوگا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سول کورٹ کہےیہ میرا نہیں الیکشن کمیشن کا کام ہے، علی ظفر نے کہا کہ اِس معاملے میں الیکشن کمیشن کادائرہ کار نہیں ہوگا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہاں سے یہ بات کررہے ہیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا میں آپ کوقانون پڑھ کرسناتاہوں، الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے تو جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔

    چیف جسٹس کے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ یا آپ تسلیم کر لیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟یا تو کہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، آپ کو سیاست چاہئے جمہوریت نہیں چاہئے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے، ہمارےسامنےانتخابی نشان کیس نہیں پشاورہائیکورٹ فیصلہ دیکھ رہےہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےانتخابی نشان واپس نہیں لیا، الیکشن کمیشن کاپہلےخط پڑھیں،انہوں نے کہا انٹراپارٹی الیکشن کرائیں، الیکشن کمیشن نے دھمکی بھی دی انٹرپارٹی الیکشن نہیں کرائیں گےتونشان لے لیں گے۔

    جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سوال یہ ہےکیا الیکشن نہ کر انےپرکیاالیکشن کمیشن پارٹی نشان واپس لےسکتاہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ لوگوں نےالیکشن کمیشن کےخط کوقبول کیاہے، انٹراپارٹی الیکشن ہوگئے توانتخابی نشان خودبخودمل جائےگا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آپ کی حکومت تھی جب الیکشن کمیشن نےخط لکھاتھا، پی ٹی آئی نےاس وقت انٹرپارٹی الیکشن نہیں کرائے، پی ٹی آئی نےکوروناکی وجہ سےایک سال کی مہلت مانگی ،یہ نہیں کہاالیکشن کمیشن کون ہےنشان واپس لینے والا، الیکشن کمیشن نے بتایا 13جماعتوں کوانٹراپارٹی الیکشن نہ کرانےپرڈی لسٹ کرچکےہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے یا تو کہہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے مانے نہیں۔

    چیف جسٹس نےوکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ 14درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا ، وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو سیاست چاہئے جمہوریت نہیں چاہئے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوادیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا، بلا مقابلہ ہے تو قانونی ہی لیکن عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے، یعنی پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ کھیلے بغیر سرٹیفکیٹ آگیا کہ پاکستان جیت گیا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہونگے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں اور استفسار کیا کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دیدے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟

    وکیل علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ،انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتاہے،جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی اسٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔

  • ملک کو تباہ کرنے والا 5 سال بعد اہل اور  معمولی غلطی پر تاحیات نااہل؟چیف جسٹس نے سوال اٹھادیا

    ملک کو تباہ کرنے والا 5 سال بعد اہل اور معمولی غلطی پر تاحیات نااہل؟چیف جسٹس نے سوال اٹھادیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی کیس میں سوال اٹھایا کہ پورے ملک کو تباہ کرنے والا پانچ سال بعداہل ہوجاتاہے اور معمولی غلطی ہوجائے تو تاحیات نااہل۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل62ون ایف کےتحت تاحیات نااہلی کیس کی سماعت شروع ہوگئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں7رکنی لارجربینچ سماعت کررہا ہے۔

    بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمدعلی مظہر،جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن سے متعلق تمام کیسز آئندہ ہفتے ریگولربینچ میں مقرر ہوں گے، اس کیس میں انفرادی لوگوں کے مقدمات نہیں سنیں گے، انفرادی لوگوں کے الیکشن معاملات آئندہ ہفتےسنیں گے، ہو سکتاہےتب تک ہمارااس کیس میں آرڈربھی آچکا ہو۔

    جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کےسامنےبنیادی سوال اسی عدالت کے سابقہ فیصلے کا ہے، اس عدالت نے پبلک نوٹس جاری کیااس پرآیاہوں، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کاڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟

