Tag: چیف جسٹس گلزار احمد

  • چیف جسٹس کا  کے الیکٹرک کا مکمل آڈٹ اور سی ای  او مونس علوی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم

    چیف جسٹس کا کے الیکٹرک کا مکمل آڈٹ اور سی ای او مونس علوی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم

    کراچی : چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کرنٹ لگنےسے اموات پر کے الیکٹرک کا مکمل آڈٹ اور سی ای او کے الیکٹرک کانام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی میں غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کرنٹ لگنے سے اموات پر سماعت ہوئی۔

    سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کےالیکٹرک کےخلاف تمام مقدمات میں سی ای او کا نام شامل کرنے کا حکم دیا ، چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب سی ای اوکےالیکٹرک کانام ای سی ایل میں شامل کریں۔

    چیف جسٹس نے کے الیکٹرک کا مکمل آڈٹ کا حکم دیتےکرنٹ لگنے سےلوگ مررہے ہیں ،پورےکراچی سےارتھ وائر ہٹا دیے، ان لوگوں کے خلاف قتل کا مقدمہ بنتا ہےان کو احساس ہی نہیں ، کراچی کی بجلی بند کریں تو ان کو بند کردیں۔

    جسٹس گلزار نے کہا کہ جمعےکومیں آیا توشارع فیصل پر اندھیرا تھا ،لوگ باہر بیٹھے تھے ، ان کو صرف پیسہ کمانے کےلیےلایا گیاتھا؟ ادارے کو تباہ کردیا ، سستا میٹریل لگا یا ، صرف پیسہ کما رہےہیں، پوری دنیا میں آج آپریشنز چلا رہےہیں ، کراچی والوں سے پیسہ لے رہےہیں، اسٹیٹ بینک کو بھی منع کردیتے ہیں ان کا منافع باہر نہ بھیجے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نےسی ای او الیکٹرک مونس علوی کو جھاڑ پلا دی اور کہا آپ کوشرم نہیں آتی لوگو ں کوبھاشن دیتے ہیں ؟ بدترین انتظامیہ ہے،نظام پہلےسےبھی بد تر ہوگیا ہے ، کراچی پراجارہ داری قائم نہیں ہونےدیں گے، دوسری کمپنیاں بھی ہونی چاہییں۔

    چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ ہم نے 5 کروڑ روپے کا جرمانہ کیااور ایکشن لیا ، کے الیکٹرک نے ہمارےایکشن پرعدالتوں سے امتناع لیا ہوا ہے۔

    چیف جسٹس نے وکیل کےالیکٹرک سےمکالمے میں کہا کہ آپ بھی کراچی کےشہری ہیں آپ کوبھی احساس ہونا چاہیے ، ابھی 21لوگ مرے ہیں، آپ جا کر امتناع لےلیتےہیں ، جس پر وکیل کے الیکٹرک کا کہنا تھا کہ لوگ گھروں میں مرے ہیں ۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بجلی کا کوئی نہ کوئی فالٹ ہوتا ہے تو بندہ مرتا ہے ، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا سڑکوں پر بھی لوگ مرے ہیں ،ارتھ وائر ہی ختم کردیے، جس پر چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ رننگ وائر میں سے ارتھ وائر نکال دی گئی۔

    جسٹس گلزار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا آپ کےغیر ملکی مالکان کی ذہنیت سمجھتےہیں وہ ہمیں غلام سمجھتے ہیں، وہ کچاسمجھتےہیں پاکستانیوں کو،ان کے تو اونٹ کی قیمت بھی پاکستانی سے زیادہ ہے۔

    سپریم کورٹ نےکےالیکٹرک کالائسنس منسوخ ہونے پرمتبادل پوچھ لیا اور چیئرمین نیپرا سے استفسار کیا کہ ان کا لائسنس معطل ہوجائےتو آپ کےپاس کیا متبادل ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا جب سے انہوں نےٹیک اوور کیا نظام کوتباہ کردیا ہے ، یہ کون ہوتے ہیں آکر ہمیں ،کراچی والوں کوبھاشن دیں ؟ کہتےہیں کراچی والےبجلی چوری کرتے ہیں ،یہ کون ہوتےہیں یہ کہنےوالے؟ کراچی والوں کو بھاشن مت دیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے سی ای اوکےالیکٹرک سے کہا کہ ایک منٹ کیلئے بھی بجلی بند نہیں ہونی چاہیےسمجھےآپ؟ جس پر سی ای اوکےالیکٹرک کا کہنا تھا کہ پچھلے 10سال میں ڈھائی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ نمبروں کی بات نہ کریں ،آپ سی ای او ہیں ، کے الیکٹرک نقصان میں جارہی ہے، آپ کومعلوم ہے جب رات میں بجلی بندہوتی ہےتوکیاہوتاہے،چیف جسٹسچھوٹےچھوٹےگھروں میں بجلی نہ ہوتوکیاہوتاہے؟ عورتیں دہائیاں دیتی ہیں آپ لوگوں کی، آپ پوری دنیا میں ڈیفالٹرہیں ،لندن میں کیا ہوا آپ کے ساتھ؟ وہاں تو اپ لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور گردن دبوچ کر پیسے لئے گئے ، لوگوں کی بجلی بند نہیں کریں گے،بجلی بند کرنا ہے تو اپنےدفاتر کی کریں۔

    کراچی میں غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور کرنٹ لگنےسے اموات پرسماعت میں چیف جسٹس نے کہا کے الیکٹرک کی ساری انتظامیہ کےخلاف کاروائی کی جائے، ایک ایک منٹ کی کی بجلی کی تقسیم پرنظر رکھیں، پیسہ یہ ہم سےسو گنا لیتے ہیں اور میٹریل سستا لگایا ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ دنیابھر میں جو اپنا نظام چلا رہے ہیں وہ کراچی سے چلا رہے ہیں، آپ بھاشن دیتےہیں،قوم نےاعتماد کیا،آپ نےیہ صلہ دیا؟ بھارت میں بورڈہےجو ایسی صورت حال میں ٹیک اوور کرتاہے، بجلی نہیں ہوتی تو خواتین بد دعائیں دیتی ہیں۔

