Tag: چیف جسٹس پاکستان

  • چیف جسٹس عمر عطا بندیال آج ریٹائرڈ ہوں گے، اپنی آئینی مدت کون کون سے اہم فیصلے دیئے؟

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال آج ریٹائرڈ ہوں گے، اپنی آئینی مدت کون کون سے اہم فیصلے دیئے؟

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال آج ریٹائرڈ ہورہے ہیں ، ان کی آئینی مدت میں کئے گئے فیصلوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال ایک سال اور سات ماہ اپنی آئینی مدت مکمل ہونے پر آج ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔

    اس عرصے میں انہوں کئی اہم فیصلے دیئے ،جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ دوہزا تئیس ، آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیس سمیت دیگر کئی اہم مقدمات شامل ہیں۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دو فروری دو ہزار بائیس کو چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا اور انیس ماہ کے دوران کئی اہم حکم نامے جاری کیے۔

    چیف جسٹس نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے تریسٹھ اے کے صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیا ، سات اپریل دوہزار بائیس کو ڈپٹی ا سپیکر قاسم سوری کیس میں پارلیمنٹ بجال کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے نے پنجاب کے ڈپٹی ا سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دی اور پنجاب اسمبلی میں دوبارہ ووٹنگ کا حکم دیا اور اس فیصلے کے نتیجے میں پرویز الہٰی پنجاب کے وزیراعلی بنے۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مختلف درخواستوں پر سماعت کے بعد چودہ مئی کو ملک بھر میں عام انتخابات کرانے کا حکم اور شیڈول دیا، بعد ازاں حکم کے خلاف الیکشن کمیشن نے نظرثانی کی اپیل دائر کی جسے مسترد کیا گیا۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز ایکٹ دوہزار تئیس کو کالعدم قرار دیا گیا جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس سننے والے بینچ کے سربراہ بھی رہے۔

    باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ بھی تحریر کیا اورجسٹس عمر عطا بندیال از خود نوٹس کے طریقہ کار پر بھی فیصلہ دیا۔

    کمرہ عدالت میں گڈ ٹو سی یو کہنے پر بھی چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں پہلی بار دو خواتین کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔

  • نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم  کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات

    نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات

    اسلام آباد : نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے ملاقات کی، ملاقات تقریبا ایک گھنٹہ جاری رہی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سےنگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم کی ملاقات ہوئی ، ذرائع نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں ہونے والی ملاقات تقریبا ایک گھنٹہ جاری رہی۔

    یاد رہے گذشتہ ہفتے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے ملاقات کی تھی ، ذرائع نے بتایا تھا کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ہونے والی ملاقات دوگھنٹے جاری رہی ۔

    ذرائع کے مطابق ملاقات میں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر نے ملک میں عام انتخابات کےمعاملے پر گفتگو کی تھی۔

  • جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اگلے چیف جسٹس آف پاکستان مقرر، صدر نے منظوری دے دی

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اگلے چیف جسٹس آف پاکستان مقرر، صدر نے منظوری دے دی

    اسلام آباد : صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کردی ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے 17 ستمبر 2023 کو عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق صدرمملکت عارف علوی نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کی منظوری دے دی، جس کے بعد وزارت قانون نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری کردیا۔

    تعیناتی کا اطلاق 17 ستمبر 2023 سے جسٹس عمرعطا بندیال کی ریٹائرمنٹ پر ہوگا، صدر مملکت نے چیف جسٹس کی تعیناتی آئین کےآرٹیکل 175 اے تین کے تحت کی۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے 17 ستمبر 2023 کو عہدے کا حلف اٹھائیں گے، صدر مملکت عارف علوی ان سے حلف لیں گے۔

    صدرمملکت نے دو ماہ پہلے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کی منظوری دی ہے جبکہ موجود چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال آئین کے آرٹیکل ایک سو اناسی کے تحت سولہ ستمبر 2023 کو ریٹائرمنٹ کی عمر حاصل کرلیں گے۔

    خیال رہے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے بعد سپریم کورٹ کے سینئیر ترین جج ہیں۔

  • دیکھ لیں سپریم کورٹ کے باہر لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، وفاقی حکومت مدد کررہی ہے، چیف جسٹس