    مخدوم علی خان نے بتایا کہ جی،ڈکلیریشن سول کورٹ سےآئےگا، سول کورٹ فیصلےپرکسی کاکوئی بنیادی آئینی حق تاعمرختم نہیں ہوتا، کامن لاسےایسی کوئی مثال مجھےنہیں ملی، کسی کایوٹیلٹی بل بقایاہوجب اداہوجائےتووہ اہل ہوجاتاہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سول کورٹ نااہلی کی ڈکلیریشن دےسکتی ہے؟ تو مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ سول کورٹ ایساڈکلیریشن نہیں دےسکتا، کونسی سول کورٹ ہےجو کسی کوواجبات باقی ہونےپرکہہ دے یہ صادق وامین نہیں۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیاقانون سازی سے ڈکلیریشن پر نااہلی کی مدت متعین کی جا سکتی ہے؟ جہانگیر ترین کے وکیل نے بتایا کہ آئین میں کورٹ آف لاکی بات ہے جس میں سول اور کرمنل دونوں عدالتیں آتی ہیں، کل جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا آرٹیکل 62 اور63 الگ الگ رکھنے کی وجہ کیا تھی، اہلیت اور نااہلی کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔

    جسٹس میاں محمدعلی نے استفسار کیا آرٹیکل62 کا اطلاق الیکشن سےپہلےہی ہوتا ہےیابعدمیں بھی ہو سکتاہے؟

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم خودکوآئین کی صرف ایک مخصوص جزتک محدودکیوں کررہےہیں، ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظر اندازکیوں کر رہےہیں، آئین پر جنرل ایوب سے لیکر تجاوز کیاگیا، مخصوص نئی جزئیات داخل کرنےسےکیاباقی حقوق لےلیےگئے؟ ہم پاکستان کی تاریخ کو بھول نہیں سکتے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ پورے ملک کو تباہ کرنے والا 5سال بعداہل ہوجاتاہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہو جائےتوتاحیات نااہل؟ صرف ایک جنرل نے یہ شق ڈال دی توہم سب پابندہوگئے؟ خودکومحدودنہ کریں بطورآئینی ماہرہمیں وسیع تناظرمیں سمجھائیں۔

    مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایک دوسرے سے الگ نہیں پڑھا جاسکتا، دونوں آرٹیکلز کو بنیادی حقوق والے آرٹیکل 17 سے الگ بھی نہیں پڑھا جا سکتا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کہا گیا کہ سادہ قانون سازی سے آئین میں دی چیز نہیں بدلی جا سکتی، ہم مگر آئینی ترمیم کو بھی کالعدم کر دیتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا پاکستانی ارکان پارلیمنٹ دنیا میں سب سے بہترین ہیں؟ تو مخدوم علی خان نے جواب میں کہا کہ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ تو پھر ہم نے اپنے ارکان کی اہلیت کا جو پیمانہ رکھا دنیا میں کہیں اور ہے؟ تو وکیل نے کہا کہمیرے علم میں نہیں کہ دنیا میں کہیں ایسا ہو۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے میں آئین کو 18ویں ترمیم کے بعد سے دیکھ رہا ہوں،ہمیں تشریح کیلئے آئین میں دیے ٹولز پر ہی انحصار کرنا ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ آئین نے نہیں کہا تھا نااہلی تاحیات ہے یہ ہم نے کہا، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، ہم نےکیس میں پبلک نوٹس جاری کیا مگر کوئی ایک جماعت بھی فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے۔

    وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا 2 سال ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئی فراڈ کرتا ہے تو اس کا مخالف ایف آئی آر درج کرتا ہے، کیا سزا تاحیات ہوتی ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس میں مزید کہا کہ جب آئین نے خود طے کیا نااہلی اتنی ہے تو ٹھیک ہے، نیب قانون میں بھی سزا 10 سال کرائی گئی، آئین وکلا کیلئے نہیں عوام پاکستان کیلئے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دیں، ۔فلسفیانہ باتوں کی بجائے آسان بات کریں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ یہاں نااہلی کی مدت تاحیات کیسے ہوئی،الیکشن کاغذات میں یہ بھی پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنے گرام سونا ہے، آپ گھر جا کر سونا تولیں گے پھر بتائیں گے، آپ اگر وہ انگوٹھی بھول گئے جو بیوی نے پہن رکھی ہے تو تاحیات نااہل ؟ آپ لائیو ٹی وی پر ہیں عوام کیلئے اس کی منطق تو واضح کریں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے بھی سوال کیا کہ نااہلی مدت 5 سال طے کرنے کا معاملہ عدالت میں آیا، کیا ہم سیکشن 232(3)کو ریڈڈاؤن کرسکتے ہیں، کیاعدالت کہہ سکتی ہےپارلیمنٹ سیکشن 232 تین کوایسےطے کرےکہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی توسزا 5 سال ؟

    جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ 185 کے تحت اپیلیں سن رہا ہے، سیکشن232 تین کو اگلا پارلیمنٹ ختم کر سکتا ہے،عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں،سمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قرار دیا گیا تو قانون کا اطلاق ہوگا۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سیکشن 232 دو کوکیسے کالعدم قرار دیں وہ تو سامنےہےہی نہیں تو وکیل نے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا، جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے میرے خیال میں فیصلے میں تاحیات کا ذکر نہیں ہے، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ فیصلے میں کہا گیا جب تک ڈکلیئریشن رہےگی نااہلی رہے گی۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ عدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کردےتوکیامسئلہ حل ہوجائےگا؟ وکیل نے بتایا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈیکلریشن کاعدالت دوبارہ کیسےجائزہ لےسکتی ہے؟ جومقدمات قانونی چارہ جوئی کےبعدحتمی ہوچکےانہیں دوبارہ نہیں کھولاجاسکتا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے پارلیمنٹ کہہ چکا ہے نا اہلی 5سال ہو گی ، کیاسمیع اللہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس گیاتھا؟ ریکارڈ منگوا لیں ، جسٹس منصور علی شاہ استفسار کیا کہ ڈیکلریشن حتمی ہوچکاہےتو الیکشن پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ دو عدالتی معاون کےمطابق سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو بے اثر کر دیا گیا۔

    جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، یہاں پر سیکشن232تین چیلنج ہی نہیں، تاحیات نااہلی کافیصلہ برقراررہاتو5سال نااہلی کاقانون کالعدم ہوسکتاہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاتاحیات نااہلی کےفیصلےکیلئےاٹارنی جنرل کومعاونت کانوٹس گیا تھا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ریکارڈ کے مطابق اٹارنی جنرل کی حاضری لگی ہوئی ہے، تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ حاضری ہونااورمعاونت کیلئے باضابطہ نوٹس ہوناالگ چیزہے، وکیل نے کہا کہ نااہلی کا حتمی ڈیکلریشن موجودہوتوکوئی ٹربیونل یاسول عدالت ختم نہیں کرسکتی۔

  • الیکشن لڑنے کے لیے جو اہلیت بیان کی گئی قائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوجاتے، چیف جسٹس

    الیکشن لڑنے کے لیے جو اہلیت بیان کی گئی قائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوجاتے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاحیات نااہلی سےمتعلق کیس ریمارکس دیئے کہ الیکشن کیلئے جو اہلیت بیان کی گئی قائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوجاتے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجربینچ سماعت کی۔

    لارجربینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمدعلی مظہر ،جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے الیکشن کیلئے جو اہلیت بیان کی گئی قائداعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوجاتے، صادق اور امین کے الفاظ کوئی مسلمان اپنے لئے بولنے کا تصور نہیں کرسکتا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں کاغذات نامزدگی جمع کراؤں اور کوئی کہے یہ اچھے کردار کے نہیں تو میں چیلنج نہیں کروں گا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اچھے کردار کے بارےمیں کیا وہ ججز فیصلہ کریں گےجوخود انسان ہیں؟ اصل آئین میں یہ شقیں موجودنہیں توکس نے ڈالیں۔

    جس پر وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ شقیں انیس سوپچاسی میں صدارتی آرڈیننس کےذریعے ڈالی گئیں، اٹھارہویں ترمیم میں بھی ان کونہیں چھیڑا گیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ کامطلب ہے یہ شقیں ضیانےڈالیں، عجیب بات ہے حلف لینےوالاشخص آئین توڑےتو وہ اعلیٰ کردار کا مالک کیسے ہوسکتا ہے، میں منتخب نمائندوں کی قانون سازی پر انحصار کروں گا نا کہ ڈکٹیٹر کی۔