    دوران سماعت چیئرمین نیپرا کا کہنا تھا کہ قانونی طورپرتحقیقات کی اجازت مل گئی،کےالیکٹرک کاازسرنو جائزہ لیں گے، ہم کے الیکٹرک کو 200ملین تک کا جرمانہ کرسکتے ہیں ، معلوم تھا ڈی جی نیپرا کو طلب کیا گیامگر میں خود عدالت چلاآیا ، ہم کے الیکٹرک کا مکمل آڈٹ کریں گے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ اپنے ادارے کا بھی آڈٹ کرالیں۔

    سماعت میں اےجی سندھ نے کہا کہ جب کےالیکٹرک کی نجکاری ہوئی تووفاق نےکہا تھا بجلی نہیں کاٹیں گے ، سندھ ہائی کورٹ کافیصلہ ہےکہ واٹر بورڈ کے پیسے وفاق نے دینے ہیں، جس پر وکیل کے الیکٹرک نے بتایا کہ ہم نے لائن لاسزز کم کرکے 19 فیصد کر دیےہیں۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا آپ کی جو ذمےداری ہے وہ پیسے ادا کریں، امن ایمبولینس کی 4ارب کی لگژری گاڑیاں لیتے ہیں، اس میں دو ارب روپے کی پولیس کی گاڑیاں ہیں، ایمبولینس منگوائیں ،فائر بریگیڈ ،کچرا اٹھانے والی گاڑیاں منگوائیں۔

    فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا مسئلہ نیپراکےقانون کا ہے جو لاگو نہیں کرتے ،جس پر چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا آپ غریب آدمی کو 20ہزار کا بل بھیج دیتے ہیں ، تو فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ کس قانون کےتحت ایک بجلی چور کی سزا پورے علاقے کودیتےہیں ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جیسی سروس دیتے ہیں ویسالوگ آپ سے برتاؤکرتے ہیں۔

    فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کوئی بتائے کہاں بارش میں اتنے لوگ مرجاتے ہیں ، چیئرمین نیپرا نے کہا میں بطور چیئرمین خود زمینی حقائق بتانے آیا ہوں ، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا آپ اپنے ادارے کےبھی زمینی حقائق بتائیں۔

    غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر سپریم کورٹ نے حکم نامہ جاری کردیا ، جس میں کہا گیا کرنٹ لگنے کامقدمہ کے الیکٹرک حکام کے خلاف درج کیا جائےگا، کوئی بھی واقعہ ہوتوسی ای او سمیت تمام حکام کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

    سپریم کورٹ نے نیپرا کی کارروائی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کے جاری حکم امتناع کی تفصیل طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کوبجلی سےمتعلق ٹریبونلز فعال کرنے کےاقدامات کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس نے سی ای او کےالیکٹرک سے مکالمے میں کہا آپ کےپاس لوڈشیڈنگ کااختیار نہیں ، بجلی کی کمی ہے تو خرید یں اور لوگوں کو دیں ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا آپ شارٹ فال پوراکرنے کےلیےبجلی پیدا کریں۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ آپ کو لوڈشیڈنگ کےلیےنہیں لایا گیا ہے ، آپ کےمالک جوباہربیٹھے ہیں ان کاسوچ رہے ہیں، جس پر سی ای اوکےالیکٹرک نے کہا ہم کوئی پیسہ باہر نہیں بھیجتے ، ریکارڈ دیکھ لیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا سب انڈر ہینڈہوجاتاہےبیگ بھر بھرکےیہاں سےپیسہ چلاجاتاہے، اگر نقصان ہو رہا ہے تو جائیں یہاں سے ، ہم کچھ نہیں جانتےہم لوڈ شیڈنگ برداشت نہیں کریں گے۔

    سی ای اوکےالیکٹرک نے کہا ہم کوئی پاورپلانٹ اپنی مرضی سےنہیں لگاسکتے، جس پر چیئرمین نیپرا کا کہنا تھا کہان کا ایس ایس جی سی ، پی ایس او سے معاہدہ نہیں ، ان کے پاس پیٹرولیم ذخیرہ کرنےکابندوبست نہیں۔

    جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا کہ آپ ریگولیٹری باڈی ہیں آپ کرائیں ، سی ای اوکےالیکٹرک نے عدالت کو بتایاہم نے 73 فیصد علاقے میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کیابات کرتے ہیں،میرے علاقے میں روز بجلی جاتی ہے، سی ای او نے جواب دیا کہ اچھاسر میں چیک کرا لیتا ہوں۔

    سپریم کورٹ نےکےالیکٹرک سے جمعرات کومکمل ٹائم لائن طلب کرتے ہوئے بجلی پیدا کرنےکی استعداد،موجودہ پیداوار اور طلب کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کردی اور سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔

  • پاکستان میں ادویہ سازوں کا بہت  بڑا مافیا ہے، ڈریپ کہتی ہے مٹھی گرم کرو تو کام ہوجائے گا، چیف جسٹس

    پاکستان میں ادویہ سازوں کا بہت بڑا مافیا ہے، ڈریپ کہتی ہے مٹھی گرم کرو تو کام ہوجائے گا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس گلزار احمد نے ادویہ سازکمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا پاکستان میں ادویہ سازوں کا بڑا مافیا ہے، ادویہ ساز کمپنیاں خام مال خریداری کےنام پر سارا منافع باہر بھیج دیتی ہیں اور ڈریپ کہتی ہےمٹھی گرم کروتوساراکام ہوجائےگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے نجی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں سے متعلق کوئی فیصلہ کیا؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ معاملہ کابینہ نہیں ٹاسک فورس کو بھیجا گیا تھا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لگتا ہے ٹاسک فورس فیصلہ کرنے کے بجائے معاملے پر بیٹھ ہی گئی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آخر کر کیا رہی ہے ؟؟ حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے، حکومت صرف کاغذی کارروائی کرتی ہےفیصلہ کرنےکی ہمت نہیں، حکومت خودکچھ کرتی نہیں فیصلےکےلیےمعاملہ ہمارےگلےڈال دیاجاتاہے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ادویات کمپنیاں ہوں یا خریدار سب ہی غیر یقینی صورتحال میں رہتے ہیں، ادویہ ساز کمپنیاں خام مال خریداری کے نام پر سارا منافع باہر بھیج دیتی ہیں، افسوس ہوتا ہے کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی ، ڈریپ کہتی ہےمٹھی گرم کروتوساراکام ہوجائےگا جبکہ حکومت خود فیصلہ کرتی نہیں اور ہائی کورٹ کے فیصلے چیلنج کرتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ڈریپ بروقت فیصلہ نہ کرے تو مقررہ مدت کے بعد ازخود قیمت بڑھ جاتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نجی کمپنی نے باسکوپان نامی دوائی مارکیٹ سے غائب کر رکھی ہے، دوائی کی قیمت پوری نہ ملے تو مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے، نجی کمپنی نے 8 دوائیوں کی قیمت بڑھائی، ڈریپ نے ایکشن لیا تو سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناع لے لیا، بعد ازاں عدالت نے سماعت 29 جون تک ملتوی کردی۔

  • ملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کا حکم، ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار

    ملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کا حکم، ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ملک بھر میں شاپنگ مالز اور کراچی کی تمام مارکیٹس کھولنے کا حکم دے دیا اور ہفتہ،اتوارکوکاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا حکومتی حکم غیر آئینی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے سماعت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل خالدجاوید نے کراچی سےوڈیولنک پر دلائل کا آغاز کیا۔

    کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کراچی کی تمام مارکیٹس کھولنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس کی کمشنرکراچی کومارکیٹس کھولنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا زینب مارکیٹ میں غریب لوگ آتےہیں، زینب مارکیٹ میں لوگوں کوایس او پیزعمل کرائیں، ایس او پیز پر عمل کرانا ہےآپ نے لوگوں کو مارنایا ڈرانانہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کراچی میں چند مالز کے علاوہ تمام مارکیٹس کھلی ہیں، جو دکانیں سیل کی گئیں انہیں بھی کھول دیں، چھوٹے تاجر کورونا کے بجائے بھوک سےہی نہ مرجائیں، وزارت قومی صحت کی رپورٹ اہمیت کی حامل ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا جن چھوٹی مارکیٹس کو کھولا گیا وہ کونسی ہیں؟ کیا زینب مارکیٹ اور راجہ بازار چھوٹی مارکیٹس ہیں؟ کیا طارق روڈ ،صدر کا شمار بھی چھوٹی مارکیٹوں میں ہوتا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ شاپنگ مالز کے علاوہ تمام مارکیٹیں کھلی ہیں جبکہ کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ مالز میں 70فیصد لوگ تفریح کے لئے جاتے ہیں۔

    کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری سندھ کو فوری طلب کرتے ہوئے سندھ حکومت سے بڑے شاپنگ مالزکھولنے پر ہدایات فوری مانگ لی، اےجی سندھ نے کہا حکومت آج سے شاپنگ مالز کھولنے پر غورکررہی ہے۔

    جسٹس مظہرعالم کا کہنا تھا کہ باقی مارکیٹیں کھلی ہوں گی تو شاپنگ مالز بند کرنے کا کیا جواز؟ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ عید کے موقع پر ہفتے ،اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کی جائیں اور چھوٹے دکانداروں کوکام کرنے سے دیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ دکانیں بند کریں گے تو دکاندار تو بھوک سے مر جائے گا، کراچی میں 5بڑے مال کےعلاوہ کیاسب مارکیٹیں کھلی ہیں،کمشنر کراچی نے بتایا کہ کچھ مارکیٹس کو ایس او پی پر عمل نہ کرنے پر سیل کیا ہے۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ سیل کی گئی مارکیٹس بھی کھولیں ،انھیں ڈرانےکےبجائےسمجھائیں، کراچی کی تمام مارکیٹ کھول دیں، مارکیٹس میں چھوٹے طبقے کا کاروبار ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہ ملک بھر کے تمام شاپنگ مالزکھولنے کاحکم دےرہےہیں ، عید پر رش بڑھ جاتا ہے،ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بندنہ کرائی جائیں ، آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے مگر دوسرے لینا چاہتےہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پرہی نئے کپڑےپہنتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کوروناوائرس ہفتے اور اتوار کو کہیں چلا نہیں جاتا، کیا کورونا نے بتایا ہے کہ وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آتا؟ کیا ہفتہ اور اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے؟ ہفتہ اتوار کو مارکیٹیں بند کرنے کا کیا جواز ہے؟

    چیف جسٹس نےملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کاحکم دےدیا اور کہا ہفتہ اور اتوار کو بھی مالز اور مارکیٹیں بند نہیں ہوں گی، پشاور میں کتنے شاپنگ مالز ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ چیف جسٹس پاکستان پشاور میں کوئی شاپنگ مال بند نہیں، تمام کاروباری مراکز کھلے ہیں جبکہ اےجی بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئی مال نہیں باقی مارکیٹس کھلی ہیں۔

    جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ کورونا کے نام پراربوں خرچ کئےجاچکے،یہ کہاں جارہے ہیں، جس پر نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا ہمارے لئے 25ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، یہ25ارب روپے پورے نہیں ہوئے، 25 ارب آپ کو ملے ہیں صوبوں کو الگ ملے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا 500 ارب کوروناکےمریضوں پر خرچ ہوں تووہ کروڑپتی بن جائیں، اتنی رقم مختص ہونے پربھی 600لوگ جاں بحق ہوگئے تو کیا فائدہ ، آپ25ارب سے کیا قرنطینہ کیلئے کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر کررہے ہیں،نمائندہ این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ رقم پوری طرح نہیں ملی ،دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس کا این ڈٰی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہماراملک ابھی تک ٹیسٹنگ کٹس کی صلاحیت کیوں نہ حاصل کرسکا تو نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا اس کاجواب وزارت صحت بہتردےسکتی ہے ، جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ملک کے وسائل بہت غلط طریقے سے استعمال ہورہےہیں، رپورٹ میں اخراجات کی واضح تفصیلات موجودنہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا ملک کےعوام حکومت کےغلام نہیں، لوگوں کو قرنطینہ کے نام پر یرغمال بنایاجارہاہے، لوگوں کی حقوق کی ضمانت آئین نےدی ہے ،آپ کسی پر کوئی احسان نہیں کررہے ، یہ پیسہ ایسی جگہ چلا گیا جہاں سےضرورت مندوں کونہیں مل سکتا۔

    ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے شاپنگ مالز کھولنے کی یقین دہانی کرا دی ، چیف جسٹس نے کہا شاپنگ مالز کو بند رکھنےکی کیا منطق ہے؟ جس پر اےجی سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت قومی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی تعمیل کرتی ہے، پنجاب،اسلام آبادکےمالز کھولنااین سی سی فیصلوں کے برعکس ہوگا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟قرنطینہ مراکز پر اتنا پیسہ کیسے لگ گیا ؟ کیا قرنطینہ مراکز کیلئے نئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں، جس پر ممبر این ڈی ایم اے نے کہا حاجی کیمپ قرنطینہ پر59ملین خرچ ہوئے، حکومت کی طرف سے صرف2.5 ارب روپے ملے۔

    چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کوروناکے ایک مریض پر اوسط کتنے پیسےخرچ ہوتے ہیں؟ کورونا پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں؟ وزارت صحت میں کالی بھیڑیاں بھی موجود ہیں، اسپتال کے اندر کے لوگوں کے دواسازکمپنیوں سےتعلقات ہوتےہیں، اسپتال کے لوگ دواساز کمپنیوں سے کمیشن لیتےہیں، ان سارے معاملات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا،چیف جسٹس

    جسٹس گلزار نے سوال کیا ایک مریض پر لاکھوں روپے خرچ ہونے کا کیا جواز ہے؟ ممبر این ڈی ایم اے نے بتایا کہ میڈیکل آلات،کٹس،قرنطینہ مراکزپرپیسےخرچ ہوئے، جس پر ڈی چیف جسٹس نے کہاکورونااس لئے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کاپیسہ اٹھاکرلےجائے، ٹڈی دل کےلئےاین ڈی ایم اے نے کیا کیا ہے؟ ٹڈی دل آئندہ سال ملک میں فصلیں نہیں ہونے دے گا ، صنعتیں فعال ہوجائیں توزرعی شعبہ کی اتنی ضرورت نہیں رہےگی، صنعتیں ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھیں۔

    جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے مجھے نہیں لگتا کوروناپر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کورونا کا علاج صرف کمرے میں بند کرنا ہے، چیف جسکیا کمرے میں بندہونےپر25 لاکھ خرچ ہوتےہیں؟ پولن سے کتنے لوگ مرتےہیں؟ تو وفاقی سیکریٹری صحت نے جواب دیا کہ پولن سے کم و بیش ایک ہزار لوگ مرتےہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ابھی ڈینگی آئے اور 50ہزارلوگ مرجائیں گے، سرکاری اسپتال میں کورونامثبت،نجی اسپتالوں میں منفی آتاہے، جسے دل کرتا ہے کورونا کا مریض قرار دے دیا جاتا ہے، پیسہ وہاں خرچ ہو رہا جہاں نظر بھی نہیں آرہا۔

    کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا عوام حکومت کی غلام نہیں ہے، عوام پر حکومت آئین کے مطابق کرنی ہوتی ہے، پاکستان میں غربت بہت ہےلوگ روزانہ کما کر ہی کھاسکتےہیں، کراچی پورٹ پراربوں کاسامان پڑا ہے جو باہر نہیں آ رہا، لگتا ہے کراچی پورٹ پر پڑا سامان سمندر میں پھینکنا پڑے گا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا کسی کو معلوم ہے دو ماہ بعد کتنی بے روزگاری ہوگی؟ بند ہونے والی صنعتیں دوبارہ چل نہیں سکیں گی، سارا الزام این ڈی ایم اے پر آئے گا، کیا کروڑوں لوگوں کو روکنے کیلئے گولیاں ماری جائیں گی؟ سنا ہے ہولی فیملی اسپتال سے لوگوں کو نجی اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے، سیکریٹری صحت پنجاب نے بتایا مریض منتقل ہو رہے تو یہ ڈاکٹرز کا مس کنڈکٹ ہے۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ سب سے تھرڈ کلاس ادویات سرکاری اسپتالوں میں ہوتی ہیں، او پی ڈی میں مریض کھڑے ہوتے ہیں، ڈاکٹر چائے پی رہے ہوتے، کیا کیمرے لگا کر سرکاری اسپتالوں کی نگرانی نہیں ہو سکتی؟ تمام سرکاری اسپتالوں کے ہر کمرے میں کیمرے لگائیں، جس پر سیکریٹری صحت نے یقین دہانی کرائی جہاں جہاں ممکن ہوگاکیمرے نصب کریں گے۔

    سپریم کورٹ نے ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم غیر آئینی ہے، بعد ازاں کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے کورونا وائرس از خود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی، جس میں قومی رابطہ کمیٹی میں کئےگئے فیصلوں سےمتعلق عدالت کو آگاہ کیا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اجلاس میں تعمیراتی سیکٹر کے فیز ٹو کو کھولنےکافیصلہ کیاگیا، شاپنگ مالز، شادی ہالز سمیت متعدد جگہوں کو 31مئی تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا اور عوام کی سہولت کیلئے چھوٹے تجارتی مراکز کھولنے کی اجازت دی۔

    واضح رہے گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے حکومت کو کورونا کے خلاف اقدامات پریکساں پالیسی بنانےکا حکم دیتے ہوئے این ڈی ایم اے غیر ملکی امداد کی تفصیل بھی مانگ لی تھی ، چیف جسٹس نے وفاق اور صوبوں کی رپورٹس غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا تھا ملک کے حصوں میں آگ لگی ہے، حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں ، صدر اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے ،مگر کچھ ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا۔

  • کورونا سے نمٹنے کیلئے ناکافی سہولیات، چیف جسٹس گلزار احمد کا پہلا ازخود نوٹس

    کورونا سے نمٹنے کیلئے ناکافی سہولیات، چیف جسٹس گلزار احمد کا پہلا ازخود نوٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان نے کوروناسےنمٹنےکیلئےناکافی سہولتوں پر پہلااز خود نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل، سیکریٹری صحت اور داخلہ ، چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس جاری کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس گلزاراحمد خان نےکورونا وائرس سےنمٹنےکےلیےناکافی سہولتوں پر از خود نوٹس لے لیا ، جسٹس گلزار احمد کاچیف جسٹس پاکستان بننےکےبعدیہ پہلاازخودنوٹس ہے۔

    کوروناوائرس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت 13 اپریل کو ہوگی، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ سماعت کرے گا۔

    چیف جسٹس نے اس سلسلے میں اٹارنی جنرل، سیکریٹری صحت اور داخلہ ، چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس جاری کردیئے جبکہ چیف کمشنراسلام آباداورچیف سیکریٹری گلگت بلتستان کوبھی نوٹس جاری کیا۔

