Tag: چیف جسٹس

  • کسی کو حراست میں رکھنے کی مدت زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے ہے: چیف جسٹس

    کسی کو حراست میں رکھنے کی مدت زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے ہے: چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی کو حراست میں رکھنے کی مدت زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے ہے، اس کے بعد قیدی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج سپریم کورٹ میں سابقہ فاٹا میں حراستی مراکز ختم کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ انسانی زندگیوں اور آئینی آزادی کا معاملہ ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کسی کو حراست میں رکھنے کی مدت زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے ہے، چوبیس گھنٹے میں قیدی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے، کل تک قیدیوں کی تفصیلی فہرست عدالت کو فراہم کی جائے۔

    بعد ازاں، سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

    قبل ازیں اٹارنی جنرل نے ججز کے بینچ میں قاضی فائز عیسیٰ کی شمولیت پر اعتراض کیا، جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ وہ بدستورجج ہیں، ان پر کیسے اعتراض کیا جا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس زیر التوا ہے۔ تاہم جسٹس مشیر نے کہا کہ کیا آپ اٹارنی جنرل کی حیثیت سے اعتراض اٹھا سکتے ہیں؟

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی میں اعتراض اٹھا سکتا ہوں اور میں اعتراض کر رہا ہوں۔ تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کا اعتراض مسترد کر دیا۔ عدالت نے مزید کہا کہ آپ کا اعتراض نوٹ کر لیا ہے، آپ دلائل شروع کریں۔

    چیف جسٹس کے استفسار پر کہ سماعت کیوں ملتوی کی جائے، اٹارنی جنرل نے کہا میں بنچ کے سامنے دلائل دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس حبس بے جا کا ہے، اگر متاثرہ افراد حبس بے جا میں ہیں تو سماعت ملتوی نہیں ہو سکتی، آپ تیار نہیں تو ہم درخواست گزار کے دلائل سنتے ہیں۔ جس پر فرحت اللہ بابر اور دیگر درخواست گزاروں کی جانب سے دلائل کا آغاز ہوا۔

  • کس قانون کے تحت عمر قید کا مطلب 25سال لکھا گیا ہے؟ چیف جسٹس

    کس قانون کے تحت عمر قید کا مطلب 25سال لکھا گیا ہے؟ چیف جسٹس

    اسلام آباد : عمر قید کی مدت کے تعین سے متعلق کیس میں پاکستان بار کونسل کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی استدعا کردی، چیف جسٹس نے کہا کس قانون کے تحت عمر قید کا مطلب 25سال لکھا گیا ہے؟ رحم دلی اور قانون الگ چیزیں ہیں ،عدالت نے قانون پر فیصلہ دینا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بنچ نے عمر قید کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت
    کی ، سماعت میں پاکستان بار کونسل کی جانب سے کیس میں فریق بننے کی استدعا کی ، جس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کیاپاکستان بار کونسل کو عمرقید ہوئی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ہزاروں لوگ عمرقید کی سزا کاٹ رہے ہیں، آپ طے کر لیں کس کس نے اس حوالے سے بحث کرنی ہے، کیس کو بغیر وقفے کے سنیں گے، اس کیس میں ایک ہفتہ بھی لگ سکتا ہے، پاکستان بار کونسل دلائل کے لیے 2سے 3 افراد نامزد کرے۔

    وکیل ذوالفقارخالد نے بتایا اس کیس میں2 ایف آئی آرہیں، تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزم نے پہلے دو قتل کیے پھر دس قتل کیے، درخواست گزارکے کیس میں تو نظر ثانی بھی خارج ہو چکی ، نظر ثانی خارج ہونے کے بعد دوبارہ جائزہ نہیں لیا جاسکتا ، جائزہ لیا تو ہزاروں کیس آئیں گے ،مقدمے بازی ختم نہیں ہوگی۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا صرف عدالت خود سے اپنے فیصلے پر دوبارہ جائزے کا اختیار رکھتی ہے، درخواست گزار نظر ثانی کی بجائے عمر قید کی تعریف پردرخواست دے سکتا ہے۔

