Tag: چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ

  • لگتا ہے جج ارشد ملک کی ویڈیوجعلی ہے، چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ

    لگتا ہے جج ارشد ملک کی ویڈیوجعلی ہے، چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ

    مانچسٹر: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار شمیم خان کا کہنا ہے کہ ویڈیوصحیح ہے یا غلط اس کی انکوائری ہونی چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق مانچسٹر میں چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس سردارشمیم خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے جج ارشد ملک کی ویڈیو جعلی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ویڈیو صحیح ہے یا غلط اس کی انکوائری ہونی چاہیے، اگروہ تسلیم کرلیتے تو اور بات تھی ہم ایکشن لیتے۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار شمیم خان نے مزید کہا کہ وائس ایکسپرٹ دیکھے گا یہ آواز ان کی ہے یا نہیں۔

    جج ارشد ملک نے مریم نواز کے الزامات کو بے بنیاد اورجھوٹا قراردے دیا

    یاد رہے کہ گزشتہ روز احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے پریس ریلیز کے ذریعے اپنے خلاف سامنے آنے والی مبینہ ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ میری ذات اورخاندان کی ساکھ متاثرکرنے کی سازش کی گئی۔

    احتساب عدالت کے معزز جج ارشد ملک نے مریم نوازکی پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ویڈیو کو حقائق کے برعکس قرار دیا تھا۔

    معزز جج کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ نوازشریف اور ان کے خلاف کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران ان کے نمائندوں سے بارہا نہ صرف رشوت کی پیش کش کی گئی بلکہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں جنہیں سختی سے رد کرتے ہوئے حق پر قائم رہنے کا عزم کیا۔

  • چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

    لاہور : لاہورہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کاحکم دے دیا اور ہدایت کی متعلقہ سیشن جج جوڈیشل مجسٹریٹ سے معاملے کی انکوائری کرائیں اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ 30دن میں پیش کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال کے حوالے سے کیس کی سماعت کی،جےآئی ٹی کے سربراہ اعجازشاہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مقتولین کے ورثا اور وکلا بھی موجود ہیں۔

    سماعت میں جےآئی ٹی کی جانب سےپیشرفت رپورٹ پیش کردی، سرکاری وکیل نے کہا جےآئی ٹی نے7عینی شاہدین کےبیانات ریکارڈکیے، جس پر عدالت کا کہنا تھا ہم نےگواہوں کےبیانات ریکارڈکرنےکی فہرست دی تھی، کیاجےآئی ٹی نےان افرادکےبیانات ریکارڈکیے۔

    چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے استفسار کیا اعجازشاہ صاحب بتائیں آپ کیاکررہےہیں، جسٹس صداقت علی کا کہنا تھا آپ کی تمام کارروائی لکھی پڑھی ہوتی ہےوہ بتائیں، آپ جس طرح کام کررہےہیں اس پرافسوس ہے۔

    چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے استفسار کیا کیاعدالتی احکامات پراس طرح عمل کیاجاتاہے، آپ نےعینی شاہدین کے بیانات ریکارڈنہیں کیے، یہ بتائیں ایساکس قانون کےتحت کیاگیا۔

    [bs-quote quote=”چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا جے آئی ٹی سربراہ اعجاز شاہ پراظہار برہمی” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    مقتول ذیشان کے بھائی احتشام کے وکیل نے کہا لوگوں نے سوشل میڈیا پر فوٹیجز اپ لوڈ کیں کہ بیانات ریکارڈ نہیں ہوئے، عدالت کے حکم پر عینی شاہدین کے بیان ریکارڈ کیےگئے۔

    لاہورہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کاحکم دیتے ہوئے کہا متعلقہ سیشن جج جوڈیشل مجسٹریٹ سے ساہیوال معاملے کی انکوائری کرائیں اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ 30 دن میں پیش کی جائے۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نےتفتیش کے متعلق تسلی بخش جواب نہ دینے پر اعجاز شاہ پراظہار برہمی کرتے   کہا کیوں نا آپ کودرست کام نہ کرنے پر نوٹس جاری کیا جائے۔

    بعد ازاں لاہورہائی کورٹ نےسانحہ ساہیوال کیس کی سماعت28 فروری تک ملتوی کردی۔ْ

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے مقتولین کے ورثاء کو سیشن جج سے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کروانے کی بھی پیشکش کی تھی جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ کو رپورٹ سمیت پیش ہونے اور حکومت  کو جوڈیشل کمیشن سےمتعلق ایک ہفتےمیں آگاہ  کرنے کا حکم دیا تھا۔

    اس سے قبل 4 فروری کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی اور آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ بھی طلب کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے، معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    لاہور :  لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش  کردی جبکہ  حکومت  کو جوڈیشل کمیشن سےمتعلق ایک ہفتےمیں آگاہ  کرنے  اور عینی شاہدین کوطلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنےکا بھی حکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال پرجوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پرسماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے کہا حکومت چاہے توسیشن جج سےانکوائری کراسکتےہیں۔

    عدالت نے عینی شاہدین کو طلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنے اور ایک ہفتے میں حکومت کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق آگاہ کرنے کا بھی حکم دیا۔

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ سانحہ ساہیوال کےتمام ملزمان جسمانی ریمانڈپرہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا وقوعہ کی تاریخ بتائیں، یہ ہوا میں لکھتے ہیں سب کچھ ہورہاہے لیکن کاغذمیں کچھ نہیں ہوتا، جس پر سرکاری وکیل نے کہا اے ایس آئی محمد عباس کابیان ریکارڈ کیا۔

