Tag: چیف جسٹس

  • ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

    ڈی پی او تبادلہ کیس: سپریم کورٹ کا پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پرازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں آئی جی پنجاب پولیس، رضوان گوندل، احسن جمیل گجر، خاور مانیکا اور ان کی صاحبزادی سمیت دیگرافراد پیش ہوئے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام، سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل اور پی آر او نے بیان حلفی جمع کرا دیے ہیں۔

    آئی جی پنجاب نے عدالت میں کہا کہ افسران کوآئندہ بغیراجازت وزیراعلیٰ ہاؤس جانے سے روکا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے واقعے کے وقت ہی افسران کوکیوں نہیں روکا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ توکہتے ہیں 24 گھنٹے کام کرتے ہیں، ڈی پی او کے تبادلے کی فائل بھی دکھائیں۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ تبادلے کا زبانی حکم دیا گیا تھا جس پرچیف جسٹس نے استفسارکیا کہ رات ایک بجے کہاں سے تبادلے کا حکم دیا۔

    انہوں نے آئی جی پنجاب پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے حاکم کے حکم کی تعمیل کر دی، کیا آپ نے رضوان گوندل اورآرپی او سے ملاقات کا پوچھا؟۔

    آئی جی سید کلیم امام نے کہا کہ خاتون سے بد تمیزی پررضوان گوندل نے کوئی کارروائی نہیں کی، انہوں نے افسران سے واقعات سے متعلق معلومات چھپائیں، تبادلہ انتظامی فیصلہ تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تبادلہ رات ایک بجے زبانی کرنے کی کیا ضرورت تھی، بتائیں کس انکوائری کی روشنی میں تبادلے کا حکم دیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ تبادلےکا فائل ورک زبانی احکامات کے بعد ہوا، کرائم ڈائری دیکھ کربہت سے فیصلے رات کو کرتا ہوں۔

    سید کلیم امام نے کہا کہ ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرکورات ایک بجے احکامات دیے تھے، بطورایس ایس پی اسلام آباد میرا تبادلہ رات 2 بجے ہوا تھا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ احسن جمیل گجرکے خلاف کیا کارروائی کی، آپ کون ہوتے ہیں پولیس کوحکم دینے والے جس پر احسن جمیل گجر نے جواب دیا کہ خاورمانیکا کے بچوں کا ان آفیشل گارڈین ہوں۔

    احسن جمیل گجر نے بتایا کہ میں نےکسی تبادلے کا نہیں کہا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب کوچیمبرمیں کہا تھا سچ بولیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشترکہ دوست کے ذریعے ڈی پی او کو یغام بھیجا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چھوٹا ساواقعہ تھا وزیراعلیٰ ملوث ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ایک اجلاس میں آئی جیزکوکہا تھا سیاست دانوں کی محتاجی چھوڑدیں، پولیس سیاسی دباؤاورحاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے۔

    آئی پنجاب نے کہا کہ ڈی پی اونے خاتون کے ساتھ بدتمیزی کے واقعے کا نوٹس نہیں لیا، چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کرےتے ہوئے کہا کہ کیا بطورکمانڈرآپ نے دیانتداری کا مظاہرہ کیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زبانی ٹرانسفرکے احکامات کیوں دیےتھے؟ ہمیں فائل دکھائیں، آئی جی نے جواب دیا کہ میں خود کوعدالت کے رحم وکرم پرچھوڑتا ہوں۔

    سید کلیم امام نے کہا کہ میں نے تبادلہ پوسٹ ڈیٹڈ کرنا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پوسٹ ڈیٹڈ فائل ہی دکھا دیں، آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ ابھی فائل میرے پاس نہیں ہے۔

    احسن گجر نے کہا کہ بچے دباؤمیں تھے، افریقا میں مشترکہ دوست کوفون آیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ افریقا سے یاد آئی ایس آئی کے کرنل کدھرہیں؟۔

    چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ اتنا بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ کرنل بھی درمیان میں آگئے۔

    چیف جسٹس نے احسن گجر سے استفسار کیا کہ آپ کا وزیراعلیٰ پنجاب سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک شہری ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں کھڑے ہوکرجھوٹ مت بولیں۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ جس کا دل چاہے پولیس کو بلا کرذلیل کردے، آپ بچوں کے ماما ہیں یا چاچا؟ ہم ایف آئی آردرج کرائیں گے۔

    سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندان نے عدالت میں کہا کہ احسن گجرنے کہا تھا پیغام بھیجا تھا آپ نےعمل کیوں نہیں کیا؟ کہا انگریزدورمیں اس خاندان کی جائیدادیں ڈپٹی کمشنردیکھتا تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تیسرے آدمی کی بات کیوں سنی؟ آرپی او ساہیوال نے عدالت میں کہا کہ میں رضوان گوندل کے بیان کی تصدیق کرتا ہوں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم کیوں نہ وزیراعلیٰ پر62 ون ایف کا اطلاق کریں، وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے کہا میں نے اچھی نیت سے پولیس کوبلوایا۔

    پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پاکستان قبائلی معاشرہ نہیں ہے۔

    عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ خاورمانیکا آپ حیات ہیں احسن گجرآپ کے بچوں کے کسٹوڈین کیسے؟ جس پر خاور مانیکا نے جواب دیا کہ احسن گجرفیملی کا ہمارے ساتھ 1970 سے روحانی تعلق ہے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میری بیٹی سے پولیس نے بدتمیزی کی وہ کانپ رہی تھی، میری بیٹی نے مجھے کہا پولیس نے شراب پی رکھی ہے۔

    خاور مانیکا نے کہا کہ میں نے پولیس کوڈانٹا پولیس نے معافی مانگی، میرے پاؤں پکڑے گئے میں نے کہا آپ بابا فرید سے معافی مانگو۔

    انہوں نے عدالت میں کہا کہ بدتمیری کی گئی میری بیٹی کوبلوا کرپوچھ لیں، کمرہ عدالت میں خاور مانیکا آبدیدہ ہوگئے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بچی کے والدین ہیں، بچی کے ساتھ جس اہلکارنے بدتمیزی کی ایکشن ہوگا، سمجھ سےبالاترہے وزیراعلیٰ پنجاب نے کیوں مداخلت کی۔

    پی ایس او وزیراعلیٰ پنجاب حیدر نے عدالت کو بتایا کہ رضوان گوندل اورآر پی او کو وزیراعلیٰ نے چائے پر بلانے کا کہا، ڈی پی اوکے تبادلے کا صبح پتہ چلا۔

    ایڈیشنل آئی جی نے عدالت میں کہا کہ آئی جی سید کلیم امام کے کہنے پرڈی پی او کے ٹرانسفر پر دستخط کیے۔

    رضوان گوندل نے عدالت کو بتایا کہ سی ایس او حیدر نے کہا وزیراعلیٰ نے کہا ڈی پی اوکی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے سی ایس او حیدر سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ایسا کہا؟ جس پرسی ایس او نے جواب دیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کیوں جھوٹ بول رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جےآئی ٹی سے تحقیقات کرا لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم وزیراعلیٰ کو62 ون ایف کے تحت نوٹس جاری کرتے ہیں، کیوں نہ وزیراعلیٰ پنجاب کوطلب کرکے پوچھا جائے۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ دائیں بائیں اوردرمیان سے جھوٹ بولاجا رہا ہے، آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا صرف ایک مقصد ہے پولیس خود مختارہو، وزیراعظم نے بھی اس طرح کی بات کی۔

    انہوں نے سوال کیا کہ احسن گجرکون ہے اس کا وزیراعلیٰ سے کیا تعلق ہے، وہ کیسے وزیراعلیٰ کے پاس پہنچ گیا، معاملے کی تحقیقات کرائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں قبائلی روایت نہیں جمہوریت ہے، انہوں نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کیوں فون کرکے مداخلت کی؟۔

    کرنل طارق نے عدالت کو بتایا کہ میں اوررضوان گوندل اکٹھے ٹریننگ کرتے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کے حوالے سے ادارے سے تحقیقات کراؤں گا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگراختیار حاصل ہے توذاتی مداخلت والے آپ کون ہوتے ہیں، کرنل طارق نے کہا کہ رضوان گوندل سے کہا کسی ڈیرے پرجانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے کرنل طارق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے معاملات میں ایک غیرمتعلقہ شخص نے مداخلت کی۔

