Tag: چیف جسٹس

  • نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے؟ چیف جسٹس

    نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے؟ چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایڈیشنل کلکٹرانکم ٹیکس لاہور کی بریت پرنیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے، ہم نے پہلے بھی کہا آپ کےکام نہیں آئیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایڈیشنل کلکٹر انکم ٹیکس لاہور محمد اقبال کی بریت پر نیب اپیل پر سماعت کی۔

    نیب پراسیکوٹرنے عدالت عظمی کوبتایا کہ محمد اقبال احمد نے آٹھ غیر قانونی اور بے نامی جائیدادیں خریدکر آگے فروخت کر دیں، چیف جسٹس نے نیب پراسیکوٹر سے کہا کہ الزام ثابت کرناآپ کاکام ہے، نیب اپنے کام سپریم کورٹ سے کیوں کرانا چاہتا ہے،چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے کہا آپ کی اپنی حکومت ہے اپنے کام خود کریں، ہم نےپہلے بھی کہا آپ کےکام نہیں آئیں گے، اگر مالک اور بے نامی دار خود کہہ رہے ہیں کہ جائیداد ہماری نہیں تو آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ آپ کی غلطی کی ہے کہ 342 کے درست سوالات عدالت میں پیش نہیں کیے۔

    عدالت نے ایڈیشنل کلکٹر انکم ٹیکس لاہور محمد اقبال احمد کی بریت کیخلاف نیب کی اپیل مسترد کر دی اور کہا استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا، ملزم کیخلاف اورکوئی مقدمہ ہوتو نیب تحقیقات جاری رکھے۔

    خیال رہے ٹرائل کورٹ نے محمد اقبال احمد کو 2006 میں 10 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ کیا جبکہ ہائی کورٹ نے ملزم کو بری کر دیا تھا۔

    بعد ازاں ملزم کی بریت کےخلاف نیب نےسپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    یاد رہے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو گائیڈ لائن دے دی اور کہا ملزم خاموش بھی رہےتو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے، شک وشبہ سے بالاتر کیس کو ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

  • پاکستان کی عدالتیں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

    پاکستان کی عدالتیں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

    مانچسٹر: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم نے کہا ہے کہ عدلیہ پر جانبداری کا الزام بے بنیاد ہے، پاکستان کی عدالتیں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں۔

    چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردارمحمد شمیم خان کا مانچسٹر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدلیہ پر جانبداری کا الزام بے بنیاد ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں بہت حد تک بہتری آئی ہے، زیر التوا کیسز کو جلد نمٹایا جائے گا، ملک میں انصاف کا فروغ ہورہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانیز کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں سیل بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے اوورسیز کے معاملات نمٹائیں جائیں گے۔

    جسٹس سردار محمد شمیم نے بتایا کہ مذکورہ سیل اوورسیز سیل عدالتی کیسز کے متعلق معاملات کو دیکھے گا، اوورسیز پاکستانیز ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔

    یاد رہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد انوار الحق کے ریٹائر ہونے کے بعد نئے چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان نے یہ عہدے رواں سال جنوری میں سنبھالا ہے۔

  • عوامی نمائندوں کا ایوان ہو یا کرکٹ کا میدان، کسی ادارے سے اچھی خبریں نہیں آرہیں: چیف جسٹس

    عوامی نمائندوں کا ایوان ہو یا کرکٹ کا میدان، کسی ادارے سے اچھی خبریں نہیں آرہیں: چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ عوامی نمائندوں کا ایوان ہو یا کرکٹ کا میدان، کسی بھی ادارے سے اچھی خبریں نہیں آ رہیں، جب ٹی وی کھولیں شور شرابا ہی سنائی دیتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں ماڈل کورٹس کے ججز کے لیے فوری انصاف کی فراہمی سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ معیشت کی صورت حال سے بھی مایوسی جھلکتی ہے، اچھی خبریں صرف عدلیہ سے مل رہی ہیں، فوری اور سستے انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہے، جرائم کے خاتمے کے لیے نظام بہتر بنا رہے ہیں۔