    اس سے قبل اٹارنی جنرل اورایڈووکیٹ جنرلزنے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کےمطابق پانچ سال نااہلی کی تائید کی، تحریری حکم نامہ میں کہاگیا کہ عدالت اس معاملے پر معاونین مقرر کرے گی ، جس کے بعد سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔

  • چیف جسٹس نے اپنے متعدد انتظامی اختیارات رجسٹرار کو تقویض کردیے

    چیف جسٹس نے اپنے متعدد انتظامی اختیارات رجسٹرار کو تقویض کردیے

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے متعدد انتظامی اختیارات رجسٹرار کو تقویض کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے متعدد انتظامی اختیارات رجسٹرار کو تقویض کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا جس کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے متعلق معاملات میں مکمل با اختیار ہونگی۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے متعلقہ امور پر رجسٹرار کا فیصلہ فل کورٹ یا چیف جسٹس کی منظوری سے مشروط ہوگا، آڈٹ اور محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی سے متعلقہ امور بھی رجسٹرار چیف جسٹس کی منظوری سے انجام دینگی۔

    اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے سالانہ بجٹ پلان کو بھی رجسٹرار چیف جسٹس کی منظوری سے حتمی شکل دینگی۔

  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیا

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات مستعدی سے چلانے کیلئے افسران کا واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے معاملات کو مستعدی کے ساتھ چلانے کے لئے نئے چیف جسٹس متحرک ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے انتظامی افسران کا واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیا ہے ، واٹس ایپ گروپ میں سپریم کورٹ رجسٹرار جزیلہ سلیم شامل ہیں۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ گروپ میں سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرارز،ڈپٹی رجسٹرارز کو شامل کیا گیا ہے ، واٹس ایپ گروپ سپریم کورٹ انتظامی معاملات مستعدی سےچلانے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔

    دوسری جانب چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کل اہم اجلاس طلب کرلیا ہے ، ذرائع نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نےپاکستان باراورسپریم کورٹ بارممبران کودعوت دے دی ہے ، اجلاس میں فراہمی انصاف کو بہتر کرنے کے معاملہ پر وکلا تنظیموں کی تجاویز لی جائے گی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ وکلا تنظیمیں بینچز تشکیل اور مقدمات سماعت کیلئے مقرر کرنے کے معاملے پر تجاویز دیں گے اور وکلا فوری نوعیت کے مقدمات کو جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے پر تجاویز پیش کریں گے۔

  • تقریب حلف برداری ، سوشل میڈیا پر نئے چیف جسٹس کے چرچے

    تقریب حلف برداری ، سوشل میڈیا پر نئے چیف جسٹس کے چرچے

    اسلام آباد : سوشل میڈیا پر نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تقریب حلف برداری کے چرچے ہورہے ہیں ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تقریب میں اسٹیج پر اہلیہ سرینا عیسی کو کھڑا کر کے حلف لے کرنئی روایت ڈالی۔

    تفصیلات کے مطابق نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایوان صدر میں ہونے والی تقریب حلف برداری کے دوران اپنی اہلیہ سرینا عیسی کو ساتھ کھڑا کر کے عہدے کا حلف اٹھانے کر نیا ٹرینڈ سیٹ کردیا۔

    قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسی نے اپنے شوہر کے ساتھ ان کے خلاف دائر ریفرنس کاسامنا کیا، عدالت میں پیشیاں بھگتیں اورڈٹ کر اپنےموقف کادفاع کیا۔

    سوشل میڈیا صارفین نے چیف جسٹس کے اقدام کو خوب سراہا، کسی صارف نے چیف جسٹس اور انکی اہلیہ کی اسٹیج پرموجودگی کو خوبصورت منظر قرار دیا تو کسی نے اسے نئے دور کا آغاز کہا۔

    ایک صارف نے کہا سرینا عیسی کا اسٹیج پر موجود ہونا تاریخ کا “شارٹ اور سویٹ”انتقام تھا۔

    ایک صارف نے چیف جسٹس کی تعریف کرتےہوئے لکھا کہ آج پیغام گیا خواتین ہماری برابر کی ساتھی ہیں اور ان کی حیثیت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

    ایک اور صارف نے چیف جسٹس کی کامیابی کا کریڈٹ ان کی اہلیہ کے مرہون منت قرار دیا۔