    عدالت عظمیٰ نے آئی جی پنجاب پولیس سید کلیم امام کو حکم دیا کہ ایک ہفتے میں انکوائری کر کے رپورٹ پیش کریں، ملزمان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

    سپریم کورٹ نے معاملے میں مداخلت کے پہلو پر انکوائری اور وزیراعلیٰ کے چیف سیکیورٹی افسر عمر کو احسن جمیل کی مداخلت کو دیکھنے کی ہدایت کردی۔

    عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ انکوائری میں رضوان گوندل اورآرپی او ساہیوال کے بیانات کو مدنظر رکھیں، وزیراعلیٰ کی مداخلت سمیت تمام پہلوؤں پررپورٹ پیش کی جائے۔

    بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔

    اس سے قبل آج سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر خاور مانیکا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے، عدالت میں ہی بات کروں گا، عدالت سے قبل میڈیا سے بات کرنا مناسب نہیں ہے۔

    عدالت عظمیٰ میں گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

    انہوں نے استفسار کیا تھا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

    آئی جی پنجاب پولیس کا کہنا تھا آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا تھا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے 30 اگست کو چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

  • چیف جسٹس کو اسپتال پر چھاپے سے پہلے اپنا اسٹیٹس دیکھنا چاہیے تھا، خورشید شاہ

    چیف جسٹس کو اسپتال پر چھاپے سے پہلے اپنا اسٹیٹس دیکھنا چاہیے تھا، خورشید شاہ

    کراچی : پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہوئے بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ختم نہیں کرسکتے، مسائل کے حل کے لیے اقدامات پر پی ٹی آئی کی حمایت کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما و سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے جسٹس ثاقب نثار پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس کو اسپتال میں چھاپے مارنے سے پہلے اپنے اسٹیٹس کو دیکھنا چاہیئے تھا۔

    سابق اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ عمران خان چاہتے ہوئے بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ختم نہیں کرسکتے، بلدیاتی نظام کی تبدیلی پر اربوں خرچ ہوئے جو بچت اسکیم کی نفی ہے۔

    خورشید نے کا کہا ہے کہ مسائل کےحل کے لئے کیے جانے والے اقدامات پر پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کریں گے، صدارتی الیکشن میں اعتزاز احسن کے لئے آخری کوشش کریں گے۔

    پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹور بند کرنے سے غریب کے ساتھ زیادتی ہوگی، ضمنی الیکشن میں حلقوں پر مشاورت سے امیدوار لائیں گے۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل سینیئر رہنما خورشید شاہ نے صدارتی انتخابات سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے صدر مملکت کے لیے نامزد امیدوار اعتزاز احسن کا نام پاکستان تحریک انصاف دیا تھا۔

    خورشید شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ فواد چوہدری اسمبلی میں ان سے راجہ پرویز اشرف کی موجودگی میں ملے اور کہا کہ مشترکہ امیدوار لاتے ہیں، اس کے بعد اعتزاز احسن کا نام خود فواد چوہدری نے دیا اور اس پر راجہ پرویز کو گواہ بنایا گیا، لیکن پھر انھوں نے اس سے یوٹرن لے لیا۔

  • ضیاء الدین اسپتال میں شرجیل میمن کےکمرے سےشراب کی بوتلیں برآمد ہونےکا واقعہ

    ضیاء الدین اسپتال میں شرجیل میمن کےکمرے سےشراب کی بوتلیں برآمد ہونےکا واقعہ

    کراچی : آئی جی سندھ امجد جاوید سلیمی نے ضیاء الدین اسپتال میں شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلیں برآمد ہونے پرواقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کمیٹی بنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق آئی سندھ پولیس نے اسپتال میں سابق صوبائی وزیراطلاعات ونشریات شرجیل میمن کے کیمرے سے شراب کی بوتلیں برآمد ہونے پر تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید اختر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی میں ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ، ایس پی ایسٹ شامل ہیں، کمیٹی ایک ہفتے میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے گی۔

    چیف جسٹس کا ضیاء الدین اسپتال کا دورہ‘ شرجیل میمن کےکمرے سےشراب کی بوتلیں برآمد

    یاد رہے کہ گزشتہ روزچیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کو کراچی کے اسپتالوں میں سیاسی قیدیوں کے کمروں پر چھاپوں کے دوران ضیاءالدین اسپتال میں شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلیں ملی تھیں۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے پولیس کو انکوائری کی حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو یہ معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی تھی۔