    [bs-quote quote=”چھ اضلاع میں قتل اور منشیات کے مقدمات کا خاتمہ ہو چکا، آیندہ ماہ 10 اضلاع میں قتل، منشیات کے مقدمات ختم ہوں گے۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس”][/bs-quote]

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ معیشت آئی سی یو میں ہے، معیشت کی ابتری کی وجہ کون ہے یہ الگ بات ہے، قائد ایوان کو نہ قائد حزب اختلاف کو بات کرنے دی جاتی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں معمولی جرائم میں جو جیل جاتا ہے اس کے بیوی بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، یہ کبھی نہیں سوچا گیا قیدی کے بیوی بچوں کا خیال کون رکھے گا، کمانے والا جیل چلا جائے تو اہل خانہ پر کیا گزرے گی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پہلے زیر التوا فوجداری مقدمات ختم کر کے معاشرے کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا، صرف 48 دنوں میں 5 ہزار سے زائد ٹرائل مکمل ہوئے، 6 اضلاع میں قتل اور منشیات کے مقدمات کا خاتمہ ہو چکا، آیندہ ماہ 10 اضلاع میں قتل، منشیات کے مقدمات ختم ہوں گے۔

    آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پالیسی ساز کمیٹی 24 جون کو سول اور فیملی ماڈل کورٹس کا فیصلہ کرے گی، کرایہ داری اور مجسٹریٹ ماڈل کورٹس بھی قائم کریں گے، جنس کی بنیاد پر تشدد اور کم عمر ملزمان کے لیے نئی عدالتیں بنا رہے ہیں، 116 اضلاع میں خواتین پر تشدد کے خلاف عدالتیں بنا رہے ہیں، اب خواتین کو آزادی ہوگی کہ ان عدالتوں میں کھل کر بات کریں، خصوصی عدالتیں بنانے کا مقصد خواتین اور بچوں کو بہتر ماحول دینا ہے۔

    [bs-quote quote=”ایک سو سولہ اضلاع میں خواتین پر تشدد کے خلاف عدالتیں بنا رہے ہیں، خواتین کو آزادی ہوگی کہ ان عدالتوں میں کھل کر بات کریں۔” style=”style-8″ align=”right” author_name=”آصف سعید کھوسہ”][/bs-quote]

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر ماہ ہر ضلع میں فوجداری مقدمات میں ایک جج کا اضافہ کیا جائے گا، ملک کے تمام اضلاع میں چائلڈ کورٹس بنائے جائیں گے، چائلڈ کورٹس میں عملہ سادہ لباس میں ہوگا تاکہ بچے خوف زدہ نہ ہوں، بچوں کی عدالت میں گھر جیسا ماحول ہوگا، کوئی یونی فارم نہیں پہنے گا۔

    انھوں نے کہا کہ ای کورٹس کے ذریعے مقدمات سنے، کوئی کیس ملتوی نہیں ہوا، ہر پیشی پر سائلین کو کراچی سے وکیل لانا انتہائی مہنگا پڑتا تھا، کوئٹہ سے ای کورٹ سسٹم چاہتا تھا لیکن تکنیکی مسئلہ ہوا، اب جولائی کے آخر تک کوئٹہ سے بھی ای کورٹ سسٹم شروع ہوگا، سپریم کورٹ میں جدید ترین ریسرچ سسٹم قائم کیا جا رہا ہے، 3 سپریم کورٹ ججز اور 7 ریسرچرز ٹریننگ کے لیے امریکا جائیں گے، ملک بھر کے ججز ریسرچ سینٹر سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ تمام عدالتی فیصلے آرٹیفشل انٹیلی جنس سسٹم میں فیڈ کریں گے، یہ سسٹم حقایق کے مطابق فیصلے میں مدد کرے گا، سسٹم ججز کو بتائے گا کہ ماضی میں ان حقایق پر کیا فیصلے ہوئے۔

    آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ججز نے جذبے سے ڈیلیور کرنا شروع کر دیا ہے، قرآن میں ارشاد ہے اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، خالق کاینات ججز سے محبت کرنے لگے تو کبھی تکلیف نہیں ہوگی، نہ خوف ہوگا نہ ڈر۔

  • ملزم خاموش بھی رہے تو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے  ، چیف جسٹس