    عدالت نے درخواست گزار کو پرانی درخواست واپس لےکرنئی جمع کرانے کی اجازت دے دی، چیف جسٹس نے کہا اس کیس میں ہم نے بہت محنت کی تھی ، کل رات 6 ممالک کے فیصلے پڑھ کر 3بجے سویا تھا، رحم دلی اور قانون الگ چیزیں ہیں ،عدالت نے قانون پر فیصلہ دینا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا وکیل آ ئندہ جیل رولز کی شق 140 پڑھ کر آ ئیں ، جیل رولز بناتے ہوئے پینل کوڈ کو تبدیل کردیا گیا ، کس قانون کے تحت عمر قید کا مطلب 25سال لکھا گیا ہے؟ آ ج سزا کی معیاد سے متعلق کوئی درخواست نہیں۔

    عدالت نے عمر قید کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ آف پاکستان کی نئی ویب سائٹ لانچ کردی گئی

    سپریم کورٹ آف پاکستان کی نئی ویب سائٹ لانچ کردی گئی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کی نئی ویب سائٹ لانچ کردی گئی جس کا افتتاح چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کی نئی ویب سائٹ لانچ کردی گئی ہے، تقریب میں سپریم کورٹ کے تمام جج اسٹاف اور نادرا حکام نے شرکت کی، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ویب سائٹ اپ گریڈ کرنے پر نادرا کے مشکور ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکنالوجی سے معاشروں میں خاموش انقلاب آیا ہے، ہم نے ای کورٹ کا آغاز کردیا ہے، عوام ٹیکنالوجی کے استعمال سے خوش ہیں، استفادہ کررہے ہیں۔

    آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی ہمیں اور ہمارے شعور کو آگے لے جارہی ہے، اب ہم ایک ذہین عدالت ہیں، کمپیوٹر مقدمے کا فیصلہ اب بھی نہیں کرے گا، کمپیوٹر کی مدد سے جج بہتر فیصلہ کرسکیں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پہلی ترجیح ہے عدلیہ کو نئی صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، عدلیہ میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے زبردست فائدہ ہوا، انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ٹرائل کورٹس میں شواہد کے لیے استعمال کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ کوئی ڈاکٹر دور دراز علاقے میں ہے تو اسکائپ کے ذریعے شواہد لیے گئے، عدالتوں کو ویڈیو لنک کے ذریعے منسلک کیا گیا جس سے کلچر میں تبدیلی آئی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایک کیس پشاور، دوسرا لاہور میں تھا ہم نے اسلام آباد میں بیٹھ کر سنا، عدلیہ میں جدت لانے کے لیے ریسرچ سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے، ریسرچ سینٹر کے ذریعے ایک میسج پر کوئی بھی معلومات لی جاسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کمپیوٹر کے ذریعے ججز کو فیصلہ کرنے میں بھی آسانی ہوگی، امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے تعاون کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، ماڈل کورٹس سے عدلیہ کے نظام میں تبدیلی آئی ہے۔

  • جب ضروری ہوگا تب ہی عدالت سو موٹو نوٹس لے گی: چیف جسٹس

    جب ضروری ہوگا تب ہی عدالت سو موٹو نوٹس لے گی: چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ کسی کے مطالبے پر لیا جانے والا سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا، جب ضروری ہوا عدالت سو موٹو نوٹس لے گی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹو ازم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے اور وہی طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹو ازم پر تنقید کرتا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آئین و قانون کے مطابق کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ عدالتی عمل میں دلچسپی رکھنے والے درخواست دیں، سن کر فیصلہ ہوگا۔ تقریر میں کہہ چکا ہوں سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے امور پر استعمال ہوگا۔ جو کسی کے مطالبے پر لیا جائے وہ سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا۔ جب ضروری ہوا عدالت سو موٹو نوٹس لے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سو موٹو پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ ہے اور کم نقصان دہ ہے۔ جوڈیشل ایکٹو ازم کے بجائے جوڈیشل ازم کو فروغ دے رہے ہیں۔ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر زیر التوا مقدمات کی تعداد 1.81 ملین (18 لاکھ 10 ہزار) تھی۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق یہ تعداد کم ہو کر 1.78 ملین (17 لاکھ 80 ہزار) رہ گئی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 19 ہزار 751 مقدمات کا اندراج ہوا، گزشتہ سال عدالت عظمیٰ نے 57 ہزار 684 مقدمات نمٹائے۔ دنیا بھر میں پہلی بار سپریم کورٹ نے ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا۔ ای کورٹ سے سپریم کورٹ پرنسپل سیٹ اور رجسٹریاں منسلک ہوئیں۔ امریکا میں سول ججز کی تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس دنیا کا مستقبل ہے۔ از خود نوٹس سے متعلق مسودہ آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک تیار کر لیا جائے گا۔ مسئلے کو بھی ایک دفعہ ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو مشکل ترین کام قرار دے دیا، انہوں نے کہا کہ آئین صدر کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کا اختیار دیتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کر سکتی۔ صدر کی کسی جج کے خلاف شکایت جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی، دوسری جانب کونسل اپنی کارروائی میں آزاد اور با اختیار ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال سپریم جوڈیشل کونسل میں نجی درخواستوں کی تعداد 56 تھی، گزشتہ سال کونسل میں 102 شکایات کا اندراج ہوا۔ گزشتہ عدالتی سال میں کونسل میں 149 شکایات نمٹائی گئیں۔ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں صرف 9 شکایات زیر التوا ہیں۔ 9 شکایات میں صدر مملکت کی جانب سے دائر 2 ریفرنس بھی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صدر کی جانب سے بھجوائے گئے دونوں ریفرنسز پر کونسل کارروائی کر رہی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ارکان اور چیئرمین اپنے حلف پر قائم ہیں۔ کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر کام جاری رکھے گی۔ انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی توقع نہ رکھی جائے۔