    شرجیل میمن اور دیگر کےخلاف منشیات ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

    بعدازاں اسپتال کے کمرے سے شراب کی بوتلیں ملنے پرشرجیل میمن، ڈیوٹی پرمامور جیل اہلکاروں اور اسپتال کے تین ملازمین کے خلاف مقدمہ بوٹ بیسن تھانے میں درج کیا گیا تھا۔

  • شراب کی بوتلیں : شرجیل میمن اور دیگر کیخلاف منشیات ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

    شراب کی بوتلیں : شرجیل میمن اور دیگر کیخلاف منشیات ایکٹ کے تحت مقدمہ درج

    کراچی : اسپتال کے کمرے سے شراب کی بوتلیں ملنے پرشرجیل میمن، ڈیوٹی پرمامور جیل اہلکاروں اور اسپتال کے تین ملازمین کے خلاف مقدمہ بوٹ بیسن تھانے میں درج کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے ضیاءالدین اسپتال کے دورے کے دوران پی پی رہنما شرجیل انعام میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلوں کی برآمدگی کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

    مذکورہ مقدمہ میں شرجیل میمن، ڈیوٹی پرمامور جیل اہلکاروں اور اسپتال کے تین ملازمین کو نامزد کیا گیا ہے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کی مدعیت میں درج مقدمے میں منشیات ایکٹ بھی شامل کی گئی ہیں۔

    اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے دورے کے بعد شرجیل میمن پر امتناع منشیات کے سیکشن فور کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا ضیاء الدین اسپتال کا دورہ‘ شرجیل میمن کےکمرے سےشراب کی بوتلیں برآمد

    واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کو کراچی کے اسپتالوں میں سیاسی قیدیوں کے کمروں پر چھاپوں کے دوران ضیاءالدین اسپتال میں شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلیں ملی تھیں۔

    مزید پڑھیں: میں چیف جسٹس پاکستان ہوں، آپ کی خیریت معلوم کرنے آیا ہوں، شرجیل میمن سے ملاقات کی اندرونی کہانی

    بعد ازاں جسٹس ثاقب نثار نے پولیس کو انکوائری کی حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو یہ معاملہ دیکھنے کی ہدایت دی۔

  • چیف جسٹس کا ضیاء الدین اسپتال کا دورہ‘ شرجیل میمن کےکمرے سےشراب کی بوتلیں برآمد

    چیف جسٹس کا ضیاء الدین اسپتال کا دورہ‘ شرجیل میمن کےکمرے سےشراب کی بوتلیں برآمد

    کراچی : چیف جسٹس نے ضیاء الدین اسپتال کا مختصر دورہ کیا اور وہاں زیرعلاج شرجیل میمن کے کمرے میں گئے، پیپلزپارٹی کے رہنما کے کمرے سے شراب کی بوتلیں برآمد ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری آمد سے قبل کراچی کے دو اسپتالوں کا دورہ کیا اور وہاں موجود سیاسی قیدیوں کے وارڈز کا معائنہ کیا۔

    چیف جسٹس پہلے کلفٹن میں واقع ضیاء الدین اسپتال میں سب جیل قرار دیے گئے پیپلزپارٹی کے رہنما کے کمرے میں گئے اور ان سے مختصرملاقات کی۔

    سابق صوبائی وزیراطلاعات ونشریات کے کمرے میں علاج نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور وہاں سے شراب کی تین بوتلیں برآمد ہوئیں۔

    ضیاء الدین اسپتال کے دورے کے بعد چیف جسٹس کراچی کے جناح اسپتال کے شعبہ کارڈیو ویسکولرکا دورہ کیا اور وہاں موجود سہولیات کا جائزہ لیا۔

    بعدازاں چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کیسز کی سماعت کے دوران کہا کہ شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی 3بوتلیں ملیں، اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ جائیں دیکھیں۔

    انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انورمنصور خان صاحب! ذرا اس طرف بھی توجہ دیں، آپ نے بہت اچھے کام کیے مگر یہ دیکھیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ جب شرجیل میمن سے شراب کی بوتلوں سے متعلق پوچھا تو کہا کہ میری نہیں ہے۔

