Tag: چیف جسٹس

  • نعلین مبارک چوری کیس: شرم کی بات ہےکہ ہم اتنی مقدس چیزکی حفاظت نہیں کرسکے‘ چیف جسٹس

    نعلین مبارک چوری کیس: شرم کی بات ہےکہ ہم اتنی مقدس چیزکی حفاظت نہیں کرسکے‘ چیف جسٹس

    لاہور: سپریم کورٹ نے بادشاہی مسجد سے نعلین پاک کی چوری کے معاملے پرانکوائری کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بادشاہی مسجد سے نعلین پاک چوری ہونے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے نعلین مبارک چوری پرمحکمہ اوقاف کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ رپورٹ سےمطمئن نہیں یہ صرف خود کو بچانے کی کوشش ہے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سیکرٹری اوقاف پراظہاربرہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بڑی دولت کیا ہے جس کی آپ حفاظت نہ کرسکے، شرم کی بات ہے کہ ہم اتنی مقدس چیز کی حفاظت نہیں کر سکے۔

    محکمہ اوقاف کے وکیل نے کہا کہ اب تک 10 تحقیقات ہوئی ہیں کچھ سامنے نہیں آیا، سیکرٹری اوقاف نے عدالت کو بتایا کہ غفلت کے مرتکب افراد کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔

    سپریم کورٹ نے بادشاہی مسجد سے نعلین پاک کی چوری کے معاملے پرانکوائری کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، آئی بی، ڈی آئی جی پولیس شامل ہوں گے اورجے آئی ٹی اپنی تحقیقات کرکے جامع رپورٹ پیش کرے گی۔

    ہم کیسے مسلمان ہیں کہ نعلین پاک کی بھی حفاظت نہیں کرسکتے؟ جسٹس ثاقب نثار

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارکا کہنا تھا کہ اگر ہم نعلین مبارک کی حفاظت نہیں کرسکتے تو کس بات کے مسلمان ہیں؟ یہ کسی مسجد سے جوتی چوری کا معاملہ نہیں۔

    واضح رہے کہ 31 جولائی 2002ء میں بادشاہی مسجد کی گیلری سے نعلین پاک چوری کیے گئے تھے لیکن 16 سال ہوگئے حکام نعلین پاک برآمد نہ کراسکے۔

  • اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں‌ سماعت کے لئے مقرر

    اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں‌ سماعت کے لئے مقرر

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے متعلق کیس سماعت کے لئے مقرر کر دیا.

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ کے کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کرے گا، کیس کی سماعت منگل کے روز ہو گی.

    واضح‌ رہے کہ اسحاق ڈارکی وطن واپسی کے لئے وزارت خارجہ نے برطانوی ہائی کمیشن کوخط لکھ رکھا ہے.

    وزارت خارجہ اسحاق ڈارکی وطن واپسی سےمتعلق برطانوی جواب سے سپریم کورٹ کا آگاہ کرے گی.

    عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری اطلاعات، سیکریٹری خزانہ، اور پراسیکیوٹر نیب کو نوٹس جاری کرکے طلب کیا ہے. ڈی جی ایف آئی اے اور اسحاق ڈار کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں.


    نیب نے اسحاق ڈار، سعد رفیق، انوشہ رحمان اور ثنا اللہ زہری کے خلاف تفتیش کی منظوری دے دی


    یاد رہے کہ گذشتہ دونوں‌چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیرصدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہوا تھا، جس میں سابق وزرا اور اعلیٰ افسران کے خلاف تحقیقات کی منظور دی گئی.

    اس اہم اجلاس میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق آئی ٹی منسٹر انوشہ رحمان، سابق چیئرمین پی ٹی اےاسماعیل کے خلاف تحقیقات کی مظوری دی گئی تھی.