    دیکھ لیں سپریم کورٹ کے باہر لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، وفاقی حکومت مدد کررہی ہے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان جسٹس عطا عمر بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اسوقت سپریم کورٹ کے باہر کیا صورتحال ہے، لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، وفاقی حکومت مدد کررہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انتخابات نظر ثانی کیس میں دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملکی اداروں اور اثاثوں کو جلایا جا رہا ہے،5،4دنوں سے جوہو رہاہےاسےبھی دیکھیں گے، اس کے باوجود بھی ہم اپنا کام کررہےہیں۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں، آئین ہی جمہوریت کی بنیاد ہے ، ہم سب ایک فرض کی امیدکرتے ہیں کہ جو ہرایک نے نبھانا ہے، باہر جو ہورہا ہے کون آئین پر عمل کرائے گا۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم صرف آئین اور اس پر عمل چاہتے ہیں ، حکومت اس پرعمل نہیں چاہتی ، فروری میں جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی تو اس وقت ایک پہلو تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس پہلو کی خلاف ورزی ہورہی تھی لیکن اب حالات مختلف ہیں، اٹارنی جنرل بتائیں ، مذاکرات کیوں شروع نہ ہوسکے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ ضروری ہے، میں نے لوگوں کو گولیاں لگنے کی فوٹیج بھی دیکھی ہے، ایگزیکٹو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلیٰ معیار برقرار رکھیں، آئین پر عملدرآمد لازمی ہے، اس ماحول میں آئین پر عملدرآمد کیسے کرایا جائے؟

    جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ادارے اس وقت شدید خطرے کے اندر ہیں، میرا مشورہ ہے پرامن ماحول کےلئے کردار ادا کریں، دیکھیں اسوقت سپریم کورٹ کے باہر کیا صورتحال ہے، باہر جو ہو رہا ہے، کون آئین پر عمل کرائے گا، آج دیکھ لیں، لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، وفاقی حکومت مدد کررہی ہے۔

    سپریم کورٹ کے وفاق،صوبائی حکومت سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کردیئے ، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے لوگ گولیوں سے زخمی ہوئے، اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کیا،الیکشن جمہوریت کی بنیادہیں، آئین پر عملدرآمد میرا فرض ہے جو ادا کرتا رہوں گا، کسی ایک فریق کا اخلاقی معیار ہوتا تو دوسرے کو الزام دیتے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کو چاہیے کہ مذاکرات کے عمل کو دوبارہ دیکھیں، ہمیں سیاست کے بارے میں نہیں معلوم اور نہ جاننا چاہتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ آئین میں موجود بنیادی حقوق پر کیسے عمل ہوگا، اس وقت بال اٹارنی جنرل آپ کی کورٹ میں ہے، علی ظفر صاحب یہاں بتائیں گے اور اپنی قیادت کوآگاہ کرینگے، نظر ثانی کیس میں جلدی سے درخواست پر سماعت نہیں چاہتے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہم یہاں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا تو لوگ خوش ہونگے، میں نے کل دیکھا موٹر وے خالی پڑےہیں معیشت کی حالت خراب ہورہی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 90دن میں انتخابات بنیادی معاملہ ہے، کل ایک اہم معاملے کی سماعت ہے، جلدی تب کرتے جب معلوم ہوتا کہ الیکشن کا وقت آگیا ہے، جس انداز میں سیاسی قوتیں کام کر رہی ہیں یہ درست نہیں، لوگ جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، ادارے خطرات اور دھمکیوں کی زد میں ہیں۔

    سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی پیر کو سماعت رکھنے کی استدعا مستردکردی اور کہا کہ امن و امان کو برقرار رکھنے میں حصہ ڈالیں، مشکل وقت میں صبر کرنا ہوتا ہے نہ کہ جھگڑا، لوگ آج دیواریں پھلانگ رہے تھے،حکومت ناکام نظر آئی۔

    سپریم کورٹ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تفریق زدہ معاشرہ ہوگا تو انتخابات کے نتائج کون قبول کرےگا؟ جو بیانیہ دونوں جانب سے بنایا جا رہا ہے اس کو حل کریں، حکومت مذاکرات کی دعوت دے تو علی ظفر بھی قیادت سےبات کریں، ملک میں کاروبار کا پہیہ رک گیا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کی طرح کی باتیں کیں لیکن عدالت سےرجوع نہیں کیا، آئین میں90دن ہیں تو 90 ہیں، 14مئی کا حکم تھا تو 14 مئی کوہی عمل ہونا تھا، عدالت کو اپنے کنڈکٹ پرمطمئن کریں، دونوں طرف میچور سیاسی جماعتیں ہیں۔

  • چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی افطار سے قبل اہم ملاقات

    چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی افطار سے قبل اہم ملاقات

    اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز کے مابین آج افطار سے کچھ دیر قبل ایک ملاقات ہوئی جو خوش گوار ماحول میں جاری رہی۔