  • طاہرہ صفدر پاکستان میں پہلی خاتون چیف جسٹس ہائیکورٹ مقرر

    طاہرہ صفدر پاکستان میں پہلی خاتون چیف جسٹس ہائیکورٹ مقرر

    کوئٹہ: بلوچستان ہائیکورٹ کی سینئر جج جسٹس طاہرہ صفدر کو چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ مقرر کردیا گیا۔ وہ پاکستان کی کسی بھی ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس طاہرہ صفدر کل اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس طاہرہ صفدر کو ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔

    اس سے قبل بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی تھے جو آج 31 اگست کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔

    جسٹس سید طاہرہ صفدر 5 اکتوبر 1957 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئیں، وہ سید امتیاز حسین باقری حنفی کی صاحبزادی ہیں۔

    انہوں نے 1980 میں لا کالج کوئٹہ سے ڈگری حاصل کی۔ سنہ 1982 میں وہ پہلی خاتون سول جج رہیں۔

    طاہرہ صفدر بلوچستان یونیورسٹی سے اردو ادب میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرچکی ہیں۔

    وہ سنہ 1987 میں سینئر سول جج، 1991 میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور 1996 میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہیں۔

    اس سے قبل بلوچستان کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کے بیرون ملک دورے کے موقع پر جسٹس طاہرہ صفدر، ہائی کورٹ کی قائم مقام چیف جسٹس کے فرائض بھی انجام دے چکی ہیں۔

  • چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا.

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی پنجاب، آرپی او ساہیوال اورمتعلقہ ڈی پی او کو کل ساڑھے نو بجے طلب کر لیا.

    ساتھ ہی چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجا ب پولیس کے حکام سے انکوائری رپورٹ بھی طلب کرلی ہے.

    کل صبح ساڑھے 9 بجے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا.


    مزید پڑھیں: ریفرنس دائرہونے تک تحقیقات کو خفیہ رکھیں، چیف جسٹس کی چیئرمین نیب کو ہدایت


    اپوزیشن پارٹیوں‌کا الزام ہے کہ 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا. واقعے کے بعد آر پی او اور ڈی پی او پر مبینہ طور پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور ان کے انکار کرنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کردیا گیا.

    حکومت پنجاب کا موقف ہے کہ آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، اس معاملے پر غفلت میں تبادلہ کیا گیا.

    ماریہ محمودکوڈی پی اوپاکپتن تعینات

    دوسری جانب ماریہ محمودکوڈی پی اوپاکپتن تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔

    پنجاب سول سیکرٹریٹ کی جانب سے دیگر تقرریوں اور تبادلوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا ہے۔ ڈپٹی سیکریٹری اوقاف ندیم اختر کو ڈائریکٹرایڈمن اوقاف تعینات کیا گیا ہے، ایڈیشنل سیکرٹیری آئی اینڈسی محمداخترکاتبادلہ کردیاگیا۔

     محمداخترکومحکمہ سروسزمیں رپورٹ کرنےکا حکم دیا گیا ہے، جب کہ خالدایازکوایڈیشنل سیکرٹری آئی اینڈسی تعینات کیاگیا ہے۔

    یاد رہے کہ رضوان گوندل کوخاورمانیکاسے مبینہ اختلافات کےمعاملےپرتبدیل کیاگیاتھا۔

    خاور مانیکا اور رضوان گوندل کے موقف

    سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا موقف ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں غیرمتعلقہ شخص سوالات پوچھتارہا، بارباکہا گیا ڈیرےپرجاکرمعافی مانگو۔

    خاور مانیکا فیملی نے بھی اپنا جواب ای میل کےذریعے کمیٹی کو ارسال کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اہلکاروں نے خاور مانیکا اور بیٹی سے بدتمیزی کی تھی۔

  • بیرون ملک موجود رقم کی واپسی سے متعلق جلد اچھی خبریں سامنے آئیں گی: چیئرمین نیب

    بیرون ملک موجود رقم کی واپسی سے متعلق جلد اچھی خبریں سامنے آئیں گی: چیئرمین نیب

    اسلام آباد: چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ بیرون ملک رقم کی واپسی سے متعلق جلد اچھی خبر سامنے آئے گی.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے میڈیا سےغیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا. اس موقع پر انھوں نے چیف جسٹس سے گذشتہ سے روز ہونے والی اپنی ملاقات سے متعلق کہا کہ چیف جسٹس نےریفرنس دائرکرنےکے معاملے کوخفیہ رکھنےکا نہیں کہا.

    جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب کا کردار سب کے سامنے ہے، کارکردگی پر کیا بات کروں.

    انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میرا ادارہ ہے، چیف جسٹس سے ملاقات خوش گوار رہی، چیف جسٹس نے نیب تفتیش کو صیغہ راز رکھنے کا کہا ہے.

    مزید پڑھیں: نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی

    چیئرمین نیب نے ایک سوال کے جواب میں‌ کہا کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ مجھے پبلک کرنا ہوتی تو کرچکا ہوتا، ریفرنس عدالت میں جانے کے بعد نیب کا کام ختم ہوجاتاہے.

    چیئرمین نیب نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بیرون ملک سے پیسہ لانے سے متعلق کام جاری ہے، جلد اچھی خبر ملے گی.

    یاد رہے کہ کل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ملاقات ہوئی تھی.

  • ریفرنس دائرہونے تک تحقیقات کو خفیہ رکھیں، چیف جسٹس کی چیئرمین نیب کو ہدایت

    ریفرنس دائرہونے تک تحقیقات کو خفیہ رکھیں، چیف جسٹس کی چیئرمین نیب کو ہدایت

    اسلام آباد : چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ہدایات دیں ہیں کہ نیب تحقیقات کو خفیہ رکھا جائے تاکہ کسی کو شرمندگی کا سامنانہ کرنا پڑے۔

    یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں ​چیئرمین نیب سے ملاقات کے موقع پر کہی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال اور پراسیکیوٹرجنرل نے چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی۔

    قومی احتساب بیورو کے اعلامیے کے مطابق ملاقات میں چیف جسٹس نے چیئرمین نیب کو تحقیقات خفیہ رکھنے کی ہدایت کی، ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو کسی بھی ملزم کیخلاف ریفرنس دائر کرنے تک کی جانے والی تحقیقات کو خفیہ رکھے.

    اس رازداری کا مقصد لوگوں کو شرمندگی سے بچانا ہے، واضح رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند روز قبل چیئرمین نیب کو اپنے چیمبر میں طلب کیا تھا۔

  • پنجاب میں اضافی تنخواہیں لینے والے افسران کو رقم 3 ماہ میں واپس کرنے کا حکم

    پنجاب میں اضافی تنخواہیں لینے والے افسران کو رقم 3 ماہ میں واپس کرنے کا حکم

    لاہور: سپریم کورٹ نے پنجاب کی 56 کمپنیوں میں اضافی تنخواہیں لینے والے 58 افسران کو 3 ماہ میں اضافی رقم واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پنجاب کی 56 کمپنیوں میں اضافی تنخواہوں کی وصولی سے متعلق سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے از خود نوٹس کی سماعت کی۔

    عدالت میں نیب کی جانب سے 3 لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے افسران کی رپورٹ پیش کی گئی۔

    پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ 58 افسران نے 52 کروڑ 74 ہزار روپے وصول کیے۔ 34 افسران رضا کارانہ طور پر رقم واپس کرنا چاہتے ہیں۔

    عدالت میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ احد چیمہ نے 5 کروڑ 14 لاکھ سے زائد اضافی تنخواہ وصول کی۔ مجاہد شیر دل نے بھی 2 کروڑ 41 لاکھ روپے اضافی تنخواہ وصول کی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اضافی تنخواہوں کی واپسی کے لیے زیادہ وقت نہیں دیا جا سکتا۔ میرے جانے کے بعد کسی نے ایک ٹکا بھی واپس نہیں کرنا۔ تنخواہوں کی واپسی کی حد تک معاملہ نمٹایا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کا معاملہ سامنے آیا تو نیب دیکھے گا۔

    عدالت نے اضافی تنخواہیں لینے والے افسران کو رقم 3 ماہ میں واپس کرنے کا حکم دے دیا۔