  • ڈاکٹرمجاہد کامران کوہتھکڑی لگانےکاکیس، سپریم کورٹ نے ڈی جی نیب لاہور کا معافی نامہ قبول کرلیا

    ڈاکٹرمجاہد کامران کوہتھکڑی لگانےکاکیس، سپریم کورٹ نے ڈی جی نیب لاہور کا معافی نامہ قبول کرلیا

    لاہور : ڈاکٹر مجاہد کامران کو ہتھکڑیاں لگا کرعدالت میں پیش کرنے سے متعلق ازخودنوٹس کیس میں عدالت نے ڈی جی نیب کی معافی قبول کرلی ، چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ہتھکڑی مجاہد کامران اور پروفیسرز کی موت ہے، استاد کی بے حرمتی برداشت نہیں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ڈاکٹر مجاہد کامران کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ اگر آپ قصور وار ہیں تو آپ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ پھر آپ مقدمے میں اپنی ضمانتیں کرواتے پھریں اور آپ کو بھی ہتھکڑیاں لگواتا ہوں۔

    جس پر ڈی جی نیب عدالت میں آبدیدہ ہو گئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی باری آئی ہے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    ڈی جی نیب کا کہنا تھا کہ مجاہد کامران کو سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ہتھکڑیاں لگائی تھیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران اور دیگر اساتذہ سے خود جا کر سے معافی مانگ لی ہے۔

    اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب نے کرپشن کے خلاف بہت کام کیا ہے ، جس پر چیف جسٹس نے قرار دیا کہ کیا کام کیا ہے نیب کی کیا کارکردگی ہے، لوگوں کی تضحیک اور پگڑیاں اچھالنے کے علاوہ آپکی کیا کارکردگی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہتھکڑی ڈاکٹر مجاہد کامران اور پروفیسرز کی موت ہے۔ استاد کی بے حرمتی برداشت نہیں کی جائے گی۔

    ڈی جی نیب کی جانب سے غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی کی استدعا کی، جس پر عدالت نے ڈی جی نیب اور دیگر افسران کو پوری قوم سے تحریری معافی مانگنے کا حکم دے دیا۔

     

    ہتھکڑی مجاہد کامران اور پروفیسرز کی موت ہے، استاد کی بے حرمتی برداشت نہیں کی جائے

    چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ہتھکڑی مجاہد کامران اور پروفیسرز کی موت ہے، استاد کی بے حرمتی برداشت نہیں کی جائے۔

    ڈی جی نیب کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ایک کیس میں عدالت کے باہر کہا تھا کہ کوئی بات نہیں، چیف 3 ماہ میں چلا جائے گا، آپ سے متعلق بہت اچھے تاثرات ہیں مگر آپ کیا کر رہے ہیں۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ ڈی جی نیب کے عہدے کے اہل نہیں تو چھوڑ دیں۔ آپ بتا دیں، اس ادارے میں کام کرنا چاہتے ہیں یا نہیں، جنہیں ہتھکڑیاں لگائیں یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے بچوں کو تعلیم دی۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس نے اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے کا نوٹس لے لیا

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا رات ویڈیو دیکھ کر چیئرمین نیب کو فون کیا تو انہوں نے معاملے سے لاعملی کا اظہار کیا اور کہا کہ ڈی جی نیب لاہور آپ کو مطمئن کریں گے۔

    ڈی جی نیب نے عدالت میں غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔ جس پر عدالت نے ڈی جی نیب اور دیگر افسران کو پوری قوم سے تحریری معافی مانگنے کا حکم دے دیا۔

    سپریم کورٹ کے حکم پر ڈی جی نیب سلیم شہزاد نے ڈاکٹر مجاہد کامران کو ہتھکڑی لگانے پر معافی نامہ تحریر کرکے عدالت میں جمع کرایا، جسے سپریم کورٹ نے قبول کرلیا۔

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور پروفیسرز کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے پر نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی نیب لاہور اور ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو طلب کیا تھا۔

  • استعفیٰ دے دوں گا مگر بےانصافی نہیں کروں گا ‘ چیف جسٹس

    استعفیٰ دے دوں گا مگر بےانصافی نہیں کروں گا ‘ چیف جسٹس

    لاہور: سب انسپکٹرپروکلا کے تشدد سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے نامزد وکلا کی گرفتاریوں سے متعلق حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سب انسپکٹرپروکلا کے تشدد سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔

    عدالت نے سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی کی دفعات معطل کرنے اور وکلا کی گرفتاریوں سے متعلق حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ استعفیٰ دے دوں گا مگر بے انصافی نہیں کروں گا۔

    سپریم کورٹ نے وکلا کی جانب سے سب انسپکٹر پرتشدد کی ویڈیو آئندہ سماعت پر طلب کرلی، چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سماعت پرویڈیوعدالت میں چلا کرذمے داران کا تعین کریں گے۔