    ذرائع سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ملاقات میں دونوں معزز جج صاحبان نے اہم امور پر تفصیلی بات چیت کی، نیز، جسٹس فائز عیسیٰ کا وضاحتی بیان چیف جسٹس کی مشاورت سے جاری ہوا ہے۔

    قبل ازیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئین کی گولڈن جوبلی کنونشن میں شرکت پر انھوں نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کو آئین کی گولڈن جوبلی منانے کی دعوت دی گئی تھی اور یہ یقین دہانی حاصل کی گئی تھی کہ سیاسی تقریریں نہیں ہوں گی۔

    پارلیمنٹ میں تقریر کیوں کی؟ جسٹس قاضی فائز کی اہم وضاحت

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وضاحتی بیان میں کہا ’’ہمیں بتایا گیا تھا کہ کنونشن میں صرف آئین سے متعلق بات ہوگی، اس لیے آئین سے اظہار یک جہتی کے لیے دعوت قبول کی، دعوت قبول کرنے سے پہلے میرے عملے اور اسپیکر سے تصدیق کی گئی، مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ تقریر کریں گے، تو میں نے معذرت کی۔‘‘

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفریس کی جلد سماعت کیلیے متفرق درخواست دائر

    جسٹس قاضی نے کہا ’’جب سیاسی بیانات دیے گئے تو میں نے بات کرنے کی درخواست کی، کنونشن میں میری بات کا مقصد ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ تھا۔‘‘

  • نواز شریف نے دوسرے دور حکومت میں چیف جسٹس پاکستان سے کیسے محاذ آرائی کی؟ سابق اہم سرکاری شخصیت کے انکشافات

    نواز شریف نے دوسرے دور حکومت میں چیف جسٹس پاکستان سے کیسے محاذ آرائی کی؟ سابق اہم سرکاری شخصیت کے انکشافات

    اسلام آباد: نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان سے محاذ آرائی کی تھی، اس سلسلے میں سابق اہم سرکاری شخصیت کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک سابق اہم سرکاری شخصیت نے اے آر وائی نیوز کے ساتھ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت سے متعلق تفصیلات شیئر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان سے کیسے محاذ آرائی کی، اور معمولی بات پر بڑا طوفان کیسے آیا؟

    اس اہم سابق سرکاری شخصیت کا تعلق 1997 سے 1998 تک وفاقی حکومت کی قانونی ٹیم سے تھا، انھوں نے اے آر وائی نیوز سے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے معاملے پر گفتگو کی، اور کہا کہ جو کچھ اب عدلیہ کے ساتھ ہو رہا ہے، یہ 1997 کی نقل ہے۔

    سابق سرکاری شخصیت نے بتایا کہ جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ نواز شریف کے معاملات کی خرابی محکمہ انہار کے معاملے پر ہوئی تھی، نواز شریف نے دورہ فیصل آباد پر محکمہ انہار کے 4 ملازمین کو معطل کر دیا تھا، لیکن جسٹس سجاد علی شاہ نے ازخود نوٹس لے کر کہا کہ صوبائی معاملے میں وزیر اعظم کیسے مداخلت کر سکتا ہے؟

    سابق سرکاری شخصیت کے مطابق جسٹس سجاد علی شاہ نے معطل ملازمین کو بحال کر دیا، تو نواز شریف نے اٹارنی جنرل کو کیس میں پیش ہونے سے منع کیا اور ڈپٹی اٹارنی کو بھیج دیا، پھر واپڈا نے کچھ ریکوریز کرنی تھی تو سپریم کورٹ نے اس میں حکم امتناع دے دیا، نواز شریف نے اس پر میٹنگ میں غصے میں مجھے کہا ’’دیکھو یہ کیا کر رہےہیں۔‘‘

    سابق سرکاری شخصیت نے بتایا ’’تیسری بدمزگی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے قیام پر ہوئی، نواز شریف کے والد نے دونوں کی ملاقات کرائی اور معاملہ رفع دفع کرا دیا، لیکن 2 روز بعد نواز شریف نے پھر کہا کہ ہم خصوصی عدالتیں ضرور بنائیں گے، اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خواجہ شریف سے کہا کہ ججز کے ناموں کی فہرست دیں۔‘‘

    اس معاملے پر بات پارلیمنٹ میں چیف جسٹس کے خلاف قرارداد لانے تک پہنچ گئی اور مجھے (سابق سرکاری شخصیت) کہا گیا کہ متن تیار کروں، یہ بھی طے ہو گیا کہ قرارداد چوہدری نثار ایوان میں پیش کریں گے، اس بار شہباز شریف بیچ میں پڑے اور معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔

    سابق سرکاری شخصیت نے کہا ’’شہباز شریف نے مجھے کہا کہ میاں صاحب گوشت کہیں تو آپ نے دال کا کہنا ہے، گوشت اور دال سے ہی بات آلو شوربے تک پہنچے گی۔‘‘

    انھوں نے بتایا ’’قراداد لانے کا معاملہ ختم ہوا تو کچھ دنوں بعد میاں صاحب نے ناراضی ظاہر کی، سابق جج اور سینئر وکیل کو کوئٹہ بنچ کے پاس بھیجا گیا، میری اطلاع کے مطابق اس میں پیسوں کا کوئی استعمال نہیں ہوا تھا، کوئٹہ کے 3 رکنی بنچ نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی تعیناتی معطل کر دی۔‘‘

    سابق سرکاری شخصیت کے مطابق ’’جسٹس سجاد علی شاہ نے کوئٹہ بنچ کے آرڈر کو معطل کر دیا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی نے معطلی کا آرڈر معطل کر دیا، پھر سپریم کورٹ بار کے صدر عابد حسن منٹو درمیان میں آئے اور معاملہ ٹھنڈا ہو گیا، لیکن دوبارہ نواز شریف نے کہا کہ جسٹس اجمل میاں کو قائم مقام چیف جسٹس بنایا جائے۔‘‘

    انھوں نے بتایا ’’صدر لغاری کے پاس نئے چیف جسٹس کی سمری گئی تو انھوں نے فوری دستخط نہیں کیے، نواز شریف کو صدر لغاری سے خطرات کا اندیشہ ہوا، اس سے بچنےکے لیے نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت سے 2 گھنٹے کی ملاقات کی، جس کے بعد نواز شریف نے باہر نکل کر ہاتھ اٹھا کر کہا فکر نہ کریں یہ ہمارے ساتھ ہیں، پھر مجھے صدر لغاری کے پاس اہم پیغام دے کر بھیجا گیا، میں نے صدر سے کہا کہ سمری پر دستخط کریں یا استعفیٰ دے دیں۔‘‘

    سابق سرکاری شخصیت کے مطابق ’’صدر لغاری نے کہا میں آپ سے اس طرح کی غلط زبان کی توقع نہیں رکھتا تھا، میں نے کہا سر یہ میری زبان نہیں مجھے وزیر اعظم نے ایسا کہا ہے، پھر صدر فاروق لغاری نے کہا ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ ایسے نہیں کہہ سکتے، پھر فاروق لغاری نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔‘‘

  • سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان سے منسوب مخصوص ریمارکس غلط قرار

    سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان سے منسوب مخصوص ریمارکس غلط قرار

    اسلام آباد: اٹارنی جنرل آفس نے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان سے منسوب مخصوص ریمارکس کو غلط قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے وفاقی وزیر قانون کو خط لکھ کر کہا ہے کہ میں عدالت میں خود موجود تھا چیف جسٹس کے بیان کی سوشل میڈیا پر کی جانے والی تشہیر غلط ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس نے ریمارکس میں یہ نہیں کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک وزیر اعظم ایمان دار تھا، چیف جسٹس نے کہا ایک اچھے اور آزاد وزیر اعظم کو آرٹیکل 58/2B کے ذریعے نکالا گیا۔

    خط میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ غلط رپورٹ ہونے والے ریمارکس پر اراکین پارلیمنٹ نے حقائق جانے بغیر رائے دی جو اخبارات میں شائع ہوئی، خط اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ آپ بطور وزیر قانون اور سابق قائد ایوان ساتھی سینیٹرز تک درست حقائق رکھیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس سے متعلق وضاحت جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا کہ آبزرویشن کو سوشل میڈیا پر غلط رنگ دیا جا رہا ہے، 1988 میں قومی اسمبلی کو آرٹیکل 58(2)(بی) کے تحت تحلیل کیا گیا تھا، چیف جسٹس نے اسمبلی بحال نہ کرنے کے تناظر میں ریمارکس دیے تھے، عطا بندیال نے اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیسے انھوں نے 1993 میں اسمبلی بحال نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

    خط میں لکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ بات پھیلائی گئی کہ چیف جسٹس پاکستان نے اس وقت کے وزیراعظم کی دیانت داری پر آبزرویشن دی، میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ چیف جسٹس پاکستان نے ایسی کوئی آبزرویشن نہیں دی۔

