Tag: چیف جسٹس

  • 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری ،  اگلا چیف جسٹس کون ہوگا؟

    26ویں آئینی ترمیم کی منظوری ، اگلا چیف جسٹس کون ہوگا؟

    اسلام آباد :  26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اگلا چیف جسٹس کون ہوگا؟ چیف جسٹس عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے تین سینئرججوں میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے دونوں ایوانوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی،225 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ اپوزیشن کے بارہ ارکان نے مخالفت کی۔

    منظور ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلی کی گئی ہے۔

    آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ جو 25 اکتوبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں، ان کی جگہ چیف جسٹس آف پاکستان کون بنے گا؟

    آئینی ترمیم کے تحت اب چیف جسٹس کا انتخاب سنیارٹی کی بنیاد پر خودکار فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے تین سینئرججزکون سے ہیں؟

    سپریم کورٹ میں تین سینئر ترین ججز

    61 سالہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 27 نومبر 2027 ہے۔ اگر وہ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو وہ تین سال کی مدت کے لیے اس عہدے پر کام کریں گے۔

    60 سالہ جسٹس منیب اختر چیف جسٹس عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر ترین جج ہوں گے، ان کی ریٹائرمنٹ 13 دسمبر 2028 کو ہونی ہے۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ کے تیسرے سینئر ترین جج ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ 22 جنوری 2030 کو ہونی ہے۔

    چیف جسٹس کا انتخاب کیسے کیا جائے گا؟ 

    آئینی ترمیم کے مطابق 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی نامزدگی کا فیصلہ کرے گی، چیف جسٹس تقرر کمیٹی میں8ارکان اسمبلی اور4سینیٹر شامل ہوں گے۔

    کمیٹی چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے سے 14 روز پہلے نئے چیف جسٹس کا نام دے گی، چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے سے تین روز پہلے نئے چیف جسٹس کا تقرر کردیا جائےگا۔

    کمیٹی منتخب کردہ نام کو وزیراعظم کو بھجوائے گی، جو نامزدگی کو حتمی منظوری کے لیے صدر کو بھیجے گی۔

    اگر تین سینئر ججوں میں سے کوئی بھی عہدے سے انکار کرتا ہے تو اگلے سینئر جج پر غور کیا جائے گا، چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی اور 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہوجائیں گے۔

  • ڈبےکھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، چیف جسٹس

    ڈبےکھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، چیف جسٹس

    اسلام آباد : جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی بی 14 میں دوبارہ گنتی کی درخواست پر ریمارکس دیئے ڈبے کھلنے کے بعد فارم45ہویا75اس کی حیثیت نہیں رہتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی بی 14سےپیپلزپارٹی کے غلام رسول کی دوبارہ گنتی اورریٹرننگ افسران کی جانبداری کے الزامات سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی، پی بی 14 میں دوبارہ گنتی اورریٹرننگ افسران کی جانبداری کے الزامات کی درخواست مسترد کردی۔

    سپریم کورٹ نے پی بی 14 سے پیپلزپارٹی کے غلام رسول کی درخواست مستردکردی اور ن لیگ کے محمود خان کی کامیابی کوبرقرار رکھا۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 96 میں سے7پولنگ اسٹیشنز پردوبارہ گنتی کی درخواست دائرکی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کو کیسے پتہ چلا کہ غلط رزلٹ تیار کیاگیا تو وکیل غلام رسول کا کہنا تھا کہ فارم 45 کے مطابق یہ رزلٹ نہیں تھےافسران جانبدار تھے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ڈبےکھلنےکےبعدفارم 45 ہویا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، انتخابات میں سب سے اہم شواہد ووٹ ہوتے ہیں، فارم 45 تو پریذائیڈنگ افسر بھرتا ہے۔

    جسٹس نعیم افغان کا کہنا تھا کہ پریذائیڈنگ افسران نے اصل ریکارڈ پیش کیا، آپ کاپیوں پر کیس چلا رہے ہیں ، آپ کے گواہان نے پریذائیڈنگ افسران کانام تک غلط بتایا ،جسٹس نعیم افغان
    اپ کے گواہ تو خود کوپولنگ ایجنٹس بھی ثابت نہیں کرسکے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ یا تو دوبارہ گنتی پر اعتراض کریں کہ ڈبے کھلے ہوئے تھے، یا کہتے کہ پریذائیڈنگ افسران میرےساتھ تعصب رکھتے۔

    جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیئے کیس بہت سادہ ہے ،ریکارڈ سے آپ کے الزامات ثابت نہیں ہوتے، جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جج صاحب نے بغیر شواہد مجھے فیصلےمیں جھوٹا کہہ دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹا سچا اللہ جانتا ہے ہم حقائق پر فیصلہ کرتے ہیں، یہ میاں بیوی کا کیس نہیں جو جھوٹ سچ کا فیصلہ ہو ، اس کا فیصلہ ریکارڈ پر ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پریزائیڈنگ افسران کی جانبداری ثابت کریں ،بتائیں کیا وہ رشتہ دار تھے ؟ دوبارہ گنتی پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا، پریذائیڈنگ افسر جانی دشمن بھی ہوتوفیصلہ ووٹ سےہوتا ہے ، ووٹوں کے سامنے 45 فارم کی کوئی اہمیت نہیں۔

    وکیل نے کہا کہ پریذائیڈنگ افسران نے سارا فراڈ کیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یونہی الزام نہ لگائیں قانون یاکوئی فیکٹ بتائیں۔

  • چیف جسٹس اور ان کے خاندان نے 31 ہزار 680 مربع فٹ   زمین حکومت کو وقف کردی

    چیف جسٹس اور ان کے خاندان نے 31 ہزار 680 مربع فٹ زمین حکومت کو وقف کردی

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور ان کے خاندان نے 77ویں جشن آزادی کے موقع ہزاروں فٹ زمین حکومت کووقف کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اوران کےخاندان نے 31 ہزار 680 مربع فٹ زمین حکومت کووقف کردی۔

    77ویں جشن آزادی کے موقع پر قاضی فیملی نے اپنی زمین قوم کے لیے دی ، زیارت کوئٹہ میں قائداعظم ریزیڈنسی سے منسلک آراضی انوائرمنٹل سنٹر کو دے دی گئی ہے، جسے ماحولیاتی مرکز کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    قاضی خاندان نے اراضی حکومت کو دینے کے لیے بلوچستان حکومت کوخط لکھ دیا ہے۔

  • انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، چیف جسٹس

    انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا ہے کہ انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، قانون شہادت میں ہے، بار ثبوت پراسیکیوشن پر ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ثقافت میں کئی مثبت پہلوہیں جنہیں ہم بھول جاتے ہیں، انصاف کے بغیرکوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مسماة لفظ اصل میں قانونی زبان میں استعمال ہوتاتھا، مسماة کےلفظ کوایم ایس ٹی لکھاجاتاتھاجوبعدمیں مزید چھوٹا ہو کر ایم ایس بن گیا، یہ لفظ تمام خواتین کیلئے استعمال کیاجاتاتھا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ملازمت کےمقامات پرآئین خواتین کےتحفظ کی ضمانت دیتا ہے، خواتین تعلیم کے شعبے میں اہم کرداراداکررہی ہیں، خواتین کو ملکی ترقی کیلئے ہر شعبے میں اپنا کرداراداکرناچاہیے اور پانچ سے سولہ سال کے بچوں کو تعلیم لازمی حاصل کرنی چاہیے۔

    انھوں نے زور دیا کہ خواتین کی ہر شعبہ میں نمائندگی ضروری ہے، قرآن کاپہلالفظ اقراہےجومردوخواتین میں تفریق نہیں کرتا، قرآن سب سےپہلےتعلیم سب کیلئےکی ہدایت دیتا ہے، اور اسلام میں حج کے دوران ایک خاتون کی پیروی کرتے ہوئے صفا مروہ پر دوڑنا پڑتا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں خواتین کیلئے براہ راست کے علاوہ 18 فیصد مخصوص نشستیں ہیں، قومی اسمبلی سمیت مختلف اداروں میں مخصوص نشستیں ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام نے خواتین کو بہت حقوق دیے ہیں، قرآن پاک کی پہلی آیت کسی تفریق کےبغیراقراسب کیلئےہے، ہمارےنبیﷺنےیہ آیت سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ کو سنائی۔

    غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے انھوں نے کہا غیرت کے نام پر قتل کا کیسز میں غلط استعمال ہوتا ہے، خواتین کوغیرت کے نام پر قتل کیاجاتاہے، خواتین کی بےحرمتی یاغلط الزام لگانےپراسلام میں قذف کی سزا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ قرآن میں خواتین پرالزام لگانےیابےحرمتی کرنےپر80کوڑوں کی سزاہے، پاکستانی قانون کےسیکشن496کےتحت بھی سزا ہے لیکن میں نے پاکستان میں کبھی یہ سزا نہیں دیکھی،اس کے برعکس خواتین کوسزاملتے دیکھا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ قانون شہادت میں ہے بارثبوت پراسیکیوشن پرہوتا ہے، مسلم دنیااپنی تاریخ بھول چکی ہے، اسلام میں خواتین کی کردارکشی قابل سزاجرم ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اسلام میں زنا ثابت کرنے کیلئے4گواہان کی شرط لازم ہے لیکن پاکستان میں 4گواہان کی شرط پوری کئےبغیرہی عورت کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔

  • پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے، چیف جسٹس  کے مخصوص نشستوں کے کیس میں ریمارکس

    پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے، چیف جسٹس کے مخصوص نشستوں کے کیس میں ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں ریمارکس دیئے تحریک انصاف کوہم نےکہاتھاپارٹی الیکشن نہ کرائیں؟ اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے،بطوروزیراعظم الیکشن کمیشن پر اثراندازہو رہے تھے، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سےمتعلق اہم کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجز بینچ نے سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کے پابند نہیں،عدالت آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے، ممکن ہے الیکشن کمیشن کی تشریح سےعدالت متفق ہونہ آپ کی تشریح سے، جس پر وکیل نے کہا کہ سوال یہی ہےالیکشن میں حصہ نہ لینےوالی جماعت کومخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یانہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہناچاہ رہےہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کےمطلب پرتشریح نہ کرے۔

    فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نےصرف مطلب کونہیں بلکہ آئین کی شقوں کےمقصدکوبھی دیکھناہے، تو جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے مخصوص نشستیں ایسی جماعت کوکیسےدی جا سکتی ہیں جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیاآزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر 3دن میں سیاسی جماعت رجسٹرکراسکتےہیں توضروراس میں شامل ہوسکتےہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہتےہیں سیاسی جماعت کیلئے انتخابات میں نشست حاصل کرناضروری نہیں ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں،الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے پی ٹی آئی اورسنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈجماعتیں ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے تو آزاد ارکان اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟کیا آزاد ارکان نے پی ٹی آئی جوائن نہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کی؟

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ کےدلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں، آپ سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کریں یاپی ٹی آئی کی ، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئےاورپھرسنی اتحادکونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    جس پر وکیل سنی اتحادکونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسےعظیم ججزبھی گزرےجنہوں نےپی سی اوکےتحت حلف اٹھانے سے انکارکیا، صرف آئین پر رہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا،ہم یہ نہیں سنیں گے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔

    چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کےحق میں دلائل مفادکےٹکراؤمیں آتاہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتخابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نےامیدواروں کوآزادقراردیاتواپیل کیوں دائرنہیں کی؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا اس سوال کاجواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ رولزآئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تو وکیل نے بتایا کہ جسٹس منصور نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی جماعتوں کوساری مخصوص نشستیں دیدیں گے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیےاڑائی گئیں کیونکہ آئین پرعمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے، اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو کیا ہوگا،کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں، ہمارے آئین کو بنے50سال ہوئے ہیں، امریکااور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی، مشکل سے ملک پٹری پرآتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی کے صدر تھے انھوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی،بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسےانگلیاں نہ اٹھائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کرا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی،آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسزنہیں کیں انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کےعلم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کرلے تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی، الیکشن کس نے کرائے الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کوہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ منت،سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرائے، اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے، بانی پی ٹی آئی بطوروزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہورہے تھے، الیکشن کرانے کیلئے سال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں،آدھی بات نہ کریں۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف نظرثانی زیر التوا ہے،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم چیک کرا لیتے ہیں، حامد خان صاحب آپ نے ہمیں یاد بھی کرایا کہ نظرثانی زیر التوا ہے۔

    وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کیلئے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتےہیں تو فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل کی بار بار رکاوٹ ڈالنےپر چیف جسٹس نے اظہارناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ آپ یوں یوں ہاتھوں کوہلائیں گے تو پھر میں بات نہیں کروں گا ، جب آپ بات کرتے ہیں تو ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرتے، جس پر وکیل سنی اتحاد کونسل نے معذرت کرلی۔

  • پی ٹی آئی نے  دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ چیف جسٹس کا استفسار

    پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ چیف جسٹس کا استفسار

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کی سماعت میں استفسار کیا پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سےمتعلق اہم کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجز بینچ نے سماعت کی.

    سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل میں اعلٰی عدلیہ کےمختلف فیصلوں کاحوالہ دیا گیا ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ کےفیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کونیچرل حدودسےمطابقت پرزوردیاگیا۔

    سنی اتحاد کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 51اور106سےتین نکات بتاناضروری ہیں، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کافیصلہ غلط ہےتوآپ آئین کی درست وضاحت کر دیں، الیکشن کمیشن کوچھوڑ دیں اپنی بات کریں، آئین و قانون کےمطابق بتائیں سنی اتحادکونسل کوکیسےمخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آزادامیدوارانتخابات میں حصہ لینےوالی کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتےہیں، جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑکرآئیں ان کوعوام نےووٹ دیاہے، ایسی جماعت جس نے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر اندازکردیں؟ہم ایساکیوں کریں؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے تو جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں۔

    جسٹس عرفان سعادت نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کےدلائل سےتوآئین میں دیےگئےالفاظ ہی غیرمؤثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل توپولیٹیکل پارٹی ہی نہیں ہے۔

    اس حوالے سے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان چلےجانےکےبعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی، پولیٹیکل ان لسٹڈپولیٹیکل پارٹی توہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، اس دلیل کودرست مان لیں توآپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ یہ توآپ کےاپنےدلائل کے خلاف ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے رول 92کی زیلی شق 2 پڑھیں ، جبکہ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدار الیکشن کمیشن نےقرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائےکااطلاق ہم پرلازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیادسیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کوسپریم کورٹ فیصلےکےسبب آزادامیدوارقراردیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔

    جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے تمام امیدوارپی ٹی آئی کےتھےحقائق منافی ہیں، پی ٹی آئی نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کرا کر واپس کیوں لیےگئے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ مخصوص نشستیں صرف متناسب نمائندگی کےسسٹم کےتحت ہی دی جا سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کےنظام کے علاوہ مخصوص نشستیں الاٹ کرنےکاکوئی تصورنہیں، مخصوص نشستیں امیدواروں کانہیں سیاسی جماعتوں کاحق ہوتاہے۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن ایک جانب کہتاہےآزادامیدوارکسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتاہے، دوسری جانب الیکشن کمیشن کامؤقف ہے شمولیت صرف پارلیمان میں موجودجماعت میں ہو سکتی ہے،الیکشن کمیشن کی یہ تشریح خودکشی کے مترادف ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کے پابند نہیں،عدالت آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے، ممکن ہے الیکشن کمیشن کی تشریح سےعدالت متفق ہونہ آپ کی تشریح سے، جس پر وکیل نے کہا کہ سوال یہی ہےالیکشن میں حصہ نہ لینےوالی جماعت کومخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یانہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہناچاہ رہےہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کےمطلب پرتشریح نہ کرے۔

    فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نےصرف مطلب کونہیں بلکہ آئین کی شقوں کےمقصدکوبھی دیکھناہے، تو جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے مخصوص نشستیں ایسی جماعت کوکیسےدی جا سکتی ہیں جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیاآزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر 3دن میں سیاسی جماعت رجسٹرکراسکتےہیں توضروراس میں شامل ہوسکتےہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہتےہیں سیاسی جماعت کیلئےانتخابات میں نشست حاصل کرناضروری نہیں ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں،الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے پی ٹی آئی اورسنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈجماعتیں ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے تو آزاد ارکان اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟کیا آزاد ارکان نے پی ٹی آئی جوائن نہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کی؟