    یاد رہےگذشتہ روز اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو دی گئی بریفنگ کے نتیجے میں عوامی صحت اور امداد سے متعلق مسائل میں کمی آئے گی،اہم شخصیات سے میری ملاقاتیں مقدمات کے سلسلے میں ہی ہوتی ہیں، ججز کو تشویش تھی کہ امداد سفارشیوں تک ہی نہ محدود رہ جائے۔

    اٹارنی جنرل خالد کا کہنا تھا کہ ثانیہ نشتر نے بتایا کہ امداد کی فراہمی صرف ڈیٹا بیسڈ ہوگی اور فرد کی شناخت پانچ مراحل سے گزرے گی، ٹائیگر فورس صرف قصبوں دیہاتوں میں ایسے افراد کی نشاندہی کریں گے جن کی موبائل اور انٹر نیٹ تک رسائی نہیں ہے۔

    انھوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز کو ہسپتالوں کی مکمل بندش پر تشویش تھی بریفنگ میں بتایا گیا کہ او پی ڈیز مرحلہ وار کھولی جا رہی ہیں، ججز کی تشویش درست تھی کہ دیگر بیماریوں میں مبتلا مریض علاج سے محروم کیوں رہیں، ایک اعتراض کہ یہ انتظامی امور ہیں ججز کا کام نہیں لیکن سوال یہ تھا کہ یہ کام انتظامیہ کر کیوں نہیں رہی۔

    خیال رہے پاکستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،مریضوں کی تعداد بڑھ کر 4 ہزار 601 ہو گئی ہے، جبکہ 66 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

  • چیف جسٹس گلزار احمد کی کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے  ہدایات جاری

    چیف جسٹس گلزار احمد کی کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ہدایات جاری

    اسلام آباد :چیف جسٹس گلزاراحمد نے کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ہدایات جاری کردیں، جس کے تحت سپریم کورٹ ملازمین کو بائیو میٹرک حاضری لگانے سے روک دیا گیاہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد نے کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے رجسٹرارسپریم کورٹ کو ہدایات جاری کردیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آنے والے سائلین کی سکریننگ کی جائے گی ، سائلین کے جسم کا درجہ حرارت چیک کیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ ملازمین کو بائیو میٹرک حاضری لگانے سے روک دیا گیا اور سپریم کورٹ میں ہاتھ صاف کرنے کیلئے سینی ٹائزر لگا دیئے گئے جبکہ سپریم کورٹ ملازمین میں کورونا وائرس سے بچاﺅ کا ہدایات نامہ تقسیم کیاجائے گا۔

    مزید پڑھیں : کرونا وائرس ، حاضری کے لیے بائیومیٹرک نظام میں تبدیلی کا فیصلہ

    یاد رہے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ سمیت تمام عدالتوں میں حاضری کے لیے بائیومیٹرک نظام میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا اور تمام ملازمین کوبائیومیٹرک نظام میں چہروں سے شناخت کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے بائیومیٹرک نظام میں تبدیلی کا نوٹی فکیشن بھی جاری کیا تھا، نوٹی فکیشن کا اطلاق پورے صوبے کی عدالتوں پر ہوگا۔

    اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے بعد ماتحت عدالتوں میں بھی بائیو میٹرک حاضری لگانے سے اسٹاف کو روک دیا گیا تھا اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی منظوری کے بعد رجسٹرار کی جانب سے بائیو میٹرک حاضری نہ لگانے کا مراسلہ بھی جاری کیا گیا تھا۔

    جس میں کہا گیا تھا کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات کے پیش نظر تمام ڈسٹرکٹس کورٹ میں عدالتی عملہ پرانی پریکٹس کے مطابق رجسٹر پر حاضری لگائے گا ، رجسٹر پر حاضری عارضی طور پر لگائی جائیں گی۔

  • سپریم کورٹ کا کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم

    کراچی: سپریم کورٹ نے کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسےبنایا جا سکتا ہے جبکہ سول انجینئرز،ماہرین اور ٹاؤن پلانزسےمددحاصل کرنے کی ہدایت کی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے دہلی کالونی اورپنجاب کالونی میں تجاوزات سےمتعلق سماعت کی ، چیف جسٹس نے استفسار کیا ان علاقوں میں تعمیرات کیسےہو رہی ہیں، کنٹونمنٹ بورڈ حکام نے بتایا ہم نےایکشن لیا ہے،کارروائی کررہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا یہ بتائیں،یہ تعمیرات ہوئیں کیسے، اجازت کس نےدی، اٹارنی جنرل صاحب،کنٹونمنٹ بورڈمیں ایسی تعمیرات کی اجازت کون دےرہاہے، 9، 9 منزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، ان سب کوگرائیں، ان علاقوں میں بھی عمارتوں کوگراناپڑےگا۔

    پنجاب کالونی،دہلی کالونی،پی این ٹی میں غیر قانونی تعمیرات گرانے اور گزری روڑپربھی غیرقانونی عمارتیں گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا پی این ٹی کالونی میں بلندعمارتیں غیرقانونی بن رہی ہیں، وفاقی ملازمین کےکوارٹرزکی جگہ عمارتوں کی اجازت کون دےرہاہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا بہت سےمقدمات زیرسماعت ہیں حکم امتناع تک کیسےگراسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ توایسےہی چلتارہےگاآپ کوسخت ایکشن لیناہوگا، اےجی صاحب پوری کالونی ہی میں غیرقانونی تعمیرات ہورہی ہیں۔

    چیف جسٹس نے حکم دیا آپ بلندوبالاعمارتیں گرائیں اورپارک بنادیں، پولیس والوں کی گاڑی کھڑی کرکےسب بن جان جاتاہے، چلیں، آپ صرف سرکاری کوارٹرز رہنے دیں، باقی سب گرائیں۔

    ،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان بلندوبالاعمارتوں کوحکومت استعمال کرسکتی ہےتو چیف جسٹس نے کہا نہیں اٹارنی جنرل صاحب،یہ سب غیرقانونی ہے،سب گرائیں۔