    چیف جسٹس کا لاہور میں پولیس انسپکٹرپروکلا کے تشدد کا نوٹس

    چیف جسٹس نے گزشتہ ہفتے لاہور میں سب انسپکٹرپروکلا کے تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو13 اکتوبرکو واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں لاہور ڈسٹرکٹ بار کے وکلا نے سب انسپکٹرپرتشدد کیا تھا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل ہوگئی تھی۔

  • چیف جسٹس اور چیئرمین نیب نے اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے کا نوٹس لے لیا

    چیف جسٹس اور چیئرمین نیب نے اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے کا نوٹس لے لیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان اور چیئرمین نیب نے وائس چانسلر اور پروفیسرز کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے کا سخت نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور پروفیسرز کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے پر نوٹس لے لیا۔

    [bs-quote quote=”واضح احکامات کے باوجود اساتذہ کو ہتھکڑیاں کیوں لگائی گئیں: چیئرمین نیب” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    چیف جسٹس نے ڈی جی نیب لاہور اور ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو کل طلب کر لیا ہے، چیف جسٹس نے متعلقہ حکام کو کل سپریم کورٹ رجسٹری میں پیش ہونے کی ہدایت کر دی۔

    دریں اثنا چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بھی اساتذہ کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کرنے کا سخت نوٹس لے لیا، چیئرمین نیب نے ڈی جی لاہور کو فوری انکوائری کا بھی حکم جاری کر دیا۔


    یہ بھی پڑھیں:  پنجاب یونی ورسٹی میں غیر قانونی بھرتیاں، سابق وی سی سمیت 6 ملزمان گرفتار


    چیئرمین نیب نے کہا کہ واضح احکامات کے باوجود اساتذہ کو ہتھکڑیاں کیوں لگائی گئیں، ذمہ داران کے خلاف 3 دن میں قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، نیب ہیڈ کوارٹر کو بھی ذمہ داروں کے خلاف انضباطی کارروائی سے آگاہ کیا جائے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی احتساب بیورو (نیب) نے غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں پنجاب یونی ورسٹی کے سابق وی سی مجاہد کامران اور رجسٹرار سمیت 6 ملزمان کو گرفتار کر کے ہتھکڑیاں لگا کر احتساب عدالت میں پیش کیا تھا۔

  • این آئی سی ایل کیس: سپریم کورٹ نےدرخواست گزار پر 30 ہزار جرمانہ عائد کردیا

    این آئی سی ایل کیس: سپریم کورٹ نےدرخواست گزار پر 30 ہزار جرمانہ عائد کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں این آئی سی ایل کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس ملک کو سفارش کے عذاب سے نجات دلائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں این آئی سی ایل کیس کی سماعت ہوئی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں زیر التوا ہے، پھرایک اوردرخواست کیوں آگئی؟۔

    سپریم کورٹ میں بتایا گیا کہ درخواست آئی عدالت نے تاثردیا ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کوئی تاثرنہیں دیا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ کے موکل اورآپ کے ذہن میں بلا جواز یہ تاثر آگیا، ہم درخواست گزار کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی جرات کیسے ہوئی سپریم کورٹ میں ایسی درخواست کی، عدالت نے درخواست گزارکو30 ہزار روپے جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں دینے کا حکم دے دیا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم اس ملک کو سفارش کےعذاب سے نجات دلائیں گے، اب سفارش کرانے کے کلچرکو ختم ہونا چاہیے۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

  • تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بھی بچہ نہیں مرنا چاہیئے: چیف جسٹس

    تھر میں غذائی قلت سے ایک اور بھی بچہ نہیں مرنا چاہیئے: چیف جسٹس

    اسلام آباد: تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ 15 دن ہو یا کوئی اور مدت، غذائی قلت سے ایک اور بچہ نہیں مرنا چاہیئے، میں خود اتوار کو علاقے کا دورہ کروں گا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ بچوں کی اموات روکنے کے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

    ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ تھر میں صرف گندم فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں، تھر سے متعلق ہم نے پیکیج بنایا ہے۔ پیکیج میں گندم، چاول، چینی، کوکنگ آئل اور دالیں شامل ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ تھر میں 60 ہزار سے زائد افراد خط غربت سے نیچے ہیں، غریب افراد مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسا انتظام کر رہے ہیں جہاں علاج اور خوراک کی سہولت یکجا ہو۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کام آپ کب تک کریں گے جس پر ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ جتنی جلدی ممکن ہوا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جتنی جلدی والی بات نہ کریں ہمیں مدت بتائیں۔ اے جی سندھ نے کہا کہ 15 دن میں خوراک اور سہولتوں کا کام شروع ہوجائے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 15 دن ہو یا کوئی اور مدت، غذائی قلت سے ایک اور بچہ نہیں مرنا چاہیئے، میں خود اتوار کو علاقے کا دورہ کروں گا تمام انتظام کریں۔

  • گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے ڈالر کہاں چلاگیا ہے، چیف جسٹس

    گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے ڈالر کہاں چلاگیا ہے، چیف جسٹس

    اسلام آباد :چیف جسٹس نے نیب سے ایم ڈی پی ایس او کی تنخواہ اور مراعات سے متعلق رپورٹ 4 ہفتے میں طلب کر لی اور کہا آج کل مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے ڈالر کہاں چلاگیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تیل، گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس نے کہا گزشتہ سماعت پر چوہدری سرور کو بلایا گیا، چوہدری سرور کو قیمتوں اورتعیناتیوں کا معاملہ دیکھنے کو کہا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آج کل مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، گیس اوربجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس سےڈالرکہاں چلاگیاہے، مہنگائی ہے کہ پکڑ میں نہیں ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ایس او میں تعیناتیاں سابق حکومت نے کیں،اقرباپروری ہوئی، ایل این جی کی درآمدات سے متعلق بھی شکایات تھیں، ایل این جی کی درآمد سے متعلق نیب انکوائری کر رہا ہے۔

    وکیل پی ایس او نے کہا قیمتوں کے تعین کے لیے پیپرا مددگار ہوسکتا ہے، پیپرا ایک ماہ کے بجائے 15 کا ٹینڈر دے تو فرق آسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر ایک پیسے کا بھی فرق ہو تو عوام کو ریلیف ملنا چاہیے، حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کرمعاملہ دیکھ لیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے وکیل پی ایس او سے استفسار کیا کہ سابق حکومت نےکون سی غیر قانونی تعیناتیاں کیں؟ جس کے جواب میں وکیل پی ایس او نے بتایا کہ سابق حکومت نےصرف ایم ڈی پی ایس اوکی تعیناتی کی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے استفسار کیا ایم ڈی کی تنخواہ کیا تھی ہمیں بتائیں ، جس پر وکیل پی ایس او نے کہا ایم ڈی کی ماہانہ تنخواہ 37لاکھ روپےتھی، جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ کیا یہ ریاست کا اتنا لاڈلا تھا کہ اسے اتنی تنخواہ دی گئی، ہم نے ایم ڈی کو بلایا تھا کیا وہ آئے ہیں؟

    وکیل کا کہنا تھا کہ 3نام بھیجے گئےاس میں سے حکومت نےعمران الحق کومنتخب کیا، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا تنخواہ اورمراعات کا کیا تعین ہے، وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تنخواہ اورمراعات مارکیٹ ریٹ پردی جاتی ہیں، سابق ایم ڈی 2012 میں ریٹائر ہوئے، 12 لاکھ دیے جاتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا نیب کو کیس دیکھنا چاہیے،اس کی رفتار سست ہے رفتار تیز کرے ، 4 ہفتے کے اندرتحقیقات مکمل کریں اورعدالت کو آگاہ کریں۔

    پی ایس اوکی آڈٹ فرم کےپی ایم جی کوادا43 لاکھ کم کرکے15 لاکھ کردیے گئے جبکہ ایل این جی معاملے کی ان چیمبر بریفنگ کی درخواست منظور کرلی گئی۔

  • توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کا معافی نامہ مسترد

    توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کا معافی نامہ مسترد

    اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کی توہین عدالت انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے طلال چوہدری کا معافی نامہ مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کی توہین عدالت انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے طلال چوہدری کا معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طلال چوہدری کو اپنے کہے پر پشیمانی نہیں۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ طلال چوہدری نے پی سی او کے جج کس کو کہا، کس کو یہ باہر نکالنا چاہتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: طلال چوہدری 5 سال کے لیے نا اہل قرار