    حکومت چاہےتوسیشن جج سےانکوائری کراسکتےہیں، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

    چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل سے استفسار کیا آپ کاکوئی گواہ موجودہے؟ جس پر وکیل جلیل نے بتایا عمیرخلیل ہمارااہم گواہ ہے، ابھی اس کابیان جمع کرارہے ہیں، تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا آج ہی عمیر کا بیان ریکارڈ کرائیں۔

    وفاق کے وکیل نے کہا وزیراعظم نے پنجاب حکومت سے سانحے پر رپورٹ مانگی ہے، اے اے جی نے بتایا متاثرہ فریقین نے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے استدعا نہیں کی، جس پر عدالت نے کہا یہ بتائیں ضروری ہے کوئی متاثرہ فریق ہی درخواست دے؟

    اے اے جی نے کہا ضروری نہیں جوڈیشل کمیشن کیلئے متاثرہ فریق درخواست دے، جس پر چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا کہنا تھا موقع کے جو بھی گواہ ہیں جے آئی ٹی کو دیں، سرکاری وکیل نے بتایا جے آئی ٹی جائے وقوعہ کا با ربار دورہ کررہی ہے۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کن کے بیانات ریکارڈ کئےگئے ہیں؟ چشم دیدگواہان کے بیانات سے متعلق بتائیں، تو سرکاری وکیل کا کہنا تھا ابھی تک چشم دیدگواہ کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس نے خلیل کے وکیل سےاستفسار کیا عینی شاہدین کے نام دیں، آپ ان پر بھروسہ کریں گے تو کیس خراب ہوجائے گا، جس پر سرکاری وکیل نے کہا سی سی ٹی وی فوٹیج اورخول لیب بھجوادیئےہیں۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل سے مکالمے میں کہا آپ کہیں تو جوڈیشل انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کوآپ کیس کا حصہ نہیں بناسکیں گے، مجسٹریٹ سے جوڈیشل انکوائری کی جائے تو وہ کیس کاحصہ بن سکےگا۔

    جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور بیانات ریکارڈ کرے

    جلیل کے وکیل نےجوڈیشل انکوائری کیلئےمہلت دینےکی استدعاکردی جبکہ ذیشان کے وکیل نے موقع کےگواہ 3افراد کی فہرست پیش کی ، جس پر عدالت نے حکم دیا جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور بیانات ریکارڈ کرے۔

    یاد رہے4 فروری کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی، عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے، معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

  • چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا معمولی جرائم کے مقدمات 3ماہ میں نمٹانے کا حکم

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا معمولی جرائم کے مقدمات 3ماہ میں نمٹانے کا حکم

    لاہور : چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے معمولی جرائم کے مقدمات 3ماہ میں نمٹانے کا حکم دیتے ہوئے ہر ہفتے کی رپورٹس سیشن ججز کو بھیجنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے 31 دسمبرتک دائر تمام معمولی جرائم کے مقدمات 30 اپریل تک نمٹانے کا حکم دے دیا اور ہر ہفتے متعلقہ مجسٹریٹس کی کارکردگی کی رپورٹس سیشن ججز کو بھیجنے کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کہا پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں معمولی جرائم کے تحت7 ہزار 475 مقدمات زیر التواہیں۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے جہلم، راجن پور اور شیخوپورہ کی عدالتوں کی کارکردگی کوسراہتے ہوئے بتایا ان عدالتوں میں 10 ستمبرتک دائرمعمولی جرائم کےمقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں۔

    یاد رہے یکم جنوری کو لاہور ہائی کورٹ محمد انوار الحق کے ریٹائر ہونے کے بعد نئے چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ان سے حلف لیا تھا۔

    چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور لاہور ہائی کورٹ کے ججزسمیت دیگر نے شرکت کی تھی۔

    جسٹس سردار شمیم خان 31 دسمبر 2019 تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہیں گے۔

  • چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے پنجاب کے 213 جج تبدیل کردیے

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے پنجاب کے 213 جج تبدیل کردیے

    لاہور : چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ محمد یاور علی نے پنجاب کے 213 جج تبدیل کردیے، تبدیل ہونے والوں میں11 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ محمد یاور علی نے پنجاب کے 213 جج تبدیل کردیے، جس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے، تبدیل ہونے والوں میں11 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شامل ہیں۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق راولپنڈی، لودھراں، سیالکوٹ ،ننکانہ صاحب ،نارووال کے ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج جبکہ مظفر گڑھ ،سرگودھا،چنیوٹ ،اوکاڑہ اور لاہور کے 2 جج بھی تبدیل ہونے والوں میں شامل ہیں۔

    تبدیل ہونے والوں میں 91 ایڈیشنل سیشن جج اور خان پور ،فیصل آباد ،ملتان کے جج بھی شامل ہیں۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق احمد پورشرقیہ،ڈی جی خان کےایڈیشنل سیشن جج بھی تبدیل ہونے والوں میں شامل ہیں جبکہ 13 سینئر سول جج تبدیل کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔

    جاری نوٹیفکیشن کے مطابق تبدیل ہونے والوں میں رحیم یار خان ،ملتان ،ساہیوال ،خان پور،راجن پور، جتوئی،مظفرگڑھ،ڈی جی خان،لیہ اور روجھان کے جج شامل ہیں جبکہ 98 سول جج کم جوڈیشل مجسٹریٹ کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