    ملزم خاموش بھی رہے تو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے ، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو گائیڈ لائن دے دی اور کہا ملزم خاموش بھی رہےتو جرم کو نیب نے ثابت کرناہے، شک وشبہ سے بالاتر کیس کو ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے محکمہ خوراک بلوچستان کے گندم خوربرد میں ملوث ملازمین کی اپیلوں پر سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم خاموش بھی رہے تو جرم کو نیب نے ثابت کرنا ہے۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا گندم خوردبرد میں ملوث ٹھیکیداروں نے پلی بارگین کرلی، حکومت کا نقصان پلی بارگین سے ریکور ہو گیا۔

    جسٹس طارق مسعود نے کہاکہ گندم کے ٹرک راستے میں غائیب ہوئے، دو ملازمین نے ٹرک غائب ہونے کی اطلاع دی دو نے نہیں دی۔

    چیف جسٹس نے کہاکہ محکمہ فوڈز ملازمین نے کام میں غفلت کی تو محکمانہ کاروائی ہو گی، ادارہ کی غفلت پر نیب قانون کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے،شک و شبہ سے بالاتر کیس کو ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

    اعلی عدالت نے محکمہ خوراک بلوچستان میں گندم خورد بردکیس کے ملزمان کی سزا کوکالعدم قراردے دیا۔

    یاد رہے کہ اکبر، پرویز بیگ، رشید احمد اور محمد حسین پر گندم اسٹاک میں خوردبرد کا الزام تھا ،احتساب عدالت نے ملزمان کو سزا سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے بھی سزا کو برقرار رکھا تھا۔

  • نجی اسکولوں میں مغربی ماحول کی شکایت پر چیف جسٹس کا دو ٹوک جواب

    نجی اسکولوں میں مغربی ماحول کی شکایت پر چیف جسٹس کا دو ٹوک جواب

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران والدین نے اسکولوں میں مغربی ماحول کی شکایت کر دی جس پر چیف جسٹس نے دو ٹوک جواب دے کر انھیں خاموش کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق نجی اسکولز فیس اضافے کے کیس کی سماعت کے دوران والدین نے چیف جسٹس سے شکایت کی کہ نجی اسکولوں میں مغربی طرز زندگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

    والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ نجی اسکولوں میں ڈسپلن کا فقدان ہے جس کی وجہ سے بچے منشیات کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔

    تاہم چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے شکایت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو ماحول پسند نہیں تو بچوں کا اسکول بدل لیں، کسی نے زبردستی نجی اسکول میں پڑھانے کا نہیں کہا۔

    چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ عدالت نے اسکولوں کے نظام کو نہیں بلکہ قانون کو دیکھنا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پرائیوٹ اسکولز میں مستحق طالب علموں‌ کا کوٹہ مقرر ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ

    دریں اثنا، کیس کی سماعت کے دوران فیس اسٹرکچر پر بحث کی گئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نجی اسکول ہالوین پارٹی کے الگ پیسے لیتے ہیں؟ جس پر وکیل اسکولز نے بتایا کہ ٹیوشن فیس کے ساتھ فیس اسٹرکچر میں سب کچھ شامل ہوتا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ ٹرپ اور مختلف دن منانے کے الگ چارجز لیے جاتے ہیں، کیک ڈے کے نام پر سب بچوں سے کیک منگوائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے بھی کہا کہ منگوائی گئی اشیا ٹیچرز گھر لے جاتی ہیں، آج تک بچوں کو وہ اشیا واپس نہیں ملیں جو ان سے منگوائی گئیں۔  وکیل اسکولز نے کہا کہ ٹرپ کے چارجز ہمیشہ سے ہی الگ لیے جاتے ہیں۔