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ کےدلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں، آپ سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کریں یاپی ٹی آئی کی ، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئےاورپھرسنی اتحادکونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    جس پر وکیل سنی اتحادکونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسےعظیم ججزبھی گزرے جنہوں نےپی سی اوکےتحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، صرف آئین پر رہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا،ہم یہ نہیں سنیں گے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔

    چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کےحق میں دلائل مفادکےٹکراؤمیں آتاہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتخابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نےامیدواروں کوآزادقراردیاتواپیل کیوں دائرنہیں کی؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا اس سوال کاجواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ رولزآئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تو وکیل نے بتایا کہ جسٹس منصور نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی جماعتوں کوساری مخصوص نشستیں دیدیں گے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیےاڑائی گئیں کیونکہ آئین پرعمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے، اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو کیا ہوگا،کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں، ہمارے آئین کو بنے50سال ہوئے ہیں، امریکااور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی، مشکل سے ملک پٹری پرآتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی کے صدر تھے انھوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی،بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسےانگلیاں نہ اٹھائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کرا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی،آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کےعلم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کرلے تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتےہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی،الیکشن کس نےکرائے الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کوہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں۔

    منت،سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرائے، اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے، بانی پی ٹی آئی بطوروزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہورہےتھے، الیکشن کرانے کیلئےسال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں،آدھی بات نہ کریں۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف نظرثانی زیر التوا ہے،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم چیک کرا لیتے ہیں، حامد خان صاحب آپ نے ہمیں یاد بھی کرایا کہ نظرثانی زیر التوا ہے۔

    وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کیلئے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتےہیں تو فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل کی بار بار رکاوٹ ڈالنےپر چیف جسٹس نے اظہارناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ آپ یوں یوں ہاتھوں کوہلائیں گے تو پھر میں بات نہیں کروں گا ، جب آپ بات کرتے ہیں تو ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرتے، جس پر وکیل سنی اتحاد کونسل نے معذرت کرلی۔

  • چیف جسٹس نے موسم گرما کی تعطیلات میں ایک ماہ کی کمی کردی

    چیف جسٹس نے موسم گرما کی تعطیلات میں ایک ماہ کی کمی کردی

    اسلام آباد : موسم گرما کی تعطیلات میں ایک ماہ کی کمی کردی گئی ، جس کے تحت تعطیلات پندرہ جون کے بجائے پندرہ جولائی سے ہوں گی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موسم گرما کی تعطیلات میں ایک ماہ کی کمی کردی۔

    اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے ، جس میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعدادزیادہ ہونے پرموسم گرما کی تعطیلات میں کمی کی گئی ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق موسم گرما کی عدالتی تعطیلات پندرہ جون کے بجائے پندرہ جولائی سے ہوں گی، اگرچہ 2 ماہ کی تعطیلات ہوگی ، معزز ججز سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایک ماہ کی چھٹیاں لیں۔

    چھٹیوں کے دوران فوج داری مقدمات یا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ہدایت پر مقرر ہونے والے مقدمات کی سماعت ہوگی۔

  • چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کر لیں

    چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کر لیں

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کر لیں اور کہا نام لے کر مجھے کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر فیصل واوڈاکی پریس کانفرنس پرازخودنوٹس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان بینچ میں شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کر لیں اور ریمارکس دیئے شفافیت لانےکی کوشش کی اپنے اختیارات کم کئے ، بندوق اٹھانےوالا اور گالی دینے والا کمزور ترین شخص ہوتے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جس کے پاس دلیل ختم ہو وہ بندوق اٹھاتا ہےیا گالی دیتا ہے، ایک کمشنر صاحب اٹھے اور کہا میں نے انتخابات میں دھاندلی کروائی ، بھئی بتائیں توچیف جسٹس کیسے دھاندلی کرا سکتا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے مہذب معاشروں میں ایسےالزامات نہیں لگائے جاتے، میری جانب سےنظراندازکرنےکا فائدہ اٹھاتےہوئےسوچاکہ ہم بھی تقریرکرلیں، برا کیا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ نے فیصل واڈا کی پریس کانفرنس سنی ، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا مجھ تک مکمل ویڈیو ابھی نہیں پہنچی ، کچھ حصہ خبروں میں سنا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا یہ پریس کانفرنس توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے ، کوئی مقدمہ اگر زیر التوا ہوتو اس پر رائے دی جاسکتی ہے ، اس سے کہیں زیادہ باتیں میرے خلاف کی گئیں ، لیکن کیا آپ اداروں کی توقیر کم کرنا شروع کردیں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میں نے کچھ غلط کیا تو مجھے کہیں عدالت کو نہیں ، وکلا ججز اور صحافیوں سب میں ا چھے برے لوگ ہوتے ہیں ، ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھےہوں، باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جاسکتی ، کیا ایسی باتوں سے آپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں۔

    گذشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وفاقی وزیر و سینیٹر فیصل واوڈا کی جانب سے گزشتہ روز کی گئی پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

    فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

  • صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس: چیف جسٹس کا سابق کمشنر راولپنڈی کے الزامات کا تذکرہ

    صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس: چیف جسٹس کا سابق کمشنر راولپنڈی کے الزامات کا تذکرہ

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران سابق کمشنر راولپنڈی کے الزامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک کمشنر نے کہا چیف جسٹس نےالیکشن میں گڑبڑکی، ٹی وی چینلز نے بغیر تصدیق کے بیان چلادیا۔

    ‌تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کئے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سابق کمشنر راولپنڈی کے الزامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ایک کمشنر نے کہا چیف جسٹس نےالیکشن میں گڑبڑکی، یہ بیان تمام ٹی وی چینلز نے بغیر تصدیق چلادیا گیا، پوری دنیا میں خبر دینے سے پہلے کی تصدیق کی جاتی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی صحافی نے الزام لگانے والے سےیہ نہیں پوچھا ثبوت کیاہے، کیا پوری دنیا میں ایسا کہیں ہوتا ہے، کیا عدالت تمام ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کرتی کہ غلط خبرکیوں چلائی؟

    ابصار عالم ، اسد طور حملہ کیس میں ناقص تفتیش پر عدالت نے اظہار برہمی کیا، جسٹس عرفان سعادت نے سوال کیا کہ شیخورہ کے ڈاکوؤں نے اسلام آباد کے صحافیوں پرحملہ کیا؟ چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا ہمیں بتائیں تو اگر حملہ کیاتوکیوں کیا؟

    پولیس افسران کی دوران سماعت سوالات کا جواب دینے کیلئے ایک دوسرے سے سرگوشیوں پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پولیس کے ہوم ورک کرنےکی جگہ نہیں ہے،آئندہ ایسا ہوا تو پولیس کے سب سےسینئر افسرکیخلاف کارروائی ہو گی، جس دن سینئر موسٹ افسران کیخلاف کارروائی ہوئی سب ٹھیک ہوجائیگا۔

    سپریم کورٹ نےایف آئی اے ،پولیس کی جانب سےجمع رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے ایف آئی اے اور پولیس تفصیلی رپورٹس طلب کرلی اور سماعت 25 مارج تک ملتوی کر دی۔

  • چیف جسٹس کیخلاف سوشل میڈیا پر دھمکی آمیز کمپین چلانے والا گرفتار

    چیف جسٹس کیخلاف سوشل میڈیا پر دھمکی آمیز کمپین چلانے والا گرفتار

    اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پر دھمکی آمیز مہم چلانے والے شخص عبدالواسع کو گرفتار کر لیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق 20 فروری کو عبدالواسع نے پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف  دھمکی آمیز سوشل میڈیاکمپین میں حصہ لیا ملزم نے ایکس پر چیف جسٹس کو دھمکیاں دیں اور کردار کشی کی۔

    ذرائع نے بتایا کہ چیف جسٹس کیخلاف سوشل میڈیا کمپین میں باقی کرداروں کی شناخت کا عمل بھی جاری ہے، مذموم سوشل میڈیا کمپین میں حصہ لینے والوں کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