    اٹارنی جنرل نے لکھا کہ چیف جسٹس پاکستان نے اُس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے اظہارِ ندامت کا تذکرہ کیا تھا، سوشل میڈیا پر چیف جسٹس سے منسوب یہ بات پھیلائی گئی کہ پاکستان کی تاریخ میں صرف محمد خان جونیجو دیانت دار وزیراعظم تھے۔

  • جسٹس عمر عطا بندیال چیف جسٹس پاکستان مقرر

    جسٹس عمر عطا بندیال چیف جسٹس پاکستان مقرر

    اسلام آباد: صدر مملکت نے جسٹس عمر عطا بندیال کو چیف جسٹس پاکستان مقرر کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے عمر عطا بندیال کو بہ طور چیف جسٹس پاکستان تعینات کر دیا، ان کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت کی گئی ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کی تعیناتی 2 فروری 2022 سے مؤثر ہوگی، جب کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد یکم فروری 2022 کو ریٹائر ہوں گے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں۔

  • چیف جسٹس سے نورمقدم اوربچیوں کے زیادتی کیسز کا اسپیڈی ٹرائل کا حکم دینے کی اپیل

    چیف جسٹس سے نورمقدم اوربچیوں کے زیادتی کیسز کا اسپیڈی ٹرائل کا حکم دینے کی اپیل

    اسلام آباد : نمائندہ خصوصی مولانا طاہراشرفی نے چیف جسٹس پاکستان سے نورمقدم ،بچوں ،بچیوں کےزیادتی کیسز کا اسپیڈی ٹرائل کا حکم دینے کی اپیل کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نمائندہ خصوصی مولانا طاہراشرفی نے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد سے اپیل کی ہے کہ نورمقدم ،بچوں ،بچیوں کےزیادتی کیسز کا اسپیڈی ٹرائل کا حکم دیں۔

    مولانا طاہراشرفی کا کہنا تھا کہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے، مرض بڑھ رہا ہوتو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

    نمائندہ خصوصی نے مزید کہا کہ عدالتوں میں ہزاروں کیسز موجودہیں ، ان واقعات کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، نورمقدم کیس نےخوف و وحشت پیداکی ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز قومی اسمبلی اجلاس میں تحریک انصاف، پی پی پی،مسلم لیگ ن کی خواتین ارکان اسمبلی متحد ہوگئیں اور بچوں،بچیوں،خواتین کیساتھ ریپ مجرمان کوسرعام پھانسی دینے کامطالبہ کیا۔

    خواتین ارکان کا کہنا تھا کہ مجرمان کوسرعام پھانسی دینےکےسواواقعات نہیں رکیں گے، نورمقدم کیس کےملزم کوسرعام پھانسی لگنی چاہئے جبکہ رکن قومی اسمبلی اسماقدیر کا کہنا تھا کہ ایک قاری نےبچی سےزیادتی کی، اب ریپ کےملزم کوسرعام پھانسی کےعلاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔

  • چیف جسٹس پاکستان کا دورہ ملتان،  قبضہ مافیا کےخلاف کارروائی کا حکم

    چیف جسٹس پاکستان کا دورہ ملتان، قبضہ مافیا کےخلاف کارروائی کا حکم

    ملتان : چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار نے ملتان میں قبضہ مافیا کےخلاف کارروائی کاحکم دےدیا اور کہا قبضہ مافیا سےآہنی ہاتھوں سےنمٹاجائے، پارکس صرف عوام کیلئےاستعمال ہونےچاہئیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزارنے اولیا کے شہر ملتان کا دورہ کیا، جہاں انھوں نے حضرت بہاؤالدین زکریا اور شاہ رکن عالم کےمزار پر حاضری دی اور شہرکے معروف چلڈرن پارک بھی گئے۔

    چیف جسٹس نے چلڈرن پارک کی ابترحالت پربرہمی کااظہارکرتے ہوئےسی پی او کوقبضہ مافیا کے خلاف کارروائی کرنےکا حکم دیتے ہوئے کہا قبضہ مافیا سے آہنی ہاتھوں سےنمٹا جائے، پارک صرف عوام کیلئے استعمال ہونے چاہئیں۔

    چیف جسٹس نے پارکس کی حالت فوری بہتربنانے اور ملتان میں ایک لاکھ درخت لگانےکاحکم بھی دیا اور کہا ملتان کی حالت بل بورڈز اور گردوغبار سے خراب ہے، شہر میں صوفی کلچرکوفروغ دینےکیلئےثقافتی سرگرمیوں کی ضروت ہے، سرگرمیوں سےلوگ مزارکی طرف متاثرہوں گے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ شہر کے تمام پارکس کو بچوں اور اہلخانہ کےلیےتفریح کاذریعہ ہوناچاہیے، اچھے پارکس سے شہریوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