    فیسوں میں اضافے سے متعلق والدین کا کہنا تھا کہ فیس میں سالانہ 5 فی صد اضافہ مناسب ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ والدین سمیت سب کے مفاد کو مد نظر رکھ کر اس کیس کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق واپس نہیں ریگولیٹ کیے جا سکتے ہیں، تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، نجی اسکولز کو ریگولیٹ کرنا بھی ریاست کا کام ہے۔ اسکولوں کے وکیل نے کہا کہ ریاست کی تعلیم کی فراہمی میں نا کامی کے خلا کو نجی اسکولوں نے پورا کیا، یہاں معیاری تعلیم کے لیے پروگرامز مرتب کیے جاتے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اسکولوں کو سالانہ 5 فی صد سے زائد اضافہ چاہیے تو لائسنس سرنڈر کر دے، چیف جسٹس نے کہا نجی اسکولوں کا کاروبار نہیں چل رہا تو چھوڑ کر اور بزنس کر لیں، اسکولوں میں جو ہوتا ہے سب معلوم ہے، یونیفارمز اور کتابوں پر الگ سے کمائی کی جاتی ہے، اسکولوں کا منافع اربوں میں ہے، نقصان صرف نفع میں ہوتا ہے، اسکولوں کو فیس میں غیر معمولی اضافے کے لیے 3 سال انتظار کرنا پڑے گا۔

    سپریم کورٹ میں اسکول فیس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کل 12 بجے اسپیشل بینچ کرے گا۔

  • عدلیہ مخالف نعرے، چیف جسٹس نے ن لیگی رہنماؤں کی معافی مسترد کردی

    عدلیہ مخالف نعرے، چیف جسٹس نے ن لیگی رہنماؤں کی معافی مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کیس میں ن لیگ کے سابق ایم این اے شیخ وسیم اختر اور مقامی رہنما احمد لطیف کی غیر مشروط معافی مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے کہا یہ وتیرہ بن گیا ہے پہلے گالیاں دوپھرمعافی مانگ لو۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور عدلیہ کے خلاف نعرے لگانے سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کی ۔

    عدالت نے سپریم کورٹ نے (ن )لیگ کے سابق ایم این اے شیخ وسیم اختر کی توہین عدالت سزا کے خلاف اپیل اور قصور کے مقامی لیگی رہنما احمد لطیف کی اپیل خارج کر دی ۔

    دونوں لیگی رہنما عدالت سے معافی مانگتے رہے، عدالت نے دونوں رہنماؤں کی غیر مشروط معافی مسترد کردی اور توہین عدالت کی سزا اور نااہلی برقرار رکھی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غیر مشروط معافی پر سزا 6 ماہ سے ایک ماہ کردی، ججز اور عدلیہ کے خلاف نعرے لگائے گئے، دونوں رہنما ان پڑھ نہیں، بڑی ذمہ دار شخصیات تھیں، کیوں نہ دونوں شخصیات کی سزا بڑھا دیں ؟

    چیف جسٹس نے کہاکہہ وطیرہ بن گیا ہے پہلے گالیاں دو پھر معافی مانگ لو۔

    دونوں رہنما ان پڑھ نہیں، بڑی ذمہ دار شخصیات تھیں، کیوں نہ دونوں  کی سزا بڑھا دیں، چیف جسٹس

    کیل نے کہاکہ ہم نے پہلے بھی معافی مانگی اب بھی غیر مشروط معافی مانگتے ہیں، عدالت نے غیر مشروط معافی قبول کرنے کی استدعا مسترد کردی، دونوں رہنما اپنی ایک ماہ قید کی سزا پوری کرچکے ہیں۔

    عدالت نے کہاکہ سیاسی جماعت کے لیڈر کی نااہلی پر عدلیہ اور ججز کے خلاف نعرے لگائے گئے، ہائی کورٹ نے معافی کی وجہ سے ایک ماہ کی سزا دی ، ہائی کورٹ کے فیصلے میں ہماری مداخلت کی ضرورت نہیں۔

    واضح رہے کہ قصور میں مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی اور کارکنان کی جانب سے عدلیہ مخالف ریلی نکالی اور ٹائر جلائے، ریلی میں اعلیٰ عدلیہ اور ججوں کے اہل خانہ کے خلاف نازیبا اور غیراخلاقی زبان کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لے کر گالیاں دی گئیں۔

    اس ریلی کی قیادت مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی وسیم اختر، رکن پنجاب اسمبلی نعیم صفدر اور ناصر محمود نے کی تھی۔