    عدالت نےدہلی،پنجاب کالونی پرکلفٹن کنٹونمنٹ بورڈسےجواب طلب کر لیا، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈحکام نے بتایا دہلی اورپنجاب کالونی وفاقی حکومت کی زمین ہے، جس پرجسٹس سجادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈہرقسم کی عمارتوں کی اجازت دےرہاہے، 60 گز کے اوپر9، 10منزلہ عمارت بنانے کی اجازت دی جارہی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ایسا نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈجس طرح چاہےعمارتوں کی اجازت دے ، کیا آپ کی حکومت چل رہی ہےجواپنی مرضی سےکام کریں، جس ہر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا کہنا تھا کہہم نے بہت سی عمارتیں گرائی ہیں، رہائشی پلاٹ پرگراؤنڈپلس ٹوکی اجازت ہے، کمرشل پلاٹس پر5منزلہ عمارت کی اجازت دےرہےہیں۔

    چیف جسٹس نے کونسل کنٹونمنٹ بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں، آپ انگریزی بول کر ہمارا کچھ نہیں کرسکتے، کیا ہمیں معلوم نہیں کیا حقیقت ہے، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کیا اپنی پوزیشن واضح کر سکتاہے، 5 ،5 کروڑ کے فلیٹ بک رہے ہیں، آپ لوگوں نے خزانے بھرلئے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ لوگوں سے پیسے لے لے کر اپنے خزانے بھررہے ہیں، آپ کےدفترکی ناک کےنیچےیہ سب ہورہاہے، عدالت نے ڈائریکٹر لینڈ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس نے کہا یہ کوثرمیڈیکل اور اس کےبرابرمیں کیسےبڑی عمارتیں بن گئیں، آخرکنٹونمنٹ بورڈمیں کس کی اجازت سےسب ہورہا ہے، ڈائریکٹرکلفٹن کنٹونمنٹ بورڈز نے تسلیم کیا کہ بہت سی عمارتیں غیر قانونی ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ سرکاری زمین آپ پربھروسہ کرکےدی گئیں،کرکیارہےہیں، وہاں کنٹونمنٹ تونہیں رہااب وہاں تواورہی کچھ بن گیا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب آپ کی سٹرکیں ختم ہورہی ہیں، گلیوں میں آدمی نہیں گزرسکتا، کررہے ہیں، طارق روڑ دیکھا ہے ،اب کیا حال ہوچکا، عمارتیں ضرور بنائیں مگرکوئی پلاننگ توکریں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا یہ اب آپ لوگوں کےبس کی بات نہیں، اس کے لیے دنیا سے ماہرین منگوانا پڑیں گے، لائنز ایریا دیکھا ہے، مزار قائد کے اطراف کیا ہو رہا ہے، خدادادکالونی دیکھ لیں،مزارقائدکےماتھےکاجھومربناکررکھاہواہے، مزار قائد کے سامنے فلائی اوور کیسے بنادیا، مزار قائد چھپ کر رہ گیا، عمارتیں بنا ڈالیں، شاہراہ قائدین کانام کچھ اور ہی رکھ دیں وہ قائدین کی نہیں ہو سکتی۔

    جسٹس فیصل عرب نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا ملائشیا فارمولہ سنا ہے آپ نے، کوالالمپور کو کیسے صاف کیا،ذرا اس پرریسرچ کریں، جس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا ہم ملائشیا فارمولے پر ہی کام کر رہےہیں، مجھے تھوڑاسا وقت دیں، وفاق،سندھ حکومت آپس میں بات کرسکتی ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا شہری حکومت کام کر رہی ہے نہ صوبائی نہ وفاقی، کراچی کیلئےپھرکس کوبلائیں جب کوئی حکومت کام ہی نہیں کررہی، کراچی ایک میگا پرابلم سٹی بن چکا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ پلان کرنےکی ضرورت ہے، تھوڑا ساوقت دیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا متاثرین کو جس طرح پیسےدیئےجاتےہیں وہ بھی ہمیں پتہ ہے، جس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے بتایا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لوں گا، حل ضرور نکال لیں گے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کا کوئی وژن نہیں، کیا کرنا ہے کسی کو معلوم نہیں۔

    عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو شہر کا جامع پلان بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کیسے کچی آبادیوں کو جدید طرز پر بنایا جا سکتا ہے، وفاق اور صوبائی حکومت ماہرین سےمشاورت کرکے پلان ترتیب دے۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا اجازت دیں تو ایک پلان دینا چاہتا ہوں، جتنے ادارے ہیں انہوں نے شہر کو جنگل بنا دیا، سرکاری افسران سے صحیح بات عدالت نےکبھی نہیں آئےگی، اس لیےایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی تشکیل دےدی جائے۔

    اےجی سندھ کہا عدالت ماہرین پرمشتمل اعلیٰ اختیاری کمیٹی بنادی جائے، چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا یہ بتائیں، کمیٹی کرے گی ، اینٹی انکروچمنٹ سیل ہے تو صحیح۔

    جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اےمیں خالی گھر کے باہر اینٹ رکھ دیں تودیکھیں کیسےپہنچتےہیں، ڈی ایچ اے ،کنٹونمنٹ  بورڈز نے اختیارات اپنے پاس رکھے ،یہ جسےچاہتے ہیں زمین دیتے اور جسےنہ چاہیں نہیں دیتے، کنٹونمنٹ بورڈز ،ڈی ایچ  اے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

    دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے ہی صوبائی اداروں پرعدم اعتماد کرتے ہوئے کہا سندھ حکومت پر بھروسہ کیا تو کچھ نہیں ہوپائےگا، متعلقہ ادارے سب اچھا ہی کی رپورٹس دیتے رہیں گے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ اگلا ڈی جی ایس بی سی اے لگائیں گےوہ اور 2 ہاتھ آگے ہوگا، ایڈووکیٹ جنرل صاحب، دیکھ لیں یہ سب کوئی باہرسےنہیں کر رہا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کمیٹی بنانا ہمارا کام نہیں، حکومت چاہے تو خود کمیٹی بنادے، یہ سارے کام تو خود حکومت کے ہیں، اے جی سندھ کا کہنا تھا احساس دلانا پڑےگا،کوئی نہیں کررہا ، محسوس کرےتوعدالت یہ کام کرے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کنٹونمنٹ بورڈمیں گزری کاحال دیکھاہے،ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ یہی حالات رہے تو پھر  ادارے سمندر سے آگے بھی تعمیرات کرڈالیں گے، عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گی کوئی کام نہیں کررہا، اچھے لوگ بھی ضرور ہیں،  اس لیے آپ کوئی بڑاحکم دیں، ایک شخص پیسےجمع کرکےفلیٹ خریدے توکیسےتوڑ دیں، فلیٹ میں رہنے والا کہاں جائے گا یہ انسانی معاملہ ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ نہیں چاہتے ہمارےمنہ سے ایسے الفاظ نکلیں توکسی کیلئےنقصان دہ ہو، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا کوئی ادارہ  ٹھیک نہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا جی آپ درست کہہ رہے ہیں، ادارہ کوئی ٹھیک نہیں تو چیف جسٹس نے کہا آپ ووٹ لینےکی نظر سے معاملات دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