  • گواہ سن لیں اب اگرجھوٹ بولیں گےتو سزا ضرورملے گی، چیف جسٹس

    گواہ سن لیں اب اگرجھوٹ بولیں گےتو سزا ضرورملے گی، چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس  آصف کھوسہ نے دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا گواہ سن لیں اب اگر جھوٹ بولیں گے تو سزا ضرور ملے گی ، قانون میں لکھا ہے جھوٹ بولناجرم ہے، جو سچ نہیں بول سکتا وہ انصاف بھی نہ مانگے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ویڈیولنک کےذریعےلاہوررجسٹری میں دوپارٹیوں کےتنازع میں قتل سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں وکیل نے بتایا دونوں پارٹیوں میں صلح ہوچکی ہے، جس پر عدالت نے کہا کیس میں 13 سے11 لوگ پہلے ہی بری ہوچکے ہیں، جب سارا جھوٹ ہوتو سچ تلاش کرنا مشکل ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے اہم ریمارکس میں کہا دونوں پارٹیوں نے اتناجھوٹ بولا کہ سچ ڈھونڈنا مشکل ہوگیا، دونوں پارٹیاں جھوٹ کا پلندہ ہیں ،اگر اتنا جھوٹ بولیں گے تو ہم فیصلہ کیسے کریں گے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اتنے جھوٹ کے بعد کچھ باقی ہی نہیں رہ جاتا، 100 میں سے 95 فیصد پورے مقدمے میں جھوٹ بولا گیا، کیس پڑھتے ہوئے حیران رہ گیا اتنا جھوٹ کیسے بولاجا سکتا ہے، نچلی عدالتوں کو کیوں کچھ نظر نہیں آتا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ساری دنیامیں قانون ہےگواہ جھوٹ بولےگاتومقدمہ ختم، 1951 میں لاہور ہائی کورٹ نے کہا جھوٹ بول لیں سچ تلاش کر لیں گے، سارامعاملہ1951کےبعدخراب ہوا، عدالت نےجھوٹ بولنے کا لائسنس جاری کردیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کیسےجھوٹ بولنےکی اجازت کسی کودےسکتی ہے، قانون میں لکھا ہےکہ جھوٹ بولناجرم ہے، کوئی اگرجھوٹ بولےگاتوفائدہ ملزم کوہوگا۔

    جسٹس آصف کھوسہ دوٹوک الفاظ میں کہا گواہان سن لیں اب اگرجھوٹ بولیں گےتوسزاضرورملےگی، جو سچ نہیں بول سکتا وہ انصاف بھی نہ مانگے۔

    بعد ازاں عدالت نے مشتاق احمد اور نور الحق کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔

  • اگر کیس میں وجہ عناد ثابت نہ ہو تو سزائے موت نہیں ہو سکتی، چیف جسٹس

    اگر کیس میں وجہ عناد ثابت نہ ہو تو سزائے موت نہیں ہو سکتی، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم محمد سلیم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کیس وجہ عناد ثابت نہ ہو تو سزائے موت نہیں ہو سکتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    دوران سماعت وکیل مقتول نے کہا کہ 2006 میں فیصل آباد میں قتل کا واقعہ پیش آیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا اس کیس میں وجہ عناد معلوم نہیں ہے،اگر وجہ عناد ثابت نہ ہو تو سزائے موت نہیں ہو سکتی۔