  • چیف جسٹس کا ماڈل کورٹس کو خراج تحسین، رمضان کے بعد ماڈل سِول کورٹس بھی کام شروع کر دیں گی

    چیف جسٹس کا ماڈل کورٹس کو خراج تحسین، رمضان کے بعد ماڈل سِول کورٹس بھی کام شروع کر دیں گی

    اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ماڈل کورٹس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا، رمضان کے بعد ماڈل دیوانی عدالتیں بھی کام شروع کر دیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ماڈل عدالتوں کی یکم اپریل سے 27 اپریل تک کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔

    رپورٹ میں بتایا کہ قتل کے 888، منشیات کے 1413 مقدمات پر فیصلہ سنایا گیا، 67 مجرمان کو سزائے موت اور 195 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق 520 دیگر مجرمان کو کل 1639 سال 8 ماہ اور 2 دن قید کی سزا دی گئی، مجموعی طور پر 8 کروڑ 70 لاکھ 75 ہزار سے زائد جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  ماڈل کورٹس کی تیز ترین سماعت جاری، ایک دن میں 71 مقدمات کا فیصلہ

    اجلاس میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور دیگر ججز نے ماڈل کورٹس کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کیا، اور ماڈل کورٹس کے تمام ججز کو تعریفی اسناد دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

    اجلاس میں سول ماڈل کورٹس کے لیے تجاویز کو حتمی شکل دینے کے لیے بھی مشاورت کی گئی، بتایا گیا کہ رمضان کے بعد ماڈل دیوانی عدالتیں بھی کام شروع کر دیں گی۔

    خیال رہے کہ سائلین کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی کے لیے پاکستان کی ماڈل کورٹس میں مقدمات کی تیز ترین سماعت کا سلسلہ جاری ہے، اس سلسلے میں 116 ماڈل عدالتوں نے 24 اپریل کو مجموعی طور پر 71 مقدمات نمٹائے۔

  • سوچنا ہوگا معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے؟ چیف جسٹس

    سوچنا ہوگا معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے؟ چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ سوچنا ہوگا کہ کیا معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار کی جانب سے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک کو معاشی و سماجی مشکلات کے چیلنج کا سامنا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے؟ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

    انھوں نے کہا کہ پولیس کا پہلا فرض عوام کی خدمت ہے، پولیس اصلاحات کمیٹی میں جانے مانے ماہرین شامل کیے گئے ہیں، یہ کمیٹی جنوری میں بنائی گئی، پولیس کے خلاف شکایات کے لیے ایس پی رینک کے افسر کو مقرر کیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں :  پاکستان کی معیشت پر لوگوں کا اعتماد بڑھ رہا ہے: وزیر اعظم

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایس پی شکایات کے پاس پولیس کے خلاف ہر قسم کی شکایات آتی ہیں، اب تک وہ 21 ہزار سے زائد شکایات پر احکامات دے چکے ہیں۔

    آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ملک کے ہر ضلع میں ماڈل کورٹس قائم کیں، ماڈل کورٹس نے 12 دن میں 1618 مقدمات کے فیصلے کیے، فوری انصاف کے لیے ابھی نظام بدلا نہ ہی قانون اور نہ وکلا۔

    یہ بھی پڑھیں:  سندھ پولیس کی ایک اور نااہلی، ڈیڑھ سال کا بچہ فائرنگ سے جاں بحق

    چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ نے گزشتہ 3 ماہ میں 2 لاکھ مقدمات نمٹائے، جنوری میں سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 40 ہزار سے زائد تھی، آج یہ 38 ہزار رہ گئی، سپریم کورٹ میں 2019 میں دائر فوجداری اپیلوں کی سماعت ہو رہی ہے، جب کہ فوجداری مقدمات کی تمام زیر التوا اپیلیں نمٹائی جا چکی ہیں، اور اب صرف 581 فوجداری اپیلیں رہ گئی ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ کراچی رجسٹری میں کوئی فوجداری اپیل زیر التوا نہیں، عدالتوں میں سرکاری ملازمین کے ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں، سروس مقدمات کے لیے اسپیشل بنچ تشکیل دیا جائے گا۔