    سلمان طالب الدین نے بتایا ریلوے نے غریب 6ہزارلوگوں کوبےگھر دیا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا سلمان صاحب ، انہیں  بیٹھایاکس نے تھا ، آپ کے پاس وسائل ہیں، سب کر سکتے ہیں مگر کریں گے نہیں تو سلمان طالب الدین کا کہنا تھا وفاق نے 100 ارب دینے ہیں، وسائل نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 100 ارب مل بھی جائیں تو کیا ہوگا، ایک پائی لوگوں پر نہیں لگےگی ، 105 ارب روپے پہلےبھی ملےمگر ایک پائی نہیں لگی، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا میں اس شہر میں پیدا ہوا،بتائیں کون سی جگہ خالی چھوڑی ہے، پولیس اسٹیشن تک کرائے پر لے رکھےہیں، سب بیچ ڈالا، ہمیں تکلیف اس لیے ہے آپ نے کچھ نہیں چھوڑا۔

    اےجی سندھ کا کہنا تھا کہ مجھے اور انور منصور کو بھی یہی تکلیف ہے، آخراس شہر کاکیاہوگا، افسران کوکہانیاں سناکر چلے جاتے ہیں،  سارے معاملے کو روکنے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا، جسٹس فیصل عرب نے کہا کوئی گراؤنڈ چھوڑا نہ ہی کوئی اسپتال کی جگہ۔

    سپریم کورٹ نے شہرقائدکا ازسرنو جائزہ لینے کے معاملے پر کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسےبنایا جا سکتا ہے اور سول انجینئرز،ماہرین اور ٹاؤن پلانزسےمددحاصل کریں۔

    سپریم کورٹ نے آگاہی مہم چلانے کا بھی حکم دیا کہ اخبارات،ٹی وی پر لوگوں کوبتایا جائے کراچی کیسے بہتر ہوگا، آئندہ سیشن میں سندھ حکومت کی تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔

    اےجی سندھ سلمان طالب الدین کا کہناتھا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اچھی تجویز دیں گے، ایک کمیٹی بنائی گئی ہےمیں خود اس پربریف کردوں گا، خود بتاؤں گا کراچی کے مستقبل کے لیے کیا حتمی پلان ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا پتہ نہیں چل رہا کہ کس پربھروسہ کریں۔

  • غیر قانونی قبضہ ختم کرائیں، تمام کے تمام گھر گرا دیں ، چیف جسٹس کا حکم

    غیر قانونی قبضہ ختم کرائیں، تمام کے تمام گھر گرا دیں ، چیف جسٹس کا حکم

    کراچی : چیف جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ کڈنی ہل پارک کی زمین پر غیر قانونی قبضہ ختم کرائیں ، تمام کے تمام گھر گرا دیں جبکہ میئرکراچی کو باغ ابن قاسم سے مکمل قبضہ 2 ہفتے میں ختم کرانےکاحکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سرکاری پلاٹوں،پارکوں کی اراضی اور غیرقانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، کڈنی ہل پارک کی زمین پر غیر قانونی قبضے کے معاملے پر کمشنر کراچی نے بتایا ہم نے تمام زمین پر قائم قبضے ختم کرا دیئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کمشنر کراچی صاحب، ایسا نہیں ہے قبضے اب بھی ہیں جبکہ شہری خاتون نے بتایا ساڑھے 7 ایکڑپراب بھی قبضہ ہے۔

    چیف جسٹس نے حکم دیا آپ کل تک ساڑھے7 ایکڑپرغیر قانونی قبضہ ختم کرائیں، 62 ایکٹر پوری کی پوری زمین پرکوئی قبضہ نہیں ہوناچاہیے، پہاڑی پر چاروں طرف تو گھر بنا لیے گئے، وہ گھر بھی گرائیں ،جو غیر قانونی قبضہ کرےگاسب گرےگا۔

    چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے مکالمے میں کہا ہمیں نہ بتائیں قبضہ نہیں کسی ایلین کوبتائیں ، کیا آپ کا تو کوئی گھر شامل نہیں، تمام کے تمام گھر گرا دیں۔

    سول ایوی ایشن کی خالی جگہوں پرجدید پارک بنانےکا حکم


    دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان نے نہرخیام،سول ایوی ایشن اسپورٹس کمپلیکس کی جگہ پر پارک بنانے کاحکم دیتے ہوئے کہا 6 ماہ میں پارک بنا کر رپورٹ جمع کرائیں، سماعت میں ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا علاقےکی کمرشل ویلیوبھی بہت ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کمرشل ویلیو کیلئے ایئرپورٹ کافی ہے۔

    عدالت نے سول ایوی ایشن کی خالی جگہوں پرجدید پارک بنانےکابھی حکم دیا۔

    چیف جسٹس کا میئرکراچی کو باغ ابن قاسم سے مکمل قبضہ 2 ہفتے میں ختم کرانےکاحکم


    باغ ابن قاسم میں غیر قانونی تعمیرات کے معاملے میں میئرکراچی وسیم اختر نے بتایا عمارت گرا دی مگر سریا پڑا ہواہے، سریےکی ملکیت پربلڈرنےحکم امتناع لیاہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا بلڈر کا نام بتائیں،حکم امتناع کیسا، آپ اسے سریا لے جانے دیں اورجگہ خالی کریں۔

    میئرکراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ یہ جگہ خالی کرائیں گے تو پھر کوئی اور آجائے گا، 60 فیصدکراچی کی زمین وفاق،30فیصدسندھ حکومت کےپاس ہے، صرف 10 فیصد زمین میرے پاس ہے تو چیف جسٹس نے کہا آپ اتنےبے بس ہیں تو الیکشن کیوں لڑتےہیں، کیا ضرورت ہے پھر آپ کے مئیر بننے کی۔