    وکیل مقتول نے کہا کچھ دن پہلے رقم پر ملزم اور مقتول کا جھگڑا ہوا تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کیاجھگڑے کے کوئی گواہ پیش کیے گئے،اس کیس میں ریکوری بھی گرفتاری کے بعد کی گئی۔

    دلائل سننے کے بعد عدالت نے قتل کے ملزم محمد سلیم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔

    خیال رہے ٹرائل کورٹ نے ملزم محمد سلیم کو سزائے موت سنائی تھی،لاہورہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔

  • ایک نیا کام انسان سوچےپھروہی کام چندماہ میں ہو جائے، بےحد خوشی ہوتی ہے، چیف جسٹس

    ایک نیا کام انسان سوچےپھروہی کام چندماہ میں ہو جائے، بےحد خوشی ہوتی ہے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے محمد افضل کو قتل کیس میں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا، چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس میں کہا ایک نیا کام انسان سوچےپھروہی کام چندماہ میں ہو جائے، بےحد خوشی ہوتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ویڈیولنک سے پرنسپل سیٹ اسلام آباد، لاہوررجسٹری اور پشاور رجسٹری میں وارا بندی کے تنازعے پر اللہ دتہ کے قتل سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    وکیل نے کہا واقعہ 2002 میں پیش آیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا چار لوگوں کو20 سے زائد زخم آئے، ایسا لگ رہا ہے کہ دفاع کی بنا پر قتل ہوا ، دونوں طرف سے بھرپور حملے کیئے گئے۔

    سپریم کورٹ نے محمد افضل کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا، ٹرائل کورٹ نے محمد افضل کو سزائےموت کی سزا دی تھی اور ہائی کورٹ نے محمد افضل کو 2011 میں بری کر دیا تھا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کےاہم ریمارکس میں کہا آج تو کمال ہو گیا ہے،بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے، ایک نیا کام انسان سوچےپھروہی کام چندماہ میں ہو جائے، بےحد خوشی ہوتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا آج ہم لاہور،پشاوررجسٹری کی ایک ساتھ مقدمےکی سماعت کررہےہیں، ٹیکنالوجی کے باعث لوگوں کے پیسوں کی بچت ہوگئی ہے، وکلاپرنسپل سیٹ کا کیس، دوسری رجسٹری کیس میں ایک ساتھ پیش ہوسکتے ہیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا ویڈیولنک کےمقدمات کی سماعت کیلئےایک مستقل بینچ بنائیں گے، ویڈیولنک کیلئےبنایا گیابنچ پوراہفتہ مختلف رجسٹریوں کے مقدمات کی سماعت کرےگا۔

  • جہاں بھی سچ کو جھوٹ سے ملائیں گے سب برباد ہو جائےگا، چیف جسٹس  آصف کھوسہ

    جہاں بھی سچ کو جھوٹ سے ملائیں گے سب برباد ہو جائےگا، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے محمد سبطین قتل کیس میں ملزم کی بریت کے خلاف درخواستیں مسترد کر دیں ، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا سپریم کورٹ واضح کہہ چکی ہے کہ جہاں بھی سچ کو جھوٹ سے ملائیں گے سب برباد ہو جائےگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے محمد سبطین کے قتل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس  آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ چھ سال گزر چکے ہیں عبد القیوم کو بری ہوئے، چاروں عینی شاہدین زخمی تھے پھر بھی سچ نہیں بولا، حالات جب خراب کر دیئے جائیں تو پھر نتائج بھی خراب ہی آتے ہیں، گواہوں کو کم از کم سچ بولنا چاہیے تھا۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ کچھ تو سچ بولا ہے ، سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ جہاں بھی سچ کو جھوٹ سے ملائیں گے سب برباد ہو جائےگا۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اللہ کا حکم ہے سچ کو غلط ملت نہ کرو، ملزمان کا رول ہی بدل دیا گیا، سارا مسئلہ پانی سے شروع ہوا اور اس حوالے سے کوئی ثبوت ہی نہیں ہے، جو گواہ اپنی حد تک سچ نہیں بتا سکے ٹرائل کورٹ نے دوسروں کے حوالے سے کیسے یقین کر کے عبد القیوم کو سزا دے دی۔

    دلائل سننے کے بعد عدالت نے ملزم کی بریت کے خلاف درخواستیں مسترد کر دیں۔

    یاد رہے کہ ٹرائل کورٹ نے عبد القیوم کو عمر قید جبکہ محمد افضل اور مختار احمد کو بری کر دیا تھا،ہائیکورٹ نے 2013 میں عبد القیوم کو بری دیا تھا۔