  • چیف جسٹس کا بیوی کو زندہ جلانے کے الزام میں نامزد ملزم کو بری کرنے کا حکم

    چیف جسٹس کا بیوی کو زندہ جلانے کے الزام میں نامزد ملزم کو بری کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے مبینہ طور پر بیوی کو زندہ جلانے والے محمد عمران کو بری کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا سپریم کورٹ کا کام آئین اور قانون کی تشریح کرناہے، پھر کہتے ہیں کہ عدالت انصاف نہیں کرتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی  بنچ نے بیوی کے قتل کیس میں شوہر کی درخواست پر سماعت کی ، چیف جسٹس نے کہا کہ واقعہ کے آٹھ روز بعد ایف آئی آر کا اندراج کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، مرحومہ کے میڈیکل ریکارڈ کے مطابق سلنڈر دھماکہ ہوا، میڈیکل رپورٹ استغاثہ کی کہانی کی نفی کرتی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مرحومہ کے شوہر کیخلاف 8 روز بعد ایف آئی آر کا اندراج بعد میں آنے والے خیال کا شاخسانہ ہے، ملزم کے سسرال کی بعد میں نیت خراب ہوئی کہ شاید کچھ پیسے مل جائیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا دیکھیں ہمارا کام کتنا مشکل ہے، سپریم کورٹ کا کام آئین اور قانون کی تشریح کرنا ہے، پھر کہتے ہیں کہ عدالت انصاف نہیں کرتی، آپ نے خود اپنے ساتھ انصاف نہیں کیا۔

    عدالت نے کہاکہ استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا، شک کا فائدہ دیتے ہوئے ملزم محمد عمران کو بری کیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ محمد عمران پر الزام تھا کہ سنہ  2012 میں اس نےفیصل آباد میں اپنی بیوی کو زندہ جلا کر قتل کردیا تھا، ٹرائل کورٹ نے ملزم محمد عمران کو سزائے موت سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔

  • فواد چوہدری کا سپریم کورٹ کو خط، میڈیا شکایات کے لیے قانون میں ترمیم کی درخواست

    فواد چوہدری کا سپریم کورٹ کو خط، میڈیا شکایات کے لیے قانون میں ترمیم کی درخواست

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ الیکٹرانک اور جدید ذرائع سے شکایات کے لیے قانون میں ترمیم کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے، جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ایک عوامی معاملے پر چیف جسٹس کی توجہ چاہتے ہیں۔

    فواد چوہدری نے خط میں لکھا کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، میڈیا معاشرے میں گہری رسائی کے ساتھ طبقات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

    انھوں نے لکھا کہ ہتک عزت اور توہین آمیز اشاعت کے خلاف قوانین کا نفاذ مؤثر نہیں ہے، درخواست ہے جوڈیشل کمیٹی آئندہ اجلاس میں اس پر غور کرے۔

    وزیرِ اطلاعات نے لکھا ’غیر مؤثر قانون سے انصاف اور احتساب کے عمل میں رکاوٹ آئی ہے، ہر شہر اور ضلع میں ججز کو تعینات کرنے کی تجویز ہے، 50 لاکھ یا اس سے زائد آبادی کے اضلاع میں 4 ججز تعیناتی کیے جائیں۔‘

    یہ بھی پڑھیں:  ہمارے نوجوان ریسرچرز ہیروں کی مانند ہیں، صرف تراشنے کی ضرورت ہے: ڈاکٹر عبد القدیر خان

    انھوں نے سپریم کورٹ کو خط میں تجویز دی کہ 25 لاکھ یا اس سے زائد آبادی کے اضلاع میں 2 ججز، 25 لاکھ سے کم آبادی کے اضلاع میں ایک جج تعینات کیا جائے۔

    فواد چوہدری نے خط میں درخواست کی کہ ثبوت، شہادت اور شکایت کے عمل کو سہل بنایا جائے، شہادت کی ویڈیو ریکارڈنگ قانون کو بھی نافذ کیا جائے۔

    انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹس ویڈیو ریکارڈنگ قانون کا نفاذ یقینی بنائیں، اس اقدام سے بد نیتی پر مبنی الزامات اور جعلی خبروں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