    چیف جسٹس نے میئرکراچی کو باغ ابن قاسم سےمکمل قبضہ 2 ہفتےمیں ختم کرانےکاحکم دیتے ہوئے کہا جائیں اور باغ ابن قاسم کواصل حالت میں بحال کرائیں۔

  • چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر جسٹس گلزار کا پہلا کیس

    چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر جسٹس گلزار کا پہلا کیس

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے آج بہ طور چیف جسٹس سپریم کورٹ پہلے کیس کی سماعت کی۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس گلزار نے چیف جسٹس پاکستان بننے کے بعد آج پہلے کیس کی سماعت کی، کیس پنجاب کے ایک پٹواری کی برطرفی سے متعلق تھا، کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے پٹواری محمد نواز کی بر طرفی کے خلاف اپیل مسترد کر دی۔

    چیف جسٹس گلزار احمد نے سماعت کے دوران کہا محمد نواز کا تو معاملہ ثابت ہے اس نے عدالتی حکم کے خلاف کام کیا، اور مس کنڈکٹ کا مرتکب پایا گیا ہے۔ پٹواری محمد نواز کے وکیل نے دلیل دی کہ سارا بوجھ پٹواری پر ڈال دیا گیا لیکن تحصیل دار سمیت 2 افراد ملوث تھے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا معاملے کی انکوائری ہوئی تھی اور فیصلہ محمد نواز صاحب کے خلاف آیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم اس معاملے میں ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔

    یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کھوسہ نے کیرئیر کا آخری کیس سن لیا، کیس کون سا تھا؟

    خیال رہے کہ پٹواری محمد نواز کو 2012 میں نوکری سے برطرف کیا گیا تھا، پنجاب سروس ٹربیونل نے 2013 میں ان کی برطرفی کو برقرار رکھا تھا۔

    یاد رہے کہ تین دن قبل بیس دسمبر کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے بھی اپنے جوڈیشل کیریئر کا آخری کیس سنا تھا، یہ کیس اسلام آباد کی آمنہ بی بی نامی خاتون پر فائرنگ سے متعلق تھا، فائرنگ کرنے والے تین ملزمان کی ضمانت کے خلاف درخواست کا معاملہ نمٹاتے ہوئے سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آمنہ بی بی نے پیشی پر ملزمان کی ضمانت پر اعتراض نہیں کیا تھا، وکیل صاحب سچ بولیں، ایسا لگتا ہے کہ ملزمان کی ضمانت کے بعد معاملات خراب ہوئے ہیں۔

  • جسٹس گلزار احمد نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھا لیا

    جسٹس گلزار احمد نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھا لیا

    اسلام آباد: جسٹس گلزار احمد نے ملک کے 27 ویں چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایوان صدر میں چیف جسٹس آف پاکستان کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں جسٹس گلزار احمد نے ملک کے ستائیسویں چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھایا۔

    صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نئے چیف جسٹس سے حلف لیا، وہ یکم فروری 2022 تک پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان رہیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سبکدوش ہوگئے

    اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں وزیر اعظم عمران خان سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان، وفاقی وزرا، گورنرز، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، سابق چیف جسٹسز، سینئر ججز اور وکلا بھی شریک تھے۔

    دریں اثنا، سپریم جوڈیشل کونسل اور ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے، چیف جسٹس گلزار احمد کے حلف اٹھانے کے بعد آئینی باڈیز کی تشکیل تبدیل ہوئی، جسٹس گلزار سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئر مین بن گئے۔

    چیف جسٹس گلزار ججز کی تقرری کے جوڈیشل کمیشن کے بھی چیئر مین بن گئے ہیں، جب کہ جسٹس عمر عطا بندیال جوڈیشل کونسل کے رکن، اور جسٹس مقبول باقر ججز تقرری کے جوڈیشل کمیشن کے رکن بن گئے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد کون ہیں؟

    2 فروری 1957 کو کراچی میں نام ور وکیل نور محمد خان کے گھر پیدا ہونے والے جسٹس گلزار احمد نے ابتدائی تعلیم شہر قائد کراچی میں حاصل کی، ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری لی اور 1986 میں بہ طور وکیل کیریئر کا آغاز کیا، اور ہائی کورٹ اور پھر 1988 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے، 2001 میں بطور وکیل سپریم کورٹ کا لائسنس حاصل کیا، 2 اگست 2002 کو بہ طور جج سندھ ہائی کورٹ حلف اٹھانے تک جسٹس گلزار احمد کا شمار کراچی کے پانچ بڑے وکلا میں ہوتا تھا۔ انھوں نے 2 اگست 2002 کو سندھ ہائی کورٹ کے جج کا حلف اٹھایا اور 16 نومبر 2011 کو سپریم کورٹ کے جج بنے۔

    2011 میں سپریم کورٹ کے جج بننے کے بعد جسٹس گلزار احمد نے کئی اہم بینچز میں شامل ہوتے ہوئے تاریخ ساز فیصلے سنائے۔ 20 اپریل 2017 کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس کیس فیصلے میں موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ہم راہ اختلافی نوٹ لکھا، جس میں جسٹس گلزار نے سابق وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا تھا۔ جسٹس گلزار احمد نے سابق رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی۔

    کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق حکم جاری کیے اور سندھ حکومت کی کارکردگی پر متعدد بار تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ جسٹس گلزار کو دیوانی، بینکنگ، اور کمپنی قوانین میں مہارت حاصل ہے۔ 2018 میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ہم راہ امریکا میں دیامیر بھاشا ڈیم فنڈ ریزنگ میں حصہ لے چکے ہیں۔ ان کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جسٹس گلزار احمد کے چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم کورٹ میں ایک مرتبہ پھر سے جوڈیشل ایکٹو ازم نظر آئے گا۔ وہ دو سال کی طویل مدت تک اس عہدے پر قائم رہیں گے۔

    خیال رہے سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر  65سال مقرر ہے، چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کا عہدہ تفویض کیا جاتا ہے، اس لحاظ سے سپریم کورٹ کے ججوں کی موجودہ سنیارٹی لسٹ کے مطابق جسٹ گلزار کو چیف جسٹس پاکستان مقرر کیا گیا۔ جسٹس گلزار احمد کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے اور  16ستمبر 2023 تک اس عہدے پر براجمان رہیں گے۔