  • اللہ کی رضا کے لیےسچ بولنا چاہیے، چیف جسٹس سپریم کورٹ

    اللہ کی رضا کے لیےسچ بولنا چاہیے، چیف جسٹس سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے غیرت کے نام پر قتل کیس میں ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا ، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ہمیں بچپن سے بتایا جاتا ہے کہ برے کام کا برا نتیجہ ہوتا ہے اللہ کی رضا کے لیےسچ بولنا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے ناجائز تعلقات کی بنا پر مطلوب حسین کے قتل سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے کی۔

    دور ان سماعت وکیل نے کہاکہ رات کو نو بجے کھیتوں میں قتل کیا گیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا ہمیں بچپن سے بتایا جاتا ہے کہ برے کام کا برا نتیجہ ہوتا ہے، اگر مقتول نے برا کام کیا تھا تو یہی انجام ہونا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا جب بیٹے کی لاش سامنے پڑی تھی تو باپ کے دل می تو اللہ کا ڈر ہونا چاہیے تھا، جھوٹ بول کر تین لوگوں کو جیل بھجوا دیا، کافی سالوں بعد معلوم ہوا کہ وہ لوگ ملوث ہی نہیں تھے، اللہ کی رضا کےلئے سچ بولنا چاہیے۔

    مزید پڑھیں : اللہ کے لیے سچے گواہ بن جاؤ، چیف جسٹس

    عدالت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے محمد افضل عرف ننی کو بری کر دیا، عدالت نے محمد افضل عرف ننی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا۔

    یاد رہے کہ 2003 میں گجرانوالہ کے گاو¿ں رکھ گروکھی میں واقعہ پیش آیا تھا ، ٹرائل کورٹ نے محمد افضل عرف ننی کو سزائے موت کی سزا دی تھی۔ہائیکورٹ نے محمد افضل عرف ننی کی سزا کم کرکے عمر قید کر دی تھی۔

    خیال رہے سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم ممتاز کو بری کردیا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قتل کے ملزم ممتاز کو بری کرتے ہوئے جھوٹی گواہی پر اہم ریمارکس میں کہا تھا نہ اسلام جھوٹ کی اجازت دیتا ہے اور نہ قانون تو عدالت کیسےجھوٹ کی اجازت دے سکتی ہے، اللہ کے لئے سچے گواہ بن جاؤ چاہے والدین، بہن بھائیوں یا رشتے داروں کے خلاف گواہی کیوں نا دینا پڑے۔

  • سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کردیا گیا

    سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کردیا گیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جھوٹ بول کرملزمان کو پھانسی نہیں دلوائی جاسکتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔

    دوران سماعت عدالت نے کہا کیس میں یہ نہیں پتہ کہ کس ملزم نےقتل میں کیاکرداراداکیا ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  جب یہ معلوم نہ ہو کہ قتل کیس میں کس کا کیا کردار ہے تو اس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔

    سر کاری وکیل کا کہنا تھا کہ 1996 میں ضلع لاہور کے علاقے نارواں کوٹ میں ڈکیتی کے دوران شفیقہ بی بی اور اس کے پانچ بچوں کو قتل کر دیا گیا، قتل ہونے والے بچوں میں ایک بچہ دو سال کا بھی تھا، ملزمان کے فنگر پرنٹس اور سر کے بال برآمد ہوئے۔

    وکیل ملزمان کے مطابق ملزمان کے خلاف کوئی بھی گواہ موجود نہیں،جھوٹے فنگر پرنٹ بنا کر ملزمان کو پھنسایا گیا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جھوٹ بول کر چار ملزمان کو پھانسی نہیں دلوائی جا سکتی، اس کیس میں پولیس نے وہ کیا جو ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ پولیس کو کرنا چاہیے،ہم ہمیشہ کہتے ہیں ایسے کیسز میں پولیس کوفنگر پرنٹ لینے چاہیں۔

    وکیل ملزم نے کہاکہ جب یہ واقعہ ہو اس وقت ملزمان کی عمر 17 اور 18 سال تھی، جبکہ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزمان 23 سال سے جیل میں ہیں اور اب آدھی سے زیادہ عمر کاٹ چکے ہیں۔

    دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا۔

    خیال رہے ملزم سرفراز،جاوید، ندیم اور محمد یوصف پر شفیقہ بی بی اور اسکے پانچ بچوں کے قتل میں ملوث تھے، ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے چاروں ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