    انہوں نے کہا کہ کیوں نہ ہم ان کی سزا میں اضافہ کر دیں، ہم انہیں سزا میں اضافے کا نوٹس جاری کرتے ہیں۔

    طلال چوہدری کے وکیل نے کہا کہ طلال چوہدری سے غلطی ہوئی اور وہ معافی مانگ رہے ہیں، آپ پہلے سن لیں کہ انہوں نے کیا کہا۔

    چیف جسٹس نے عدالت میں ویڈیو کلپ چلانے کا حکم دیا، ویڈیو دیکھنے کے بعد چیف جسٹس نے طلال چوہدری پر مزید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ طلال چوہدری بتائیں ہم میں سے کون پی سی او جج ہے، روسٹرم پر آکر بتائیں کس کو نکالنا چاہتے ہیں۔

    طلال چوہدری نے کہا کہ پی سی او ججز کے بارے میں خود سپریم کورٹ کا اپنا فیصلہ موجود ہے، میں نے پی سی او ججز کی بات کی تھی موجودہ عدالت کی نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے اب بھی نہ معافی مانگی نہ شرمندگی کا اظہار کیا جس پر طلال چوہدری کے وکیل نے کہا کہ طلال چوہدری اپنی بات سمجھا نہیں پا رہے۔ طلال چوہدری کہنا چاہتے ہیں کہ موجودہ ججز کے بارے میں نہیں کہا۔

    انہوں نے کہا کہ طلال چوہدری کا معافی نامہ پہلے ہی عدالت کے ریکارڈ پر موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم وہ معافی نامہ مسترد کرتے ہیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو مؤکل کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہیئے تھی، طلال چوہدری کو اپنے اقدام پر خود پشیمانی ہونی چاہیئے۔

    طلال چوہدری نے کہا کہ کئی پروگرامز میں اپنے اقدام پر افسوس اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ترجمان سپریم کورٹ سے ٹاک شوز میں گفتگو کا ریکارڈ بھی منگوا لیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سزا ختم کر دیتے ہیں طلال لکھ کر دیں 5 سال الیکشن نہیں لڑیں گے، یہ کسی کی ذات نہیں ادارے کے وقار کی بات ہے۔

    وکیل نے کہا کہ سزا کے بعد 5 سال تک طلال چوہدری وکالت نہیں کر سکتے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ طلال چوہدری وکالت چھوڑیں یہ سیاست ہی کریں۔

    وکیل نے کہا کہ آپ نے معاملے پر نوٹس لیا ہے آپ مقدمے کو نہ سنیں جس پر عدالت نے وکیل طلال چوہدری کے اعتراض کو مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ طلال چوہدری نے عدالت عظمیٰ کی تضحیک اور توہین کی۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ماہ مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کو آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنائی گئی اور پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دیا گیا جبکہ ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

    سابق وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے عدالت میں 2 گھنٹے 5 منٹ قید کی سزا کاٹی۔

    بعد ازاں طلال چوہدری نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلہ قانون کی نظر میں درست نہیں اسے کالعدم قرار دیا جائے، شواہد کا درست انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا۔ استغاثہ کے مؤقف کو اہمیت دی گئی لیکن دفاع کو نظر انداز کیا گیا۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ استغاثہ کے خلاف مواد کے باوجود درخواست گزار کو شک کا فائدہ نہیں دیا گیا، الزام ثابت کیے بغیر سزا دی گئی۔ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے بے قاعدگیاں اور خلاف قانون پہلو موجود ہے۔

  • ڈی پی اوپاکپتن تبادلہ کیس، سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب،کلیم امام،احسن جمیل کی معافی قبول کرلی

    ڈی پی اوپاکپتن تبادلہ کیس، سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب،کلیم امام،احسن جمیل کی معافی قبول کرلی

    اسلام آباد :سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب، کلیم امام، احسن جمیل کی معافی قبول کرتے ہوئے تینوں کو آئندہ مداخلت نہ کرنے کی ہدایت کی، جس پر
    تینوں فریقین نے یقین دہانی کرائی کہ ایسا دوبارہ کوئی کام نہیں ہوگا۔

    سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈی پی اوپاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کی سماعت ہورہی ہے، خاورمانیکا ، احسن جمیل گجر اور رضوان گوندل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ڈی جی نیکٹاخالق دادلک اور آئی جی پنجاب کلیم امام بھیہ موجود ہیں۔

    سماعت میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے ڈی جی نیکٹا خالق داد لک کی انکوائری رپورٹ پر اپنا جواب جمع کرایا گیا، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب کا جواب عدالت میں پڑھا تو چیف جسٹس نے کہا آپ جوبھی کہہ لیں حقائق وہی رہیں گے، ڈی پی او کو بلانے کا معاملہ نمٹا بھی دیں گے لیکن 62ون ایف کو تو دیکھنا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب صادق اور امین ہیں؟ آپ نے خالق دادلک کی تحقیقاتی رپورٹ کو رد کردیا، اتنے قابل افسر پر ذاتی حملے کیے گئے ہیں، وزیراعلیٰ صاحب خود کو کیا سمجھتے ہیں، یہ ہے آپ کی حکومت جو ڈیلیور کرنے لگی ہے نیا پاکستان۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی وزیراعظم کو میری ناراضی سے متعلق بتائے، قانون کی حکمرانی کیلئے ایک عرصے سے کوشش کر رہے ہیں ،آپ نے ایک منٹ میں قانون کی حکمرانی کو ختم کردیا۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ آپ خالق دادلک کی انکوائری سے مطمئن نہیں، میں انکوائری کروں گا، وکیل احسن جمیل نے کہا احسن جمیل گجر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں اور خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہیں، ہم نے کوئی دوسری بات نہیں کرنی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ خاور مانیکا زندہ ہیں ،یہ احسن جمیل ہے کون، آگئے ہیں اکٹھے ہوکر نیا پاکستان بنانے، کارسرکار میں مداخلت پر کیا دفعہ لگتی ہے۔

    ڈی جی نیکٹا خالق دادلک نے جواب دیا کہ پاکستان پینل کوڈ186 لگتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کا جواب پڑھ حیران رہ گیا، وزیراعلیٰ کی جانب سے ایسا جواب بھی آسکتا ہے۔

    اے جی پنجاب نے کہا تحریری معافی جواب کے ساتھ اضافی طور پر جمع کراتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے وزیراعلیٰ کون ہوتےہیں رپورٹ،تحقیقاتی افسر پر سوال اٹھانے والے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب تیار کس نے کیا؟چیف جسٹس نے کہا ایڈووکیٹ جنرل صاحب کارسرکار میں مداخلت کی سزا بتائیں، کہا جاتا ہے جب تک پی ٹی آئی حکومت رہے گی یہ ہی وزیراعلیٰ رہیں گے، وزیراعلیٰ قانون کی روشنی میں ہی رہیں گے، یہ ہے نیا پاکستان؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میری ناخوشی کا اظہار وزیراعظم تک پہنچادیں۔

    دوران سماعت احسن جمیل،وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق آئی جی پنجاب نےغیرمشروط معافی مانگ لی، عدالت نے کہا تینوں نے خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ، تینوں افراد عدالت میں تحریری معافی نامے جمع کرائیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آپ کی معافی کو پڑھنے کے بعد عدالت سوچے گی کیا کرنا ہے۔

    ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے وزیراعلیٰ کا جمع کرایا گیاجواب واپس لےلیا، ،احمد اویس نے کہا ہم نےغیر مشروط معافی مانگی اور پیش بھی ہوئے ، میں ان کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں جبکہ آئی جی کلیم امام کا کہنا تھا کہ میں اپنے آپ کوعدالت کےرحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔

    ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا خالق دادلک کی رپورٹ مبہم ہے، جس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ میں کہا ذمہ دارافسرکےخلاف ایسی زبان استعمال کریں گے، عدالت رول آف لا کے لئے کام کررہی ہے، ڈی پی او اتنا پلید ہوگیا، وزیراعلیٰ نے کہا اس کی شکل نہیں دیکھوں گا۔

    وکیل احسن گجر نے کہا میں غیرمشروط معافی مانگتا ہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم معافی نہیں دینگے جیل کے اندربھی بھیجیں گے۔

    سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب اور احسن جمیل کےجوابات پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا انکوائری افسر کا پنجاب حکومت سے کیا ذاتی عناد ہوسکتا ہے، احسن جمیل گجر نے سرکاری امور میں مداخلت کی، آرٹیکل 62ون ایف کے تحت انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بن جائے گا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا میں تووزیراعلیٰ پنجاب کا جواب پڑھ کرحیران رہ گیا، کبھی منشابم کی سفارش کی جاتی ہے تو کبھی کسی اورکی، منشابم معاملہ انضباطی کارروائی کیلئے بھیجا ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔

    وزیراعلیٰ پنجاب ، آئی جی کلیم امام، احسن جمیل گجر نے اپنے جوابات واپس لےلئے ، جس پر چیف جسٹس نے کہ اتحریری معافی نامے دوبارہ جمع کرائے جائیں، کرامت کھوکھر کا معاملہ پی ٹی آئی ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجا، اس معاملے پر بھی کچھ نہیں ہوا۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ایسا اقدام دوبارہ نہیں ہو گا، انکوائری افسر کے مطابق کسی کو براہ راست دھمکی نہیں دی گئی،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کارسرکار میں مداخلت میں 3سال جیل ہوسکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا وزیراعلیٰ کے احسن جمیل گجر بڑے تعلقات والےہیں، احسن جمیل گجر کی ایک فیملی کیساتھ میرے تعلقات ہیں، وزیراعلیٰ نے ڈی پی او کو بلا کر احسن جمیل گجر کے روبرو بٹھا دیا۔

    چیف جسٹس نے ڈی پی اوتبادلہ کیس میں کل سے خود انکوائری کرنےکافیصلہ کرلیا۔ اور کہا وزیراعلیٰ پنجاب کےجواب سے مطمئن نہیں، کل وزیراعلیٰ کو بلوالیں خود انکوائری کریں گے ،ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے معافی مانگتے ہیں ، وزیراعلیٰ پنجاب کے کسی اقدام میں بدنیتی نہیں تھی۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا وزیراعلیٰ پنجاب کی معافی کی نیت نظرنہیں آئی، ہمارےانکوائری افسر کو ذلیل کیا گیا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا افسران کو ذلیل کرنا وزیراعلیٰ کی نیت نہیں تھی۔

    سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب،کلیم امام،احسن جمیل کی معافی قبول کرلی اور عدالت کی تینوں کوآئندہ مداخلت نہ کرنےکی ہدایت کی ، جس پر تینوں فریقین کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ایسادوبارہ کوئی کام نہیں ہوگا۔

    چیف جسٹس نے کہا گجرکہیں اوربد معاش ہوں گے، یہاں بدمعاشی نہیں چلنےدیں گے،

    تینوں فریقین کوعدا لت نے 2 آپشنز دیے تھے، ایک آپشن معاملےکی دوبارہ انکوائری دوسراغیرمشروط معافی کا تھا ، جس پر عدا لت نے تینوں نے تحریری معافی نامہ عدالت میں جمع کرایا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا ۔گجرکہیں اوربد معاش ہونگے یہاں بدمعاشی نہیں چلنےدیں گے،احسن جمیل گجر کا کہنا تھا کہ میں نےسچےدل سےعدالت سےمعافی مانگی ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے ڈی پی اوپاکپتن ازخودنوٹس کامعاملہ نمٹا دیا۔

    مزید پڑھیں : ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی ہاؤس کی ایما پر ہوا، رپورٹ

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل تبادلے سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس کے مطابق ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی ہاؤس کی ایما پر ہوا،آئی جی پنجاب کلیم امام کا تبادلے میں کردار صرف ربراسٹمپ کا تھا۔

    انکوائری رپورٹ کے مطابق آئی جی پنجاب کلیم امام نےشاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی، رضوان گوندل کیخلاف انکوائری شاید انہیں سبق سکھانےکیلئےکی گئی، وزیراعلی ہاؤس ملاقات میں معاملہ آر پی او کے سپرد کیا گیا، آر پی او ساہیوال کوبھی ڈی پی او کے تبادلے پر حیرت ہوئی۔

    چیف جسٹس نے ہدایت کی 62ون ایف کوتعویذکی طرح بازوپرباندھ لیں، آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کو بار بار پڑھیں ، کیا اس پر انسداد دہشت گردی کی دفعات لگیں گی، ہمیں سختی پرمجبورنہ کریں۔